ناستک درانی، نیو ایج اسلام
19 جولائی، 2013
عرب ممالک ابھی تک انقلابوں کی زد میں ہیں اور ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تاہم ان انقلابوں کے حوالے سے اسلام پسندوں کی سب سے بڑی غلطی ان کا یہ سمجھنا ہے کہ یہ انقلاب مذہبی نوعیت کے ‘‘اسلامی انقلاب’’ ہیں اور ان کا مقصد شریعت کا نفاذ اور اسلامی خلافت کا قیام ہے!! یہ ایک خطرناک وہم ہے جس کا اسلام پسند شکار ہیں!! جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ انقلاب دراصل برجستہ ہیں جو بغیر کسی پیشگی پلاننگ کے وقوع پذیر ہوئے ہیں جن کا مقصد آمریت، ظلم اور حکومتی کرپشن کا خاتمہ ہے۔۔ ان کا مقصد آزادی اور زندگی کے بہتر مواقع کا حصول ہے، یہی دراصل وہ بنیادی محرکات ہیں جنہیں مدِ نظر رکھتے ہوئے ان قوموں نے یہ انقلابات برپا کیے۔۔ تاہم سیاسی اور اسلامی قوتوں نے ان انقلابات کی موجوں پر سوار ہوکر انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مسخر کرنے کی کوشش کی جس کے بعد ان ممالک کے گلی کوچے اور میدان سیاسی اور انقلابی قوتوں کے درمیان کھلی سیاسی اور فکری جنگ کے میدان بن گئے اور ہر فریق یہ دعوی کرنے لگا کہ وہی اصل انقلابی ہے اور دوسرا اس انقلاب کو ہائی جیک کرنا چاہتا ہے!
یہ درست کہ اسلام پسندوں نے ان انقلابوں میں بھرپور حصہ لیا اور بعض نے تو اپنی جان تک قربان کردی مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ انقلاب اسلامی نوعیت کے تھے اور ان کا مقصد شریعت کا نفاذ اور کسی مخصوص اسلامی فکر کو بنیاد بنا کر اسلامی خلافت کا قیام تھا!! یہ بات ہرگز درست نہیں، یہ قومی اور برجستہ انقلاب تھے تاکہ لوگوں کی حالتِ زار تبدیل ہوسکے لہذا اسلام پسندوں کو چاہیے تھا کو وہ اس حقیقت کو شروع سے ہی سمجھ لیتے اور پھر اسی بنیاد پر ان میں حصہ لیتے مگر اخوان المسلمین نے غلط انداز سے سوچا لہذا ان کی سوچ اور ساری تدبیریں بھی غلط ثابت ہوئیں جس کا منطقی انجام بالآخر وہی ہونا تھا جو ہوا۔
اخوان المسلمین نے دہائیوں سے ‘‘اسلام ہی حل ہے’’ کا نعرہ طوطے کی طرح رٹ رٹ کر لوگوں کے کان پکائے ہوئے تھے، سادہ لوگوں کے لیے یہ نعرہ کافی پر کشش تھا کیونکہ جیسا کہ سیاسی اسلام کے فلسفی لوگوں کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ ‘‘اسلام دین ودنیا ہے’’، لہذا اخوان المسلمین کا دعوی تھا کہ ان کے پاس وہ جادوئی نسخہ ہے جو مصری قوم کے سارے مسائل چشمِ زدن میں حل کردے گا اور وہ جیسے ہی اقتدار میں آئیں گے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی، یہ مصر کی خوش قسمتی ہے کہ اخوان المسلمین کو اپنے اس خوش کن نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا بھرپور موقع ملا، حسن البنا سے ہضیبی اور سید قطب تک وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس امت کے لیے ایک جادوئی نسخہ ہے اور آخر کار جب اخوان کو اپنے اس جادوئی نسخے پر عمل کرنے کا موقع ملا تو کیا ہوا؟
مصر کی پوری تاریخ میں وہ بوکھلاہٹ اور بد نظمی کبھی نہیں دیکھی گئی جو دنیا نے اخوان المسلمین کے اس ایک سالہ اقتدار میں دیکھی، خود مرسی نے ہونے والی غلطیوں کا اعتراف کیا۔
فیصلے لیے جاتے اور پھر جلد ہی انہیں منسوخ کردیا جاتا، اشیائے صرف کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں، مصری جنیہ کی قدر گرتی چلی گئی، سیاحت جو ہارڈ کرنسی کے حصول کا بنیادی ذریعہ تھا تباہ ہوکر رہ گئی اور کئی سیاحتی ادارے بند ہوگئے، بے روزگاری اتنی بڑھ گئی کہ اقتصادی نظام تباہی کے دہانے پر جا پہنچا، سرمایہ کار بھاگ کھڑے ہوئے جس سے مصر کے اقتصادی نظام کو مزید دھچکا لگا، اپنے اقتدار کے پورے ایک سال میں مصری قوم کی بھوک مٹانے کے لیے اخوان المسلمین کو صرف ریزرو کرنسی (Reserve Currency) ہی ملی جو ان کے دیرینہ دشمن حسنی مبارک کے دور میں جمع ہوئی تھی، چنانچہ مصر کی ہارڈ کرنسی کے ذخائر 40 ارب ڈالر سے کم ہوکر صرف 15 ارب ڈالر رہ گئے، گںدم جو مصری قوم کی مرکزی غذا ہے اس کے ذخائر مزید صرف دو ماہ تک مصری قوم کی بھوک مٹا سکتے تھے۔
یہ اخوان المسلمین کے صرف ایک سالہ اقتدار کا ما حاصل ہے، ان کے سارے وعدے ہوا ہوگئے اور صرف کھوکھلے الفاظ ہی باقی رہ گئے، اخوان کے اقتدار کے اس ایک سالہ دور میں مصریوں کو مصر کے ڈیفالٹر ہونے کا سامنا تھا۔۔ اخوان کو مصر کی فوج نے نہیں بلکہ غربت کی فوج نے گرایا۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-misunderstanding-islamists-that-islam/d/12660