New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 01:39 PM

Urdu Section ( 11 Oct 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Quran and the Golden Rule قرآن اور سنہرا اصول

نصیر احمد، نیو ایج اسلام

8 اکتوبر 2016

میں نے (Religion as a Civilizing Influence) کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں جو کہ ساڑھے تین سال پہلے میں نے تحریر کی تھی، یہ دلیل پیش کی ہے کہ دین کے اخلاقی اصولوں نے ہی ہمیں مہذب اور متمدن بنایا ہے اور ان کے بغیر ہم وحشی طرز زندگی سے ایک مہذب زندگی کی طرف اپنا رخ کرنے کے قابل کبھی نہیں ہوسکتے تھے۔ تاہم، میں نے اپنے مضمون میں اس بات کا تعین نہیں کیا تھا کہ وہ پہلا اخلاقی اصول کیا ہو سکتا ہے جو انسان کے اندر اتنی بڑی تبدیلی پیدا کرنے میں معاون ہو۔ جدید تحقیقات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنہرا اصول ہی سب سے پہلا اخلاقی اصول ہو سکتا ہے جو کہ ہر تہذیب اور ہر مذہب کے درمیان مشترک ہے۔ چارلس گبن (Charles Gibbon) نے 1604 میں سب سے پہلے لفظ سنہرا اصول کا استعمال کیا تھا۔ سنہرے اصول کی سب سے مشہور تعلیم یہ ہے کہ"دوسروں کے ساتھ ایسا معاملہ کرو جیسا تم دوسروں سے اپنے لیے توقع رکھتے ہو۔"منفی شکل میں بھی اس سنہرے اصول کی ایک تعلیم ہے: "دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے جیسا تم دوسروں سے اپنے لیے نا پسند کرتے ہو۔"

وحشی طور پر ہم نے دیگر کمیونٹیز سے الگ تھلگ ہو کر ایک چھوٹی کمیونٹی کے طور پر زندگی گزاری ہے، ہمارے درمیان باہمی اعتماد کا زبردست فقدان تھا، جس کی وجہ سے اکثر شب خون اور اچانک ایک دوسرے پر حملے ہوتے رہتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موت کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ یہ دیکھنا بہت آسان ہے کہ کس طرح اس سنہرے اصول نے ایسے لوگوں کو تبدیل کر دیا۔ ایک مرتبہ جب اس اصول کو ایک مشترک مذہب کے لوگوں نے قبول کر لیا اور اس پر جب وہ عمل پیرا ہو گئے تو ان کے درمیان تعاون اور باہمی اعتماد کی روایت شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں شرح اموات کم ہو گئی۔ ایک بڑی جماعت میں امن مشترکہ اقدار سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ یہی مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ آج بھی لوگ اپنے ہم مذہبوں پر یقین کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ اسی لیے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک مشترکہ قدر دریافت کرنے کے لیے بین المذاہب مکالموں کا انعقاد ضروری ہے۔

یہ اصول تلمود، توریت، بائبل اور دوسرے تمام مذاہب اور تہذیب میں پایا جاتا ہے۔

مصر:

"اب حکم یہ ہے کہ: دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو تاکہ تمہارے ساتھ بھی بھلائی کی جائے۔" (C2040 - C 1650 BC)

c 664 (BC - 323 BC کے اواخر میں پیپرس اس سنہرے اصول پر مشتمل تھا: "جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو۔"

یونان

"ایسا کام چھوڑ دو جس کے لئے تم دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراؤ گے۔" - تیلس (۔C624 BC -۔ C 546)

چین

"دوسروں پر وہ چیز کبھی مسلط نہ کرو جو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔" - کنفیوشس سی۔ 500 قبل مسیح)

"اپنے پڑوسی کے نفع کو اپنا فائدہ سمجھو، اور اپنے پڑوسی کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھو۔' - لاوزی (Laozi)(۔ c 500 قبل مسیح)

بھارت

کسی بھی انسان کو وہ کام کبھی نہیں کرنا چاہئے کہ جسے وہ خود کے لئے نقصان دہ مانتا ہے، یہ مختصر طور پر دھرما کا اصول ہے۔ دیگر رویے بےلوث خواہشات کی وجہ سے ہیں۔ – بریہس پتی، مہا بھارت

اہل علم کا کہنا ہے کہ:

"........ متعدد مطالعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس (سنہرے اصول) کی تمام بڑے اور چھوٹے مذاہب میں توثیق کی گئی ہے۔" ​​(نیل ڈکس بیوری(Neil Duxbury))

سنہرا اصول عملی طور پر دنیا کے تمام مذاہب میں مشترک ہے۔ (جیفری واٹیلس)

دلچسپ بات یہ ہے کہ جیفری واٹیلس نے اسے "خدا کے خاندان کے عمل کا ایک اصول۔" قرار دیا ہے جو واسودھائیوا کٹمبھہ کاما کے تصور سے مشابہت رکھاتا ہے۔

قرآن مجید میں سنہرا اصول

سنہرا اصول خیر سگالی کی کہاوت سے مختلف ہے اور بدلے میں کسی بھی شئی کی امید کے بغیر ہی دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک یکطرفہ اخلاقی عمل ہے۔ قرآن مجید میں سنہرا اصول کو سب سے بہترین شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ہمیں نیکی کے ساتھ برائی کو دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ جب کسی پر ظلم کیا جاتا ہے تو ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے ہمیں چوٹ پہونچایا ہے یا اگر خود ہم اس مقام پر ہوں تو ہم بھی اس مظلوم کی جانب سے کسی اچھے سلوک کی توقع نہیں کر سکتے، اور ہو سکتا ہے کہ ہمارا عمل اسی استدلال کے مطابق ہو۔ قرآن ایسے استدلال کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے اور ہمیں برائی کا بدلہ بھلائی کے ساتھ دینے کا حکم دیتا ہے۔

41:34۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔

35۔ اور یہ (خوبی) صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ (توفیق) صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے۔

36۔  اور (اے بندۂ مومن!) اگر شیطان کی وسوسہ اندازی سے تمہیں کوئی وسوسہ آجائے تو اﷲ کی پناہ مانگ لیا کر، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

قرآن اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ اس طرح ایک اعلی اخلاقی معیار پر مبنی رویہ مشکل ہے لیکن اس معیار کا رویہ اپنے اندر پیدا کرنے کا راستہ بھی قرآن دکھاتا ہے اور ہمیں اس اصول کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور اس کا مقصد ایک دشمن کو ایک قریبی دوست بنانا ہے۔ یہ معافی سے بھی بڑی شئی ہےاس لیے کہ معافی میں برائی کے بدلہ اچھائی کے ساتھ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

اس بات کی تصدیق کہ یہی پیغام اس سے پہلے کے رسولوں کو بھی دیا گیا تھا

41:43۔ اے حبیب!) جو آپ سے کہی جاتی ہیں (یہ) وہی باتیں ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی جا چکی ہیں، بے شک آپ کا رب ضرور معافی والا (بھی) ہے اور درد ناک سزا دینے والا (بھی) ہے۔

"یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ (کی وحی) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن (یہ) ان (کتابوں) کی تصدیق (کرنے والا) ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوچکی) ہیں اور جو کچھ (اللہ نے لوح میں یا احکامِ شریعت میں) لکھا ہے اس کی تفصیل ہے، اس (کی حقانیت) میں ذرا بھی شک نہیں (یہ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہے۔"(10:37)

مندرجہ ذیل آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہی پیغام تمام اقوام عالم کو دیا گیا تھا

41:52۔ "فرما دیجئے: بھلا تم بتاؤ اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے (اُترا) ہو پھر تم اِس کا انکار کرتے رہو تو اُس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو پرلے درجہ کی مخالفت میں (پڑا) ہو۔"

مذکورہ آیت مبارکہ کا پیغام یہ ہے کہ:

تم خود ہی دیکھ لو کہ وحی حقیقۃً اللہ کی طرف سے ہے اور تم اس سے انکار کرتے ہو! اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو سچائی جانتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کرتا ہے اور اس سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کرتا ہے؟ ایسا شخص بغیر کسی مقصد کے خدا تعالی کی مخالفت اور دشمنی میں تمام حدیں پار کر چکا ہے۔

41:53۔ ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے؟

دنیا کے دور دراز علاقوں کی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے قدیم مذاہب میں بھی ہم یہ سنہرا اصول پایا جاتا ہے اور یہ تمام باتیں اس حقیقت کی علامت ہیں کہ اسے اللہ نے دنیا کے تمام حصوں میں تمام لوگوں کے لیے نازل کیا ہے۔ یہ سچ ہر انسان پر ظاہر ہوجائے گا اور خود خدا اس کا گواہ ہو گا۔ اگر کوئی اس کے بعد کفر کرتا ہے تو یہ حق اس پر ظاہر ہو جانے کے بعد ہوگا۔

یہ سورۃ 7ویں صدی میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب لوگوں کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ یہی اصول ہر تہذیب میں مشترک ہے۔ یہ 16ویں صدی کی ایک دریافت ہے، اس لیے کہ سورۃ:

1۔ ہمیں سب سے بہترین سنہرا اصول فراہم کرتی ہے

2۔ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہی اصول پچھلے تمام نبیوں کو دیا گیا تھا

3۔ اس بات کی پیشین گوئی کرتی ہے کہ خدا دور دراز کے علاقوں میں ہمیں اس کی نشانیاں دکھائے گا جو اس بات کا ثبوت ہو گی کہ یہ وحی واقعی اللہ کی طرف سے ہے۔

کیا جلد ہی نشانی دکھانے میں ایک ہزار سال سے زیادہ انتظار کیا گیا تھا؟

ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہو۔ (22:47)

اللہ کے لئے یہ ایک ہزار سال صرف ایک دن کی طرح ہے۔ اس کے علاوہ، اسے 7ویں صدی میں ہی ظاہر کیا گیا تھا، اگر اس کا ظہور اسی زمانے میں ہو گیا ہوتا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لیے کہ اس وقت اس کی تصدیق ممکن نہ تھی۔

قرآن مجید میں ایسی کئی آیات موجود ہیں جن میں اس پیغام کو دہرایا گیا ہے کہ زمین پر ہر قوم کی ہدایت کے لیے ایک نبی بھیجا گیا تھا۔

"اور ہر امت کے لئے ایک رسول آتا رہا ہے"۔ (10:47)

"اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو۔ "(قرآن 16:36)

"اور کوئی امّت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہے۔" (35:24)

"اور (ہم نے کئی) ایسے رسول (بھیجے) ہیں جن کے حالات ہم (اس سے) پہلے آپ کو سنا چکے ہیں اور (کئی) ایسے رسول بھی (بھیجے) ہیں جن کے حالات ہم نے (ابھی تک) آپ کو نہیں سنائے "۔ (4:164)

"اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسولوں کو بھیجا، ان میں سے بعض کا حال ہم نے آپ پر بیان فرما دیا اور ان میں سے بعض کا حال ہم نے (ابھی تک) آپ پر بیان نہیں فرمایا۔" (40:78)

ان آیات پر اہل علم کی تفسیر:

آیت 41:53 "ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔" کو صرف مستقبل میں اللہ کی جانب سے واضح کیا جانا تھا، اسی لیے اس آیت پر علماء کرام کی تشریحات قیاس آرائی پر مبنی ہیں اور مکمل طور پر بے جا ہیں۔ یہی آیت نور کے بارے میں بھی سچ ہے، جیسا کہ اس پر میرے مضمون " آیت نور کی توضیح و تشریح" میں گفتگو کی گئی ہے۔ خدا کی یہ منشا تھی کہ بعض آیات کے معنیٰ کو مناسب وقت پر صرف مستقبل میں ظاہر میں ہی ظاہر کیا جائے ۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب مغربی تعلیم میں اس امر کو ایک حقیقتِ مسلمہ مان لیا گیا ہے کہ مذہب صرف انسانی دماغ کی اختراع ہے اور خدا جیسی کسی بھی حقیقت کا کوئی وجود نہیں ہے، اس بات کی ضرورت شدید ہو چکی ہے کہ قرآن اپنی سچائی کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے ظاہر کرے۔

41:52۔ فرما دیجئے: بھلا تم بتاؤ اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے (اُترا) ہو پھر تم اِس کا انکار کرتے رہو تو اُس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو پرلے درجہ کی مخالفت میں (پڑا) ہو؟"

میرے مضمون "آیت نور کی توضیح و تشریح" سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام غزالی کا مشہور زمانہ رسالہ مشکوٰۃ الانورایک فاش غلطی کا شکار ہے جس سے انہیں واقف ہونا چاہیے اور یہاں تک کہ ان کی یہ غلطی ایک بچے پر بھی واضح ہونی چاہیے۔ چونکہ اس آیت کی صحیح تشریح ان کے زمانے میں کسی عالم کے لئے ممکن نہیں تھی اسی لیے اس کی عدم صحت اس کی اگلی اۤیت سے واضح ہے کہ جس سے یہ امر عیاں ہے کہ روشنی انسان کا غیر ہے۔ وہ ایسی کیا بات تھی جس نے امام غزالی کو ایک غلط تشریح پیش کرنے پر مجبور کر دیا اور وہ اس خامی یا کمی کو پہچان بھی نہ سکے؟ وہ ایک ایسے عالم بھی ہیں جو اسلام کے اندر اجتہاد کے اختتام کی وکالت کے لیے ذمہ دار ہیں، جب کہ ایک واحد آیت کو سمجھنے میں ان کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہر حقیقت کو دریافت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ آیت 41:53 اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اب مزید سچائیاں مستقبل میں ظاہر ہونے والی ہیں۔ ایسے کسی اہل علم کا اپنے مقام سے گر جانا مناسب ہے جس کے نتیجے میں ایسے تمام علماء کی تقلید کا دروازہ بند ہو اور اجتہاد کا دروازہ کھل جائے۔ ماضی یا دور حاضر کے کسی بھی عالم نے امام غزالی کی اس تشریح کو شک اور اعتراض کے دائرے میں لانے کے لیے علمی اور فکری دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، بلکہ کم و بیش ان تمام نے امام غزالی کی پیروی کی ہے۔ کسی نے بھی ان پر تنقید نہیں کی ہے۔ اس طرح کی کمزور علمی لیاقت اور اندھی تقلید سے اگر تعصب اور انتہا پسندی کا فروغ ہوتا ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس حقیقت کا ادراک ہو جانے کے بعد ماضی کی تمام غلطیوں کی اصلاح کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ جتنے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام کے اندر اس جمود و تعطل کی حقیقت کا علم ہوگا ہو سکتا ہے کہ ہم تعصب اور ہر قسم کی انتہا پسندی سے آزاد ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں اتنے ہی قابل ہو سکیں گے۔ اس کے لیے اس کا قرآن کی ایک ایسی تفہیم پر مبنی ہونا ضروری ہے جو "اسلامی" ادب کے ہر دوسرے ماخذ کی آلودگی سے پاک ہو۔

اس سورۃ پر اکثریت کا رد عمل کیا ہوگا

41:5۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارے دل اُس چیز سے غلافوں میں ہیں جس کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں اور ہمارے کانوں میں (بہرے پن کا) بوجھ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان پردہ ہے سو آپ (اپنا) عمل کرتے رہئے ہم اپنا عمل کرنے والے ہیں۔

41:40۔ بے شک جو لوگ ہماری آیتوں (کے معنی) میں صحیح راہ سے انحراف کرتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں، بھلا جو شخص آتشِ دوزخ میں جھونک دیا جائے (وہ) بہتر ہے یا وہ شخص جو قیامت کے دن (عذاب سے) محفوظ و مامون ہو کر آئے، تم جو چاہو کرو، بے شک جو کام تم کرتے ہو وہ خوب دیکھنے والا ہے۔

سچ کو سامنے لانے اور اس کی حمایت کے انعامات

(39:32) سو اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور سچ کو جھٹلائے جبکہ وہ اس کے پاس آچکا ہو، کیا کافروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے؟

(33) اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیں۔

 (34) اُن کے لئے وہ (سب نعمتیں) ان کے رب کے پاس (موجود) ہیں جن کی وہ خواہش کریں گے، یہی محسنوں کی جزا ہے

(35) تاکہ اللہ اُن کی خطاؤں کو جو انہوں نے کیں اُن سے دور کر دے اور انہیں ان کا ثواب اُن نیکیوں کے بدلہ میں عطا فرمائے جو وہ کیا کرتے تھے۔

آفاقی سچائی کو اجاگر کرنے اور ان کی حمایت کے انعامات واضح وجوہات کی بنا پر عظیم الشان ہیں۔ یہ سچائیاں ایک غیر فعال اور گمراہ قوم کی تجدید کر سکتی ہیں۔ اللہ حق کی طرف ہماری رہنمائی کرے اور ہمیں اس کی حمایت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/the-quran-golden-rule-‘do/d/108800

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-quran-golden-rule-/d/108829

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..