نصیر احمد، نیو ایج اسلام
21 نومبر 2017
کافر کے معنی پر اس بحث و تمحیص میں یہ بات واضح ہو گئی کہ لوگوں کو ان مختلف طرز کلام سے واقفیت نہیں ہے جن میں اللہ مختلف قوموں سے خطاب کرتا ہے، اور جو قرآن میں مومنوں کے لئے سچ ہے وہ انہیں کافروں کے بارے میں بھی سچ مانتے ہیں۔ یہ صرف قرآن کے طرز کلام سے عدم واقفیت ہی نہیں بلکہ ان متعلقہ آیات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی ہے جن میں مختلف قوموں کے بارے میں مختلف انداز سے خطاب کیا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل آیات پر غور کریں:
(33:72) ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وه بڑا ہی ظالم جاہل ہے؛-( 73) (یہ اس لئے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے، اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ اور مہربان ہے۔
عذاب اور انعامات کا تعین ایمان قبول کر لینے یا حق جاننے کے بعد یا تکبر کی بنا پر اسے مسترد کر دینے کے بعد ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ اگر انسان بے وقوف اور خود پر ظلم کرنے والا نہیں ہوتا اور اس زمین پر خدا کے نائب ہونے کا اعتماد نہیں کھوتا تو نہ کسی پیغمبر کی نہ کسی وحی کی یا نفاق یا شرک وغیرہ پر کسی سزا کی کوئی ضرورت نہیں پیش آتی۔ انسان زمین پر کسی دوسری مخلوق کی طرح حق اور باطل کے معیار کو جانے بغیر ہی زندگی گزارتا۔
جب ایک بار خدا نے اپنے رسولوں کو بھیج دیا اور اپنی آیتوں کو نازل کر دیا تو اپنی وحی کے ذریعہ نازل کردہ ہدایات کی روشنی میں انسانوں کے اعمال کا فیصلہ کر کے انہیں سزا دینا یا انہیں انعام دینا خدا کے اوپر لازم ہو گیا۔ وحی کے بغیر نہ کوئی مومن ہے نہ کافر اور نہ منافق اور نہ ہی کفر، شرک یا نفاق وغیرہ گناہوں کے لئے کوئی عذاب ہے۔
اب یہ سمجھنا آسان ہے کہ کفر موصولہ پیغام سے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر سبت کا دن منانا موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے لئے مشروع تھا دوسرے لوگوں کے لئے نہیں۔ مسلمانوں کے لئے کوئی سبت نہیں ہے اسی لئے سبت کی خلاف ورزی مسلمانوں کے لئے نہ کفر ہے اور نہ ہی اس پر ان کے لئے کوئی سزا ہو سکتی ہے۔ قرآن سے ہم یہ جانتے ہیں کہ یہودیوں کو سبت کے دن کی خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں عبرتناک سزا دی گئی تھی۔
یہودیوں کو عیسی {علیہ السلام} کی پیروی کرنے کا حکم دیاگیا ہے اس لئے کہ ایسا کرنے کی وجہ سے ان پر سے سبت کی پابندی اور اس سے قبل ایک سزا کے طور پر مسلط ان پر سخت غذائی پابندیوں کے بوجھ میں انہیں کچھ راحت محسوس حاصل ہوتی ہے۔
(4:160) جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وه ہم نے ان پر حرام کردیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راه سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث۔
(3:50) " اور میں توراة کی تصدیق کرنے واﻻ ہوں جو میرے سامنے ہے اور میں اس لئے آیا ہوں کہ تم پر بعض وه چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی ﻻیا ہوں، اس لئے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو!۔
اسی طرح اہل کتاب (یہود و نصاری دونوں) کو محمد {ﷺ} کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے کہ یہ ‘‘انہیں ان کے بھاری بوجھ سے اور ان کے طوق سے راحت دلاتی ہے جو ان کے اوپر ہے’’۔
(7:157) "جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وه لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وه ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزه چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان ﻻتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں"۔
یہودیوں اور عیسائیوں کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے صحیفے پر عمل کریں اور اس بوجھ تلے دبے رہیں جو ان کے اوپر مسلط کر دی گئی ہے اور ان کا فیصلہ انہیں قوانین کی روشنی میں کیا جائے گا۔
صرف عرب ہی ایک ایسی مہذب و متمدن زمین بچی تھی جس میں ایک رسول بھیجا جانا تھا۔ اور باقی تمام مہذب و متمدن دنیا پہلے سے ہی اہل کتاب تھی۔
5:48 "۔۔۔ ۔۔ تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راه مقرر کردی ہے۔ اگر منظور مولیٰ ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو، تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وه تمہیں ہر وه چیز بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو’’۔
مختلف قوموں کا فیصلہ ان کے لئے مقرر کردہ قانون کی روشنی کیا جائے گا۔ اہل کتاب کے لئے کیا قوانین مقرر کئے گئے تھے جنہیں انہوں نے نظر انداز کر دیا قرآن میں موجود ہے اور عام لوگوں کے لئے کیا قوانین مقرر کئے گئے تھے جنہیں انہوں نے اپنے مذہب میں بدعنوانی کی بناء پر نظر انداز کر دیا ہے وہ بھی قرآن میں موجود ہے۔
قرآن مختلف جماعتوں سے مختلف انداز میں خطاب کرتا ہے۔ مختلف گروہ حسب ذیل ہیں:
1۔ قرآن اور حضرت محمد ﷺ پر ایمان رکھنے والے
2۔ یہودی یا بنی اسرائیل
3۔ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی دونوں)
4۔ آدم کی اولاد یا تمام انسان
درجہ بندی کے حساب سے ایک مومن کے لئے گناہوں کی فہرست:
1۔ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا یا 'شرک' کرنا ایک ناقابل معافی گناہ ہے (4:116) اور ایمان کا انکار ہے
2۔ سود لینا، مالی حیثیت کے مطابق زکوٰۃ نہ دینا ، یا توہین کرنے یا دکھاوا کرنے کے لئے زکوٰۃ ادا کرنا ، نماز کو نظر انداز کرناایک مؤمن کوخدا کا بڑا ناشکرا باغی بناتا ہے اور یہ عملی طور پر کفر ہے۔ یہ ایک مومن کو اس کی ناشکری کی بنیاد پر کافر اور آخرت میں جہنم کا مستحق بنا تا ہے۔
3۔ شرمناک اعمال، زنااور بدکاری وغیرہ
4۔ غذائی اور دیگر ممنوعات مثلاً جوا وغیرہ کھیلنا۔
اہل کتاب کا بھی وہی نصاب ہے جو مومنوں کے لئے ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح خدا کے بیٹے ہیں اور تثلیث پر ان کا عقیدہ شرک اور کفر دونوں ہے۔ کیا وہ سب کے سب اس وجہ سے جہنم میں جائیں گے؟ جواب ان لوگوں کے لئے ‘نہیں’ ہے جو نیک نیتی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے ‘ہاں’ ہے جو اسے شرک اور کفر جانتے ہوئے اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ میرے درج ذیل مضمون میں تفصیل کے ساتھ اس پر بحث کی گئی ہے:
کیا قرآن کریم تضادات سے پر ایک کتاب ہے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر جھوٹ اور غلط پر مطلع ہوئے بغیر اگر کوئی منحرف آسمانی صحیفے کی بھی پیروی کر تو وہ بخشش کا حقدار ہے۔
باقی پوری انسانیت کے لئے قرآن کا کیا حکم ہے؟
(7:33) آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔
شرک حرام ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے ناقابل معافی گناہ نہیں ہے جو علم کے فقدان کی وجہ سے اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل انتباہ ان لوگوں کے لئے ہے جو علم کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ تکبر کی بناء پر رسول اللہ (ﷺ) کو جھٹلاتے ہیں:
(35) اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے، (36) اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وه لوگ دوزخ والے ہوں گے وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، (37) سو اس شخص سے زیاده ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے، ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وه ان کو مل جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وه کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وه کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے، (38) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی، ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ۔"
اس بحث و تمحیص میں لوگ ان آیات کا حوالہ پیش کر رہے ہیں جو مشرکین پر لاگو ہی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر:
(31:13) اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔"
یہ آیت 4:116 سے مختلف نہیں ہے جو مومنوں کے لئے شرک کو ایک ناقابل معافی گناہ قرار دیتی ہے۔ لقمان ایک مومن ہیں اور وہ اپنے بیٹے کو صحیح ہدایت دے رہے ہیں۔ اس کا اطلاق تمام "کافروں" پر اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح 4:116 کو ان پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ تمام "کافروں" پر تنبیہ کے ساتھ صرف 7:33 کو لاگو کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ ذیل آیت پر غور کریں جس میں یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں سے خطاب کر رہے ہیں:
12:87 "۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں"۔
تقوی کا مطالبہ محتاط رہنا اور حد سے تجاوز نہ کرنا ہے۔ لہذا کوئی اپنے لئے یا اپنے بچوں کے لئے یا اپنے پیروکاروں کے لئے مشروع سے بڑھ کر ایک سخت انداز میں حدود کا تعین کر سکتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے نا امید ہونا خدا پر ایمان کی کمی ایک نشانی اور کفر کی علامت ہے۔ تاہم کیا کوئی اس بنا پر کافر ہو جاتا ہے؟ جبکہ صبر کا مظاہرہ کرنا اور اللہ کی رحمت پر امید رکھنا ایمان کی ایک نشانی ہے، شدید آزمائش میں ناامیدی کا اظہار تو رسولوں نے بھی کیا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت سے واضح ہے:
(2:214) کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک تم پر وه حاﻻت نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔
اس فرق کو اجاگر کرنا فقہا کا کام ہے، لیکن ان کا عمل یعقوب (علیہ السلام ) کی طرح ہےاور وہ مشروع سے کہیں زیادہ سخت انداز میں ہر بات کا اطلاق تمام بنی نوع انسان کے لئے کرتے ہیں اور شاید انہیں یہ لگتا ہے کہ ایسا کر نے سے وہ متقی یا بہتر مومن بن جائیں گے۔ یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹوں کے لئے اپنے مشورے کے تناظر میں درست تھے، لیکن اگر اسے ہر مومن یا تمام انسانوں پر لاگو کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ یہ درست نہ ہو۔
اگر لوگ کوئی کام نیک نیتی کے ساتھ بغیر کسی غفلت ، کسی انکار کے یا حق پر مطلع ہونے کے بعد اس کا انکار کئے بغیر کرتے ہیں تو اللہ کی بخشش کا دروازہ ان کے لئے کھلا ہے، خواہ وہ "مومن" ہوں یا "کافر"۔ اور جہاں تک بات اس سوال کا ہے کہ کیا تمام مشرکین کافر ہیں یا نہیں ہیں ، تو اس کا سادہ پیمانہ قرآن کی کسی بھی آیت میں مشرکین کو کافرین کا متبادل تلاش کرنا اور ان تضادات کو دریافت کرنا ہے جو اس نتیجے تک لے جاتے ہیں۔ یہاں اس سے بہتر کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا کہ قرآن کی کسی بھی آیت میں تمام مشرکین کافر نہیں ہیں۔ لہٰذا ، لوگوں کو اسے قبول کرنے میں تردد کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہمارے فقہاء ہیں جنہوں نے اپنی تشویش میں لفظ شرک کو اتنا خطرناک لفظ بنا کر پیش کیا ہے تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ مومن ان حدود کے اندر بہتر ہیں جنہیں ہمارا دماغ یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ اگر وہی سخت قوانین دوسرے لوگوں پر لاگو کر دئے جائیں تو یہ ناانصافی ہوگی۔ ہمیں خدا کے بنائے ہوئے اختلافات کو قبول کرنے سے انکار کر کے اس کی توہین نہیں کرنی چاہئے۔ ہم اسی پیمانے سے ہر انسان کا فیصلہ نہ کریں جس کا اطلاق صرف ہمارے اوپر ہوتا ہے۔
URL: https://newageislam.com/debating-islam/the-nuances-quranic-diction/d/113296
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-nuances-quranic-diction-/d/113357
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism