محمد ناصر مصباحی
عصر حاضر میں افتراق بین
المسلمین کو لے کر جہاں پوری امت مسلمہ پریشان ہے اور اس کی بات کی بھر پور کوشش کی
جارہی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم ہوجائے او رجہاں آپسی تفرقہ
بازی کی وجہ سے قوم مسلم آئے دن نت نئے مسائل سے دوچار ہے اور اندیشہ یہ ظٖاہر کیاجارہا
ہے کہ اس افتراق و انتشار کے رہتے مسلمانوں کا زیادہ دنوں تک دنیا میں ایک زندہ
قوم بن کر جینانہایت مشکل ہوگا، وہیں دوسری طرف کچھ لوگ حالات میں کسی طرح کا
سدھار نہیں چاہتے۔یہ حضرات اگر صاحب قلم ہیں تو اپنی تحریروں کے ذریعہ مسلسل فتنے
جگاتے رہتے ہیں اور تناؤ کے ماحول کو قائم رکھتے ہیں۔ بظاہر فکر ملت کے متحمل یہ
لوگ عموماً آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اس طرح ملت کے نام پر اپنے مخصوص فکر و
نظریے کی نمائندگی اور ترجمانی کرتے ہیں، لیکن ان کی دیدہ دلیری کاکوئی جواب نہیں۔
مولانا ندیم الواجدی صاحب ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ موصوف کا مضمون ”دیوبندی
بریلوی اختلاف“ (20جولائی روز نامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی) نظر سے گزرا۔ یہ مضمون
نہایت فتنہ انگیز اور سخت گمراہ کن ہے۔ اس تحریر میں موصوف نے سوار (رامپور) کے
حالیہ تنازعہ کو موضوع بحث بنا کر بریلوی علماء کرام اور خاص کر امام احمد رضا خاں
علیہ الرحمہ پر شنیع قسم کے الزامات عائد کئے ہیں اس سے مسلمانوں کے درمیان بڑا
فتنہ بھی سر ابھار سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اختلافی باتوں کی چھیڑے او ران
پر لڑنے جھگڑنے کا ٹھیکرا عموماًبریلوی مکتب فکر کے لوگوں کے سروں پر پھوڑا جاتاہے
جیسا کہ خود صاحب مضمون نے بھی یہی کیاہے، جب کہ وہ خود ہی اختلافات بڑھاتے اور
فتنہ انگیز باتیں کرتے ہیں۔غور کیجئے تو سوار مسجد تنازع سے متعلق گفتگو میں یہ
کہنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی کہ مولانا احمد رضا خاں نے اپنے عہد میں بڑی بڑی مسلم
شخصیات کے خلاف حکم تکفیر صادر کیا او ربریلوی علماء آج بھی تکفیر سازی کی مہم کو
آگے بڑھانے میں لگے ہیں۔ افسوس کہ کتنے ہی قاسمی اور ندوی فضلاء رقم الحروف سے یہ
شکوہ کرتے رہے ہیں کہ آپ لوگ اختلافات زیادہ کرتے ہیں اورندیم الواجدی صاحب کی تحریر
پر ان کی طرف سے کوئی رد عمل یا مذمت نہیں آئی۔ جب کہ یہی تحریر اگر کسی بریلوی کی
طرف سے شائع ہوتی اور دیوبند یا علمائے دیوبند کے خلاف اسی قسم کے الزامات کو دہرا
یا جاتا تو مذمتوں کا چوطرفہ سلسلہ شروع ہوجاتا او رہر کوئی اتحاد بین المسلمین کی
دہائی دیتے نہیں تھکتا۔
دراصل یہ قلبی طور پر
گروہ پسندی اور باہمی اتفاق کے لئے دلوں میں واقعی سچے خلوص کے نہ ہونے کی وجہ سے
ہے۔ اب جب کہ تحریر چھپ چکی ہے اور کسی بھی طرف سے اس کی مذمت نہیں کی گئی،گویا جو
کچھ لکھا گیا اسے صحیح متصور کرلیا گیا،مجبوراً راقم الحروف کو یہ تحریر سپرد قرطاس
کرنا پڑی تاکہ اس کذب و افترا کو پھلنے پھولنے سے روکا جائے۔مولانا ندیم الواجدی
صاحب نے اپنے مضمون میں الزام لگایاہے کہ مسلمانوں کے درمیان مسلکی انتشار کی
شروعات مولانا احمد رضا خاں بریلوی او را ن کے ذریعہ دیئے گئے تکفیری فتاویٰ سے
ہوئی۔ یہ سراسر بہتان او رمحض افترا ہے۔ یہ تاریخ سے ناواقفیت یا پھر دانستہ چشم
پوشی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں مسلکی انتشار امام احمد رضا سے بہت پہلے شاہ
اسماعیل دہلوی او ران کی کتاب تقویت الایمان کی وجہ سے پیدا ہوا۔ تقویت الایمان سے
پہلے غیر منقسم ہندوستان میں صرف دو گروہ تھے سنی اور شیعہ۔ تقویت الایمان کے بعد
مسلمانوں میں سنی وہابی کی تفریق پیدا ہوئی۔ اس وقت نہ مولانا احمد رضا تھے او رنہ
ان کے متبعین اور پیروکار۔ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں: ”شاہ عبدالعزیز کے
بعد جب اسماعیل دہلوی نے تقویت الایمان اور جلاء العنیین لکھی تو تمام علماء میں
ہلچل مچ گئی۔ مولانا منور امدین نے ان کے رد میں بڑی سرگرمی دکھائی،متعدد کتابیں
لکھیں اور 1240 ھ والا مشہور مباحثہ جامع مسجد دہلی میں کیا،تمام علماء ہند سے فتوی
مرتب کیا،پھر حرمین سے فتویٰ منگایا“۔ (آزاد کی کہانی ص 56،مطبوعہ دہلی) حضرت شاہ
ابوالخیر فاروقی کے فرزند مولانا زید ابوالحسن فاروق کا بیان ہے کہ: حضرت مجدد الف
ثانی کے زمانہ سے 1240ھ تک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے ایک اہل سنت و
جماعت دوسرے شیعہ۔اسماعیل دہلوی نے اردو میں تقویت الایمان لکھی، اس کتاب سے مذہبی
آزادی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد ہوا، کوئی وہابی بنا، کوئی اہل حدیث کہلایا،کسی
نے اپنے کو سلفی کہا۔(مولانا اسماعیل دہلوی اورتقویت الایمان چتلی قبر دہلی)
خودحلقہ دیوبند کے علماء نے تسلیم کیا ہے کہ تقویت الایمان ہی افتراق بین المسلمین
کا اصل اور بنیادی سبب ہے۔
ممتاز دیوبندی عالم سید
احمد رضا بجنوری لکھتے ہیں افسوس ہے کہ تقویت الایمان کی وجہ سے مسلمان ہندوپاک جن
کی تعداد بیس کروڑ ہے،اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں، جو گروہ میں بٹ گئے
(انوارالباری)۔خود مولوی اسماعیل دہلوی نے لکھا ہے کہ میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور
میں جانتا ہوں کہ ذرا تیز الفاظ بھی آگئے ہیں اوربعض جگہ تشدد بھی ہوگیا ہے۔ ان
وجوہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی اشاعت سے شورش ضرور ہوگی (حکایات اولیاء (ارواح
ثلاثہ) ص 59)۔ غرض افتراق بین المسلمین کی ابتداء تاریخی اور واقعی حیثیت سے تقویت
الایمان سے ہوئی تھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے کسی بھی صورت میں جھٹلایا نہیں
جاسکتا۔تقویت الایمان کے بعد دوسری ہنگامہ خیز کتابتحذیر الناس منظر عام پرآئی۔ جس
کے بارے میں خود مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں کہ جس وقت مولانا قاسم نانوتوی
نے تحذیر الناس لکھی ہے، کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی،
بجز مولانا عبدالحئی کے (الافاضات الیومیہ)۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں میں تفریق یا
گروہ بندی پیدا کرنے والے اکابردیوبند ہیں یا ان کی کتابیں۔ندیم الواجدی نے مولانا
احمد رضا خاں پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انہوں نے بڑی سطح پر مسلمانوں کی تکفیر
