New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 09:28 PM

Urdu Section ( 10 Nov 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

On The Historical Approach to Reforming Islam تاریخی نقطہ نظر سے اسلام کی اصلاح

 نصیر احمد، نیو ایج اسلام

12 اگست 2017

یہ مضمون غلام کے رسول دہلوی کے اس مضمون کے جواب میں ہے: "تاریخی نقطہ نظر ترقی پسند اسلام کی ارتقاء کے لئے انتہائی اہم ہے"۔ میں نے ان سے دریافت کیا تھا کہ قرآن کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے۔ کیا یہ تمام خطاؤں سے پاک اللہ کا کلام اور کتاب مبین نہیں ہے؟ ان کا جواب تھا کہ ہاں قرآن تمام خطاؤں سے پاک اللہ کا کلام اور کتاب مبین ہے۔ جبکہ انہوں نے ایک دیگر تبصرہ نگار کا جواب دیتے ہوئے بھی اس کی دوبارہ تائید و توثیق کی تھی۔

تاہم بدقسمتی سے ان کے مذکورہ مضمون نے اس کے برعکس تاثر فراہم کیا۔ اگر قرآن تمام خطاؤں سے پاک اللہ کا کلام اور کتاب مبین ہے تو ہمارے علماء کرام نے تاریخی نقطہ نظر کا استعمال کرتے ہوئے اپنی فقہ میں اس سے جو تیار کیا ہے ہمیں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، اور جو بھی ناپسندیدہ امور اس میں شامل ہو چکے ہیں ان سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذاس صورت میں اصلاحات کا عمل ارتقاء پسند نہیں ہے بلکہ یہ کتاب مبین کے بارے میں آج ہماری تفہیم کی روشنی میں قرآنی نقطہ نظر کی بنیاد پر ہماری فقہ کی ازسرنو تشکیل سے عبارت ہے۔ قرآن کی تفہیم ارتقاء پسند ہوسکتی ہے کیونکہ آج ہم اس کی بہت ساری آیات کو بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ہم دنیا اور انسانی فطرت کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کر چکے ہیں۔ اس محدود تناظر میں اس عمل کو ارتقاء پسند کہا جا سکتا ہے۔

تاریخی نقطہ نظر سے اصلاحات کے سوال پر انہوں نے ٹورنٹو یونیورسٹی میں اسلامی قانون میں قانون اور اقتصادیات پر ریسرچ اسکالر اور ایک مصری اسلامی ماہر قانونیات پروفیسر محمد فضل کا حوالہ پیش کیا ہے۔ اساتذہ بہت کم ہی خود اصلاح پسند ہوتے ہیں اور اصلاحات کبھی ان کا بنیادی ہدف بھی نہیں ہوتا ہے ، اگرچہ ان کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ انہیں چیزوں سے استفادہ کرتے ہیں جن میں انہیں علمی تحقیق کے لئے کافی گنجائش نظر آتی ہے تاکہ وہ اپنے مقالے شائع کر کے پی ایچ ڈی مکمل کر سکیں۔ تاریخی نقطہ نظر تحقیق کے لئے ایک وسیع میدان اور ان کے شعبہ کے لئے تحقیقی امداد حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے تاریخی تحقیق کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہماری فقہ ایسی بن گئی جس شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ اگر ہم یہ پاتے ہیں کہ اس کا محرک غلط اور خالص سیاسی تھا تو اسے مسترد کرنا بھی بہت آسان ہے۔ اس کا استعمال محدود ہے۔ تاریخی نقطہ نظر کا استعمال دوسروں کو اصلاحات کی ضرورت اور کفر یہ فقہ کو مسترد کرنے کی ضرورت –جو کہ آج اسلام بن چکا ہے-پر قائل کرنے کے لئے ہے۔ یہ علماء کے خلاف استعمال کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارے پاس پہلے سے ہی یہ تاریخی معلومات موجود ہیں کہ کس طرح ہماری فقہ ایسی بن گئی جس شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ علمی شخصیتوں کی کوششوں کا خیر مقدم ہے، لیکن ہمیں ان کے تعلیمی مفادات کے پیش نظر یہ مان کر اپنے اصل موقف سے نہیں بھٹکنا چاہئے کہ جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس میں ان کا کوئی اہم کردار ہے۔

غلام رسول دہلوی صاحب ارشد عالم کا حوالہ پیش کرتے ہیں"دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ اس کا ظہور تاریخ کی مکمل روشنی میں ہواہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ اس دین کے ظہور اور اس کے ابتدائی اداوار پر بہت کم مواد موجود ہے؟ تاریخی ماخذ کے نام پر ہمارے پاس زیادہ تر مواد خود مسلمانوں کی ہی لکھی ہوئی سیرت و سوانح کی کتابوں کی شکل میں ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے پیش کئے گئے تاریخی مواد کی تائید و تصدیق غیر اسلامی ماخذ سے نہیں ہوسکتی ؟ مسلمانوں کے لئے یہ امر پریشانی کا سبب ہونا چاہئے اور اس تحقیق میں مسلمانوں کو سب سے آگے ہونا چاہئے۔ اور اس کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام اور قرآن کے اس گمراہ کن مطالعہ کے سبب جس میں ان کی اصل کو الہامی مانا گیا ہے مسلمانوں کی جانب سے اسلام کو تاریخی تناظر میں سمجھنے اور اس کی تحقیق کرنے کی کوشش بہت کم ہے"۔

کیا یہ ارشد عالم کے موقف کی تائید ہے؟ شاید ارشد عالم نے جو کہنے کی کوشش کی ہے اسے غلام رسول دہلوی صاحب نے غلط سمجھا ہو۔ جہاں تک ارشد عالم کا تعلق ہے تو اسلام ایک انسانوں کا بنایا ہوا مذہب ہے اور تاریخی تناظر میں اسے بجا طور پر اس دور کے مروجہ سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا جواب مانا جا سکتا ہے۔ آج حالات کے کافی مختلف ہونے کی وجہ سے قرآن کی افادیت کھو چکی ہے اور ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھ کر کہ ہماری دنیا 7ویں صدی میں حضرت محمد (ﷺ) کی دنیا سے کس قدر مختلف ہے-اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید کو الہامی کتاب ماننے کو وہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اسلام اس وقت کا ایک "سماجی منصوبہ" تھا جس وقت اسے ایک مذہب بنایا گیا تھا جس کی افادیت اب ختم ہو چکی ہے۔ ارشد عالم کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت کو اہمیت دئے بغیر اسلام کے بارے میں ایک انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں اس لئے کہ ان جیسے لوگوں کے لئے یہ یا تو خود واضح ہے یا پہلے سے ہی یہ ثابت اور مسلم ہے۔

ان کے لئے اور ان کی علمی برادری کے لئے تاریخ اہم ہے۔ مؤرخین اب بھی یہی دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح محمد (ﷺ) نے اتنے کم وقت اور اتنے محدود وسائل کے ساتھ اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ تاریخ اب بھی یہی دریافت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایک چھوٹا سا قبائلی معاشرہ حجاز نے کس طرح کسی مرکزی اتھارٹی کے بغیر اچانک دو عظیم سلطنتوں کو تاخت و تاراج کر دیا تھا۔ تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی فوج نے اس رفتار اور نسبۃً کم خونریزی کے ساتھ اتنی کثیر تعداد میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہو۔ رومن سلطنت کو اتنی وسعت اور عظمت حاصل کرنے میں ایک ہزار سال لگے اور اس کے بعد تقریبا 100 سالوں کے اندر ہی اچانک وہ زوال پذیر ہو گئی۔ لیکن اسلامی سلطنت نے 100 سال کے اندر ہی رومن سلطنت کے مقابلے میں زیادہ وسعت اور عظمت حاصل کی اور ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک یہ قائم بھی رہی جس سے اس کے نظام کے استحکام اور طاقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مؤرخوں اور سماجی سائنسدانوں کے لئے کافی کام ہے لیکن آپ اور میرے لئے نہیں۔ انہیں اس پر غور کرنا چاہئے اور ہمیں یہ بتانا بھی چاہئے کہ ان کے پاس کی کوئی وضاحت کیوں نہیں ہے۔

