New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 01:35 PM

Urdu Section ( 24 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic State and Constitutional State اسلامی ریاست اور آئینی ریاست

 

ناستک درانی، نیو ایج اسلام

25اگست، 2013

 پانچویں صدی قبل از عیسوی میں روم نے اپنے شہریوں پر مشتمل پہلی کمیٹی تشکیل دی، اس کمیٹی نے اپنے شاہی نظام میں مطلق اقتدار کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کے لیے کچھ اہم فیصلے کیے، بادشاہ کی بجائے اس کمیٹی نے اقتدار میں مساوی دو کونسلر منتخب کیے جو ایک سال تک حکومت کرتے، دو کونسلر اس لیے تاکہ ہر کونسلر اپنے ساتھی کے کام پر نظر رکھے، ان دونوں کونسلروں پر بھی نظر رکھنے کے لیے دو مجسٹریٹ (Praetor) تعینات کیے گئے تاکہ عوام کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے، اور پھر ایک ایسے بنیادی آئین کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا جس کا اولین کام مطلق انفرادی اقتدار یعنی آمریت کے آگے بند باندھنا تھا، آئین میں یہ واضح کیا گیا کہ جو بھی بادشاہ بننے کی کوشش کرے گا اسے قتل کردیا جائے گا، اور اگر جنگ کے دنوں میں کسی شہری کو موت کی سزا دی گئی تو اسے حق ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے، آئین میں یہ بھی کہا گیا کہ امن کے دنوں میں موت کی سزا دینے کا حق صرف عوام کو حاصل ہے۔ (دیکھیے مورٹیمر سیلرز (Mortimer Sellers) کی American republicanism: Roman ideology in the United States Constitution صفحہ 90)

یہ سب حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کے پانچ اور اسلام کی آمد کے بارہ سو سال قبل ہوا، جب سے روم کی بنیادیں پڑیں، وقت کا یہ فاصلہ دنیا کو انصاف اور جمہوریت کے معنی بتانے کے لیے کافی تھا، اس ابتدائی جمہوریت کے اپنے ادارے تھے جو اس کی حفاظت پر مامور تھے اور اس کے مقاصد پورے کرتے تھے تاکہ قانون لوگوں میں انصاف کر سکے اور کوئی کسی کی گردن پر سوار نہ ہونے پائے اور دوسرے شہریوں کے خون سے کھیلنے کا کسی کو انفرادی حق نہ مل سکے۔

اسلامی ریاست کا خواب دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اسلام میں مساوات ہے اور سارے لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں ہے، حاکم رعیت کے سامنے جواب دہ ہے، کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ ایک بدو نے حضرت ابو بکر کو یہ تک کہہ دیا تھا کہ: اگر تم نے غلطی کی تو ہم تمہیں اپنی تلواروں سے سیدھا کریں گے؟

یہ بڑی اثر پذیر، جذباتی اور خوبصورت بات ہے، یہ انصاف، مساوات اور حاکم کی رعیت کے سامنے جواب دہی کے وہ اقوال ہیں جنہیں ہم بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، کیا آپ نے حضرت عمر کا یہ قول نہیں سنا کہ: لوگوں کو کب سے تم نے غلام بنا لیا جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟۔

باتیں آسان ہیں خاص کر جبکہ وہ جذبات کو گدگداتی ہوں، انجیل کی محبت اور معافی کی خوبصورت باتوں کی شاید ہی کہیں نظیر ملے لیکن تفتیشی عدالتوں اور صلیبی جنگوں نے حقیقت میں کوئی اور ہی باتیں بیان کیں جنہیں معصوموں کے خون سے لکھا گیا اور بے گناہوں کی چیخوں سے سنوایا گیا۔