کی (نعوذ باللہ) او روہابی، قادیانی، تبرائی، رافضی سب کے کفر پر مہر فتویٰ ثبت کی
ہے۔لیکن یہاں واجدی صاحب یہ بھول گئے کہ قادیانی،رافضی،تبرائی وغیرہ خود علماء دیوبند
کے نزدیک بھی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔رہے بقیہ وہابی نیچری وغیرہ تو ان کی تکفیر
مولانا احمد رضا خاں سے پہلے بڑی تعداد میں علماء عرب و عجم کرچکے تھے۔ شاہ اسماعیل
دہلوی اور تقویت الایمان کی مخالفت گھر ہی سے شروع ہوگئی تھی۔ بقول مولانا آزاد ان
کے والد وہابیوں کے کفر پر و ثوق کے ساتھ یقین رکھتے تھے او رانہوں نے بارہا فتوی
دیا کہ وہابیہ یا وہابی کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ مولانا کے کہنے کے مطابق ان کے
والد گمراہی کی ترتیب پہلے وہابیت اور پھر نیچریت کرتے اور نیچریت کو الحاد قطعی خیال
کرتے تھے۔(آزاد کی کہانی ص 381)۔ مولانا احمد رضا کے فتویٰ تکفیر سے پہلے دو فتوے
انتہائی ذمے دار علماء رامپور (یوپی) کی طرف سے بھی آگئے تھے۔ ایک فتویٰ 1307ھ میں
مولانا نذیر احمد خاں رامپوری نے دیا اور دوسرا 1320ھ میں مولانا شاہ سلامت اللہ
رامپوری نے تحریر کیا۔ اس کے علاوہ مولانا ولی اللہ رامپوری بھی فتویٰ تکفیر دے
چکے تھے۔
امام احمد رضا بریلوی نے
تو بعد میں فتویٰ لکھا۔وہ بھی دراصل 1320ھ کوبموقع حج بیت اللہ علماء دیوبند کی
کفری عبارتوں کو علماء و مفتیان حرمین شریفین کی خدمت میں پیش کر کے ان سے فتاویٰ
لکھوائے۔ جن کا مجموعہ آج حسام الحرمین کے نام سے مشہور ہے اور جس کی تائید و توثیق
میں ہندوستان کے پشاور سے لے کر بنگال تک کے 268 علماء و مشائخ نے اپنی تصدیقات
تحریر فرمائیں او ران کی تصدیقات کا مجموعہ الصوارم الہندیہ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ
ساری تفصیلات سیکڑوں کتب و رسائل میں مذکور ہیں۔ دراصل امام احمد رضا فاضل بریلوی
نے اپنے پیش رو اور معاصر علمائے اہلسنت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی ایمانی بصیرت،علمی
صلاحیت او ر تحریری قوت سے منتشر قوتو ں کو اکٹھا کیا اور زندگی کی آخری سانس تک
باطل کے خلاف برسر پیکار رہے۔وہ مسلمانوں کے لئے فتنہ وہابیہ کو سب سے زیادہ
خطرناک او رایمان سوز خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس باب میں آپ کا نام سب سے زیادہ
مشہور ہوگیا اور آپ کو رد وہابیہ کا نشان سمجھا جانے لگا۔ مگر افسوس کہ کچھ لوگوں
کا آج کل یہ شیوہ بن چکا ہے کہ وہ دوسرے ہزاروں علماء اہل سنت کا نام چھوڑ کر صرف
احمد رضا خاں کا نام لے کر مسلمانوں کوبھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے تکفیر
کا بیڑا اٹھایااوروہابیوں کے خلاف ہندوستان میں اتنی شورش پیدا کی۔ تاریخ کی گردن
مروڑ نے والے خود ساختہ توجیہ پسندوں سے کوئی یہ پوچھے کہ شاہ اسماعیل دہلوی کے
وقت میں بھی ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے سیکڑوں ہزاروں علمائے اہل سنت
جنہو ں نے اس کی بیخ کنی کی ان میں احمد رضا خاں شامل تھے،انہیں جانے دو، صرف یہ
بتاؤ کہ 1240ھ / 1825ء میں مناظر ہئ جامع مسجد دہلی میں جو علماء اسلام شاہ اسماعیل
دہلوی او رمولوی عبدالحئی کے خلاف صف آرا تھے، اس وقت احمد رضا کی ولادت ہوئی تھی،
کیا انہوں نے ہی یہ مناظرہ کرایا تھا، اور وہ سارے علماء شہر بریلی کے رہنے والے
تھے؟ او راگر ایسا نہیں ہے تو ندیم الواجدی صاحب بتائیں کہ جب احمد رضا خاں سے بہت
پہلے ہی علماء کرام اور معاصر علماء اہل سنت نے وہابیوں کے خلاف محاذ کھول دیا تھا
او ران کی کفر ی عبارتوں پر سخت گرفت اور تکفیر فرمادی تھی تو اہل سنت کے خلاف دیوبندی
مکتب فکر کن علماء کے تکفیری فتاویٰ کی وجہ سے وجود میں آیا او رکن علما ء نے اہل
دیوبند کے خلاف تکفیر کابیڑا اٹھایا؟ انصاف شرط ہے۔ ندیم الواجدی صاحب نے قدیم تکفیری
فتاویٰ کو اب تک ترک نہ کرنے کی وجہ سے بھی علماء بریلی پر تنقید کی ہے۔ یہ تنقید
بھی بے جا ہے۔ کیونکہ شرعی احکام وفتاویٰ مرورایام کے ساتھ ناقابل قبول نہیں ہوتے
او ران کی اہمیت برابر باقی رہتی ہے۔ مثلاً آج چودہ سو سال بعد بھی اسلام کے عقائد
اپنی جگہ اٹل ہیں او رانکار تو حید یا توہین انبیاء کرکے دنیا سے رخصت ہونے والوں
کی تکفیر پر یقین رکھنا بھی نہایت اہم اور ضروری ہے۔آج پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ
علماء دیوبند نے کفری عبارتوں سے اپنے معنی مراد کی تعیین و تخصیص کردی تھی۔
حالانکہ فقہ اسلامی کا اصول ہے کہ صریح میں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کوئی شخص
اپنی بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی تو اب یہ صریح طلاق کسی ناویل کی متحمل
نہیں ہوسکے گی اور واقع ہوکر رہے گی۔ شوہر کی یہ بات نہیں مانی جائے گی کہ اس نے
مثلاً امور خانہ سے آزاد کیا ہے۔ اگرچہ اس نے طلاق سے یہی معنیٰ مراد لیا ہو۔
علماء دیوبند کی کفر ی عبارتیں (جن کی جانب ندیم الواجدی صاحب کا اشارہ ہے) کسی
تاویل و توجیہ کی متحمل نہیں، اس پر سب سے قوی دلیل یہ ہے کہ عرب و عجم میں جس نے
بھی اسے سنا کفری کلمات ٹھہرایا۔ نیز علمائے عرب و عجم نے تکفیر کرتے وقت قطعاً یہ
خیال نہیں کیا کہ ایک بات میں اگر ننانوے پہلو کفر کے اور ایک ایمان کا نکلتا ہوتو
تکفیر سے احتراز کیا جانا ضروری ہے۔لہٰذا پہلے علماء دیوبند سے ان کی مراد و نیت
معلوم کرلی جائے۔ ندیم الواجدی نے تکفیری فتاویٰ یا کفری عبارات کو پرانی ہوجانے
کے باعث شاید اس لئے قابل فراموش ٹھہرایا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں میں باہمی اتفاق
قائم ہوجائے جب کہ اس کا بہتر طریقہ صرف یہ ہے کہ علمائے دیوبند اپنے مخصوص اکابر
اربعہ اور ان کے خیال و نظریے سے دامن جھاڑ کر خالصاً لوجہ اللہ تائب ہوجائیں۔ بریلویوں
اور دیوبندیوں کے درمیان کوئی ذاتی اور شخصی تنازع نہیں، ان کے درمیان یہ کفری عبارتیں
ہی باعث نزاع اور وجہ اختلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو دین حق کے نام پر
ایک اور متحد فرمائے۔ آمین۔(مضمون نگار کاتعلق رامپور سے ہے)
Maulana Nademul Wajidi’s Article
is available at:
https://www.newageislam.com/urdu-section/the-reality-deobandi-barelvi-dispute/d/1578
URL: https://newageislam.com/urdu-section/nasir-misbahi-rejects-maulana-wajidi’s/d/1584