ناستک درانی، نیو ایج اسلام
30اگست، 2013
”اسے کپڑوں سے بے نیاز کر کے اچھی طرح باندھا گیا، پھر اسے لکڑیوں کے ڈھیر پر آویزاں لوہے کے ایک ستون تک کھسیٹا گیا، پھر اسے ایک مومن بھیڑ کے سامنے زندہ جلادیا گیا”
کچھ انہی الفاظ میں مؤرخ ”ویل ڈیورانٹ” نے اس فلاسفر جیورڈانو برونو (Giordano Bruno) کا خاتمہ بیان کیا، مقام روم تھا، 17 فروری کا دن تھا، اور سال تھا 1600ء عیسوی، فروری کے اس سرد دن کو کلیسا کے ٹھیکیدار اور بزدل عوام زندہ جلتے ایک انسان کی چیخیں اور بھنے گوشت کی خوشبو سونگھنے کے لیے جمع ہوئے تھے، اس زندہ جلتے اور چیختے شیطان نے بہت بڑا جرم کیا تھا، وہ عیسائیت سے مرتد ہوگیا تھا، مگر کلیسا مجبور تھا، وہ اسے اس سے زیادہ خوفناک موت نہیں دے سکتا تھا..
ہفتہ 19 فروری 1600ء کو ”آفیزی ڈی روما” نے یہ خبر شائع کی: ”نولا سے تعلق رکھنے والے ایک مجرم راہب کو زندہ جلادیا گیا جس کے بارے میں ہمارا اخبار آپ کو مطلع کرتا رہا تھا، وہ ایک ضدی مرتد تھا جس نے ہمارے عقائد کے خلاف اپنی مرضی کی آراء قائم کرلی تھیں خاص طور سے حضرت مریم اور قدیسین کے خلاف، اس خبیث نے اپنی ضد کی وجہ سے بھیانک موت کا انتخاب کیا، وہ کہتا تھا: ”میں شہید اور خوش ہوکر مر رہا ہوں، میری روح آگ کی لپٹوں سے جنت کو بلند ہوگی” مگر اب وہ حقیقت جان لے گا؟”
289 سال بعد 9 جولائی 1889ء کو اسی مقام پر اس فلاسفر کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی گئی جسے ”کیمپو ڈی فیوری” (Campo de' Fiori) کا نام دیا گیا اور کلیسا کے خلاف آزادی فکر کی جنگ پر اسے خراج تحسین پیش کیا گیا.
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس واقعے کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی گئی، حتی کہ جھوٹ کا بھرپور سہارا لے کر زندہ جلائے جانے کے اس واقعے کو مشکوک بنانے کی حتی المقدور کوشش کی گئی، اس حوالے سے اکلوتی دستاویز 1889ء کو منظر عام پر آسکی جسے عوام تک پہنچنے میں میں تین صدیاں لگیں..
اس دستاویز میں بتایا گیا کہ کس طرح مبلغین سین اوزولا نامی کلیسا کے معاون پادری کے ساتھ مل کر قید خانے گئے اور وہاں سزائے موت پانے والے مجرم کے لیے معمول کی عبادت انجام دی جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ”نولا کا ایک متکبر اور ڈھیٹ بھائی” ہے.
دستاویز میں لکھا تھا:
”بھائیوں نے اسے پوری محبت کے ساتھ وعظ دیے، اور اسے توبہ کرنے اور اپنی موقف سے ہٹنے کی تلقین کی، انہوں نے اسے اچھی طرح سے آگاہ کیا کہ وہ کتنی بڑی غلطی پر ہے، مگر وہ آخر تک اپنے موقف اور حماقت پر قائم رہا اور ہزاروں غلطیوں سے راہ راست سے بھٹک گیا”
آخر کار اسے سزائے موت کے مقام پر لایا گیا، برہنہ کیا گیا، اور باندھ کر زندہ جلا دیا گیا..
جلانے سے قبل آزای فکر کے علمبردار مذہبی نعتیں کہتے رہے اور تبلیغی اسے راہ راست پر لانے کی تلقین کرتے رہے، مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور جان دے دی..
اسے زندہ جلانے کے بعد کلیسا نے مرتدوں پر فتح پانے اور زمین کو ان کے وجود سے پاک کرنے پر جشن منایا جس میں بڑی بڑی ہستیوں نے خصوصی دعوت پر شرکت کی اور ”مرتدوں کے شاہ” کو زندہ جلانے پر کلیسا کو خراج تحسین پیش کیا جس نے ان کے خیال میں آدھے یورپ کو اپنی گندی فکر سے آلودہ کردیا تھا !
”برونو” کا یہ تماشہ کلیسا کی طاقت اور مرتدوں کے خلاف اس کے سخت فیصلوں کی زبردست نمائش تھی، یہ دردناک سبق ایسے تمام ممکنہ مرتدوں کے لیے عبرت تھا جو کلیسا کے عقیدے کے برخلاف کچھ کہنے کے بارے میں سوچ رہے تھے !!
یورپ میں ہونے والا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا بلکہ بار بار وقوع پذیر ہونے والی ایک عام سی معاشرتی سرگرمی تھی جو آئے دن ہوتی رہتی تھی اور جس پر تاریخ کی گواہی کے بغیر شاید ہم کبھی یقین نہ کرتے.. یہاں معلوم ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے کے ارتقاء کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ کتنا ضروری ہے..
اگرچہ 1992ء میں کلیسا نے گلیلیو سے معافی مانگ لی تھی تاہم یہ ” آندھی” صفت شخص اب تک اس سے محروم ہے، حتی کہ اس کی کتابوں پر کلیسائی حکم کے تحت 1603ء سے لے کر 1965ء تک 362 سال تک پابندی عائد رہی ؟!.
تاریخ بتاتی ہے کہ مغربی تاریخ میں مردوں سے زیادہ خواتین کو زندہ جلایا گیا، جرمن میگزین ”ڈیر شبیجل” کے اعداد وشمار کے مطابق زندہ جلائی جانے والی خواتین کی تعداد دس لاکھ سے بھی کہیں زیادہ ہے جن میں زیادہ تر پر جادوگری کا الزام عائد کیا گیا.
ان بد نصیبوں میں ایک جین ڈارک بھی تھی جس پر 1431ء میں 21 فروری اور 30 مئی کے دوران 60 ججوں اور پادریوں کے سامنے 70 الزامات عائد کر کے مقدمہ چلایا گیا جن میں جادوگری، پوپ کا حکم نا ماننا، اور انیس سال کی عمر میں ایک لڑکی کا اتنی جرات کرنا شامل تھا !!
جین ڈارک نے عدالت کے سامنے قسمیں کھائیں کہ وہ خدا اور عیسائیت پر یقین رکھتی ہے مگر یہ سب اس کی شفاعت نہ کر سکا اور 7 جولائی کو اسے زندہ جلا دیا گیا.. تاریخ کے فیصلے پر ایک انگریز مصنف نے روتے ہوئے لکھا: مارے گئے ہم نے ایک راہبہ کو جلادیا.
464 سال بعد 1920ء میں پندھرویں پوپ بینڈکٹ نے جین ڈارک کو راہبہ تسلیم کر لیا، جبکہ سولہویں پوپ کا خیال تھا کہ تمام تر عقلیت پسندی کلیسا میں ہے اور اسلام عقلیت پسندی کے خلاف ہے؟!.
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/end-philosopher-freedom-thoughts-/d/13267