مذہبی تاریخ میں صرف دو مُتون ہوتے ہیں، ایک متن میں وعظ، قصے اور حکمت کی خوبصورت باتیں ہوتی ہیں جو دلوں اور روح سے مخاطب ہوتی ہیں، جبکہ دوسرا متن وہ ہوتا ہے جسے حقیقت میں عملاً اور واقعتاً لکھا گیا ہوتا ہے، یہ متن ان حقائق اور تاریخی واقعات پر مشتمل ہے جو جیسا کہ عیسائیت میں ہوا ویسا ہی اسلام میں بھی ہوا اور مسلمانوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے رقم کیا تاکہ ساری تاریخ پر فخر کر سکیں، یہ دونوں مُتون مقدس ہیں، اور دونوں کو ہی جب انسانی فعل اور اس کی خواہشوں سے عملاً لاگو کیا گیا تو نتیجہ ممالک پر قبضہ، اسراف، قتل وغارت گری کی ایسی بھیانک صورت میں سامنے آیا جنہیں آج ہم انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کہہ کر پکارتے ہیں۔

آج مذہب کا کاروبار کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہم صرف پہلا متن پڑھیں جبکہ دوسرے متن کو وہ جی جان سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن اس ابتدائی خلافتی نظام کو اپنا لیں، اسی لیے ہر مسلمان کا یہ جاننا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کے اقتدار میں آنے سے وہ کس کس مرض اور بلا کا شکار ہونے والے ہیں۔

خلفائے راشدین کی طرف واپس چلتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے نمونہ ہیں اور سنی مسلک میں جن کے فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مانند ہیں اور اس کی تکمیل کرتے ہیں، مولویانِ اسلام ان کے دور کو اسلامی خلافت کا زریں نمونہ قرار دیتے ہیں مگر حقیقتِ حال کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے، وہ خلیفہ جس نے ایک بدو کا خود کو تلوار سے سیدھا کرنے والا قول بڑی خندہ پیشانی سے سن لیا اس نے سارے جزیرہ ہائے عرب کو اپنی تلوار سے سیدھا کیا اور ان لوگوں کو بری طرح قتل کیا جنہوں نے اس کی خلافت پر اعتراض کیا اور اس کی بیعت کے جواز پر شک وشبہات کا اظہار کیا، اس خلیفہ نے ان کا بھی خون بہایا جو اسلام کو چھوڑ کر اپنے آباء واجداد کے مذہب کی طرف واپس جانا چاہتے تھے لہذا انہیں پہاڑوں سے نیچے پھنکوایا، دریاؤوں میں غرق کیا اور زندہ آگ میں جھونک دیا اور ان کے بچوں، عورتوں اور املاک کو مالِ غنیمت قرار دیتے ہوئے لوٹ لیا، جبکہ دوسرے انصاف پسند خلیفہ نے پوری پوری قوموں کو غلامی کے دلدل میں دھکیل دیا اور ایک ایسے شخص کے ہاتھوں قتل ہوا جو اس کے دورِ خلافت میں ظلم کا شکار ہوا تھا۔۔ رہا تیسرا خلیفہ تو اس نے جانبداری اور بے انصافی کو شروع سے ہی اپنا شعار بنایا نتیجتاً اس کے رشتہ داروں اور صحابہ نے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی صحابہ تھے نے اسے قتل کردیا اور مارنے کے بعد اس کی ہڈیاں توڑیں اور اس کی لاش کو پیروں تلے روندا جبکہ مسلمانوں نے اسے اپنے قبرستانوں میں دفن کرنے سے بھی انکار کردیا اور اسے مجبوراً یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا پڑا

ہمیں اپنی اگلی اسلامی ریاست میں اس مشکل کا سخت سامنا کرنا پڑے گا کہ خلفائے راشدین میں سے ہمیں کس خلیفہ کو اپنا مشعلِ راہ بنانا چاہیے؟ اور خلیفہ کا انتخاب کیسے ہوگا کیونکہ چاروں خلفاء کا اقتدار تک پہنچنے کا اپنا ایک الگ طریقہ تھا۔

پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امامت قریش میں ہے اور خلیفہ قریش میں سے ہیں کے جیسی حدیثوں سے فتح حاصل ہوئی، ایک اور تاویل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے آخری مرض میں انہیں نماز میں مسلمانوں کی امامت پر مامور کرنا بھی ان کی خلافت کی منظوری قرار دیا گیا جو کہ ظاہر ہے مبالغہ آرائی ہی ہوسکتی ہے، حضرت ابو بکر نے اپنے بعد حضرت عمر کو منتخب کیا، اور حضرت عمر نے اپنے بعد چھ افراد کو منتخب کیا کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں۔

اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے خدا نے مسلمانوں کے لیے کوئی ایسا نظامِ اقتدار وضع نہیں کیا جس کی وہ اتباع کر سکیں، کیونکہ ہر خلیفہ ایک قطعی مختلف طریقہ سے مسندِ اقتدار پر بیٹھا، اگر شریعت میں ایسا کوئی واضح حکم ہوتا تو ظاہر ہے کہ وہ سارے اس کی اتباع کرتے مگر نا تو ایسا کوئی حکم ہے اور نا ہی خلفاء نے اس کی اتباع کی مگر اسلام کے ٹھیکہ داران ہمیں اس سے قطعی مختلف بات بتاتے ہیں، ان کے مطابق خلافت اور شریعت کی ریاست دین کے ارکان میں سے ہے اور جو اس کے قیام کی مخالفت کرے گا وہ کافر ہے؟

یہ لوگ ہمارے دین میں اضافہ کر دیتے ہیں اور یہی بدعت کی تعریف ہے، مسئلہ بہت سادہ ہے کہ اسلام کے رب نے ریاست کا مسئلہ مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے، وہ چاہیں تو ورم کی اتباع کر لیں یا ایتھنز کی یا پھر بلقیس کی نقل کر لیں جس کی ایک مشاورتی کمیٹی تھی جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے، قرآن نے بلقیس کے نظام ریاست کو برا نہیں کہا بلکہ اس کے مذہب کو معیوب قرار دیا اور اس طرح قرآن نے مذہب کو سیاست سے الگ کردیا اور ہمیں ایک ایسا متبادل نمونہ پیش کیا جس کا انتخاب کیا جاسکتا ہے، اب بات خود مسلمانوں کی صوابدید پر ہے کہ چاہیں تو مصری نظام کو اپنا لیں یا ساسانی، ان سب میں جو قدرِ مشترک ہے وہ ہے قومی اداروں کا وجود جو ریاست کے نظام کی حفاظت کرتے ہیں اور شہریوں میں انصاف اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے دور میں چل کر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے دنیا میں دستیاب کون سے نمونہ اقتدار کا انتخاب کیا جو ایک ایسا میدان ہے جس پر وحی خاموش ہے، یوں یہ ایک کھلا میدان بن جاتا ہے جس میں بہترین مذہب کے لیے بہترین نظامِ اقتدار کا انتخاب کیا جاسکتا ہے جو اس کے عدل اور مساوات کی بہترین نمائندگی کرے اور لوگوں کو واقعی کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر کردے۔

تفسیرِ ابن کثیر میں ہے:

ابو حاتم اور ابن مردویہ نے ابی الاسود سے روایت کیا کہا: دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے تو نبی کریم نے ثبوت فراہم کرنے والے کے حق میں، ثبوت فراہم نا کرنے والے کے برخلاف فیصلہ سنادیا، جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا: ہمیں عمر بن الخطاب کے پاس چلنا چاہیے، تو ہم ان کے پاس پہنچ گئے، اس شخص نے کہا: رسول اللہ نے اس پر میرے حق میں فیصلہ دیا ہے تو اس نے کہا ہمیں عمر کے پاس چلنا چاہیے، تو عمر نے کہا: کیا ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، تو عمر نے کہا: اپنی جگہ پر رہو جب تک میں تمہارے پاس واپس نہ آجاؤں، تو عمر اپنی تلوار لے کر ان کے پاس آئے اور اس شخص کو قتل کردیا جس نے کہا تھا کہ ہمیں عمر کے پاس چلنا چاہیے، اور دوسرا بھاگ گیا، اور کہا: اے اللہ کے رسول عمر نے میرے ساتھی کو قتل کردیا، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے نہیں لگتا تھا کہ عمر کسی مؤمن کو قتل کرنے کی جرات کرے گا، تو اللہ نے نازل فرمایا: فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم) [تا آخر] آیت۔ (تفسیر ابن کثیر میں دیکھیے سورہ النساء کی آیت نمبر 65 کی تفسیر)

