New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 02:36 PM

Urdu Section ( 7 Aug 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

On the Meaning of Khatm e Nabuwwat ختم نبوت کا معنیٰ

نصیر احمد، نیو ایج اسلام

4 اگست 2018

اس مضمون کے لکھنے کی وجہ قرآن مجید کی آیت 33:40 میں وارد ہونے والے لفظ خاتم النبین کی توضیح و تفہیم کے لئے ایک گذارش ہے۔ جس کی ایک مختلف تفہیم مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور آپسی پھوٹ پیدا کر رہی ہے - خاص طور پر پاکستان میں اس کا زیادہ اثر ہے۔ اس کا سہ حرفی مادہ( خ ت م) قرآن میں آٹھ مرتبہ چار مختلف شکلوں میں وارد ہوا ہے:

پانچ مرتبہ فعل کی صورت میں ( ختمَ )

ایک مرتبہ اسم کی صورت میں( خاتَم )

ایک مرتبہ اسم کی صورت میں ( خِتم )

ایک مرتبہ مفعول کی صورت میں (مختوم)

آئیے ہم ان آٹھ مقامات کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں:

فعل – مہر لگانے کے معنیٰ میں

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

(2:7) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پرده ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ

(6:46) آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کردے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہے کہ یہ تم کو پھر دے دے۔ آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دئل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں۔

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

(36:65) ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے، ان کاموں کی جو وه کرتے تھے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

(42:24) کیا یہ کہتے ہیں کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگادے اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے اور سچ کو ثابت رکھتا ہے۔ وه سینے کی باتوں کو جاننے وا ہے۔

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ  

(45:23) کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراه کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پرده ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے،

مندرجہ بالا آیات میں مہر لگانے سے مراد مکمل طور پر بند کرنا اور کسی چیز کا سد باب کرنا ہے۔

اسم

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

(33:40) (لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے، اور اللہ تعالی ہر چیز کا (بخوبی) جاننے وا ہے۔

يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ

(83:25) یہ لوگ سربمہر خالص شراب پلائے جائیں گے

خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ

(83:26) جس پر مشک کی مہر ہوگی، سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہئے۔

آیات 26-83:25، میں مہر لگانے کا مقصد کسی چیز کوآلودگی سے محفوظ رکھنا اور اس کے خالص پن کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔

محمد ﷺکئی وجہوں سے خاتم النبین ہیں:

1۔ آپ ﷺ نے ماسبق انبیائے کرام کی نبوت اور ان کی حقیقی تعلیمات کی توثیق و تصدیق کی

2۔ آپ ﷺ نے گزشتہ آسمانی کتابوں کی توثیق و تصدیق کی۔

3۔ آپ ﷺ نے گزشتہ آسمانی کتابوں کے ان حصوں کو واضح کیا جن میں تحریف اور تبدیلی ہو چکی تھی

4۔ آپ ﷺ نے ان معاملات کو حل کیا جن پر لوگوں کا اختلاف ہو گیا تھا

5۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے ذریعے اپنے دین اور انسانوں کے لئے اپنے پیغام کو مکمل کر دیا

آیت 33:40 میں خاتم النبین کا معنی میری رائے میں ایک ایسا نبی ہے جس کے ذریعے اللہ کا دین کامل اور مکمل ہو گیا ہے اور جس نے اپنے ماقبل کے تمام انبیائے کرام اور آسمانی کتابوں پر مہر تصدیق ثبت فرمادی اور ساتھ ہی ساتھ مستقبل میں کسی بھی نبی کی آمد کے اختتام کی طرف بھی اشارہ کر دیا۔ مہر کے بعد اور ہو کیا سکتا ہے؟ مہر بند کئے جانے کابھی اشارہ کرتا ہے۔

اب ہم اس سوال کا ایک مختلف طریقے سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر اللہ نے مستقبل میں مزید نبیوں کو بھیجنے کا منصوبہ بنا لیا تو پھر کیا؟ اب ہمیں اس معاملے میں قرآن سے امید رکھنی چاہئے؟

اللہ اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا

(17:77) وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا

(33:62, 48:23) وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا

(35:43) وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا

اگر لوگوں کی ہدایت کے لیے مستقبل میں اور انبیاء کو مبعوث کرنا اللہ کا ارادہ ہوتا تو اللہ اپنی سنت کے مطابق امت محمدیہ سے بھی عہد ضرور لیتا جیسا کہ اللہ نے پیغمبرکی مدد اور اس کی اعانت کے لیے سابقہ امتوں سے عہد لیا ۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

(3:81) جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس وه رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان نا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواه رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔"

(5:12) اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور انہی میں سے باره سردار ہم نے مقرر فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد وپیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وه یقیناً راه راست سے بھٹک گیا۔

لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ

(5:70) ہم نے بالیقین بنیاسرائیل سے عہد وپیمان لیا اور ان کی طرف رسولوں کو بھیجا، جب کبھی رسول ان کے پاس وه احکام لے کر آئے جو ان کی اپنی منشا کے خلاف تھے تو انہوں نے ان کی ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک جماعت کو قتل کردیا۔

امت محمدیہ کے ذمہ ایسا کوئی عہد و پیمان نہیں ہے۔ اللہ کے ساتھ ہمارا عہد حسب ذیل ہے:

(48:8) یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے وا اور خوشخبری سنانے وا اور ڈرانے وا بنا کر بھیجا ہے۔ (9) تاکہ (اے مسلمانو)، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح وشام۔ (10) جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وه یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وه اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔

اللہ کے ساتھ ہمارا عہد صرف محمد ﷺ پر ایمان لانا اور آپ ﷺ کی مدد کرنا ہے۔

امت محمدیہ کو علماء اور ائمہ کی اطاعت سے بھی آزاد رکھا گیا ہے ، ہر مسلمان خود قرآن کا مطالعہ کر سکتا ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو راہ حق کے متلاشیوں کے لئے ہر چیز ایسا واضح کرکے پیش کرتی ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، اس میں کسی بھی عذر کے تحت کسی بھی باطل کی پیروی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اللہ نے ہم میں سے ہر ایک کو قرآن کے بارے میں اپنے علم اور قرآن کی بہتر سمجھ کے مطابق اس کی پیروی کرنے کی مکمل آزادی عطا کی ہے۔ ہم کسی امام یا کسی استاذ کی پیروی کرسکتے ہیں، لیکن ہم جو کرتے ہیں اور جو عقیدہ رکھتے ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ احمدیہ کے عقائد پر اس طرح کا ردعمل بلا وجہ ہے، اور ان کا دعوی حسب ذیل فرقوں سے مختلف نہیں ہے۔

1۔ مہدی فرقہ جو مہدی پر یقین رکھتا جو پہلے ہی آ چکے ہیں

2۔ سنی جو مہدی موعود پر ایمان رکھتے ہیں

3۔ شیعہ جو ایک موروثی امامت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ ایک مہدی چھپے ہوئے ہیں جو ایک دن ظاہر ہوں گے۔

4۔ صوفیاء جو یہ مانتے ہیں کہ ان کے پیر اللہ یا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے براہ راست علم حاصل کرتے ہیں اور پیر کے اندر اللہ کی بارگاہ میں شفاعت کرنے طاقت ہے۔

احمدیہ برادری پر ایسا شدید ردعمل ، عناد اور حسد پر مبنی ہے کیونکہ وہ ایک خوشحال اور تعلیم یافتہ برادری ہیں، اور اس ردعمل کا ان کے عقائد سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ احمدیہ اپنے امام کو ایک پیغمبر قرار دیتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی ساتھ میں اپنے عقیدے سے ہٹ کر میں ہر عقیدے کو برا سمجھتا ہوں۔ ان کے نام کے علاوہ ان کے عقیدے میں ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے جسے غلط کہا جا سکے۔ اگر انہوں نے اپنے رہنما مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی کے بجائے ایک امام قرار دیا ہوتا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوتا۔ میری رائے میں احمدیہ کی ویب سائٹ قرآن کریم بہترین تفسیر فراہم کرتی ہے اور احمدی اچھے مسلمان ہیں جو نبی ﷺ اور اللہ کی عزت کرتے ہیں۔ ان کے عقائد اسلام کے لئے ذلت کا سبب نہیں ہیں ، اور وہ ایسے لوگ ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں اور دوستی بھی کر سکتے ہیں۔ بہر حال، اللہ نے ہم سے ایسا کوئی وعدہ نہیں لیا ہے کہ ہم دوسروں کو اپنا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور کریں۔

(6:159) بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروه گروه بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے۔

حالانکہ اللہ تعالی ہمیں فرقہ وارانہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے اور اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑنے کا حکم دیتا ہے ، لیکن پاکستان نے اس کے برعکس کر کے خود کو اپنی ہی لعنت میں گرفتار کر لیا ہے اس لئے کہ :

1۔ اس کا توہین رسالت کا قانون غیر منصفانہ ہے

2۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا اس کا قانون غیر منصفانہ ہے

اور اس طرح پاکستان نے فرقہ پرست عناصر کو ملک کی فضا مکدر کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ آج پاکستان کمزور ہو چکا ہے اور تنگ نظر فرقہ پرستی نے ملک کا شیرازہ منتشر کر دیا ہے اور بالآخر یہ اللہ کی درج ذیل آیتوں کو سچ ثابت کر کے رہے گا۔

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ

(6:65) آپ کہئے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروه گروه کرکے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے۔ آپ دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دئل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں شاید وه سمجھ جائیں۔

پاکستان اس قسم کے قوانین کو ختم کر کے فرقہ وارانہ فسادات کی اس لعنت سے نجات حاصل کر سکتا ہے، اس لئے کہ،

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ

(13:11) کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وه خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا اراده کر لیتا ہے تو وه بد نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں۔

امید ہے کہ لوگ ہوش کے ناخون لیں گے اور دوسرے لوگوں اور ان کے عقائد کے تئیں رواداری کا مظاہرہ کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں گے ، اس سے قبل کہ اللہ اپنا عذاب نازل فرما دے۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/naseer-ahmed,-new-age-islam/on-the-meaning-of-khatm-e-nabuwwat/d/116038

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/on-meaning-khatm-e-nabuwwat/d/116066

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..