ناستک درانی، نیو ایج اسلام
6اگست، 2013
❞جو سوچ نہیں سکتا وہ بے وقوف ہوتا ہے، اور جو سوچنے سے انکار کردے وہ متعصب ہوتا ہے، اور جو سوچنے کی ہمت نہیں رکھتا وہ غلام ہوتا ہے❝
(اینڈریو کارنیگی (Andrew Carnegie) - انیسویں صدی میں امریکہ کی سٹیل انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ اور تاریخ میں خیراتی کام کرنے والا ایک بڑا نام)
--------
(بحرِ ہند کے کسی جزائر کے بادشاہ کی بہن یقظان نامی ایک شخص کی محبت میں گرفتار ہوگئی اور اس سے خفیہ شادی کر لی، انہوں نے ایک بیٹا پیدا کیا جس کا نام انہوں نے حی رکھا، بادشاہ کے ڈر کی وجہ سے انہیں بچے کی زندگی خطرے میں محسوس ہوئی تو اس کی ماں نے اسے ایک چھوٹے سے تابوت میں ڈال کر سمندر کی نذر کردیا، سمندر کی موجیں اسے واق واق نامی ایک ویران جزیرے کی طرف لے گئیں جہاں کوئی انسانی آبادی نہیں تھی، وہاں اتفاق سے ایک ہرنی جو اپنے کھوئے ہوئے بچے کی تلاش میں تھی اس انسانی بچے سے ٹکرا جاتی ہے، چنانچہ وہ اسے پالتی ہے، اس کا خیال رکھتی ہے اور اپنا دودھ پلاتی ہے، جب بچہ سات سال کا ہوتا ہے تو اس کی ہرن ماں مرجاتی ہے، اپنی ہرن ماں کی محبت اور فکر اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اس کی لاش کی تشریح (پوسٹ مارٹم) کرے تاکہ یہ جان سکے کہ اس نے اس سے پیار کرنا اور حرکت کرنا کیوں بند کردیا ہے، اپنی ہرن ماں کی لاش کی تشریح سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس کی حرکت نہ کرنے کی وجہ اس کے جسم کے اندرونی درجہ حرارت میں غیر معمولی کمی ہے، یہ عقل اور اسباب کی تلاش کا پہلا سفر تھا جو حی بن یقظان نے طے کیا، اگرچہ اس نے ایک ویران جزیرے میں تنہا زندگی گزاری مگر عقل ومنطق اور تنقیدی سوچ کی وجہ سے وہ چالیس سال کی عمر میں ایک وسیع النظر فلسفی کے مرتبہ پر پہنچ گیا، پھر جب پاس سے گزرتے ایک ڈوبتے جہاز کے کچھ مسافر اس کے جزیرے پر پہنچے جہاں اس کا انسانی تہذیب سے پہلی بار ٹکراؤ ہوا تو اسے پتہ چلا کہ وہ تنہا ہی منطقی عقل کے ذریعے ایسے بہت سارے پیچیدہ عقلی مفاہیم تک پہنچ گیا تھا جن تک عام انسان کبھی نہیں پہنچ پاتے۔۔)
نوجوان نے ❞حی بن یقظان❝ کا یہ قصہ پڑھا جو قرطبہ کے قاضی القضاۃ اور اندلس کے بڑے فلسفی اور اس کے استاد ابن طُفیل نے لکھا تھا، اس قصہ نے اسے بہت متاثر کیا اور اس کے خیال کو مہمیز دی، جلد ہی اس نے اس قصہ کے مضمون پر اپنے استاد سے گہری بحث شروع کردی جس سے نئے زاویے ابھر کر سامنے آئے، استاد نے محسوس کیا کہ اس کا شاگرد ایک اچھوتے دماغ کا مالک ہے اور اس میں پیچیدہ منطقی استخراج کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے جو عام طور پر اس کے ہم عمروں میں نہیں پائی جاتی، وقت کے ساتھ ساتھ استاد کے اپنے اس شاگرد پر بھروسہ بڑھتا گیا، ابھی اس کا شاگرد تیس سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ استاد نے اسے ارسطو کے فلسفہ کی تشریحات لکھنے کی ذمہ داری سونپ دی کیونکہ اسے یقین تھا کہ یہ کام اس سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔
یہ نوجوان الولید محمد بن احمد بن رشد الاندلسی تھا جسے زمانہ ابن رشد کے نام سے جانتا ہے، اسلام کا ایک بہت بڑا حقیقی اور آخری فلسفی، ابن رشد ایک ہمہ جہت شخصیت تھی، وہ مترجم، طبیب، قاضی، فقیہ، لغت دان، عالمِ دین، جغرافیہ دان، ریاضی دان، فلکیات دان، موسیقی دان اور فقہ مالکی کا ایک بڑا فقیہ تھا، اس کا فلسفیانہ مسلک چار صدیوں تک یورپ پر چھایا رہا، تھامس ایکویناس اور یعقوب اناتولی کے ہاتھوں جب اس کی کتابیں لاطینی اور عبرانی زبانوں میں ترجمہ ہوئیں تو وہ یورپ کا ایک روحانی باپ بن گیا اور اس کی فکر یورپ میں دورِ استبصار (Age of Enlightenment) کی چنگاری کی پہلی وجہ بنی۔
ابن رشد قُرطبہ میں 1126 عیسوی میں پیدا ہوا، اس کا تعلق قاضیوں کے خاندان سے تھا، اس کا دادا مرابطین کے دور میں قرطبہ کا قاضی القضاۃ تھا جس کے بعد اس کے بیٹے یعنی ابن رشد کے والد نے یہ عہدہ تب تک سنبھالے رکھا جب تک کہ مرابطین کے دور کا موحدین کے ہاتھوں خاتمہ نہیں ہوگیا، ابن رشد نے ابن طُفیل کے ہاتھوں قانون اور فلسفہ پڑھا، جب سنِ بُلوغت کو پہنچا تو اندلس کے مشہورِ زمانہ طبیب ابن زُہر کی شاگردی اختیار کی اور ان سے طب کی تعلیم حاصل کی، ابن زُہر کا یہ شاگرد اپنے استاد سے بھی آگے نکل گیا اور اندلسی خلیفہ ابی یوسف المنصور کے ذاتی طبیب کے عہدے پر جا پہنچا اور اس کے دربار سے منسلک ہوگیا، ابن زُہر کو اپنے اس شاگرد پر بڑا ناز تھا، اس نے اسے جالینوس کے بعد سب سے ماہر طبیب قرار دیا، اپنے دونوں استادوں ابن طُفیل اور ابن زُہر سے جو چیز ابن رشد کو ممتاز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ پہیلیوں، میٹافزکس، اور سُپر نیچرل چیزوں پر کم ہی اعتقاد رکھتا تھا یوں اس کے افکار ونظریات زیادہ عقلیت پسندی پر مبنی تھے، ابن رشد وہ پہلا شخص تھا جس نے شلل رعاش یعنی پارکنسن کی بیماری دریافت کی اور اس کے لیے علاجات تجویز کیے، ابن سینا کی القانون فی الطب پر بھی اس نے ایک ضخیم شرح لکھی اور ایک طبی دائرہ المعارف لکھا جسے ❞الکلیات فی الطب❝ کہا جاتا ہے، اس نے ریاضیاتی دلائل سے زمین کا گول ہونا ثابت کیا، موسیقی پر بھی اس نے خاطر خواہ کام کیا اس کے علاوہ اس نے علم کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔
خلیفہ کا طبیبِ خاص ہونے کے ساتھ ساتھ بارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ابن رشد کو اپنے دادا اور والد کی طرح اشبیلیہ کے قاضی القضاۃ کا عہدہ بھی سونپ دیا گیا، اس دوران ابن رشد نے انتہائی جلیل القدر اور اہم کُتب تصنیف کیں، اپنے استاد ابن طُفیل کے کہنے پر اس نے ارسطو کی شرح لکھی اور اس میں موجود ابہام کو ختم کیا، ارسطو کی ان شروحات کی مقبولیت کی وجہ سے اسے ❞الشارح الاکبر❝ یعنی عظیم شارح کا لقب ملا اور بہت سوں نے اسے ارسطو کا ایک ایسا ہونہار شاگرد قرار دیا جو اس کا ہم عصر نہیں تھا بلکہ اس کے گزرنے کے سولہ صدیاں بعد پیدا ہوا، اس دوران اشبیلیہ میں اس نے غزالی اور اشعری متکلمین کے خلاف ایک بھرپور سرد جنگ لڑی جو یہ سمجھتے تھے کہ فلسفہ حرام ہے اور جو منطق کا استعمال کرے گا وہ زندیق ہوجائے گا، اشعری ابن سینا اور فارابی پر کافر ارسطو اور افلاطون کے فلسفہ کے پیچھے چھپنے کا الزام لگاتے تھے، ابن رشد نے غزالی کی ❞تہافت الفلاسفۃ❝ کے رد میں اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ❞تہافت التہافت❝ لکھی جس میں ابن رشد نے فلسفہ کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا اور بتایا کہ فلسفہ کوئی حرام علم نہیں ہے اور نا ہی یہ کفر کی طرف لے جاتا ہے، اس نے تجویز کیا کہ فلسفہ اور مذہب حقیقت تک پہنچنے کے دو الگ الگ راستے ہیں اور اگر انہیں ٹھیک طرح سے سمجھا جائے تو یہ کبھی نہیں ٹکرائیں گے، ابن رشد کے خیال میں حقیقت کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں، ایک پہلو مذہبی ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہوتا ہے اور جسے مادی دلائل اور گہری فہم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے محض برہانی قیاس ہی کافی ہوتا ہے، جبکہ دوسرا ایک معرفتی فلسفیانہ پہلو ہوتا ہے جس کی بنیاد عقل اور منطق ہوتی ہے، ابن رشد نے تہافت التہافت میں واضح کیا کہ حقیقت کے ان دو پہلوؤں یا مسلکوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ کچھ انسانوں کی جبلت روحانی ہوتی ہے جس کے لیے یقین ضروری ہے لہذا ان کے لیے پہلا مسلک زیادہ مناسبت رکھتا ہے جبکہ کچھ لوگ مادی ہوتے ہیں اور ان کی جبلت شک اور بحث پر ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو دوسرا مسلک زیادہ موافق رہتا ہے تاہم عقل ہمیشہ ترجیحی عنصر رہے گی۔
جس دور میں ابن رشد نے قاضی القضاۃ جیسے اہم منصب کی ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دیں وہیں اسی دور میں اس نے اپنی کتاب تہافت التہافت میں بالخصوص اور اپنی دیگر تحاریر میں بالعموم فلسفہ کے بڑے اختلافی مسائل پر اپنی آراء پیش کیں جیسے کائنات کی ازلیت جس پر اسے یقین تھا، یا معقول اور منقول کی ہم آہنگی وغیرہ۔۔ ابن رشد کے خیال میں ہر روح کی دو شِقیں ہوتی ہیں، پہلی شِق فردی ہوتی ہے جو رو بہ زوال ہے جبکہ دوسری شِق خدائی ہوتی ہے جسے بقاء ہے یوں ہم بطور افراد رو بہ فناء ہیں، ابن سینا سمجھتا تھا کہ جوہر کو وجود پر سبقت حاصل ہے تاہم ابن رشد نے اس کی مخالفت کی اور وجود کو بنیاد قرار دیا اور اسے جوہر پر سبقت دلائی، یہ سارٹر کے وجودی فلسفہ کا پہلا بیج تھا جس سے ہم دورِ جدید میں واقف ہیں، ابن رشد نے مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی دعوت دی اور متنبہ کیا کہ حکومت کو اکثریت اور اقلیت کے جھگڑوں میں حریف اور فیصلہ ساز نہیں ہونا چاہیے، ابن رشد نے مرد وزن میں مساوات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور بتایا کہ خواتین کو مکمل حقوق نہ دینا ہی دراصل اندلس میں اسلامی تہذیب کے خاتمہ کی ایک اہم وجہ تھی۔
چونکہ ابن رشد اپنے دور میں فلسفیانہ پس منظر کے علم الکلام کا ماہر ترین شخص تھا لہذا اپنے مقالوں اور کتابوں میں اس نے واضح کیا کہ معاملات کا اصل کلام اور اظہار ہے اور خاموشی، تسلیم اور بحث نہ کرنا استثناء ہے، اس کا خیال تھا کہ اگر شریعت کسی معاملہ میں خاموش ہے اور کوئی واضح حکم نہیں دیتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس معاملہ پر کلام کا پورا حق حاصل ہے، اور اگر شریعت نے کسی معاملہ پر کوئی حکم صادر کیا ہے تو ایسی صورت میں دو امکانات ہیں، یا تو یہ حکم عقل کے مطابق ہو، ایسی صورت میں ہمیں خاموش ہوجانا چاہیے اور اس پر کلام کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہونا چاہیے، یا یہ حکم عقل کے مطابق نہ ہو، ایسی صورت میں ہمیں تاویل وقیاس کا پورا اختیار حاصل ہونا چاہیے، دوسری حالت کو واضح کرنے کے لیے ابن رشد نے اسلام میں عورت کی گواہی کے مسئلہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شریعت کا یہ حکم کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی ہے کوئی مطلق حکم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ آدھے انسانوں پر نا انصافی پر منتج ہوتا ہے، اس التباس سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عورت کی آدھی گواہی سے شریعت کی مراد صرف حدود کے معاملات ہوں (جیسے چوری، زنا اور قتل کی حد) ان کے علاوہ تمام معاملات میں عدالت کے سامنے مرد اور عورت کی گواہی کی حیثیت یکساں ہونی چاہیے۔
اب چونکہ خلیفہ ابا یوسف المنصور فلسفہ کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتا تھا، اس کے علاوہ حاسدین کی سازشوں کی وجہ سے خلیفہ اور ابن رشد کے درمیان اختلافات نے جنم لے لیا اور خلیفہ نے اسے قاضی القضاۃ اور طبیبِ خاص کے عہدوں سے برخاست کرتے ہوئے یہودی اکثریتی گاؤں الیسانہ میں اختیاری جلا وطنی (یعنی اسے جلا وطنی کے مقام کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تھا) پر بھیج دیا اور اس پر ساری زندگی فلسفہ پر کام کرنے پر پابندی لگا دی کیونکہ خلیفہ کے خیال میں ابن رشد ایک کافر تھا جو لوگوں کو الحاد پر اکسا رہا تھا، صرف اسی پر ہی بس نہیں، خلیفہ نے ابن رشد کی فلسفہ، علم الکلام اور منطق پر تمام کتابوں کو جلا دیا جس سے صرف چند کتابیں ہی بچ سکیں، جبری جلا وطنی کی زندگی نے ابن رشد کو فلسفہ پر کام کرنے کا ایک اور بھرپور موقع دیا، لہذا اس نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ پھر سے شروع کردیا اور اپنے سابقہ اور نئے افکار کو نئے سرے سے زیرِ قلم لانا شروع کردیا جو آج تک باقی ہے، خوش قسمتی یہ تھی کہ جلائے جانے سے قبل اس کی بیشتر کتابوں کا لاطینی اور عبرانی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا تھا ورنہ آج ہمارے پاس اس کی جوانی کے دور کی عظیم تصانیف - جن میں ارسطو کی شرح اور تہافت التہافت شامل ہیں - موجود نہ ہوتیں۔
جس سال خلیفہ نے ابن رشد کو معاف کرنے کا حکم نامہ جاری کیا (جس سال خلیفہ نے ابن رشد کو معاف کیا اس کے صرف ایک سال بعد 1198 میں ابن رشد کا مراکش میں انتقال ہوگیا تھا، گویا بہت دیر کی مہرباں آتے آتے) اس وقت اندلس میں عرب وجود مکمل طور پر زوال کا شکار تھا، اور سپین میں کیتھولک تفتیشی عدالتیں نہ صرف قائم ہوچکی تھیں بلکہ انہوں نے کام بھی شروع کردیا تھا، ابن رشد کی وفات کے دو دہائیاں بعد جنوبی سپین میں یہ عدالتیں گھر گھر جاکر مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائی بنا رہی تھیں اور انکار کرنے والوں کو زندہ جلا رہی تھیں، اور اس کی وفات کے دو صدیاں بعد عیسائی پروٹسٹنٹ پر بھی لازم تھا کہ وہ کیتھولک مسلک اپنا لیں یا اپنے گھروں کے سامنے زندہ جلا دیے جائیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/stories-concepts-ibn-rushd-investigating/d/12908