ناستک درانی، نیو ایج اسلام
13مئی، 2013
سیرتِ نبوی کے اولین واقعے نے سیرت دانوں اور مؤرخین کے سامنے یہ مسئلہ کھڑا کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا لکھنا جانتے تھے یا نہیں، یہ وہی واقعہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانی بیان کیا کہ کس طرح جبریل علیہ السلام نے ان سے رابطہ کر کے انہیں نبوت اور رسالت کی بشارت دی، سیرت دانوں، محدثین اور قدیم مؤرخین نے اس واقعے کے حوالے سے دو روایتیں نقل کی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اس تاریخی واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہیں جس سے انسانیت کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، یہودیت اور نصرانیت کے مقابلے ایک نئے آسمانی دین کا دور جس سے جلد ہی ایک نئی دنیا تشکیل ہوئی جو آج اسلامی دنیا کے نام سے جانی جاتی ہے.
ابنِ اسحاق کی روایت
ابنِ اسحاق کی روایت سے شروع کرتے ہیں کیونکہ ان کا زمانہ زیادہ قریب ہے (85 – 152ھ) روایت ذرا طویل ہے اس لیے ہم صرف ضروری حصہ ہی نقل کرتے ہیں جو یوں ہے:
” جاء جبریل (علیہ السلام) بامر اللہ تعالی، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: جاءنی وانا نائم بنمط من دیباج فیہ کتاب، فقال: اقرا، قلت: ما اقرا؟ قال: فغتنی بہ حتی ظننت انہ الموت، ثم ارسلنی فقال: اقرا، قلت: وما اقرا؟ فغتنی حتی ظننت انہ الموت، ثم ارسلنی فقال: اقرا، قلت: وما اقرا؟ ما اقول ذلک الا افتداء منہ ان یعود لی بمثل ما صنع بی، فقال: اقرا باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقرا وربک الاکرم، الذی علم بالقلم، علم الانسان ما لم یعلم، فقراتہا ثم انتہی عنی وہببت من نومی فکانما کتبت فی قلبی کتابا ”
” جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالی کے حکم سے آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (جبریل) میرے پاس ایک برتن جو فارسی نقوش سے مزین ایک کپڑے سے ڈھکا تھا جس پر ایک کتاب دھری تھی نیند میں آئے اور کہا: پڑھ، میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ کہا: تو مجھے پکڑ کر اتنی زور سے دبایا کہ مجھے یہ موت لگنے لگی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھ: میں نے کہا: اور کیا پڑھوں؟ تو مجھے پکڑ کر اتنی زور سے دبایا کہ مجھے یہ موت لگنے لگی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھ: میں نے کہا: اور کیا پڑھوں؟ میں یہ اس لیے کہہ رہا تھا کہ کہیں وہ پھر سے میرے ساتھ وہ نہ کرے جو وہ کر رہا تھا، تو اس نے کہا: اقرا باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقرا وربک الاکرم، الذی علم بالقلم، علم الانسان ما لم یعلم، تو میں نے اسے پڑھا پھر وہ چلا گیا اور میں اپنی نیند سے جاگ گیا تو جیسے وہ میرے پر دل کسی کتاب کی مانند لکھ دیے گئے ہوں ”
بخاری کی روایت
” حتی جائہ الحق و ہو فی غار حراء فجائہ الملک فقال اقرا فقال فقلت ما انا بقاری قال فاخذنی فغتنی حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقرا قلت ما انا بقاری فاخذنی فغتنی الثانیہ حتی بلغ منی الجہد ثم ارسلنی فقال اقرا فقلت ما انا بقاری قال فاخذنی فغتنی الثالثہ ثم ارسلنی فقال اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم فرجع بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرجف فؤادہ فدخل علی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا فقال زملونی زملونی فزملوہ حتی ذہب عنہ الروع ”
” یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا ”
ان روایات کے علاوہ ابن جریر الطبری (224 – 310 ہجری) نے اپنی تاریخ (1) میں اسی موضوع پر کئی دیگر روایات نقل کی ہیں اور سب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل علیہ السلام کو دیا گيا جواب ” ما اقرا؟ ” (کیا پڑھوں؟) اور ” ماذا اقرا ” (کیا پڑھوں) کے صیغے میں ہی آیا ہے، ان میں سے کچھ روایات کا مصدر بعینہ وہی ہے جو بخاری کا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام المؤمنین جضرت عائشہ رضی اللہ عنہا.
استفہام.. یا نفی؟
یہاں ہم دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں:
ایک طرف ابن اسحاق کی روایت اور طبری کی روایات میں وہ اختلاف جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل علیہ السلام کو دیے گئے جواب کا صیغہ (ما اقرا؟) اور (ماذا اقرا؟) آیا ہے تو دوسری طرف بخاری کی روایت کا صیغہ جس میں جواب (ما انا بقاری!) آیا ہے، پہلا صیغہ استفہام ہے جس کا ضمنی مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا جانتے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا پڑھیں؟ جبکہ دوسرے صیغے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں (معاذ اللہ) پڑھنا نہیں آتا (ما انا بقاری!).
اگر (ما اقرا) میں ” ما ” کو نفی قرار دے دیا جائے (استفہام کے ساتھ ساتھ) تو دوسرے صیغے (ما انا بقاری) میں بھی اس کا الٹ کیا جاسکتا ہے یعنی اسے استفہام پر محمول کیا جاسکتا ہے (نفی کے ساتھ ساتھ) اور ” ب ” کو فالتو یا زائد قرار دیا جاسکتا ہے (عربی جاننے والے موازنہ کریں: ما انا فاعل بکم؟)، تاہم (ماذا اقرا؟) کا صیغہ جو ابن اسحاق اور طبری کی روایات میں بار بار آیا ہے اسے سوائے استفہام کے اور کسی چيز پر محمول نہیں کیا جاسکتا، اور یوں جبریل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سوائے استفسار کے اور کچھ نہیں ہے یعنی وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ وہ کیا پڑھیں جو کسی صورت پڑھنے کی استطاعت کی نفی نہیں ہے.
یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں جو پڑھنا مقصود ہے وہ کسی کتاب یا ورق پر الفاظ کو ہجے کر کے پڑھنا نہیں ہے بلکہ محض آواز سے الفاظ کا تلفظ ادا کرنا ہے جو زبان میں کوئی معنی رکھتی ہیں یعنی محض پڑھنا ناکہ آنکھ سے کسی لکھے متن کے حروف کا پیچھا کر کے ان کی آوازوں کا پہچاننا، گویا مقصود یہ ہے کہ جو پڑھا جائے اسے یاد کر کے سنایا جائے، اس صورت میں جبریل علیہ السلام کے سوال ” اقرا ” کا مفہوم ہوگا: جو سنوگے اسے دوبارہ دہراؤ! اور اس کا مناسب جواب استفسار ہی بنتا ہے یعنی ” ماذا اقرا؟ ” ناکہ نفی، کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات سن کر اسے دوبارہ دہرانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں اور اس کی نفی کردیں جو انتہائی نا معقول بات ہے! رہا یہ سمجھنا کہ ” ما انا بقاری ” کا مطلب ہے: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، یعنی کسی کتاب سے دیکھ کر پڑھنا تو یہ ممکن نہیں کیونکہ جبریل علیہ السلام نے ان سے کسی کتاب سے دیکھ کر پڑھنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، اگرچہ جیسا کہ ہم نے دیکھا لفظ ” کتاب ” ابن اسحاق کی روایت میں دو دفعہ آیا ہے، اس صورت میں بھی اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ جبریل علیہ السلام نے ان کے سامنے کوئی کتاب رکھ کر کہا کہ: ” اقرا “، تو وہ ایسا کیوں کریں گے جبکہ وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا نہیں جانتے!
قرآن نے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ” النبی الامی ” کہا جسے اکثر لوگ ” پڑھنا لکھنا نہ آنا ” پر محمول کرتے ہیں ان کے لیے جبریل علیہ السلام کے سوال کا صیغہ محض پڑھنا قرار دینا سمجھ میں آتا ہے، تاہم اس قسم کی فہم ہمارے نزدیک ضروری نہیں ہے کیونکہ ایک تو نبی ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اسے پڑھنا لکھنا نہ آتا ہو، دوسرا یہ تصور کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اللہ تعالی جس شخص کو نبوت کے لیے منتخب کرے اسے پڑھنا لکھنا نہ آتا ہو!
اب یہ کہنا کہ قرآن اللہ کی وحی ہے اور جسے وحی دی جارہی تھی وہ ان پڑھ تھا جس کی دلیل ہے (وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ- اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے۔) (سورہ العنکبوت آیت 48) تو ہمارے خیال سے اس قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں ہے اور جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے اس آیت کا مطلب اس دلیل کو کوئی تقویت نہیں بخشتا.
معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے جس میں جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں جواب دینا کہ ” ماذا اقرا ” کا مطلب کسی کتاب میں پڑھنا بنتا ہے اور اس کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب: ” وہ (جبریل) میرے پاس ایک برتن جو فارسی نقوش سے مزین ایک کپڑے سے ڈھکا تھا جس پر ایک کتاب دھری تھی نیند میں آئے ” میں لفظ ” کتاب ” کا آنا ہے، مزید ان کا یہ کہنا کہ: ” اور میں اپنی نیند سے جاگ گیا تو جیسے وہ میرے دل میں کتاب کی مانند لکھ دیے گئے ہوں ” یوں حدیث کے سیاق میں لفظ ” کتاب ” کا دو دفعہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ کسی ایسے شخص سے متعلق ہے جو پڑھنا لکھنا جانتا ہے اور کتاب میں پڑھ سکتا ہے اور یہ کہ راوی مخاطبین کو اپنے ان جذبات سے آگاہ کرنا چاہتا ہے جب وہ جبریل کے ساتھ اس تجربے سے گزر رہا تھا، یہ دونوں عبارتیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” کتاب ” کا ذکر کیا ہے اگر ہم انہیں یہ پہلو نہیں دیں گے تو گویا اس طرح ہم ان پر (معاذ اللہ) لغو بات کرنے کا الزام لگائیں گے جو ہم یقیناً نہیں کرنا چاہیں گے.
النبی الامی اور اُمی اُمت، امی اور الامیون قرآن اور حدیث میں
مسئلہ صرف حدیث تک ہی محدود نہیں ہے، قرآنِ مجید میں کئی آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ” اُمی ” قرار دیتی ہیں اور کچھ دیگر آیات عربوں کو اور ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو اہلِ کتاب کہتے ہیں ” الامیین ” قرار دیتی ہیں، یہ آیات ترتیبِ نزول کے حساب سے مندرجہ ذیل ہیں:
(اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ) سورہ اعراف آیت 157.
(وہ لوگ جو اس رسول یعنی نبی امّی کی پیروی کرتے ہیں جنکے اوصاف کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں)
(وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ) سورہ بقرہ آیت 78.
(اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنی آرزؤں کے سوا اللہ کی کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف اٹکل سے کام لیتے ہیں۔) مقصود عرب کے کچھ لوگ ہیں جنہوں نے یہودیت قبول کر لی مگر انہیں تورات کا علم نہیں، وہ اپنی طرف سے کوئی کلام تخلیق کر کے کہتے ہیں کہ یہ تورات ہے (8).
(وَ مَنِ اتَّبَعَنِ ؕ وَ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡاُمِّیّٖنَ ءَاَسۡلَمۡتُمۡ ؕ فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا) سورہ آل عمران آیت 20.
(اور میرے پیرو تو اللہ کے فرمانبردار ہو چکے۔ اور اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہو کہ کیا تم بھی اللہ کے فرمانبردار بنتے اور اسلام لاتے ہو؟) الذین اوتوا الکتاب: یہود ونصاری ہیں، جبکہ امیین عرب ہیں.
(وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِدِیۡنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ) سورہ آل عمران آیت 75.
(اور اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس دیناروں کا ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو فوراً واپس دیدے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے ہی نہیں یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اُمّیوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہو گا۔ یہ اللہ پر محض جھوٹ بولتے ہیں اور اس بات کو جانتے بھی ہیں۔) یہاں ” امیین ” سے مراد عرب ہیں اور عبارت کا مفہوم ہے: ہم پر حرج نہیں اگر ہم عربوں کے ساتھ بے ایمانی کریں.
(ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ) سورہ الجمعہ آیت 2.
(وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو انکے سامنے اسکی آیتیں پڑھتے اور انکو پاک کرتے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں) امیین سے مراد عرب ہیں.
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ” اُمی ” کا مطلب ان پڑھ ہے یعنی جسے پڑھنا لکھنا نہ آتا ہو، تو کیا یہ بات مذکورہ بالا آیات پر صادق آتی ہے؟ یقیناً نہیں، کیونکہ ان آیات میں تقابل دو فریقین کے درمیان ہے ایک طرف ” الامی ” اور ” الامیون ” ہیں تو دوسری طرف ” اہل الکتاب ” ہیں جو یہود اور نصاری ہیں، فریقین میں فرق یہ ہے کہ دوسرے فریق کے پاس ” کتاب ” ہے جو توارت اور انجیل ہیں، جبکہ پہلے فریق کے پاس کوئی کتاب نہیں ہے، چنانچہ ” امیون ” وہ ہیں جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جن کے لیے بعد میں قرآن کی صورت میں کتاب نازل ہوئی.
جی بالکل ایک حدیث بھی ہے جس کا صیغہ کچھ یوں ہے ” انا امہ امیہ لا نکتب ولا نحسب ” تاہم حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ یہ دو تاویلوں کا راستہ کھولتی ہے، پہلی تاویل میں ” لا نکتب ولا نحسب ” دراصل ” امیہ ” کا وصف ہے جیسے کہا گیا ہو: ” نحن امہ امیہ من صفاتھا انھا لا تکتب ولا تحسب “، یا پھر جملہ بدل یا عطف بیان ہو مطلب ” انا امہ امیہ ” میں ” الامیہ ” کا مقصود بیان کیا گیا ہو، دونوں صورتوں میں ” امیہ ” کا مطلب ان پڑھ ہونا نہیں ہے، کیونکہ پھر اس طرح حدیث کا مطلب ہوگا ” نحن امہ تجہل الکتابہ والحساب، لا تکتب ولا تحسب ” (ہم ایسی امت ہیں جسے نہ لکھنا آتا ہے نہ حساب آتا ہے، ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں) اور یہ یقیناً بے معنی تکرار ہے، یہاں واضح ہوجاتا ہے کہ ” الامیہ ” کا مطلب ” ہم نہ لکھ سکتے ہیں نہ حساب کر سکتے ہیں ” نہیں ہے! تو پھر فیصلہ کیسے ہو؟
الامی والامیون لغت میں
مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں اس لفظ کا لغوی اور اصطلاحی مطلب دیکھنا ہوگا جس کے لیے یقیناً لغت سے رجوع کیا جائے گا اور اس میں دیکھا جائے گا کہ لفظ ” امی ” کا کیا مطلب ہے.
لغوی معنی: “امی جو کتاب نہ جانتا ہو اور اپنی ماں کی جبلت پر ہو اور لکھ نہ سکتا ہو یعنی اس حالت میں ہو جس حالت میں اس کی ماں نے اسے پیدا کیا ہو” اس اعتبار سے عرب کو ” الامیون ” کہا گیا ہے کیونکہ ان میں لکھنا معدوم تھا، اور کہا جاتا ہے کہ امی کم گو ہوتا ہے ”.
یہ لغوی معنی عرب سے منقول نہیں ہے بلکہ لفظ ” امی ” کا عرب کی زبان میں اصل تلاش کرنے کی سعی ہے جو ذاتی اجتہاد پر مشتمل ہے، یہ ” اصل ” اوپر مذکورہ آیات اور حدیث سے میل نہیں کھاتا کیونکہ یہ ” امی ” کو ایک ایسا جاہل شخص بنا دیتا ہے جو ابھی تک ویسا ہی جاہل ہے جیسا کہ اپنی پیدائش کے وقت تھا، اور یہ صفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور ان کی امت سے قطعی میل نہیں کھاتی.
درحقیقت لفظ ” امی ” ایک معرب (یعنی عربی کیا گیا) لفظ ہے جس کا عربی زبان میں کوئی اصل نہیں ہے جو کہ اصطلاحی معنی سے واضح ہوجاتا ہے.
اصطلاحی معنی: بہت سے لغت دانوں اور متکلمین کے خیال میں لفظ ” امیین ” سے مراد ایسے لوگ ہیں جن کی کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے یوں وہ اہلِ کتاب کے برعکس ہوتے ہیں خاص طور سے یہود جن کی کتاب تورات ہے اور نصاری جن کی کتاب انجیل ہے، راغب الاصبہانی نے الفراء کا ایک قول نقل کیا ہے کہ: ” الامیون عرب ہیں جن کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی! ” اس ضمن میں شہرستانی کہتے ہیں: ” اہلِ کتاب اسباط کے دین کی نصرت کرتے اور بنی اسرائیل کے مذہب پر تھے اور امی قبیلوں کے مذہب کی نصرت کرتے اور بنی اسماعیل کے مذہب پر ہوتے تھے ” (2).
اسی طرح بہت سارے محققین کے مطابق یہودی غیر یہودیوں کے لیے لفظ ” الامم ” کا استعمال کرتے تھے یعنی بتوں کی عبادت کرنے والے بت پرست اس اعتبار سے لفظ ” امی ” دراصل لفظ ” الامم ” سے ماخوذ ہے، جس طرح عرب غیر عرب قوموں کے لیے لفظ ” عجم ” کا استعمال کرتے ہیں اسی طرح یہودی بھی غیر یہودی قوموں کے لیے لفظ ” الامیون ” کا استعمال کرتے تھے یعنی جو ایسی غیر ” امتوں ” سے ہوں جن کی کوئی کتاب نہ ہو.
سابق الذکر آیات میں جہاں جہاں لفظ ” امی ” یا ” امیین ” آیا ہے ان عبارتوں کو اسی اصطلاحی معنی میں سمجھنا چاہیے، مذکورہ آیات کے سیاق میں ” الامیون ” دراصل ” عرب ” ہیں خاص طور سے مکہ کے عرب قبائل، اس بات کی گواہی قرآن کی ایسی آیات بھی دیتی ہیں جہاں قرآن کو عربوں سے منسوب کیا جاتا ہے اور کچھ دوسری آیات کتاب کو خاص طور سے تورات کو بنی اسرائیل سے منسوب کرتی ہیں جیسے (وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا – اور اسی طرح ہم نے تمہارے پاس قرآن عربی بھیجا ہے تاکہ تم اس مرکزی شہر یعنی مکے کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اسکے اردگرد رہتے ہیں انکو خبردار کرو) (سورہ الشوری آیت 7) اور (وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ ہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ وَ بُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ- اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب تھی لوگوں کے لئے رہنما اور رحمت۔ اور یہ کتاب عربی زبان میں ہے اسکی تصدیق کرنے والی تاکہ ظالموں کو خبردار کرے۔ اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنائے۔) (سورہ الاحقاف آیت 12)
یہاں واضح ہے کہ یہ آیات اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کے مقابلے میں عربی قرآن کی بات کر رہی ہیں، کچھ دیگر آیات بھی ہیں جن میں ” مؤمنین ” کی بات کی گئی ہے جو ” اہلِ کتاب ” کے مدِ مقابل ہیں جیسے (وَ مَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِکَۃً ۪ وَّ مَا جَعَلۡنَا عِدَّتَہُمۡ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۙ لِیَسۡتَیۡقِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ یَزۡدَادَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِیۡمَانًا وَّ لَا یَرۡتَابَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ وَ لِیَقُوۡلَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡکٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا – اور ہم نے دوزخ کے داروغہ فرشتے ہی بنائے ہیں۔ اور ان کا شمار کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کیا ہے اس لئے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو اور اہل کتاب اور مومن شک نہ لائیں۔ اور اس لئے کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے اور جو کافر ہیں کہیں کہ اس مثال کے بیان کرنے سے اللہ کا مقصود کیا ہے؟) (سورہ مدثر آیت 31)
یہ وہ قرآنی مُتون ہیں جن کا ہمارے سوال سے تعلق ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا لکھنا جانتے تھے ؟ اور یقیناً یہ واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ” امی نبی ” ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، مزید یہ کہ قرآن کا عرب کو ” امیین ” کہنے کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے.
رہ گئی یہ آیت کہ ” وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ” جس سے اکثر مفسرین (سب نہیں) یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے تو اس پر ہم تفصیل سے آگے بات کریں گے.
اب جبکہ قرآن میں لفظ “امی” پر غور کرنے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ اس لفظ کا مطلب لازمی یا الزامی طور پر یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، تو اب ہمیں اس بابت کچھ گواہیوں کی تلاش کرنی چاہیے جن سے فیصلہ ہوسکے، یعنی ایسی گواہیاں جن سے یہ ثابت ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی پڑھے لکھے تھے.
اس حوالے سے یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ لکھنا پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور ان سے پہلے بھی عام تھا، اس کی گواہی صحابہ کی ایک طویل فہرست دیتی ہے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکھا جن میں سر فہرست حضرت ابو بکر، حضرت علی، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم ہیں، بعض روایات کے مطابق تو صحابہ تورات بھی پڑھا کرتے تھے، حضرت عمر سے حضرت مالک رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ میں ایک مصحف دیکھا جس کے کنارے پھٹے ہوئے تھے تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: تورات کا ایک حصہ، تو آپ غصہ ہوئے اور کہا، واللہ اگر موسی (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کرنی پڑتی (3) اس کے علاوہ ابن اسحاق کی روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا قصہ سب جانتے ہیں جس میں وہ سور طہ “پڑھ” کر کہتے ہیں کہ: ما احسن ہذا الکلام واکرمہ!، اور یہی ان کے اسلام لانے کی وجہ تھی، صرف یہی نہیں بلکہ روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ قصی بن کلام جو نبی کے بڑے دادا تھے پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور ان کے براہ راست دادا عبد المطلب بھی پڑھنا لکھنا جانتے تھے (4) بلکہ ابن اسحاق کی مزید ایک روایت میں آتا ہے کہ عبد المطلب نے اپنی ایک منت (نذر) پوری کرنے کے لیے اپنے دس بیٹوں سے ان کے نام لکھوائے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا، ان کے والد اور سارے چچا پڑھے لکھے تھے.
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے، یہ سوچنا حماقت ہی ہوگی کہ وہ تجارت کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں ان پڑھ ہوتے ہوئے سنبھالتے تھے جبکہ ان کے ساتھی جو یقیناً ان سے ہر طرح کمتر ہی تھے پڑھے لکھے ہوں گے؟! اور ہم نہیں سمجھتے کہ اس سے ان کی نبوت پر کوئی فرق پڑتا ہے کیونکہ ان پڑھ ہونا نبوت کی شرائط میں نہیں کہ نبوت وحی پر قائم ہے پڑھنے لکھنے پر نہیں.
صلح حدیبیہ کی دستاویز ودیگر گواہیاں!
بات محض استدلال کی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے، بلکہ بعض روایات تو یقین دلاتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر لکھا اور پڑھا، ان روایات میں سرفہرست صلح حدیبیہ کی دستاویز کی روایت ہے جو “حدیث البراء” کے نام سے مشہور ہے جو مسلم کی صحیح میں نقل ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو قریش کے ساتھ صلح کا معاہدہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی اور جس میں انہوں نے اپنا نام محمد رسول اللہ لکھوانا چاہا مگر قریش کے نمائندے کہ اعتراض پر کہ اگر ہم آپ کو اللہ رسول مانتے تو آپ کے ساتھ ہوتے لہذا محمد بن عبد اللہ لکھیے، راوی کہتا ہے کہ: (نبی) نے علی کو حکم دیا کہ وہ اسے مٹا دیں، تو حضرت علی نے کہا کہ: نہیں واللہ میں اسے نہیں مٹاؤں گا – (یہاں پنگے والی جگہ ہے جہاں سے مغالطہ ہوتا ہے لہذا میں اسے من وعن درج کر رہا ہوں) – تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ارنی مکانہا (مجھے اس کی جگہ دکھاؤ)، فاراہ مکانہا فمحاھا وکتب ابن عبد اللہ (تو علی نے انہیں جگہ دکھائی تو انہوں نے اسے مٹادیا اور ابن عبد اللہ لکھ دیا) (20) بخاری نے بھی یہی حدیث اپنی صحیح میں نقل کی ہے مگر راوی کے ایک اعتراض کے ساتھ، دیکھیے: فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الکتاب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب لے لی) – ولیس یحسن یکتب (اور وہ لکھنا نہیں جانتے تھے) – فکتب ہذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اللہ (اور لکھا یہ محمد بن عبد اللہ نے فیصلہ کیا ہے) (5).
قرطبی نے اپنی تفسیر (6) میں اس پر یوں تبصرہ کیا ہے: ہمارے علماء رضی اللہ عنہم نے کہا: اس کا ظاہر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹایا جو رسول اللہ تھا اور اس کی جگہ ابن عبد اللہ لکھ دیا.
