نرندر سنگھ
5 نومبر 2013
ملیشیا کا سرکاری مذہب اسلام ہے جیسا کہ اس کا ذکر اس کے آفاقی آئین میں ہے ۔ ملیشیا کا ایک باشندہ ہونے کے ناطے جو یہیں پیدا ہوا ، پرورش و پرداخت یہیں پائی اور رسمی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک بار بھی اس ملک کو نہیں چھوڑا ،میرے اوپر یہ بات ظاہر ہوئی کہ اسلام سے متعلقہ مسائل میں خود سے معلومات حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے ۔
تحریکی عوامل کی ابتدا اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ صرف وہی انسان دوسرے مذہب کی تہذیب و ثقافت اور معتقدات کے تئيں رودار ہو سکتا ہے اور انہیں قبول کرسکتا ہے جس کا ذہن و دماغ کشادہ ہو ۔
اس کے باجود اسلام اور شریعت کی جتنی زیادہ تعریف کی جاتی ہے اور اسے ہمارے معاشرے میں شامل کیا جانا چاہئے اس لئے کہ یہ ہر معنیٰ میں ہمارے وجود کا احاطہ کئے ہوئے ہے ان سب کے پیش نظر جو چیز میرے لئے حیرت واستعجاب کی وجہ ہے وہ کچھ ملیشیائی مسلمانوں کے ذریعہ جہالت اور لاعلمی کا مظاہرہ ہے ۔
مسلسل مطالعہ اور دریافت کے بعد مجھے یہ آگہی حاصل ہوئی کہ شرعی قوانین الٰہی ہیں اور اخلاق و کردار ،لباس ، کھانے ، حرکات و سکنات ، حفظان صحت عبادت اور انسانی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں کا بالتفصیل خاکہ پیش کرتی ہیں اور ہر مسلمان کو اس پر عمل کرنا چاہئے ۔
لہٰذا میں اپنے معاشرے میں شرعی قوانین کے نفاذ کے مطالبہ پر انتہائی حیرت زدہ تھا ہمیں مزاحمت کرنا چاہئے اس لئے کہ شریعت سیاسی ، اقتصادی اور سماجی مسئل کا بھی حل پیش کرتی ہے ۔ آج ملیشیا اسلامی اقتصادی مینجمنٹ میں ایک معروف ملک کی حیثیت سے عروج پر ہے جسے پوری دنیا میں مسلم ممالک کے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت حاصل ہو رہی ہے ۔ گریٹر یوروپ اور یہاں تک کہ امریکہ نے بھی اسلامی بینک کاری اور اقتصادی نظام میں مہارت کو تسلیم کیا ہے ۔ جس نے مذہب سے قطع نظر تمام شعبہ حیات سے خریداروں کو متوجہ کیا ہے ۔
شریعہ کومپلینٹ فائنینشل ٹولز اینڈ ایکسچینج بورڈ نے عالمی بینکوں کے ساتھ بھی کسی شکایت کے بغیر بہت اچھا کارنامہ انجام دیا ہے۔غیر مسلموں نے اسلامی فائنینشل ورلڈ کا کھلے دلوں سے استقبال کیا ہے ۔لہٰذا جب شریعت کےدوسرے پہلوؤں کو زیر گفتگو لایا جا رہا ہے تو غم و غصے کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے ؟
لہٰذا اگر شریعت کسی ایک کے لئے مال و اسباب کے راستے کھول رہی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے ، لیکن اگر یہ ایسا نہیں کرتی ہے تو اس کی بڑے پیمانے پر تردید کی جائے گی ۔ کیا یہ دلیل اور استدلال شرعی قوانین کو اس کی تمام تر توانائیوں کے ساتھ نافذ کرنے کی تجویز کو رد کرنے کے لئے منافقت اور بے بنیاد باتوں کا حصہ نہیں ہے ؟ اس معاملے میں اتنا انتخابی ذہنیت کی کیا ضرورت ہے ؟
پھر بھی مسلموں اور غیر مسلموں دونوں کو شرعی قوانین کی تعلیم میں اسلامی ارباب علم و ادب کو انتہائی سرعت کے ساتھ پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے ۔
میرا خیال یہ ہے کہ اسلامی قوانین نافظ کرنے والے ادارے وفاقی اور ریاستی سطح پر نوجوان نسلوں کے درمیان بنیادی اسلامی اصول و معتقدات کو پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں ۔
زندگی کے کچھ تجربات
ایسے کچھ تجربات اور قابل اعتراض معمولات ہیں جن کا عوامی سطح پر مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ کیا درج ذیل عجیب و غریب معمولات کی عوامی سطح پر اجازت ہے ؛ خاص طور پر مسلمانوں کے لئے اور از خود غیر مسلموں کے لئے بھی ۔
میں یہاں ایسے کچھ واقعات کا ذکر کرتا ہوں جن کی وجہ سے میں اپنے مسلمان دوستوں اور تجربہ کاروں کے ذریعہ سوال کئے جانے پر حیرت و استعجاب کا شکار ہو گیا ۔
1. چونکہ میں بارہا اکیا،پیٹروناس ٹوین ٹاورز (کے ایل سی سی) ،مڈ ویلی جیسے مال اور سنوے پرامڈ جیسی جگہوں پر جاتا رہتا ہوں، لہٰذا میں جب ملیشیائی لڑکیوں کو سپر مینی مائیکرو سکرٹ پہنے ہوئے دیکھتا ہوں جن سے دوسرے لوگوں کو ان کے انڈرویئر کا خاکہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے تو مجھے تعجب اور بڑی حیرانی ہوتی ہے ۔ اس سے بڑھ کر کچھ لڑکیاں انتہائی باریک کپڑوں میں تین چوتھائی ننگی ہوتی ہیں ۔
2. سگریٹ نوشی کو بڑے پیمانے پر ممنوع یا حرام قرار دئے جانے کے باوجود بہت سے مسلمانوں کو ایسی جگہوں پر سگریٹ کے دھوئیں اڑاتا ہوا دیکھا جاتا ہے جہاں سگریٹ نوشی ممنوع ہے ۔ مجھے جس بات سے زیادہ تعجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان ملیشیائی لڑکیاں قانون اور احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجرمانہ سرگرمیاں شروع کر رہی ہیں ۔ آپ کسی بھی مامک کی دکان پر جائیں تو آپ یہ پائیں کے کہ بہت سے میں حقہ پینے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے جو کہ نشہ آور بھی ہو سکتا ہے ۔
3. ابھی حال ہی میں سیر و تفریح کرتے وقت جب میں نے ایک مسلم لڑکی کو اکانو کوپٹیام میں اس کے مقعد پر ایک خوبصورت ٹیٹو کی نمائش کرتے ہوئے دیکھا جو کہ کافی کی چسکیاں لے رہی تھی۔ یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو اس کے مقعد پر نظریں جمائے گھورتے ہوئے بھی دیکھا گیا ۔
4. اور اب تو ہم کچھ نوجوان ملیشیائی لونڈے اور نوجوان لڑکیاں اپنی زبان ، ناک ، ہونٹھ کو گندھ کر اور موہاک کے انداز میں بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔
یہ میرے لئے ایک خاموش سوال ہو سکتا ہے کہ کیا اسلام میں مندرجہ بالا چیزوں کی اجازت ہے۔
ذاتی طور پر وہ شرعی قوانین جن کا آغاز عوامی اور خاندانی زندگی میں ہماری شائستگی اور شرافت کے مبادیات کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہی بڑے پیمانے پر معاشرے میں سرایت کرتے ہیں اور مزید بڑھ کر قبولیت اور رواداری کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔
شرعی قوانین کی حمایت میں تمام سیاسی پارٹیوں کیو منصفانہ اور غیر جانب دارانہ رویہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔ حالیہ پارلیمانی بیٹھک میں ایک ایم پی نے پر زور انداز میں یہ کہا کہ ملیشیااس معنیٰ میں منفرد ہے کہ یہ دنیا کا واحد ایک ایسا ملک ہے جہاں تمام ملیشیائی مسلمان ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بر خلاف عرب ممالک میں بھی بہت سے عرب مسلم نہیں ہیں ۔ ملیشیائی منفرد ہیں اور اس حقیقت کو نہ تو مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر مباحثہ کیا جا سکتا ہے ۔
میں اس بات سے بالکل متفق ہوں ۔ میں اس سے کبھی اخلاف نہیں کروں گا ۔ لیکن اس کے باوجود کیوں اسلامی نمائندے اور اسلام کو نافذ کرنے والے نمائندے مذکورہ بالا تیز و تند اور ظاہر و باہر واقعات کو انداز کر رہے ہیں ؟
یہاں ایسی کوئی خلوت نہیں ہے کہ جہاں وہ مجرموں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے کود کو جھاڑیوں یا پناہ گاہوں میں چھپانا پڑے ۔ بلکہ یہ مجرم شرعی قوانین کی سرعام حکم عدولی کرتے ہوئے پھر رہے ہیں ۔
میں پوری ایمانداری کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا کہ یہاں اسلامی قوانین کو پورے زور و شور مگر انصاف کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہئے ، جیسا کہ اسلام اس کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے اور اس کا نفاذ او ر مظاہرہ صحیح اور جائز طریقے سے کیا جانا چاہئے ۔ نہ تو کوئی ابہام اور شک و شبہ ہونی چاہئے اور نہ ہی کسی بھی فریق کے ساتھ مظلومیت کا کوئی احساس ہونا چاہئے ۔ اسلامی علماء اور ان لوگوں کا کوئی بھی کردار جنہیں شریعت نافذ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے غیر منصفانہ ظاہر نہیں ہونی چاہئے ۔
نریندر سنگھ ایک ایف ایم ٹی ٹیم ممبر ہیں ۔
http://www.freemalaysiatoday.com/category/opinion/2013/11/05/Syariah-for-malaysia/
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/syariah-(shariah)-laws-malaysia-/d/34485