New Age Islam
Tue Sep 17 2024, 11:59 AM

Urdu Section ( 28 Apr 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Boston Bomb Blast and Conspiracy Theory بوسٹن دھماکے اور سازشی نظریات

 

ناستک درانی، نیو ایج اسلام

28اپریل، 2013

 بوسٹن دھماکے ابھی تک عالمی امور پر نظر رکھنے والوں کی دلچسبی کا مرکز بنے ہوئے ہیں کیونکہ معاملے کا تعلق امریکہ سے ہے، اس میں شک نہیں کہ کانگریس اور وائٹ ہاؤس کی دیواروں کے اُس پار اور واشنگٹن کی دیگر فیصلہ ساز راہداریوں میں ہونے والے ماجرے سب کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، آخر کو عالمی برادری میں جارج واشنگٹن کے ملک کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔

حالانکہ ابھی تک اس واقعے کی تحقیقات کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، اس کے باوجود ہر طرف سے اس واقعے کو لے کر الگ الگ متضاد تاویلات پیش کی جا رہی ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی فریق پر اس کی ذمہ داری ڈالتا نظر آتا ہے، لیکن ان ساری تاویلات کے با وجود سب کا کم از کم اس امر پر اتفاق ضرور ہے کہ بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے اس واقعے کی مذمت کی جانی چاہیے جن کا اپنے ملک کی بین الاقوامی سیاسی پالیسیوں کے تعین میں جن پر اسرائیلی مفادات غالب ہیں کوئی کردار نہیں ہے چاہے یہ مفادات دنیا کی دیگر اقوام کے مفادات کی قیمت پر ہی کیوں نہ حاصل کیے جائیں، خاص کر مشرقِ  وسطی۔

نظریہ سازش

سیاسی مظاہر کی توجیہ کے لیے نظریہ سازش پر مبنی کچھ تجزیے کہتے ہیں کہ امریکہ کے اندر ہی موجود کچھ عناصر ان دھماکوں کے ذمہ دار ہیں تاکہ بعد میں کسی فریق پر اس کی ذمہ داری ڈال کر کہیں کسی جگہ کوئی مسلح کاروائی کرنے کے لیے انہیں جواز بنایا جاسکے۔

ان سازشی نظریات دانوں کو توقع ہے (جن کی اکثریت کا یہ اصرار بھی ہے کہ نائن الیون کے پیچھے بھی واشنگٹن کا ہی ہاتھ ہے) کہ امریکہ میں عنقریب ان دھماکوں کو انجام دینے والوں اور کسی ایسے فریق کو جس کا امریکہ صفایا کرنا چاہتا کے درمیان کسی تعلق کا انکشاف کیا جائے گا جو شاید ایران بھی ہوسکتا ہے اور شام بھی یا کوئی دوسرا ملک یا گروہ، بہرحال ان سازشی نظریات دانوں کے لیے اہم بات یہی ہے کہ سارا الزام خود امریکیوں پر ڈال دیا جائے اورسیاسی اسلامی سٹریم پر سے یہ تہمت ہٹا لی جائے جن کا (ان کے خیال میں) گزشتہ دو دہائیوں میں مغرب میں اسلام کی تصویر بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ہے کیونکہ وہ اسلام کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتے۔

روسی ہاتھ

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان خونین واقعات کے پسِ پردہ روسی ہاتھ ہوسکتا ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ ان چیچن بھائیوں میں سے ایک دھماکوں سے قبل روس گیا تھا اور وہاں کوئی چھ ماہ کے عرصہ تک قیام پذیر رہا جس کی کوئی وجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کریملن کے عرش پر براجمان صدر پوٹن نے فوراً ہی صدر اوباما کو تعزیتی پیغام بھیجا اور اگلے سال سوچی میں منعقد ہونے والی اولمپک کھیلوں میں سیکورٹی کے حوالے سے مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی، بوسٹن کے واقعات کے تناظر میں کریملن نے یہ بھی اعلان کیا کہ روس اور امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون پر اتفاق کیا ہے حالانکہ امریکہ ہمیشہ سے چیچنیا میں روس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تنقید کا نشانہ بناتا آیا ہے اور روسی ریچھ سے علیحدگی کے خواہشمند علیحدگی پسندوں کی مدد کرتا رہا ہے، لہذا اس ضمن میں روس کو پہنچنے والا فائدہ ان واقعات میں اس کے ملوث ہونے کے خیال کو تقویت بخشتا ہے تاہم یہ مفروضہ بعید از امکان ہے کیونکہ بڑی طاقتیں آپس کی چپقلشوں کو نمٹانے کے لیے اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے نہیں اپناتیں۔