قرطبی مزید کہتے ہیں کہ: نقاش نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ انہوں نے کہا: ما مات النبی صلی اللہ علیہ وسلم حتی کتب (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تب تک وفات نہیں پائی جب تک لکھا نہیں) قرطبی نے ابی کشہ السلولی کی ایک حدیث بھی نقل کی ہے جس کا مضمون ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عُیینہ بن حصن کے لیے ایک صحیفہ پڑھا اور اس کا معنی بتایا.. قرطبی مزید اضافہ کرتے ہیں کہ: قاضی عیاض سے نقل ہوا کہ معاویہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوات کو گرادو، قلم کو موڑ دو، ب کو کھڑا کرو، سین کو الگ کرو، میم کو ٹیڑھا مت کرو، اللہ کو اچھا (بہتر) کرو، رحمن کو کھینچو، اور رحیم کی تجوید کرو… اس روایت سے بعض کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حروف پر کلام اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان کی شکلیں جانتے تھے.. ایسا ہی کچھ بخاری کی روایت میں بھی آیا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ: دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا – پھر انہوں نے اس کے ہجے کیے – ک ف ر جسے ہر مسلمان پڑھ سکے گا (7) بخاری اور مسلم نے ابن عباس سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے جس میں ابن عباس کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درد بڑھ گیا (مرض وفات میں) تو انہوں نے کہا: مجھے لاکر دو تمہیں ایک کتاب لکھ کر دوں تو میرے بعد بہک کر تنازعہ نہیں کروگے (8)، یہی حدیث بخاری نے ایک اور صیغے میں نقل کی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات کے دوران اپنی عیادت کو آنے والوں سے کہا: آؤ تمہیں ایک کتاب لکھ کر دوں جس کے بعد تم کبھی نہیں بہکوگے، راوی اضافہ کرتا ہے کہ: کچھ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درد غالب آگیا ہے، اور تمہارے پاس قرآن ہے، ہمیں اللہ کی کتاب ہی کافی ہے، تو اہلِ بیت میں اختلاف اور جھگڑا ہوگیا، کچھ نے کہا: ان کے نزدیک کرو تمہیں کتاب لکھ کر دیں جس کے بعد تم نہیں بہکوگے، اور کچھ نے کچھ اور کہا اور جب لغو اور اختلاف بڑھ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اٹھ جاؤ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے (9) کہا جاتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا یہ بات کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان جاتے اور انہیں کچھ لکھنے کے لیے دے دیتے تو وہ اپنے بعد علی کو خلیفہ بنانے کی وصیت لکھتے تاہم یہ محض اندازہ ہے، ہمارے لیے یہاں اہم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب لکھنے کی خواہش ظاہر کی اور وہاں موجود کسی کو اس بات پر تعجب نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس کچھ لوگوں انہیں کچھ لکھنے کے لیے دینے پر اتفاق کیا.
بیشتر مفسرین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی “امیت” کو قرآن کے معجزے سے جوڑ دیا اور انہیں ان پڑھ بنا کر قرآن کے معجزے کی دلیل پیدا کی لہذا ان کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن سے ہی پڑھنا لکھنا جانتے تھے چنانچہ مندرجہ بالا احادیث اور روایتوں کے سامنے وہ سخت اضطراب کا شکار نظر آتے ہیں جن سے صراحت یا ضمنی طور پر پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا لکھنا جانتے تھے، اس ضمن میں آلوسی نے اپنی تفسیر (10) میں بہت سارے اقوال جمع کیے ہیں، وہ کہتے ہیں: اس میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد پڑھنا لکھنا جانتے تھے یا نہیں؟ چنانچہ کہا گیا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے، بغوی نے تہذیب میں اسی کا انتخاب کیا اور کہا کہ یہی درست ہے، بعض نے دعوی کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے لکھنا نہیں جانتے تھے مگر بعد میں جان گئے… جب قرآن نازل ہوا اور اسلام مشہور ہوا اور شک کا معاملہ ظاہر ہوا تب انہوں نے لکھنا سیکھا، آلوسی مزید لکھتے ہیں: ابن ابی شیبہ اور دوسروں نے روایت کیا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب تک وفات نہیں پائی جب تک کہ لکھا اور پڑھا نہیں، اور ابن ماجہ نے انس سے روایت کیا کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اسراء کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا “الصدقہ بعشر امثالہا والقرض بثمانیہ عشر”. اور راوی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: “پڑھنے کی استطاعت لکھنے کی شاخ ہے”. آلوسی مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: جن لوگوں نے یہ مسلک ( یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا لکھنا جانتے تھے) اختیار کیا ان میں یہ لوگ شامل ہی: ابو ذر عبد بن احمد الہروی، ابو الفتح النیسابوری، ابو الولید الباجی (پانچویں صدی ہجری میں اندلس کے مشہور فقیہ) جنہوں نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی اور ان سے پہلے ابن منیہ کا بھی یہی مسلک تھا اور جب ابو الولید الباجی نے یہ کہا تو اس پر ان پر طعنہ زنی کی گئی اور انہیں زندیق قرار دیا گیا اور منبروں پر انہیں گالیاں دی گئیں، پھر ان کے لیے ایک مجلس بیٹھی تو انہوں نے اپنے دعوے پر حجت قائم کی اور ارد گرد کے علماء کو لکھ بھیجا اور انہوں نے ان سے اتفاق کیا.
اس سب پر آلوسی تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی “امیت” کے بعد لکھنا آنا معجزے کی نفی نہیں کرتا “بلکہ یہ ایک اور معجزہ ہے کیونکہ یہ بغیر تعلیم کے ہے” اور یہ پوشیدہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ “ہم امی امت ہیں نا لکھتے ہیں نا حساب کرتے ہیں” کوئی ایسا متن نہیں ہے جو ان پر لکھنے کی نفی کو جاری رکھتا ہو، اور یہ شاید اس لیے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایسے لوگوں میں ہوئی جو ان پڑھ تھے نہ لکھتے تھے اور نا حساب کرتے تھے، چنانچہ آگے امیت کی صفت کا باقی نہ رہنے میں کوئی نقصان نہیں، اور جو حدیث البراء میں “کتب” کی تاویل میں آیا ہے تو وہ ظاہر کے خلاف ہے. آلوسی مزید کہتے ہیں: جس روایت کا ہم نے ذکر کیا ہے اس میں راوی کا کہنا کہ: ولیس یحسن یکتب فکتب (اور وہ لکھنا نہیں جانتے تھے اور لکھا) ایسا متن ہے کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لکھا، اس کے سوا جانے کی ضرورت نہیں ہے. آلوسی آگے کہتے ہیں: اس مسئلہ پر ہر فرقے کے کلام نے بہت طول پکڑا اور ہر فرقے نے اس پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہا واللہ تعالی اعلم.
اب اس آیت کی طرف آتے ہیں جسے بیشتر مفسرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پڑھ ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور وہ ہے: (وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ) اس آیت پر بعض مفسرین کے الجھاؤ پر صرف تفسیر روح البیان کی ایک مثال ہی کافی ہوگی: شیعہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے پہلے لکھنا جانتے تھے پھر وحی کے بعد لکھنے سے منع کردیا گیا، اور کہا کہ آیت کا کہنا کہ “ولا تخطہ” نہی یعنی منع کرنا ہے اور لکھنے کی نفی نہیں ہے، روح البیان میں آگے ہے: “الاسئلہ المقحمہ” میں ہے: شیعہ کا یہ قول مردود ہے کیونکہ “لا تخطہ” اگر نہی ہوتا تو طاء منصوب ہوتا، الاسئلہ المقحمہ کا مصنف سوال اٹھاتا ہے کہ: اللہ اپنے نبی کو امی کیسے کر سکتا ہے جو خط وکتابت نہیں جانتا جبکہ یہ کمال میں سے ہیں نقص میں سے نہیں؟.
ہمارے خیال سے ایسی بیشتر آیات کی تفسیر میں ایسے الجھاؤ یا اضطراب کی وجہ – اگر کوئی مسلکی تعصب نہ ہو – آیات کو ان کے سیاق میں نہ دیکھنا ہے اور ان کے ساتھ الگ تھلگ متن جیسا سلوک کرنا ہے، اگر آیات کو سیاق میں رکھا جائے، آگے پیجھے کی آیات، ترتیب واسباب نزول کو مد نظر رکھا جائے، مخاطب کو واضح کیا جائے اور خاص طور سے اس اصول پر عمل کیا جائے کہ “قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر خود کرتی ہیں” تو ایسے کسی مسئلے سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے.
ہم جس آیت پر بات کر رہے ہیں اس کے لیے ان باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے:
1- اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سورہ عنکبوت جس میں یہ آیت درج ہے نہ صرف ایک مکی سورت ہے بلکہ مکہ میں نازل ہونے والی آخری سورت بھی ہے، چنانچہ لازم ہے کہ اس سورت (11) کی آیات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینے کی طرف ہجرت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جہاں مکہ سے قطعی مختلف حالات کا سامنا ہونے والا تھا، یہودی قبائل مدینے کی ایک بڑی آبادی تھے چنانچہ ان یہودیوں سے نمٹنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے ایک نئے انداز کا تعین لازمی تھا، یہ یہودی اہلِ کتاب تھے، اور یہ طے تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بہت ساری باتوں پر بحث کرتے جن میں قرآن ان کی کتاب سے اختلاف کرتا ہے، یہ یہودی پہلے بھی قریش کے مشرکین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے، ان کا مقابلہ کرنے یا انہیں ہراساں کرنے کی غرض سے سوالات کرنے کی تجویز دے چکے تھے اور جو آیات جن میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس صورت میں اندازِ تخاطب کا تعین کرتی ہے.
2- اس آیت کو اس سے قبل اور بعد کی سات آیات (سورہ العنکبوت آیت 46 تا 52) کے سیاق میں دیکھا جانا چاہیے، مفسرین کا سیاق کا خیال نہ رکھنا – خاص طور سے اس آیت کے ضمن میں – ہی وہ وجہ ہے کہ انہوں نے اس میں نبی صلی اللہ علیہ کے پڑھے لکھے ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ کھڑا کیا اور اثبات اور نفی کی بہت ساری تاویلات گھڑ لائے، بلکہ بعض اوقات ان تاویلوں کا ان آیات سے دور کا بھی واسطہ معلوم نہیں ہوتا!.
بہرحال اگر آیت نمبر 46 سے بیان شروع کیا جائے تو بات بہت طول پکڑ جائے گی، چنانچہ ہم صرف اس آیت کا بیان کریں گے جو ہمارا موضوع ہے، تو ارشادِ باری تعالی ہے: (وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ) یہ وہ آیت ہے جو تقریبا تمام مفسرین کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پڑھ ہونے کی دلیل ہے، اگرچہ بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے محمدی دعوت کے کسی اگلے مرحلے میں لکھنا پڑھنا سیکھا، یہاں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ یہ آیت اپنی سابقہ آیت سے براہ راست منسلک ہے یعنی: (وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الۡکٰفِرُوۡنَ – اور ہماری آیتوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو ہیں ہی کافر) (سورہ العنکبوت آیت 47)، قرآن نے ان کے اس جحد یا انکار کا مضمون ایک اور آیت میں بیان کیا ہے، فرمایا: (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُۨ افۡتَرٰىہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّ زُوۡرًا – اور کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن من گھڑت باتیں ہیں جو اس مدعی رسالت نے بنا لی ہیں۔ اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس میں اسکی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا کہنے سے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔) (سورہ الفرقان آیت 4) اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف خطاب موڑتے ہوئے قرآن ان کو جواب دیتا ہے کہ یہ انکار اور قرآن کا گھڑنا اس صورت میں قابل قبول ہوتا اگر نزول قرآن سے پہلے آپ کا حال ان راہبوں جیسا ہوتا جو تورات اور انجیل پڑھتے اور لکھتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا اور آپ کے بارے میں یہ کبھی نہیں کہا یا جانا گیا کہ آپ نے کبھی تورات پڑھی یا لکھی ہو، چنانچہ ارشادِ باری میں “وما کنت تتلو من قبلہ من کتاب” مذکورہ کتاب دراصل “اہلِ کتاب” ہی کی کوئی کتاب مقصود ہے، کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جس کی طرف قریش کی توجہ جانے کا امکان ہے کہ آپ معاذ اللہ اس سے نقل کرتے تھے، اس بات کی گواہی دیگر آیات بھی دیتی ہیں: (مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ – تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو) (سورہ الشوری آیت 52) (وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا – اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنکو اس نے جمع کر رکھا ہے اور وہ صبح و شام اسکو لکھوائی جاتی ہیں۔) (سورہ الفرقان آیت 5) (وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ؕ لِسَانُ الَّذِیۡ یُلۡحِدُوۡنَ اِلَیۡہِ اَعۡجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیۡنٌ – اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر کو ایک شخص سکھا جاتا ہے۔ مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں اسکی زبان تو عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔) (سورہ النحل آیت 103).
مزید یہ کہ یہ انکار کرنے والے جو یہ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تورات اور انجیل میں سے نقل نہیں کرتے تھے یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن ان پر ایک تیار کتاب کے طور پر پر نازل نہیں ہوا، وہ دیکھ ہی رہے ہیں کہ یہ ان پر الگ الگ اور آیت آیت نازل ہو رہا ہے، ہم جس آیت پر بات کر رہے ہیں اس کے بعد والی آیت میں براہ راست یہی بات مراد ہے (بَلۡ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوۡنَ – بلکہ یہ روش آیتیں ہیں۔ جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے انکے سینوں میں محفوظ اور ہماری آیتوں سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو بےانصاف ہیں۔) (سورہ العنکبوت آیت 49) یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ یقین دلاتی ہے کہ یہ قرآن آپ پر بذریعہ وحی ایک ایک آیت کر کے نازل ہوتا ہے جو آپ اپنے اصحاب پر پڑھتے ہیں اور وہ انہیں اپنے سینوں میں یاد کر لیتے ہیں اور اس طرح علمِ حق ان کی طرف منتقل ہوتا ہے، البتہ جو لوگ یہ سب دیکھتے ہوئے بھی اس کا انکار کرتے ہیں تو وہ جاحد، ظالم اور منکر ہیں.
ان پڑھ ہونا معجزے کی دلیل نہیں
چنانچہ قرآن میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے، ہم نے واضح کیا کہ انہیں “النبی الامی” کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان پڑھ ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ “الامم” میں سے ہیں جن کی کوئی الہامی کتاب نہیں، یہی صورت “الامیین” لفظ کی بھی ہے جیسے “ہو الذی بعث فی الامیین رسولا منہم” یہاں اہلِ کتاب یہود ونصاری کے مقابلے میں عرب مقصود ہیں، دوسری طرف ہم نے تفصیل سے بیان کیا کہ ارشادِ باری “وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ” میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے کہ یہ معنی اس آیت کے سیاق سے ہٹ کر ہے.
اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ اوپر کا بیان اس ضمن میں کافی وشافی ہے تاہم یہاں یہ بیان بے محل نہ ہوگا کہ قریش میں دعوتِ محمدی کے مخالفین نے ان پر کبھی قرآن لکھنے کا الزام نہیں لگایا، بلکہ یہ الزام لگایا کہ مکہ کے اہلِ کتاب میں سے کوئی انہیں یہ کلام دے رہا ہے بالخصوص کہانیاں، خاص طور سے جب آپ کا ان میں سے کچھ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی تھا، مگر کسی راوی نے ایسا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے کہ قریش میں دعوتِ محمدی کے دشمنوں نے ان پر قرآن لکھنے کا الزام لگایا ہو، اس لیے نہیں کہ وہ انہیں ان پڑھ سمجھتے تھے، بلکہ اس لیے کہ ان کے ہاں بلیغ کلام کہنے کے لیے پڑھنا لکھنا کوئی شرط نہیں تھی کہ بلیغ کلام پڑھنے لکھنے سے مشروط نہیں ہے، تاریخِ عرب کے چند اوراق پلٹنے سے ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس زمانے کے خطیب وشعراء بغیر کسی تیاری کے بلیغ کلام کہا کرتے تھے.
اُمی ایک بار پھر!
فکر وزبان میں عادت قاتلانہ ہوتی ہے، کتنے لفظ ہیں جو ہمارے زیرِ استعمال رہتے ہیں مگر ہم کبھی ان کے اصل یا مصدر کے بارے میں جاننے کا تکلف نہیں کرتے، قدیم وجدید عربی میں کتنے ہی لفظ ایسے ہیں جن کا استعمال ان کے اصل معنی اور حساب سے نہیں کیا جاتا، لفظ “الامی” بھی اس کی ایک بڑی مثال ہے، یہ لفظ – مفرد اور جمع – دیگر قرآنی اصطلاحات کی طرح ایک خاص قرآنی اصطلاح ہے جس کی عربی زبان میں کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ عربی کے کسی بھی معجم (لغت) نے قبل از اسلام کا ایسا کوئی بھی شعر یا نثر نقل نہیں کیا ہے جس میں لفظ “امی” کا مطلب ان پڑھ بنتا ہو، ان سارے معاجم نے دراصل لفظ “الام” کے ساتھ اس لفظ کو جوڑنے کی کوشش کی، سب سے پہلے یہ تجویز لغت دان الزجاج نے پیش کی اور لفظ “الامی” کو لفظ “الام” کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس کی تاویل کرتے ہوئے کہا کہ: ایسا اس لیے کہا گیا کیونکہ وہ اس حال میں ہوتا ہے جس حال میں اس کی ماں نے اسے پیدا کیا ہوتا ہے، نہ پڑھتا ہے نہ لکھتا ہے!، دوسرے لغت دانوں نے زجاج سے یہ تاویل اخذ کی چنانچہ لسان العرب والے نے اسے اڈاپٹ کیا اور اسے ایک طرح کی مصداقیت مل گئی اور اس طرح “الامی” ایسا شخص بن گیا جسے نہ پڑھنا آتا ہے نہ لکھنا.
صاف ظاہر ہے کہ یہ محض تاویل ہے! اور ہمارے خیال میں یہ تاویل کافی کمزور ہے، کیونکہ زجاج نے سنہ 310 ہجری کو وفات پائی لہذا وہ لغت کو جمع کرنے والوں میں سے نہیں تھے کیونکہ لغت کو جمع کرنے کا زمانہ گزر چکا تھا اور اس کے بعد لغت اور عقائد میں “کلام” کا زمانہ تھا، اور زجاج متکلم تھے اور متکلم تاویل کرنے والا صاحبِ مذہب ہوتا ہے! جب وہ قرآنی الفاظ کے معانی کی شرح کرتے ہیں جیسے “النبی الامی” تو وہ یہ کام محض ایک زبان دان کی حیثیت سے نہیں کرتے بلکہ ایک متکلم کے طور پر بھی کرتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ان سے پہلے کسی لغت دان نے لفظ “الامی” کی وہ تفسیر نہیں کی جو زجاج نے کی ہے کیونکہ لسان العرب والے نے اسے صرف زجاج سے منسوب کیا ہے.
چنانچہ لفظ “الامی” کی ان پڑھ کی تاویل ایک ایسے زمانے میں ہوئی جس کے علماء لغت میں کوئی ریفرینس کی حیثیت نہیں رکھتے تھے، مگر چونکہ اس لفظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں موصوف کیا گیا (النبی الامی) چنانچہ اسے زجاج کا تاویلی معنی دے دیا گیا اور لوگوں کے ذہن میں لاشعوری طور پر یہ بات بیٹھ گئی کہ رسول اسلام علیہ السلام “امی” تھے یعنی نہ پڑھ سکتے تھے نہ لکھ سکتے تھے، جلد ہی اس مفہوم کو قرآن کو معجزہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ چونکہ قرآن نے اپنے مخالفین کو یہ چیلنج کیا کہ وہ اس جیسی کوئی سورت لاکر دکھائیں اور وہ نہ لاسکے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ “ان پڑھ” تھے ایسا بلیغ کلام لے آئے چنانچہ یہ قرآن کے معجزے کی دلیل ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب متکلمین اور بلاغیین قرآن کے معجزے کے مسائل میں مصروف تھے (11) اور اس طرح زجاج کی لفظ “امی” کی تاویل نہ صرف کلامی بلاغی مذہب کی خدمت کے لیے استعمال ہوئی بلکہ اس تاویل کو “مقدس” کی حفاظت کے لیے بھی استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے امی کا ان پڑھ ہونا ایک ایسا تصور بن گیا جنہیں Received Ideas کہا جاتا ہے، یعنی ایسے تصورات جنہیں لوگ کسی جانچ وتنقید کے بغیر من وعن قبول کر لیتے ہیں چنانچہ کسی نے خود سے یہ سوال نہیں کیا کہ کیا “الامی” کی “الام” سے نسبت معقول یا درست بھی ہے کہ نہیں؟ اگر کوئی حقیقت کی تلاش میں خود سے یہ سوال کرتا تو اسے یقیناً ”لغت کے معیارات” سے رجوع کرنا پڑتا، یعنی وہ معیارات جہاں عربی زبان کے الفاظ کے فروع کی ان کے اصول کے ساتھ ربط کیا جاتا ہے، ان اصول میں لفظ کے حروف اگر آگے پیچھے بھی ہوجائیں تو بھی لفظ کا مطلب نہیں بدلتا، جنہیں الاشتقاق الاکبر کہا جاتا ہے جیسے: ضرب، ضبر، ربض، رضب وغیرہ.. (مزید کے لیے ابن فارس کی “مقاییس اللغہ” دیکھیں).
بہت سارے متاخرین نے زجاج کی تاویل سے نکلنے کی کوشش بھی کی کیونکہ یہ صاف واضح تھا کہ زجاج کی تاویل بہت ساری آیات کے ساتھ “فٹ” نہیں ہو پارہی تھی، چنانچہ کچھ علماء نے کہا کہ ارشادِ باری تعالی “النبی الامی” میں لفظ “الامی” سے مراد “ام القری” سے نسبت ہے یعنی مکہ اور “امیین” دراصل اہلِ مکہ ہیں اور دلیل یہ پیش کی کہ (وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا) (سورہ الانعام آیت 92) جبکہ کچھ دیگر کا خیال تھا کہ “النبی الامی” کی نسبت دراصل “ام الکتاب” سے ہے کہ ارشاد باری ہے: (وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ) (سورہ الزخرف آیت 4) اور اس طرح لفظ “ام” لفظ “امی” سے منسوب ہوگیا چاہے اس سے باپ کے مقابلے میں ماں “الام” مراد لیا جائے، یا “الام” کسی چیز کی اصل کے معنی میں یا.. یا.. یا..
جو دماغ Received Ideas کی قید میں گرفتار تھے وہ علمائے لغت میں زجاج سے بھی بڑے علماء کی رائے کو اہمیت نہیں دے پائے جیسے الفراء (ابو زکریا یحیی بن زیاد) جس نے کہا تھا کہ: (“الامیون” وہ عرب ہیں جن کی کوئی کتاب نہیں!) انصاف کا تقاضہ تھا کہ زجاج کی بجائے الفراء کی اتباع کی جاتی کیونکہ الفراء زجاج سے سو سال پہلے گزرا تھا (الفراء کی وفات 207 ہجری میں ہوئی) اور بہت ساری قیمتی کتب تصنیف کیں جن میں “معانی القرآن” جیسی قیمتی کتاب شامل ہے جس پر مشہور لغت دان ابو العباس ثعلب نے یوں تبصرہ کیا تھا: “ایسا ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا اور میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی کچھ اضافہ کر پائے گا”.
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ Received Ideas کے اسیر دماغوں نے ان بڑے علماء ومفسرین وفقہاء کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جو یا تو زجاج کی تاویل سے مطمئن نہیں تھے یا اسے بالکل مسترد کردیا تھا، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی شامل ہیں جنہوں نے الفراء کی رائے کا انتخاب کیا (13).
کیا ہم ابھی تک زجاج کی وضع کردہ لغوی تاویل سے آزاد ہوپائے؟
مجھے نہیں لگتا! کیونکہ تاویلیں جب مقدس سے چپک جائیں تو خود مقدس بن جاتی ہیں، اور یہاں مقدس ایک “معجزہ” ہے جس کی حیرت انگیز طور پر دلیل ان پڑھ اور جاہل ہونا ہے!!
بہرحال، صرف زجاج کی “النبی الامی” کے معنی کی تاویل ہی کوئی اکلوتی تاویل نہیں جس سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے، ایسی بہت ساری تاویلیں ہیں!
———————————
حوالہ جات:
1- ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری: تاریخ الامم والملوک، (بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1988) جلد 1، صفحہ 531.
2- ابو الفتح محمد بن عبد الکریم الشہرستانی، الملل والنحل، جلد 2 صفحہ13.
3- سنن الدارمی اور مسند امام احمد بن حنبل حدیث نمبر 14341.
4-ابو الفرج محمد بن اسحاق بن الندیم، الفہرست.
5- صحيح البخاري، باب عمرة القضاء,حديث نمبر 4005.
6- ابو عبد اللہ محمد بن احمد القرطبی، الجامع لاحکام القرآن جلد 13 صفحہ 351.
7- بخاری، حدیث نمبر 5221.
8- بخاری، حدیث نمبر 3089.
9- بخاری، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ، حدیث نمبر 423.
10- ابو الثناء محمود بن عبد الله الحسيني الآلوسي الكبير، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، جلد 21 ص 4.
11- کچھ لوگ اس سورت کی بعض آیات کو مدنی آیات قرار دیتے ہیں تاہم ان میں ہمارے زیرِ بحث آیات نہیں ہیں.
12- اُس زمانے میں نبوت کے منکرین کی کتابیں بڑے پیمانے پر پھیل گئیں تھیں، مسلمان متکلمین نے ان کے رد میں یہ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ان پڑھ ہوکر ایسا فصیح وبلیغ کلام لے آئے جبکہ فصاحت وبلاغت میں مشہور عرب ایسا کلام نہ لاسکے وغیرہ..، چنانچہ “الامی” کی ان پڑھ کی تاویل محض حالاتی حُجت کی ضرورت تھی، اس کا عربی زبان میں اصل سے کوئی تعلق نہیں تھا.
13- ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن تیمیہ الحرانی، الفتاوی، صفحہ 435.
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/prophet-islam-literate-unlettered-/d/11556