یہ واقعہ اور آیات آج کے دور میں مخالفین کو قتل اور انہیں دھماکوں سے اڑانے کی بنیاد بنا دیے جاتے ہیں کیونکہ لوگ سنی مسلک کی مخالفت کر کے اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے راضی نہیں ہوئے!!

اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ آج کے سنی مذہب کی وہابی تجدید ہے، اگر آپ نے اس کی کسی بھی چیز سے مخالفت کی تو وہ آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو حضرت عمر نے اس شخص کا کیا جو اس کے پاس انصاف طلب کرنے آیا۔

آئیے اس صورتِ حال کو اسلام کی آمد سے بارہ سو سال قبل کے بت پرست روم کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، مقتول کو یہ حق حاصل تھا کہ اس پر صادر فیصلے کے عمل درآمد سے قبل وہ عدالت سے رجوع کرے، ناکہ فیصلہ صادر کر کے اس پر اسی وقت عمل درآمد کردیا جائے، مزید برآں امن کے دنوں میں کوئی بھی فرد کسی کو سزائے موت سنانے کا حق دار نہیں بلکہ یہ قومی اداروں کے ذریعہ قوم کا حق ہے۔

ان دونوں حضرات کا جھگڑا دین کے کسی معاملہ پر نہیں تھا، ان کے درمیان کسی آیت یا شریعت کے کسی رکن پر کوئی اختلاف نہیں تھا، اختلاف خالصتاً ایک دنیاوی معاملے پر تھا جو دین کے دائرہ سے دور ہے اور دونوں ہی حضرت عمر کی طرح رسول اللہ کے صحابہ تھے، نبی کریم کا یہ قول کہ: مجھے نہیں لگتا تھا کہ عمر کسی مؤمن کو قتل کرنے کی جرات کرے گا بتاتا ہے کہ نبی کریم کو معلوم تھا کہ وہ شخص صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مؤمن بھی ہے جو کہ مسلمان سے کئی درجہ بلند ہے، مگر اللہ نے فیصلہ کردیا کہ مقتول مؤمن نہیں تھا، یہاں عقل یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ: کیا جب عمر نے اس شخص کو قتل کیا تو کیا وہ جانتے تھے کہ وہ شخص مؤمن نہیں ہے، کہ خود نبی کریم کو پتہ نہیں تھا کہ وہ مؤمن ہے یا نہیں؟ اور اگر قتل اس کے ایمان کی بنیاد پر کیا گیا اور حضرت عمر نے یہ نتیجہ اس کے نبی کریم کے فیصلے کو نہ ماننے سے اخذ کیا تو ان اعراب کا کیا ہوگا جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا

دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں (الحجرات 14)

اور چاہے اس شخص کا بے ایمان ہونا یقینی ہی کیوں نا ہو، آج کی منطق اور حقوق کے تناظر میں یہ سزا کسی بھی طرح سے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔

مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ نبوت اور خلفائے راشدین کی ریاست ایک خاص اور ہنگامی ضرورت تھی، اس کا ڈھانچہ قبائلی تھا، مگر آج ہم اس کی اتباع کرنے کے پابند نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے ریاست کے معاملہ پر ہمیں پوری چھوٹ دے دی ہے کہ ہم اپنی جدید ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جیسے چاہیں اپنا ریاستی ڈھانچہ کھڑا کریں، نبی اور راشدین کی ریاست ایک قبائلی اتحاد تھا جسے عملی اور علمی دونوں طرح سے ریاست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس میں ریاستی ادارے وجود ہیں نہیں رکھتے تھے۔

صدیوں پہلے روم نے قومی کمیٹیاں تشکیل دیں جو بڑے عہدے داروں کو منتخب کرتی تھیں، سرکاری ملازمین کی کاروائیاں دیکھتی تھیں، ایوانِ بالا کے احکامات پر عمل درآمد کرواتی تھیں، سزائے موت کے مقدمات دیکھتی تھیں، جنگ کا اعلان کرتی تھیں اور صلح کرتی تھیں۔

سنہ 454 عیسوی میں قومی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روم کے ایوانِ بالا نے تیس حکماء پر مشتمل ایک کمیٹی یونان کے شاعر اور قانون دان سولون (SOLON) کے آئین پر تحقیق کے لیے یونان بھیجی، ان کے ذمہ یہ کام لگایا کیا کہ وہ اس آئین پر اپنی رپورٹ پیش کریں، جس کے بعد دس حکماء پر مشتمل ایک اور کمیٹی نے ان کی رپورٹ پر آئین سازی شروع کی جس کے لیے انہیں دو سال کی مہلت دی گئی، آئین کی تیاری کے بعد اس پر بحث ہوئی اور اس میں ترمیم کی گئی جس کے بعد اس آئین کو منظوری کے بعد بارہ تختیوں پر درج کر کیا گیا اور لوگوں کی اطلاع کے لیے انہیں بازاروں میں رکھا گیا تاکہ لوگ اپنے حقوق وواجبات جان سکیں۔۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا باقاعدہ آئین تھا۔

روم کے مقابلہ میں خلفائے راشدین کی ریاست میں حضرت ابو بکر کے بقول سارے فیصلے قرآن وسنت کے مطابق تھے حالانکہ قرآن صحابہ کے سینوں، ہڈیوں، پتھروں اور پتوں پر درج بکھرا ہوا تھا اور اسے ابھی تک جمع نہیں کیا گیا تھا، جبکہ حدیث کی تدوین کی اجازت نہیں تھی، اس طرح قرآن اور حدیث کے مکمل مُتون امت کے افراد کے علم میں نہیں تھے، ایسے نظامِ حکم کو ریاست کیونکر کہا جاسکتا ہے جس میں آئین ہی تحریر شدہ نہیں ہے اور نا ہی امت کو اس کے مکمل مُتون اور اپنے حقوق کی خبر ہے؟ احادیث گھڑنے والے ماہرین اور فتاوی دینے والے شیوخ اس کے علاوہ ہیں جن کی تالیف کردہ ساری شریعت سلطان کے حق میں جاتی تھی، راشدین کی ریاست میں یہ واضح طور پر نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ نا تو شہریوں نے آزادی، مساوات، انصاف، امن اور قانون کا ایسے کسی نظام کا مطالبہ کیا اور نا ہی روم کی طرح ریاست نے اپنی طرف سے ایسا کوئی اقدام اٹھایا۔

ایک ایسے آئین کی عدم موجودگی میں جس کے بارے میں عوام با خبر ہو نظامِ انصاف کیسے قائم کیا گیا؟ اگر ایک مدون شُدہ آئین موجود ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنا ورثہ مانگا تو حضرت ابو بکر کو ہم انبیاء کی قوم ورثہ نہیں چھوڑتے جیسی حدیث کا سہارا نہیں لینا پڑتا جسے بی بی فاطمہ سن کر سکتے میں آگئیں کہ بیٹی ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنے والد کی ایسی اہم خاصیت کی خبر ہی نہیں تھی جو کہ ظاہر ہے ممکن نظر نہیں آتا، اگر آئین پہلے سے درج ہوتا تو حضرت ابو بکر کو اکیلے ہی یہ حدیث یاد رکھنے کی ضرورت نہ پڑتی، اس طرح تو نظامِ ریاست جیسے ہر وقت ایمرجنسی کی حالت میں ہو، جب بھی آپ کوئی قدم اٹھانا چاہیں آپ کو ایک ایسی حدیث سنا دی جائے جو پہلے کسی نے نہ سنی ہو، آئینی ریاست چاہے قرآن وسنت پر ہی کیوں نہ کھڑی ہو رعیت کو اپنے حقوق اور واجبات کا پہلے سے پتہ ہونا چاہیے تاکہ وہ قانون نہ توڑیں، ظلم انصاف کا خالق ہے کیونکہ انصاف کی موجودگی میں ظلم پیدا نہیں ہوسکتا، اور ظلم جرم ہوتا ہے جو قانون کے خلاف ہے، لہذا یہ لازم ہے کہ ہر شہری کو قانون کی خبر ہو کیونکہ یہ نسبتی ہوتا ہے اور ہر جگہ مختلف ہوتا ہے، اگر میں سعودی عرب میں چار شادیاں کر لوں تو یہ جرم نہیں ہے مگر اگر یہی کام میں فرانس میں کروں تو یہ جرم ہے، قانون لوگوں پر جرم کو واضح کرتا ہے، اگر آپ یہاں انتظار کرنا منع ہے کا بورڈ لگا دیں تو یقیناً یہ قانون توڑنے والے سامنے آئیں گے لیکن اگر ہم یہ بورڈ ہٹا دیں تو اس نوعیت کا کوئی جرم وقوع پذیر نہیں ہوگا کیونکہ قانون ہی جرم کا تعین کرتا ہے اور کسی فعل کو جرم بناتا ہے، اگر ہمیں قانون کا پتہ نہ ہو تو ہم مختلف افعال میں جرم فعل کو نہیں پہچان سکیں گے، یہاں مولویانِ اسلام ہمیں عدلِ عمر کے بارے میں بتاتے ہیں جبکہ قانون پیش ہی نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ عمر اس مسلمان مؤمن کو قتل کر سکا اور ظلم اور انصاف برابر ہوگئے۔

پھر جب حدیث کی جمع وتدوین کی اجازت دی گئی تو امت پر مختلف درجات کی حامل احادیث کا پہاڑ ٹوٹا، فلاں حدیث کی سند قوی ہے، فلاں کی ضعیف ہے، یہ مرسل ہے اور یہ مرفوع ہے۔۔ یہاں قانون کیسے بنے گا؟ اور وہ اصل میں ہے کیا؟

دلچسب بات یہ ہے کہ جامعینِ حدیث کو کسی اسلامی ریاست نے یہ کام تفویض نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے یہ کام فی سبیل اللہ کیا تھا، یہ یاد دلاتا چلوں کو جس انصاف کے طالب کو حضرت عمر نے قتل کیا اس کی توجیہ میں جو آیت نازل ہوئی وہ حضرت عمر کے لیے اسلام میں اور نبی اسلام کے ہاں ان کے مرتبہ کی جسٹی فیکیشن تھی کوئی قانون نہیں تھا ورنہ ان اعراب کو بھی قتل کرنا پڑتا جنہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے جبکہ وہ صرف مسلمان تھے اور ابھی مؤمنین کے مقام تک نہیں پہنچے تھے۔

خلفائے راشدین کے دور میں کوئی قاضی کسی مقدمہ میں کوئی فیصلہ کیسے سنائے گا جبکہ اس کے پاس کتاب وسنت کا کوئی نسخہ موجود نہیں؟ کیا وہ اجتہاد کرے گا اور اپنی رائے پر چلے گا؟ یعنی ہر قاضی کا اپنا اجتہاد اور اپنی رائے۔۔ کیا اسلامی ریاست میں لوگوں کے مقدروں کے فیصلے ایسے ہوں گے؟ ایک ہی مسئلہ پر ہر قاضی کا اپنا اجتہاد اور اپنی رائے؟!

ریاست ضرور بننی چاہیے مگر اسلامی ریاست نہیں۔۔ بلکہ اسلام کی آئینی ریاست۔۔ اور دونوں میں زمینِ وآسمان کا فرق ہے۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/islamic-state-constitutional-state-/d/13188

 

Loading..

Loading..