New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 07:42 AM

Urdu Section ( 20 Jun 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Elements of Sex and Death in Suicide of Terrorists دہشت گردوں کی خودکشی میں جنس اور موت کا عنصر

 

ناستک درانی، نیو ایج اسلام

20  جون ، 2013

خودکشی کرنے والے خودکش دہشت گردوں کے نفسیاتی تجزیے نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ضمن میں کافی مواد دستیاب ہی نہیں ہے، کیونکہ خودکشی کرنے والا دہشت گرد دوبارہ زندہ نہیں ہوتا کہ اس کا نفسیاتی تجزیہ کیا جاسکے اور ان عوامل کا پتہ چلایا جاسکے جن کے چلتے وہ خود کو بم باندھ کر اڑا دیتا ہے اور اپنی زندگی کا چشم زدن میں خاتمہ کردیتا ہے، یہ دہشت گرد خود کو اس خوفناک طریقے سے اڑانے میں کم ہی ناکام ہوتے ہیں، عراق سے تعلق رکھنے والی دہشت گردہ ساجدہ الریشاوی جو 2006 میں عمان کے ہوٹل ریڈیسن میں خود کو اڑانے میں ناکام رہی جدید نفسیاتی تجزیے کے لیے ایک اچھا موقع تھی تاکہ ان عوامل کا پتہ چل سکے جن کے لیے اس نے اور اس کے شوہر نے اس دردناک طریقے سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم اس نے عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے سے انکار کردیا اور عدالت سے درخواست کی کہ اسے اور اس کے شوہر کو دی جانے والی سزائے موت پر فوری عمل کیا جائے حالانکہ وہ ایک بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی تھی، یوں عرب اور مغربی دنیا ایک دہشت گرد کے نفسیاتی تجزیے کے اس سنہری موقع سے محروم ہوگئی۔

دہشت گردوں کی زندگی میں جنس  کا عنصر

جنس کے دہشت گردی کے ساتھ تعلق پرمیرے پاس ایسی کوئی قابلِ اعتبار تحقیق نہیں ہے جس پر میں انحصار کر سکوں، تاہم دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ہیں جو خالصتاً ذاتی اجتہاد ہے اور ان کا انحصار کئی عوامل پر ہے:

1- یہ بات بڑی آسانی سے نوٹ کی جاسکتی ہے کہ خودکشی کرنے والے زیادہ تر دہشت گردوں کی اوسط عمر 20 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہے، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان دہشت گردوں نے اپنے پیچھے کوئی محبوبائیں نہیں چھوڑیں جو اپنے عاشقوں کی ایسی المناک خودکشی پر آنسو بہا سکیں، چیدہ چیدہ معاشرتی نفسیاتی تجزیے بتاتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے یہ دہشت گرد آخرت میں جنس کے بڑی شدت سے خواہاں تھے کیونکہ وہ دنیا میں اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

2- یہ چیز بھی بڑی آسانی سے نوٹ کی جاسکتی ہے کہ زیادہ تر خودکش دہشت گردوں کا تعلق عرب دیہاتوں سے ہے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے ذمہ دار زیادہ تر دہشت گردوں کا تعلق سعودی دیہاتوں سے تھا جنہیں سعودی اصطلاح میں ‘‘ اطراف’’ کہا جاتا ہے اور باقی ممالک میں انہیں مجموعی طور پر عرب دیہات یعنی ‘‘ الریف العربی’’ کہا جاتا ہے، یہ عرب دیہات - خاص کر خلیجی ممالک کے - معاشرتی طور پر بند اور مرد وزن کے گھلنے ملنے کے معاملے میں سخت متشدد ہیں، ان دیہاتوں کے مقابلے میں عرب ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں اس معاملے میں کافی نرمی پائی جاتی ہے، چنانچہ یہ خود کش دہشت گرد جنسی طور پر انتہائی محرومی کا شکار ہوتے ہیں، اور اس محرومی کو جنت کی حوریں حاصل کر کے پوری کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہوتا ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض خودکش بمبار دہشت گرد اپنی مہم پر نکلنے سے قبل اپنے مردانہ عضو کو ایک موٹے کپڑے سے باندھ کر نکلتے ہیں تاکہ جب ان کے جسم کے چیتھڑے اڑیں تو ان کا عضو خصوصی محفوظ رہے اور جنت میں حوروں پر اس کا طاقتور استعمال ہوسکے، ویسے بھی جنس کی خاطر قتل عرب ثقافت کا حصہ ہے، اس کی بہترین مثال عبد الرحمن بن ملجم المرادی کی دی جاسکتی ہے جب اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا سر کاٹ کر اس وقت کی حسین ترین عرب خاتون ‘‘ قطام الخارجیۃ’’ کو پیش کیا کیونکہ اس کی شرط تھی کہ اگر وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا سر پیش کرے، اسی طرح حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے زکات نہ دینے کا بہانہ بنا کر مالک بن نویرہ کو قتل کیا اور اسی رات اس کی حسین ترین بیوی سے شادی رچا لی جس سے قتل کا مقصد صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے۔

3- جنسی ہوس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو عرب معاشروں میں ایک بڑا معاشرتی مظہر ہے، اسلامی تنظیمیں نوجوانوں کو جنس کی لالچ دیتی ہیں اور بعض اوقات خودکش حملوں کے عوض انہیں دنیا میں ہی خوبصورت لڑکیاں پیش کردی جاتی ہیں، عراق میں یہی کچھ ہو رہا ہے، انسانی تاریخ میں بھی جنس جرائم کے ارتکاب کی ایک اہم وجہ رہا ہے، شاید ‘‘ زواج المسیار’’، ‘‘زواج المسفار’’، ‘‘الزواج العرفی’’ جیسی شادیوں کے جائز ہونے کے فتاوی اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ عرب معاشروں میں جنس کی ہوس کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔

دہشت گردوں کی زندگی میں موت کا پہلو:

یہ بات بھی نوٹ کی جاسکتی ہے کہ زیادہ تر خودکش دہشت گرد دنیاوی زندگی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں لہذا انہیں آخرت کی زندگی کو پانے کی بڑی جلدی ہوتی ہے، خودکش بمباروں کی خودکشی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں تاہم مذہبی عنصر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جلتی ہوئی عمارتیں دنیا کے خاتمے کی علامت ہیں اور قیامت کی تصویر کشی کرتی ہیں، بنیاد پرست فاسد دنیاوی زندگی سے جلد از جلد جان چھڑا کر اللہ کے ملکوت میں منتقل ہونے کے متمنی ہوتے ہیں جسے قرآن نے کوئی تین سورتوں میں لہو ولعب قرار دیا ہے: ‘‘وما الحیاۃ الدنیا الا لعب ولہو (الانعام 32، العنکبوت 64، محمد 36، اور سورۃ الحدید 20 میں زینت کا بھی اضافہ کردیا گیا: انما الحیاۃ الدنیا لعب ولہو وزینۃ.

حسبِ عادت، دہشت گردی کے فقہاء نے ان آیات سے خوب فیض حاصل کیا اور ان کی لفظی تفسیر کی جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے ہیں، اور ان آیات کو ان کے تاریخی سیاق وسباق اور اس معاشرے سے بالکل ہی الگ کردیا جس میں اور جن کے لیے یہ نازل ہوئی تھیں، اور انہیں تاریخی تنقید سے کوسوں دور رکھا جس کی ہم جیسے لوگ ہمیشہ دعوت دیتے ہیں کیونکہ تاریخی تنقید سے ہی مقدس تحریروں کو ان کے درست مقام پر رکھا جاسکتا ہے، شاید یورپی عیسائیت میں ہونے والی بڑے پیمانے کی اصلاح کی وجہ یہی تھی کہ مقدس تحریروں کی تفسیر تاریخی تنقید کے پیمانے پر کی گئی اور حرفی تفسیر سے گریز کیا گیا، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان خودکش دہشت گردوں کی تعریف میں زندگی کا کوئی مطلب نہیں ہے بلکہ آخرت کی طرف فرار ہی دراصل لہو، لعب اور زینۃ سے موصوف اس فانی دنیا سے نجات کا ایک اہم ذریعہ ہے جس کے ذریعے ان کی کفر، فسق، فجور اور جدید مغربی تہذیب کے تسلط سے جان چھوٹ سکتی ہے، خودکش دہشت گرد سمجھتا ہے کہ دنیا کو تباہ کرنے کی اس کی کوشش دراصل اس دنیا سے برائی کے خاتمے کی ایک مقدس کوشش ہے، کیونکہ قیامت قریب ہے اور وہ اس سے پہلے ہی آخرت میں پہنچ جائے گا۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/elements-sex-death-suicide-terrorists/d/12181

 URL for English article:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/elements-sex-death-suicide-terrorists/d/12193

Loading..

Loading..