نصیر احمد، نیو ایج اسلام
27 دسمبر 2017
لفظ کافر کے مادہ (کفر) کے معانی مسترد کرنے، رد کرنے، چھانے ، ڈھانپنے، محو کرنے، مٹانے اور مسخ کرنے کے ہیں۔ کون انکار کرنے والا ہے اور کس بات کا انکار کیا جا رہا ہے یہ اس کے معنی کا حصہ نہیں ہے۔ اللہ ہمارے گناہوں کو مٹانے کی وجہ سے کافر ہے، کسان مٹی کو بیج سے ڈھاپنے کی وجہ سے کافر ہے، ایک مومن جھوٹے معبودوں کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہے، ایک غیر مؤمن خدا کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہے، شیطان اللہ کی اطاعت کے حق سے انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہے ، موسی اپنے آبا و اجداد فرعون کو عباد کئے جانے کے حق سے محروم کرنے کی وجہ سے کافر ہیں۔ قرآن کے اندر لفظ کافر کا استعمال ان تمام معانی میں ہوا ہے۔ جہاں جہاں لفظ کافر کا استعمال ہوا ہے ان تمام مقامات پر اس کے مادہ یعنی کفر کا معنی موجود ہے۔
لفظ کافر کے معنی کی تفہیم
شیطان سب سے پہلا کافر تھا۔ کس بات نے اس کو کافر بنا دیا؟ وہ کوئی غیر مؤمن نہیں تھا اور نہ ہی اس نے ایمان کا یا حق کا انکار کیا تھا۔ اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ وہ اللہ کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ناشکرا باغی ( کافر ) بن گیا۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
(2:34) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وه کافروں میں ہوگیا۔
اب کسی چیز کو چھپانے کے معنیٰ میں کفر کے اصل معنی پر واپس آتے ہیں، شیطان کیا چھپا رہا تھا؟ اس نے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کا شکرگزار بننے کی خدا داد عقلی صلاحیت، دلیل اور فطرت کو چھپایا، یا اس پر اس کے تکبر اور آدم سے بغض و حسد کا غلبہ ہو گیا جنہیں اس نے خود سے کمتر سمجھا۔
قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
(15:39) (شیطان نے) کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراه کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس نے آدم اور ان کی ذریۃ سے قیامت تک دشمنی نبھانے اور انہیں اللہ کے راستے پر چلنے سے روکنے کا وعدہ کیا ۔ لہٰذا، اپنے تکبر، حسد، نفرت اور دیگر بری خصلتوں سے اپنی فطری اچھائیوں، منطقی سوچ اور عقلی صلاحیتوں کو چھپا لینا، اور شیطان کی طرح، فعال طور پر صرف ایمان کی بنیاد پر اور اس وجہ سے کہ وہ نیکی کی دعوت دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں مؤمنوں کی مخالفت کرنا اور ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا کفر ہے۔ ایمان سے انکار کی وجہ سے جولوگ کافر ہیں ، وہ "ایمان" قبول نہ کرنے والے یا "کافر" نہیں ہیں اور نہ ہی اپنی ذاتی زندگی میں وہ گنہگار ہیں، بلکہ وہ اچھے ایمان والوں کے فعال دشمن، ان پر ظلم و ستم کرنے والے اور شیطان کی طرح خدا کے دشمن ہیں۔
موسی (علیہ السلام) کو فرعون نے کافرکہا!
قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ ۔ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ
(26:18) فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں اپنے ہاں نہیں پاﻻ تھا؟ اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟ (19)پھر تو اپنا وه کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں ہے!
اس آیت میں کافر کا لفظ ناشکری اور بغاوت کے معنیٰ میں ہے۔ اس کا ایمان یا عقیدے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ موسی ( علیہ السلام ) اللہ کے حکم کی پیروی کر رہے تھے، لیکن فرعون کے نقطہ نظر سے، جس نے ایک بیٹے کے طور پر ان کی پرورش کی تھی؛ وہ واقعی ایک باغی تھے جو فرعون کے خلاف کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنے بیٹے پر اطاعت کے ایک باپ کے حقوق سے انکار کیا۔
مومنوں کا ذکر بطور کافر
وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(9:90) بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وه بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی۔
اس آیت میں لفظ کافر ان لوگوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا تھا اور جو خود کو مسلمان بتاتے ۔ وہ نافرمان باغی تھے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
(2:254) اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وه دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔
اس آیت میں کافر اور ظالم کون ہیں؟ جو خدا کی نعمتوں کو خرچ نہیں کرتے ہیں۔ اس آیت میں کافرون اور ظالمون سے وہ مومنین مراد ہیں جو اللہ کی نعمتوں کو خرچ نہ کر کے اللہ کی ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ناشکرے باغی ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
(2:264) اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وه شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زوردار مینہ برسے اور وه اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے، ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راه نہیں دکھاتا۔
بلکہ اس آیت میں کافرین سے مراد ایمان والے ہیں، جو اپنے مال کو نام و نمود کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہدایت سے محروم رہیں گے۔
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
(4:37) (اللہ ان لوگوں سے محبت نہیں کرتا) جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔
آیت 4:29 کا آغاز مومنوں سے خطاب کے ساتھ ہوتا ہے اور آیت 4:37 میں بھی 4:29 مومنوں کے لئے اسی پیغام کا ذکر ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
(3:130) اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے ، (131) اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے:
مومنین ہی سود کھاتے ہیں جنہیں آگ سے ڈرنے کے لئے کہا گیا ہے اور جو مومن سود کھاتے ہیں کافرین ہیں۔
مذکورہ بالا تمام آیات میں اکثر مترجمین نے کافرین کا ترجمہ "ایمان کا انکار کرنےوالے" یا "کافروں" کیا ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ ان میں خطاب مومنوں سے ہے اور وہ ایمان لانے والے اور ایمان کا انکار کرنے والے یا کافر دونوں نہیں ہوسکتے۔ معاملہ کی حقیقت یہ ہے کہ، چونکہ اس آیت کے مخاطب مومن ہیں، اسی لئے سود وغیرہ ان کے لئے کفر ہے لیکن کافروں کے لئے نہیں۔ یا یہ کہ اس میں تمام آدمیوں یا "آدم علیہ السلام کی تمام اولاد" کا ذکر ہے۔
جو لوگ آخرت میں جھوٹے معبودوں کو جھٹلائیں گے انہیں کافرین کہا گیا ہے
وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَ
30:13- اور ان کے تمام تر شریکوں میں سے ایک بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور (خود یہ بھی) اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔
مندرجہ بالا آیت کے مطابق شرک کو مسترد کرنے کی وجہ سے کوئی کافر ہو سکتا ہے۔ دراصل باطل کو مسترد کرنے کی وجہ سے بھی کوئی کافر بن سکتا ہے۔
کافر کا مطلب کسان ہے
كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا
57:20 جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وه خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو۔
لفظ کفر کا استعمال ہمارے گناہوں کو مٹانے کی وجہ سے خدا کے لئے استعمال کیا گیا ہے
رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَار
3:193 یا الٰہی اب تو ہمارے گناه معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر۔
فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ
3:195 اس لئے وه لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور جنہیں میری راه میں ایذا دی گئی اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کئے گئے، میں ضرور ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور بالیقین انہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ ہے ﺛواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ
(5:65) اور اگر یہ اہل کتاب ایمان ﻻتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کی تمام برائیاں معاف فرما دیتے اور ضرور انہیں راحت و آرام کی جنتوں میں لے جاتے۔
قرآن مجید میں کافر کا معنی وہی ہے جو اس کے مادہ کفر کا ہے۔ کافر ایک غیر جانبدار اصطلاح ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو:
چھپاتے ہیں، محو کرتے ہیں، مٹاتے ہیں، ہٹاتے ہیں، رد کرتے ہیں یا مسترد کرتے ہیں۔
لہذا، جن آیتوں میں بھی کفرو، کافرین، کافرون وغیر الفاظ مذکور ہوں ، ضروری ہے کہ ان میں کفر کی نوعیت کا لحاذ کیا جائے، اور وہ آیتیں صرف انہیں لوگوں کو شامل ہوں گی جو اس کفر میں ملوث ہیں۔ اگر چہ کافر کا مطلب ایمان کو مسترد کرنے والا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن قرآن مجید میں کسی بھی آیت میں اس کا مطلب کافر نہیں ہے کیونکہ کافر کا لازمی معنی وہ نہیں ہے جس نے ایمان کا انکار کیا ہو۔
انسان کو کافر قرار دینا (یعنی) ایمان کا نہ ہونا کیا خود کفر نہیں ہے ؟
"ایمان لانے" کا متضاد "ایمان کو مسترد" کرناہے جو کہ کفرہے اور اس سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔ کسی بات کو مسترد کرنا عدم قبولیت کے مساوی نہیں ہے اور اس کا ارتکاب دشمنی پر مبنی کسی عمل کے ذریعہ یا ایمان کی حقانیت واضح ہو جانے کے بعد بھی کیا جاتا ہے اور خود ان کا نفس ان کے کفر کے خلاف گواہ بن سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات میں اس حد کا تعین کیا گیا ہے جس سے اوپر اٹھنے کے بعد مشرک ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
(41:53) عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاه ہونا کافی نہیں۔
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
27:14 "انہوں نے انکار کردیا حاﻻنکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر۔ پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا!
وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
(7:37) اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔
حقانیت ان کے باطن میں ظاہر ہوئی یا نہیں صرف خدا ہی اس کی خبر دے سکتا ہے۔ ایک مشرک صرف پیغام کو مسترد دینے کی وجہ سے کافر نہیں بنتا جب تک کہ حقانیت اس کے اوپر واضح نہ ہوجائے اور خود اس کا نفس ایمان کے انکار پر اس کے خلاف گواہی نہ دے۔ منکر کے کفر کا فیصلہ صرف اللہ کے اوپر ہے اور دوسرے افراد اس کے لئے کسی کو کوئی سزا نہیں دے سکتے اور نہ ہی کفر کی بنیاد پر کافروں کے خلاف لڑنے اجازت کسی کو ہے۔
کافرین غیر مؤمن نہیں ہے بلکہ وہ ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ
وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ
وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ
سورہ الکافرون نزولی ترتیب کے اعتبار سے 18ویں اور ایک ابتدائی مکی سورت ہے اور اس میں خطاب مشرکین کے درمیان کافرون سے ہے۔ ان کافروں کو یہ بتایا گیا ہے کہ نہ ہی وہ اس کی عبادت کرتے ہیں اور نہ ہی کریں گے جس کی عبادت نبی ﷺ کرتے ہیں۔ یہ پیغام حتمیت اور قطعیت پر مبنی ہے اور اس طرح کافر ایمان نہیں لائیں گے۔ وہ کون ہیں ، ہم ان میں سے کچھ کی شناخت کر سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائی دنوں سے ہی اپنے مشن میں شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ متشدد مخالفین میں اہم نام ابوجہل کا ہے جس کے رویہ کا ذکر سورہ علق 96 میں ہے جو کہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے پہلی سورت ہے ، اور ولید بن مغیرہ کا بھی ہے جو کہ سخت مکار و عیار تھا اور اس کا ذکر سورہ قلم 96 میں ہے جو کہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے دوسری سورت ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان تراشی میں سب کا سرغنہ تھا جو جنگ بدر میں زخمی ہونے کی وجہ سے اس کے بعد ایک قلیل مدت کے اندر ہی واصل جہنم ہو گیا۔ ولید بن مغیرہ ایک مالدار عیاش طبع انسان تھا، اور پیغمبر اسلام ﷺ کا شدید ترین دشمن تھا۔ وہ اور ابو جہل دونوں نے مل کر اسلام کی تبلیغ کے آغاز سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانے، ان کے عقائد کے راستے مسدود کرنے اور ان پر ایمان لانے والوں کو زد و کوب کرنے کے لئے جو کر سکتے تھے وہ سب کچھ کیا۔ سورہ المسد 111 (جو کہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے چھٹی سورت ہے) ابو لہب اور اس کی بیوی کا ذکر ہے اور یہ دونوں بھی پیغمبر اسلام ﷺ کے دشمن تھے۔ وہ اور ان کے فعال ساتھی اور مددگار کافر ہیں جن سے کہ سورہ الکافرون میں خطاب ہے۔ ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہ 18ویں سورت ہے اور یہ ہجرت سے 8 سال قبل نازل ہوئی ہے جس دور میں نبی ﷺ کافروں کے بجائے صرف مشرکین کے درمیان ہی دعوتی کام انجام دے رہے تھے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
(2:6) کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ ﻻئیں گے۔
اگر کافر کا مطلب غیر مؤمن ہے تو پھر اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ غیر مؤمنوں کے درمیان کام کرنا لاحاصل ہے۔ واضح طور پر یہ غلط ہے لہٰذا، واضح طور پر کافر کا مطلب غیر مؤمن نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ایسے فراد ہیں جو ابولہب کے طرز عمل پر ہوں جو کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا
(25:52) پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں۔
مندرجہ بالا آیت میں کافروں کے درمیان دعوتی کام نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے کہ ان کے درمیان دعوتی کام انجام دینا فضول ہے، بلکہ ان کے مذموم عزائم کو شکست دینے کے لئے ان کے خلاف جدوجہد کی جائے۔
(11:36) نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان ﻻ چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان ﻻئے گا ہی نہیں، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو۔
مندرجہ بالا آیت نازل ہونے کے بعد کوئی بھی ایمان نہیں لایا- یہاں تک کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی ایمان سے محروم رہا۔
آیت 11:36 کا موازنہ ہجرت کے بعد نازل ہونے والی آیات 8:32 اور 33 سے کیا جائے جن میں اللہ نے مشرکین کی اکثریت کو کافر نہیں گردانا ہے ، بلکہ ان میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ معافی طلب کر سکتے ہیں اور ایمان قبول کر سکتے۔
وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
(8:32) اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے۔ (33) اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وه استغفار بھی کرتے ہوں۔
تمام غیر مؤمن ایسے کافر نہیں ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو علم کی کمی وجہ سے غیر مؤمن ہیں (لا یعلمون 9:6 ) یا جو لوگ کافروں کے ظلم و ستم سے خوف کرتے ہیں اگر وہ ایمان قبول کریں؛ جیسا کہ ذیل میں آیت 10:83 سے واضح ہے:
(10:83) پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان ﻻئے وه بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وه حد سے باہر ہو جاتا تھا۔
وہ غیر مؤمنین جو کافر ہیں اس وقت ایمان قبول کر لیں گے جب انہیں ایمان کی قبولیت سے روکنے والے کافروں کے پیشواء ہٹا دئے جائیں یا جب انہیں سچا علم حاصل ہو جائے۔
جب قرآن خدا پر ایمان نہ رکھنے والے اور ایمان کو مسترد کرنے والے کسی فرد کے لئے لفظ کافر استعمال کرتا ہے تو ایسا شخص ظالم ، مجرم ، فاسق، مسرف، مفسد اور متکبر بھی ہوتا ہے۔
جب لفظ کافر کسی ایسے فرد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس نے ایمان کو مسترد کر دیا ہے اور جو ایمان نہیں لائے گا تو وہ ایک کافر نہیں ہے بلکہ شیطان، فرعون، ابو جہل یا ابو لہب جیسا کوئی شخص ہے۔ اور وہ ظالم ، مجرم ، فاسق، مسرف، مفسد ، متکبر اور مغرور بھی ہے۔ پیکتھال کا ایک اقتباس اس ضمن میں قارئین کی نذر ہے ملاحظہ ہو، "قرآن میں لفظ کافر کے میں نے دو معانی پائے، اور جب ہم الہی نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ایک ہی پاتے ہیں۔ پہلا معنیٰ یہ ہے کہ کافر کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں ہے۔ وہ لوگوں کے لیے اللہ کی خیر اندیش مرضی اور مقصد کے خلاف ہے-اور اس بنا پر وہ تمام مذاہب کی حقانیت کا منکر ، تمام آسمانی صحائف کا منکر ، اور ان تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سرگرم مخالفت کی حدت منکر ہے جن کے درمیان کسی بھی فرق و امتیاز کے بغیر مسلمانوں کا ایمان لانا واجب ہے۔"
(6:21) اور اس سے زیاده بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے ایسے بےانصافوں کو کامیابی نہ ہوگی۔
(10:17) سو اس شخص سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ پرجھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے، یقیناً ایسے مجرموں کو اصلاً فلاح نہ ہوگی۔
(23:117) جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بےشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔
(6:135) آپ یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کررہا ہوں، سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لیے نافع ہوگا۔ یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔ "
(19:37) پھر یہ فرقے آپس میں اختلاف کرنے لگے، پس کافروں کے لئے ویل ہے ایک بڑے (سخت) دن کی حاضری سے (38) کیا خوب دیکھنے سننے والے ہوں گے اس دن جبکہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے، لیکن آج تو یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں!
(31:11) یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ (کچھ نہیں)، بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔
(36:47) اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو، تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں؟ جنہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا، تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں؟
(29:49) بلکہ یہ (قرآن) تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں، ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالم کے اور کوئی نہیں۔
(31:32) ۔۔۔ ۔۔ اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔
(29:47) ۔۔۔۔ اور ہماری آیتوں کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں۔
(6:49اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں ان کو عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وه نافرمانی کرتے ہیں (یفسقون)۔
(17:99) کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ جس اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے وه ان جیسوں کی پیدائش پر پورا قادر ہے، اسی نے ان کے لئے ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے جو شک شبہ سے یکسر خالی ہے، لیکن ظالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں (الا کافرون)۔
(6:93) اور اس شخص سے زیاده کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حاﻻنکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی ﻻتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے!"
(165) سو جب وه اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وه بےحکمی کیا کرتے تھے۔
(21:9) پھر ہم نے ان سے کیے ہوئے سب وعدے سچے کیے انہیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کر دیا۔
10:83 اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وه حد سے باہر ہو جاتا تھا
بطور کافر فرعون کی خصوصیات:
لمسرفین (اسراف، زیادتی) 10:83، 44:31
فاسق (باغی، بدکار، حد سے تجاوز کرنے والا) 28:32،
لمفسدین (فساد برپا کرنے والا) 7:103، 28:4،
خاطین (گنہگار) 28:8،
عالیا ، لعال (سرکش، ظالم) 44:31، 10:83
متکبر (مغرور، فخر کرنے والا) 29:39، 10:75
کفروا بایات اللہ (اللہ کی نشانیوں کا منکر) 8:52
ظالم (ظالم کرنے والا) 8:54
ایک کافر صرف ایک منکر نہیں ہے، بلکہ وہ مندرجہ بالا علامات اور خصائص کی بنا پر ایمان نہیں لانے والا ہے۔
40:37 اور اسی طرح فرعون کی بدکرداریاں اسے بھلی دکھائی گئیں اور راه سے روک دیا گیا اور فرعون کی (ہر) حیلہ سازی تباہی میں ہی رہی۔
جب انسان کے عقیدے کے تناظر میں لفظ کافر کا استعمال کیا جاتا ہے، تو اس کا معنی انتہائی معیوب و مکروہ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں لفظ کافر جس کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ظالم ، مجرم ، فاسق، مسرف، مفسد اور متکبر بھی ہوتا ہے تو وہ تمام قسم کی نیکیوں اور بھلائیوں کی خلاف ورزی کرنے والا اور ایک فساد مچانےوالا بھی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں یہ واقعی لفظ کافر کے مترادفات ہیں۔ وہ صرف ایک منکر ہی نہیں بلکہ فطری طور پر ایمان سے محروم بھی ہے۔ وہ غرور و تکبر ، سرکشی، خود غرضی اور تمرد و خود سری کا مجسمہ ہے۔ ایسے شخص کواللہ کبھی بھی ایمان کی دولت عطا نہیں کرے گا۔ اس لفظ کا اطلاق کسی عام غیر مسلم یا غیر مومن پر نہیں ہوتا۔
یہاں تک کہ قرآن کی نازل ہونے والی آخری آیتوں میں بھی لفظ کافر کا استعمال منکرین کے لئے نہیں کیا گیا ہے
آیت 9:5 کے اندر مشرکین مکہ کے بارے میں آخری آیات میں بھی ، کہ جن میں اللہ تعالی نے ان گمراہ مشرکین کے لئے موت کی سزا کا اعلان کیا ہے جنہوں نے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں سے جنگ کی تھی، جو اسلام قبول کئے بغیر امن کے چار مہینے گزر جانے کے بعد بھی حجاز میں رہیں۔ اس آیت میں بھی انہیں کافر یا کبھی اسلام قبول نہ کرنے والا نہیں کہا گیا ہے، کیونکہ آیت میں اس امکان کو برقرار رکھا گیا ہے کہ وہ اسلام قبول کرسکتے ہیں۔ اور واقعی ان سب نے اسلام کو قبول کیا اور آیت 9:5 کے مطابق کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔
کسی کو اس کے عقائد کی بنیاد پر کافر کہنا اس پر فیصلہ قائم کرنا ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں پر کوئی فیصلہ قائم نہیں کیا جن کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 13 سال تک دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا تھا، جن کی وجہ سے آپ ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی، جنہوں نے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے ان سے جنگیں کیں، جنہوں نے اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کی، جنہیں آٹھ سال بعد مفتوح کر لیا گیا، جن سے ان کی شکست کے اٹھارہ مہینوں کے بعد بھی انتقام نہیں لیا گیا، اور اس کے بعد بھی وہ منکر ہی رہے۔ ایسے لوگوں کے لئے بھی ایمان کا امکان رکھا گیا اور اسی بناء پر انہیں کافر نہیں کہا گیا ہے یا انہیں کبھی ایمان نہ لانے والا نہیں قرار دیا گیا گیا۔ اگر قرآن میں ایسے لوگوں کو کافر نہیں کہا گیا ہے تو پھر کسی بھی منکر کو اس کے عقائد کی بنیاد پر کافر کیوں کر تصور کیا جا سکتا ہے؟ صرف اللہ ہی کسی شخص کو کافر قرار دے سکتا ہے اور صرف غیر مسلموں کے بارے میں ہی یہ فیصلہ نہیں کیا جائے گا ، بلکہ مسلمانوں میں سے بھی وہ لوگ کافروں کی صف میں شامل ہوں گے جو ظالم، گنہگار، حد سے تجاوز کرنے والے، فساد برپا کرنے والے اور بغاوت کرنے والے ہیں۔ بے شک ہم نے قرآن کریم کی آیات میں یہ مطالعہ کیا کہ ایک کافر مومنوں سمیت کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ محض عقائد کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کو کافر کہناتوہین و تذلیل، بہتاناور جھوٹا الزام ہے جس کے اندر کافروں کی مذکورہ بالا باتیں نہ پائی جاتی ہوں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ظالم ، مجرم ، فاسق اور مفسد اور مساد مچانے والے ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/revisiting-meaning-kafir/d/113715
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism