ناستک درانی، نیو ایج اسلام
2نومبر، اسلام اور ڈیموکریسی پر بحث اگر اتنی پرانی نہیں تو اتنی نئی بھی نہیں، حالیہ سالوں میں کچھ اسلامی ممالک میں مذہبی گروہوں کے برسرِ اقتدار آنے سے یہ بحث پھر سے چھڑی ہے تاہم ماضی کی طرح اس بار بھی یہ بات بھلا دی گئی ہے کہ ڈیموکریسی اس قدر سیاسی مفہوم نہیں ہے جتنا کہ یہ معاشرتی اور معاشی مفہوم بھی ہے، اگر ہم گزشتہ صدی کے پہلے نصف میں مسلمان لبرلوں کی باتیں سنتے پڑھتے آئے ہوں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ سیاسی ہونے سے پہلے ڈیموکریسی ایک معاشرتی اور معاشی مفہوم ہے۔
طہ حسین نے 1945 میں ڈیموکریسی کی تشریح کرتے ہوئے اس کے یونانی اصل سے رجوع کیا، وہ خود بھی یونانی تاریخ کے ماہر سمجھے جاتے تھے، انہوں نے کہا کہ یونانی دراصل ڈیموکریسی کے ذریعہ معاشرتی اور معاشی اصلاحات کرنا چاہتے تھے جنہیں اسلام “العدل والاحسان” کہتا ہے اور یہ اسلامی دعوت اور نظام کی بنیادی چیزوں میں سے ہے۔
تاریخی طور پر یونانی شاعر ومفکر وسیاستدان سولون - (Solon 638 BC – 558 BC) جسے افلاطون نے یونان کی تاریخ کے سات داناؤں (Seven Sages of Greece) میں شامل کیا ہے - نے جب ڈیموکریسی کا مفہوم متعارف کرایا تو اس کے پیچھے کار فرما عوامل میں اس وقت یونان کی بگڑی ہوئی معاشرتی اور معاشی زندگی تھی۔
یونانی کی اشرافیہ قوم کی سیاہ وسفید کی مالک تھی، طاقتور کمزور کو کچلتے تھے، لہذا یونانی باغی ہوگئے اور انہوں نے سولون سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے لیے ایک ایسا نظام وضع کریں جو انصاف اور مساوات قائم کر سکے، اسے “ڈیموکریسی” کا نام دیا گیا۔۔ طہ حسین کے مطابق اگر ہم اس ڈیموکریسی کی تفصیلات پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ اسلام کے “العدل والاحسان” سے مطابقت رکھتی ہے بلکہ وہ اسے زمان ومکان کے عوامل کے پیشِ نظر زیادہ وسیع مفہوم قرار دیتے ہیں۔
طہ حسین وگزشتہ صدی کے پہلے نصف کے دیگر لبرلوں کے مطابق انصاف اور بھلائی یعنی عدل واحسان اسلام کی لازمی اخلاقیات میں شامل ہیں جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (سورہ النحل 90) (ترجمہ: بے شک الله انصاف اور بھلائی کا حکم دیتا ہے) لہذا اسلام اور انصاف اور بھلائی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا خصوصی طور پر قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔
انصاف مسلمان کی ایک لازمی صفت ہے جو کسی دوست کی دوستی یا دشمن کی دشمنی سے نہیں بدلتی چاہے دوست ودشمن قریب کے ہوں یا دور کے یا بزبانِ قرآن: اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (المائدہ 8) (ترجمہ: انصاف کرو یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے)، اسلام بیان کرتا ہے کہ بھلائی کا پہلا مرحلہ اپنے آپ کے ساتھ بھلائی کرنا ہے، انسان پر واجب ہے کہ وہ اس پر توجہ دے، خود سے بھلائی میں واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں سے پرہیر شامل ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا (اسراء 7) (ترجمہ: اگر تم بھلائی کرو گے اپنا بھلا کرو گے اور اگر بُرا کرو گے تو اپنا)، لبرل سمجھتے ہیں کہ اسلام نے بھلائی کے ضمن میں انسانی تعلقات کو بڑی اہمیت دی ہے کہ بھلائی میں ساری انسانیت شامل ہے چاہے وہ عقیدہ میں مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔
طہ حسین کا کہنا ہے کہ ڈیموکریسی کا سیاست سے پہلے معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے کیونکہ ایسے کسی نظام کی کوئی اہمیت نہیں اگر اس کا مقصد افراد میں انصاف قائم کرنا نہ ہو، طہ حسین یہ بات یونانی ڈیموکریسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے جبکہ ان کی نظر اسلام پر ہوتی تھی جس نے “عدل واحسان” کی آواز بلند کی۔
طہ حسین یقین دلاتے ہیں کہ ڈیموکریسی محض ایک اصلاحی یا سیاسی نعرہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس پر یقین رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہی ہر چیز میں انصاف کا ضامن ہے اور اس کا دائرہ کار صرف سیاسی زندگی تک محدود نہیں ہے، ایسی ڈیموکریسی جس کے سائے تلے منصفانہ مساوات قائم ہوسکے انسانیت کا ایک ایسا خواب ہے جسے پوری طرح زمین پر شرمندہ تعبیر کرنا بہت مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب (بشمول اسلام کے) نے وقتاً فوقتاً اور جا بجا “عدل واحسان” پر زور دیا ہے کہ شاید انسان کی سرکش فطرت کے با وجود اس کا کوئی چھوٹا سا حصہ ہی لاگو ہوجائے۔
اسلامی دنیا میں “عدل واحسان” کی دعوت دینے کے لیے کئی مذہبی جماعتیں کھڑی ہوئیں، بلکہ مراکش میں تو ایک پارٹی کا نام ہی “حزب العدل والاحسان” ہے مگر افوس کہ ان جماعتوں کی دعوت خالصتاً روایتی مذہبی دعوت ثابت ہوئی، ان کی دعوت میں دوسری قوموں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی موازنے نہیں تھے کہ ہم ڈیموکریسی کو اس طرح سمجھ سکیں جس طرح طہ حسین نے سمجھی تھی، اس کے برعکس ان جماعتوں کی اسلام سے عدم واقفیت اور تنگ نظری نے اسلام کا ڈیموکریسی سے تعلق ہی توڑ ڈالا اور ڈیموکریسی کو ایک ایسا مفہوم بنا ڈالا جس کا گویا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، ان کے مطابق یہ مغرب سے درآمد شدہ لفظ اور مفہوم ہے جس کا ہم مسلمانوں سے دور تک کوئی لینا دینا نہیں، اس طرح مذاہب خاص طور سے اسلام سے “عدل واحسان” کی نفی کردی گئی جس کا اصل میں “عدل واحسان” سے گہرا تعلق تھا چنانچہ اس کے ساتھ ہی ڈیموکریسی کے جدید مفہوم کو بھی مسترد کردیا گیا۔
ایسی صورت میں جبکہ مذہبی سٹریم کو مقبولیت بھی حاصل ہے ان کے لیڈران کے کاندھوں پر یہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ:
1- انسانی سیاسی تاریخ کا دوبارہ سے مطالعہ کیا جائے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ یہ تاریخ اسلامی مفاہیم سے کس قدر ٹکراتی یا میل کھاتی ہے۔
2- مغرب کی لبرل ازم کی تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کیا جائے پھر اس کا موازنہ اسلامی دنیا کی “اسلامی لبرل ازم” کی دعوت سے کیا جائے۔
3- سیاسی اور معاشرتی فلسفہ کو مذہب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے جو پہلے ہی اپنے جوہر میں ان فلسفوں سے تعارض نہیں رکھتا، یہ تعارض دین کے فقہاء اور تاجر پیدا کرتے ہیں تاکہ سارے دین پر ان کی اجارہ داری قائم رہے۔
URL: