نصیر احمد ، نیو ایج اسلام
29 ستمبر 2017
25 اور 26 ستمبر 2017 کو ڈاکٹر ناصر رضا خان ڈائریکٹر انڈیا عرب کلچرل سنٹر نے "اسلام میں امن ، انسانیت اور رواداری کا تصور" کے عنوان پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نیو دہلی میں ایک قومی سیمینار منعقد کیا تھا۔
اس سیمینار میں ملک بھر کی دس یونیورسٹیوں اور سی ایس ڈی ایس اور ایک اسلامی ادارے سے 35 پروفیسرز اور اسکالرز نے اپنے مقالات سامعین کے سامنے پیش کئے۔ اس سیمینار میں عربی اور اسلامی علوم کے پروفیسر کے علاوہ علم تاریخ ، علم سماجیات ، علم سیاسیات ، علم انسانیات کے ماہرین نے بھی شرکت کی۔
سات نششتوں میں مندرجہ ذیل موضوعات پر سیمینار کے پروگراموں کو منظم کیا گیا تھا:
مذاہب کے تنوعات کا احترام کرتے ہوئے قرآن کریم میں اتحاد کا تصور
اسلام کے انسانیت پسند اصول
اسلام میں انسانی حقوق اور ذاتی تعلقات میں دوسروں کے حقوق
اسلام میں سیکولر انصاف کی اہمیت
خواتین اور صنفی انصاف کے حقوق
سیاسی اسلام اور سماج پر اس کے تباہ کن اثر
مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے رجحانات پر رد عمل
سیمینار میں پیش کئے جانے والے مشمولات میں مذہبی طور پر لازمی صدقہ ، سب کے لئے تعلیم پر زور ، ماحولیاتی تحفظ کی تشویش اور اخلاقی نظام حیات کے ذرائع پر زور دیتے ہوئے سماجی تحفظ ، سیکولر انصاف ، انفرادی آزادی اور انسانی حقوق پر زور دیکر اسلام کی آفاقیت ، تکثیریت اور رواداری کے بارے میں دلچسپ پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا۔ اس سیمینار میں سیاسی اسلام کی پیش رفت اور مسلم معاشرے پر ان کے اثرات پر بھی غور کیا گیا۔
سیمینار میں ایسے عوامل پر بھی گفتگو کی گئی جن کی وجہ سے اسلامی فقہ میں اسلام کی انسانیت پسندی، رواداری اور جامع پسندی کے پہلوؤں پر زور دینے میں تنزلی واقع ہوئی ہے ، جس نے اس مذہب کو معقولیت پسند کی جگہ 'اصول پرست' ، آفاقی کی جگہ محدود و تنگ نظر اور خواتین کے لئے محافظ و ہمدرد کی جگہ علیحدگی پسند اور پیدرانہ اقدار کا حامل بنا دیا ہے۔
اس سیمینار کا افتتاح وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے کیا۔ کلیدی مقررین میں پروفیسر اختر الواسع ، وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور اور جے این یو کے ایک پروفیسر اے کے راما کرشنن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اختتامی خطبہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک معروف ہندوستانی اسکالر اور تاریخ دان اور ریٹائرڈ پروفیسر پشپیش پنت نے پیش کیا۔
ان نششتوں کی صدارت دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت کے پروفیسر دیپتی تریپاٹھی ، ناظم دینیات جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر اقتدار محمد خان جیسی ممتاز علمی ہستیوں اور دیگر سینئر پروفیسروں نے کی۔ پروفیسر واسع کا اہم پیغام یہ تھا کہ مسلمان قرآن کو تو مانتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے - "قرآن کو تو مانتے ہیں لیکن قرآن کی نہیں سنتے" ، اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ایک مشترکہ مقصد کے لئے تمام مذاہب کے لوگوں پر مشتمل ایک امت واحدہ کی تشکیل دی ، جبکہ مسلمان ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ پروفیسر پینت نے کہا کہ ہندوؤں کو ان کی تاریخ صرف تقسیم کے دنوں سے یاد ہے اور وہ اپنی پہلے کی تاریخ بھول چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اثر و رسوخ ہندوؤں کی خوراک اور حلوہ سے لیکر جسے وہ اپنے دیوتاؤں کو چڑھاتے ہیں اور "پرساد" کے طور پر تقسیم کرتے ہیں ، لباس، زبان، فن تعمیر، کلاسیکی موسیقی تک ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہے –جس کی متعدد اصناف کو مسلم فنکاروں، فنون لطیفہ، شاعری اور ثقافت نے زندہ رکھا ہے۔ پروفیسر اقتدار محمد خان نے اپنے اختتامی خطبہ میں کہا کہ تمام مسائل کی جڑ ناانصافی ہے اور ان کا حل ایک ایسے ماحول کو فروغ دینے میں ہے جو ناانصافی کے لئے ناساز اور انصاف کے لئے سازگار ہو۔
پروفیسر فرحت نسرین (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح نبی ﷺ اللہ کی اطاعت شعاری میں کامل توازن کے ساتھ اپنی شخصیت کو قوت و اقتدار اور تقویٰ و طہارت کا جامع اور کیسے اخلاقیات کے بے نظیر نمونہ اور خلق عظیم کا عنوان بنایا تھا۔
ڈاکٹر عرشی شعیب (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے توحید اور ہم آہنگی کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر جاوید احمد خان (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اسلامی نظام معیشت اور انسانی فلاح و بہبود کو فروغ دینے میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر ظفر نعمانی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اسماء وصفات الٰہیہ اور ان آیات پر ایک دلچسپ مقالہ پیش کیا جن میں ماحولیاتی پائیداری اور یکسانیت پر قرآنی اصولوں کا بیان ہے۔
محمد سلمان نسیم (ندوۃ العلماء) نے خوبصورت طریقے سے ان امور پر روشنی ڈالی کہ کس طرح نبی ﷺ امن ، شرافت ، رواداری اور مفاہمت کے نمونہ کامل تھے۔ ڈاکٹر محمد اجمل (جے این یو) نے عزت و وقار کے بنیادی اصولوں پر مبنی انسانی حقوق کی وضاحت میں اسلام کے قائدانہ کردار پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر نفیس احمد (دہلی) نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون پر عمل درآمد میں اسلامی ممالک کے طریقہ کار پر مقالہ پیش کیا۔
ڈاکٹر املیش پردھان (سیدھو کانو برسا یونیورسٹی) سیاسی اسلام ، جہاد ، ان کے حقائق اور اپنے ایجنڈے پر کاربند لوگوں کے دھوکہ اور فریب کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر لوگوں کے کارناموں کی بنیاد پر اسلام کی تصویر کو مسخ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر بلرام شکلا (دہلی یونیورسٹی) نے اسلام اور قرآن کی شاندار تفہیم پر مشتمل ایک بہترین مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے کو پیش کرتے ہوئے پوری آسانی کے ساتھ عربی میں آیات قرآنی اور سنسکرت میں بھگود گیتا کی آیتیں اور سندھی ہندی کو اردو کے ساتھ ملا کر پیش کیا۔ اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے بہت سارے غیر مسلم ہیں جو مکمل طور پر آسانی کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں اور اسے سمجھتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کتاب مبین ہے ، جبکہ یہ مسلمانوں کے لئے صرف الجھن کا ہی سبب ہے!
پروفیسر مشیر حسین صدیقی (لکھنؤ) نے سیکولر انصاف پر اسلام کی تاکید پر اپنا خطاب پیش کیا جو کہ کسی بھی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا۔ پروفیسر جی این خاکی (کشمیر یونیورسٹی) نے ہندوستان میں اسلام کے ثقافتی ورثہ پر اپنا مقالہ پیش کیا جوکہ اتحاد پسند اور تکثیریت پسند دونوں ہے۔ پروفیسر نسیم احمد شاہ (کشمیر یونیورسٹی) نے اسلام اور عیسائیت کے درمیان بین المذاہب تعلقات پر گفتگو کی۔
ڈاکٹر ہلال احمد (CSDS) نے اذان کے معاملات پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر احمد رضا (حیدرآباد) نے ہمارے سامنے جمہوریت کے ترکی ماڈل کا ایک نقطہ نظر پیش کیا۔ ڈاکٹر انیس الرحمن (مغربی بنگال) نے اسلام میں جنگ کے سخت ترین شرائط پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر آفتاب احمد (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے علی میاں ندوی کی تحریروں میں اخلاقیات اور انسانیت پسندی کی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔
محترمہ فرح شاہین (جے این یو) نے اسلام میں خواتین کی حیثیت اور حقوق کے تناظر میں جنس اور ایمان کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو چیلنج کیا۔ ڈاکٹر اشفاق ظفر (ایم ایچ اے) نے اسلام میں ایک بنیادی معیار کے طور پر ہر چیز میں اعتدال کے موضوع پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر ہمایوں اختر نظامی(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے خارجی تغیرات کے اثرات پر خطاب کیا۔ ڈاکٹر رفیع اللہ اعظمی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اسلام فوبیا کی سیاست کے ذریعے امن کے مذہب میں انتہا پسندی کے تضادات کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر صہیب احمد (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور یہ کبھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا۔ پروفیسر نشاط منظر (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے حالت جنگ میں بھی امن اور مصالحت کے لئے مسلسل جد و جہد کے بارے میں بات کی جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ کا مقصد بھی صرف امن کا حصول ہے۔ ڈاکٹر سید محمد عامر (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح صرف امن کے حصول کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر تنازعات کا استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر گلفشاں خان (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے 18ویں صدی ایران میں تمام لوگوں کے ساتھ امن یا صلح کل کے اصول پر بات کی۔
میں نے نیو ایج اسلام کی نمائندگی کی اور اپنا مقالہ "پوری دنیا کے ساتھ اسلام کے تعلقات - ایک جھوٹے نظریہ میں انتہا پسندی کے موجودہ مسائل کی بنیاد اور صحیح معنوں میں انسانیت پسند قرآنی پیغام کی ایک مستند تفہیم سے اس کا حل" ، کے عنوان پر پیش کیا ، جس کے اختتامی نکات اس طرح ہیں:
قرآن کے اسلام میں "دوسرے" کافر ہیں ، لیکن وہ "غیر مؤمن" اور" غیر مسلم" نہیں ہیں ، جیسا کہ غلط طریقے سے اسلامی فقہ میں پیش کیا گیا ہے ، لیکن وہ مذہب سے قطع نظر ظالم و جابر ہیں۔ اللہ کا مقصد تمام قسم کی ناانصافیوں اور ظلم و جبر کو ختم کرنا ہے اور جو لوگ اس مقصد میں معاون ہیں وہ مذہب سے قطع نظر "اللہ کی جماعت" ہیں۔ قرآن مسلمانوں کو ایسی ہی "اللہ کی جماعت" سے تعلق بنانے اور ایک امت واحدہ کی تشکیل کے ساتھ ایک قدر مشترک قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ سب ایک ساتھ کھڑے ہوں اور تمام قسم کی برائیوں ، ناانصافیوں اور ظلم و ستم کا ایک ساتھ مقابلہ کریں۔ یہ قرآن کا ایک مستند پیغام ہے۔ یہ معقولیت پسند اور انسانیت نواز دونوں ہے جیسا کہ تمام لوگوں کے رب سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سامعین کو یہ پیغام کو بہت اچھی طرح سمجھ میں آئی۔ حسن اتفاق ہے کہ میں نے بھی اپنے مقالہ میں وہی پیغام پیش کیا ہے جو پروفیسر واسع نے اپنے کلیدی خطاب میں ، اور پروفیسر اقتدار نے اپنے اختتامی خطاب میں پیش کیا ہے۔ میں پروفیسر واسع کے ان اہم جملوں کے لئے مشکور ہوں جن سے میں نے اپنے مقالے کو زینت بخشی ہے۔
میں ڈاکٹر ناصر رضا خان کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے مدعو کیا اور غیر معمولی گرمجوشی ، مہمان نوازی اور والہانہ محبت کے لئے میں پروفیسر اقتدار محمد خان کا بھی شکرگزار ہوں۔ انہوں نے مجھے تقریبا 200 ایکڑ پر پھیلے ہوئے خوبصورت اور عالی شان کیمپس کا معائنہ کروایا ، اگرچہ رات کافی ہو چکی تھی پھر بھی ان کا عالمی معیار کے اسپورٹ کمپلیکس جس میں CWG (کامن ویلتھ گیم) منعقد ہوا تھا، کھلا ہوا تھا تاکہ میں ان کی شاندار سہولیات کا معائنہ کر سکوں۔ میں نے کسی بھی شخص میں اس سے زیادہ گرمجوشی اور والہانہ پن کسی کے اندر نہیں دیکھا ہے! میں پروفیسر اقتدار سے مجھے متعارف کرانے کے لئے پروفیسر نسیم کا شکرگزار ہوں ، جنہوں نے ہر اس شخص سے میرے مقالے کا کافی چرچہ کیا جس سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ایسے شاندار ناظرین و سامعین کے سامنے مقالہ پڑھنا میرے لئے ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا تجربہ تھا جنہوں نے میرے مقالے کو سمجھا اور اسے سراہا بھی۔ اس سے مجھے یہ امید ملی کہ ابھی مسلم دنیا میں سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ میں اس کے لئے سلطان شاہین صاحب کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے ڈاکٹر ناصر خان کو میرا نام تجویز کیا اور ان سے متعارف کرایا۔ میں اس غیر معمولی موقع کے لئے ان کا ممنون و مشکور ہوں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/national-seminar-jamia-millia-islamia/d/112706
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism