ناستک درّانی، نیو ایج اسلام
18اکتوبر، 2013ایک طویل عرصہ سے لبرل ازم سے خوف کی ایک فضاء قائم ہے جو شاید مزید طویل عرصہ تک قائم رہے گی، لبرل ازم جیسا کہ بنیاد پرست سلفی کہتے ہیں ایک ایسی مصیبت اور شر ہے جسے مغرب اور مغرب پسند اسلامی دنیا پر تھوپ کر اسلامی دنیا میں قائم اخلاقی اقدار کا خاتمہ کر کے انہیں مغرب کی معاشرتی اور اخلاقی اقدار سے بدلنا چاہتے ہیں۔
اور جیسا کہ سبھی کو نظر آتا ہے معاشرتی تعلقات اور اخلاقیات ہی مسلم عوام کے لیے اہمیت کی حامل ہیں، بیشتر اسلامی معاشروں میں اس پر بحث بھی ہوتی ہے جس کا خاتمہ مغرب میں مرد وزن کے درمیان قائم معاشرتی تعلقات اور اخلاقیات کے انکار پر ہوتا ہے، تاہم جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے اور جیسا کہ سعودی مفکر ابراہیم البلیہی بیان کرتے ہیں کہ ہم عرب اور مسلمان قوم مغرب کی دیگر اخلاقی اقدار کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں جیسے وقت کو سونا سمجھتے ہوئے اس کی پابندی، ان کے ہاں وقت کی قیمت سونے کے برابر ہے اور وہ صرف زبان سے نہیں عملاً بھی اسے ثابت کرتے ہیں، ہم ان کی کچھ دوسری اخلاقی اور معاشرتی قدروں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں جیسے نظم ونسق، صفائی، دیانت داری، سنجیدگی اور کام میں محنت۔
اس کے مقابلے میں مسلمان ہمیشہ مرد وزن کے تعلق اور مغربی معاشرے میں عورت کے مقام پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اس مقام کی وجہ اقتصادی، ماحولیاتی، سیاسی، مذہبی اور ثقافتی ہے، یہ عوامل ہمارے ہاں مختلف ہیں کہ مغربی تہذیب عام طور پر سنجیدہ انسانی محنت کا ثمر ہے۔
مسلم جمہور جو لبرل ازم کے عمومی مفہوم سے خائف ہے در حقیقت حق پر ہے، یہ جمہور دنیا کی آبادی میں جدیدیت سے سب سے زیادہ خوف کھانے والا جمہور ہے چاہے بات خوراک کی ہو، لباس کی ہو یا جدید زندگی کے اوزاروں کی ہو، انسان اپنی فطرت میں ہر نئی چیز سے خائف رہتا ہے مگر مسلم جمہور کا جدیدیت سے انکار باقی انسانوں سے سب سے زیادہ شدت کا حامل ہے کیونکہ ساری تاریخ میں سولہویں صدی سے لے کر اکیسویں صدی تک اس جمہور کی زندگی کے ہر پہلو میں جدید چیزوں کا ہمیشہ قحط رہا ہے۔
بنیاد پرستوں کا لبرل ازم کا انکار اور اس سے خوف سمجھا جاسکتا ہے اور انہیں عذر بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے مغربی لبرل ازم اور اسلامی لبرل ازم کو آپس میں گڈ مڈ کردیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ لبرل ازم ہر زمان ومکان میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے جو حقیقت کے منافی منطق ہے خاص کر اسلامی لبرل ازم کے حوالے سے، سعودی لبرل مفکر ابراہیم البلیہی نے بڑی جراتمندی سے کہا تھا کہ: میں مسلمان ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ کا لبرل ہونا اسلام کی خدمت کرتا ہے”۔
نئی چیزوں کو مسترد کرنا کسی ایک قوم یا زمانہ پر منحصر نہیں ہے، زمین کی زیادہ تر قومیں اس مرحلہ سے گزری ہیں، مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں، جدیدیت سے خوف قریش کی گھٹی میں تھا، مثال کے طور پر قریش نے اسلام سے قبل حنیفیت کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کا قلع قمع کرنے کی بھی کوشش کی اور اس کے ایک لیڈر کو مکہ بدر کردیا، یہ معروف حنیفی شاعر زید بن نفیل تھا، قریش نے ایسا اس لیے کیا تاکہ بت پرستی کی روایت کی حفاظت کی جا سکے کیونکہ اس سے اس وقت انہیں اقتصادی فوائد حاصل تھے، اسی طرح قریش نے نئے مذہب کا بھی انکار کیا جب انہیں اسلام کی دعوت دی گئی، انہیں ڈر تھا کہ نئے مذہب کی وجہ سے انہیں اپنا وطن نہ کھونا پڑے جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے:
وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا
(ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اُچک لئے جائیں۔ القصص 57)
جدیدیت کا انکار ہماری بہت ساری طبعی خصوصیات میں سے ایک خاصیت ہے، قدیم کو چھوڑنے سے انکار کرنا ہمارے لا شعور میں پیوستہ ہے، ہر دخیل پر شک ہماری جبلت ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ یہ انکار پندرہ صدیاں قبل ایک طبعی سلوک ورویہ تھا مگر آج یہ مضحکہ خیز رویہ ہے، یہی صورت لبرل ازم اور جدیدیت کی ہے کہ جس چیز سے آج ہم ڈرتے ہیں اور اللہ سے پناہ مانگتے ہیں کل مضحکہ خیز سلوکیات میں شامل ہوجائے گی جس کا مذاق بھی اڑایا جائے گا، لہذا ہمیں آگے بڑھنے کے لیے اس مرحلہ سے لازماً گزرنا ہوگا اور کیا ہی بہتر ہو کہ ہم یہ مرحلہ جواں مردی سے عبور کریں۔
میں ہمیشہ یہ بات طوطے کی طرح دہراتا رہتا ہوں اور آج پھر دہرا رہا ہوں کہ اسلامی لبرل ازم مغربی لبرل ازم نہیں ہے، نا ہی یہ اس طرح کا لبرل ازم ہے جیسا کہ مغرب سمجھتا ہے یا جیسا کہ مغرب نے اسے اپنی عقیدے، تاریخی حقائق، معاشرتی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی اقدار سے سینچا ہے۔۔ یہ اس سے قطعی مختلف ہے کہ وہاں عیسائیت ہے اور یہاں اسلام ہے۔۔
وہاں صنعتی انقلاب ہے اور یہاں زراعتی اور خستہ کنزیومر معاشرہ ہے۔
وہاں ضبطِ تولید ہے اور یہاں آبادی کا ایک امڈتا سیلاب ہے۔
وہاں عصرِ تنویر، برطانوی، فرانسیسی اور امریکی انقلابات ہیں اور یہاں عثمانی، فرانسیسی، برطانوی اور اطالوی استعمار ہے۔
وہاں جمہوریت کی خشبو ہے اور یہاں بادشاہوں، خلیفوں اور سلطانوں کی۔
وہاں مفکرین، محققین، فلاسفہ اور موجد ہیں اور یہاں قدیم مُتون کے حافظ، شیخ، صوفی، درویش، دین کے تاجر، رحمانی، شیطانی اور سیاہ علوم کے ماہر اور شعبدہ باز ہیں۔
وہاں عقلی، مذہبی اور جسمانی طور پر آزاد عورت ہے اور یہاں سلف اور خلف کی اطاعت گزار سیاہ چادر میں لپٹی لاچار عورت ہے۔
وہاں اچھی یا بری مگر کھلی جدیدیت ہے اور یہاں محض قدامت پسندی، تعصب، تنگ نظری وتنگ دلی ہے۔
حقیقی اسلامی لبرل ازم میں رواداری کی کمی ہے جس کے حصول کے لیے مغرب نے کئی پاپڑ بیلے ہیں، مسلم ثقافت میں تعلقات سمجھ بوجھ اور قائل کرنے پر قائم نہیں ہیں بلکہ طاقت اور دوسرے کو مغلوب کرنے پر قائم ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس عظیم اصول کے تحت دنیا کو اپنے مسائل سمجھانے کی کوشش نہیں کی جو اللہ نے ہمیں دیا ہے، یہ عظیم اصول قرآن میں بڑا ہی واضح ہے مگر ہم نے اس اصول سے خصومت اختیار کر رکھی ہے اور ہر مخالف رائے کو کچلنے کا وتیرہ اپنا رکھا ہے، یوں مسلم دنیا نے مسلسل نقصانات اٹھائے ہیں اور ان پر مصیبتوں کے در وا ہوئے ہیں اور اگر ہم اب بھی نہ سمجھے تو بقول شاعر ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/fear-islamic-liberalism-/d/14037