القاعدہ

زیادہ تر شکوک وشبہات القاعدہ یا دیگر شدت پسند تنظیموں کے گرد ہی گھوم رہے ہیں جو اپنے نظریات تھوپنے کے لیے تشدد کا راستہ کارِ ثواب سمجھتی ہیں اور جو ساری کی ساری اسلام کے کھاتے میں آتی ہیں، ان شکوک وشبہات کی ایک قوی وجہ بھی ہے اور وہ ہے ان تنظیموں کا اس حوالے سے سابقہ خراب ریکارڈ، کھیلوں کے اس میلے میں بے گناہوں کو مارنا ان تنظیموں کی فکر میں عین کارِ ثواب ہے، چونکہ ملزمان کا تعلق بھی مسلمان چیچنیا سے ہے لہذا مغرب کی اسلام مخالف قوتوں کا اسی مفروضے پر اصرار ہے۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں نوجوانوں نے بم بنانے کے لیے کچن کے سامان کے استعمال کا جو طریقہ یا انداز اپنایا ہے وہ طریقہ القاعدہ کے الملاحم میگزین  میں شائع ہوا تھا، اسی میگزین نے ابو مصعب السوری نامی ایک قاعدی  کی ایک تحقیق بھی شائع کی تھی جس میں کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے اور اس کام کے لیے بہترین اہداف کے انتخاب کے طریقے بتائے گئے تھے، ان اہداف میں کھیلوں کے میلے بھی شامل تھے، اس خیال کے حامیوں کے کہنا ہے کہ دونوں ملزمان الملاحم میں شائع ہونے والے ان طریقوں سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم یہ بھی محض مفروضے ہیں اور انہیں ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک بھی مادی ثبوت نہیں ہے، حکومتی اعلان میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ دونوں ملزمان اور القاعدہ کے درمیان کسی طرح کے تعلق کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

مشکل صورتِ حال

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان دھماکوں کے پیچھے کوئی شدت پسند تنظیم ملوث ہے جنہیں مغرب میں اسلاموفوبیا کے مریض اسلامی شدت پسند کہتے ہیں تو امریکہ کیا کرے گا؟ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی ہے کہ اوباما کی قیادت میں ڈیموکریٹ انتظامیہ نے عرب بہار کے ممالک میں اسلامی سٹریم  کو اقتدار تک پہنچنے میں مدد کی خاص کر تیونس اور مصر میں اور اب بھی ان کے مظالم سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کی مدد کیے جا رہے ہیں بعینہ جس طرح اس سے پہلے ان دونوں ممالک کی آمریتوں کی مدد کر رہے تھے۔

ایسی صورت میں اوباما انتظامیہ کو امریکی رائے عامہ کے سامنے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ زیادہ تر امریکی شدت پسند جہادی تنظیموں جن میں القاعدہ بھی شامل ہے اور باقی اسلامی تنظیموں میں کوئی فرق نہیں کر سکتے بلکہ امریکہ کے متعصب تو سارے مسلمانوں کو ہی دہشت گرد سمجھتے ہیں لہذا انکل سیم کے ملک میں حکومتی فیصلوں اور رائے عامہ پر اثر رکھنے والے میڈیا پر حاوی یہودی لابی کی موجودگی کے تناظر میں اس دھندلی تصویر کو صاف کرنا بے حد مشکل نظر آتا ہے، تو کیا اوباما اپنے اتحادیوں سے مخاصمت اختیار کر لیں گے یا عرب اور اسلامی دنیا میں شدت پسندوں کی بساط لپیٹنے کے لیے معتدل اسلامی تحریکوں کی سپورٹ جاری رکھیں گے؟ اور اگر ڈیموکریٹ اسی نہج پر چلتے رہے تو کیا ان کے حریف ریپبلکن اگلے انتخابات میں اس کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ ان سارے سوالوں کے جوابات کا انحصار تحقیقات کے نتائج پر ہے وہ بھی اگر دوسرا ملزم زندہ رہا تو۔         

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/boston-bomb-blast-conspiracy-theory/d/11321

 

Loading..

Loading..