غلام رسول دہلوی صاحب مزید لکھتے ہے: آسان لفظوں میں اسلامی علوم میں تاریخی نقطہ نظر کا مطلب ایک درست توضیح پیش کرنے کے لئے نصوص قرآنیہ کا ایک دانشورانہ نقطہ نظر سے مطالعہ کرنا ہے۔

قرآن پر میرے تمام مضامین میں چند استثناء کے ساتھ قرآن سے باہر کا کسی سیاق و سباق کا کوئی ذکر نہیں ہے ، اور جہاں کسی بھی سیاق و سباق کے حوالے سے ایسی معلومات شامل کی گئی ہیں تو وہ بنیادی اور ضروری نہیں ہیں بلکہ ان سے کہانی کی تکمیل ہوتی ہے۔ باہر سے سیاق و سباق درآمد کرنا اس کے معنی کو اثر انداز کرنا ہے۔ کتاب مبین میں ایسا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ایسا صرف اسی وقت کرتے ہیں جب آپ اس کے براہ راست معنی کے علاوہ کوئی اور معنی لینا چاہتے ہیں۔ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ یہ اِن صفات کےحامل لوگوں کے لئے رہنمائی کی کتاب ہے اور اس طرح کی صفات کے حامل لوگوں کے لئے ایک گمراہ کن کتاب ہے۔ قرآن مجید جن صفات کا ذکر کرتا ہے وہ ضروری اور کافی بھی ہیں۔ ایک دانشورانہ مطالعہ، لیکن دانشوری ہے کیا؟ مجھے ڈر ہے کہ دانشوری اور سیاق و سباق کا مقصد وہ معنی اخذ کرنا ہے جو ہم اخذکرنا چاہتے ہیں اور اس کے برعکس جو اسلام میں اللہ کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتا ہے جس کا مقصد خدا کا کلام اسی مفہوم میں سمجھنا ہے جو خدا کی مراد ہے۔

غلام رسول دہلوی صاحب لکھتے ہیں: "ترقی پسند اسلامی اسکالرز کو علماء کی روایت کی جگہ ایک مستحکم مقام حاصل کرنا ہوگا۔ اس سے عالمی امت کو اجتہاد کے دروازوں کو دوبارہ کھولنے میں بڑی مدد ملے گی جنہیں علماء نے صدیوں سے بند کر رکھا ہے۔ "

میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

تاہم، وہ مزید کہتے ہیں: "شاید ارشد عالم کی فکری تحریر میں بھی یہی حقیقت مضمر ہے جس میں انہوں نے قرآن مجید کی دوبارہ توضیح و تفسیر کو ایک ایسا "انتہائی ضروری سیاسی منصوبہ کہا ہے جس پر مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔لیکن اس سیاسی منصوبہ کا حصول ارشد عالم جیسے نوجوان ترقی پسند مسلمانوں کے اہم تعاون کے بغیر ایک مشکل ترین کام ہے"۔

اسلام اسی وقت ایک مذہب ہے جب تک قرآن کو اللہ کا کلام یا کم از کم اللہ کے رسول کا کلام مانا جائے۔ ارشد عالم کے لئے اسلام 7ویں صدی کے ایک سیاسی / سماجی منصوبہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ تو کیا اب غلام رسول صاحب اسلام کو ایک ابھرتا ہوا سیاسی منصوبہ بنتا دیکھ کر خوش ہیں؟ اگر اس کے بارے میں کچھ بھی الہی نہیں ہے تو اس میں کیوں زحمت اٹھائی جائے؟ بلکہ وہ اس کو چھوڑ کر تاریخی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی علوم کی پیروی کریں اور ان ہی مضامین میں ہمارے تمام مسائل کے جوابات تلاش کرلیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/on-historical-approach-reforming-islam/d/112188

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/on-historical-approach-reforming-islam/d/113183


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..