New Age Islam
Thu Dec 12 2024, 10:23 PM

Urdu Section ( 1 March 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Taliban Lie about Using Child Suicide Bombers طالبان کی دروغ گوئی، بچوں کا استعمال خودکش بمبار کے طور پر

 

نجیب اللہ اور اسٹاف

29 جنوری 2014

بات جب دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے کی ذمہ داری قبول کرنے کی آتی ہے تو طالبان عسکریت پسند ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سہولت کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ان کی اس حکمت عملی کو ہی دیکھ لیں کہ وہ لڑکیوں کو خودکش بمبار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ایک افغانی شہری رحیم اللہ عثمانی کا کہانا ہے کہ جب کوئی بمبار حملہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ سرکش اور فتنہ انگیز طالبان ان ہتھکنڈوں کی ذمہ داری بڑی آسانی کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مگر جب ایسا کوئی حملہ ناکامیابی کا شکار ہوتا ہے تو یہی عسکریت پسند اس پورے معاملے سے ہی انکار کر بیٹھتے ہیں۔

ایک دس سالہ بچی اسپوژمی کا کیس بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے جسے سیکورٹی فورسز کی ایک چوکی کو بم دھماکے کا نشانہ بنانے کی کوشش کرنے کے الزام میں 6 جنوری کے دن صوبہ ہلمند میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کا یہ بیان ہے کہ اس حملہ کو انجام دینے کے لیے طالبان نے اسے قائل کر لیا تھا مگر افغانستان میں اور بین الاقوامی میڈیا میں اس واقعے کی بڑے پیمانے پر رونماں ہونے والی مذمتوں کے بعد ان عسکریت پسندوں نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔

افغانی شہری اس حقیقت کی جانب اس طرح اشارہ کرتے ہیں (یہ کہتے ہوئے کہ) یہ امر اس بات کی مزید ایک دوسری مثال ہے کہ کس طرح عسکریت پسند رائے عامہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس قسم کے حملوں میں اپنے کردار پر اپنا "سرکاری موقف" اختیار کرتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے انکار پر یقین کرنا ایک مشکل ترین امر

افغانی شہریوں اور سیاست دانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ سرکش اور فتنہ انگیز طالبان اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں جن میں معصوم بچوں کو بمبار کے طور پر استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ لہٰذا اس معاملے سے ان کا دامن چھڑانا سچائی پر مبنی نہیں لگتا۔

جسٹس اینڈ ڈیولپ منٹ پارٹی آف افغانستان کے رہنما سید جواد حسینی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے کہا کہ، ‘‘طالبان سرکشوں اور فتنہ انگیزوں نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کے انسانی یا مذہبی اقدار کی قطعی کوئی فکر نہیں ہے’’۔ ‘‘درحقیقت وہ انسانی اقدار کے حریف ہیں’’۔

جواد نے کہا کہ جب ان کے ان خطرناک اقدامات پر عوام کا غم و غصہ بھڑکتا ہے تو وہ ان میں ملوث ہونے کے اپنے کردار سے ہی انکار کر بیٹھتے ہیں۔

افغان پارلیمان کے ایوان زیریں میں صوبہ ہرات کے ایک حصے کی نمائندگی کرنے والی مسعودہ کرخی نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ‘‘طالبان سرکشوں اور فتنہ انگیزوں کی نظروں میں اسلامی اور انسانی اقدار اور ساتھ ہی ساتھ دیانت داری کا کوئی احترام نہیں ہے اور عوام اب ان کی الٹی قلابازیوں سے آگاہ ہو چکی ہے۔

ان عسکریت پسندوں کی بچوں کو خودکش بمبار کے طور پر استعمال کرنے کی اپنی ایک تاریخ ہے

انہوں نے واضح انداز میں یہ سوال کھڑا کیا کہ ‘‘وہ ایک دس سالہ بچی کا خودکش بم حملے کے لیے استعمال کرنے سے انکار کر رہے ہیں مگر انہوں نے اس قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال پہلی بار نہیں کیا ہے۔ بلکہ وہ ماضی میں بھی ایسا کر چکے ہیں لہٰذا ایسی صورت حال میں کیونکر ان کی باتوں پر اعتبار کیا جائے۔

مثال کے طور پر 2007 میں صوبہ غزنی میں ایک 6 سالہ لڑکے جمعہ گل نے ایک دھماکہ خیز جیکٹ پہنے ہوئے خود کو افغان سیکورٹی فورسز کے سپرد کر دیا تھا ۔

طالبان سرکشوں اور فتنہ انگیزوں نے گل کو دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی اس جیکٹ کے ساتھ اس وقت خود کو اڑا دینے کے لیے کہا تھا جب افغان سیکورٹی فورسز یا غیر ملکی فوجیوں کا قافلہ اس کے پاس سے گزرے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق انہوں نے اس کے اہل خانہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ انہیں اس کے بدلے پھول اور کھانا بھیجا جائے گا۔

ایسے بے شمار متوقع خودکش بمبار بچوں کو حالیہ برسوں میں افغان سیکورٹی حکام نے میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ جن میں سے ہر ایک کی ایسی ہی ملتی جلتی کہانی ہے۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ سرکش اور فتنہ انگیز طالبان شہادت کے تعلق سے لاعلم نوجوانوں سے بھی اکثر غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس قسم کے حملوں میں لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کے غلط استعمال کے امکانات کم ہیں

اب تک حکام نے ایسی لڑکیوں کو بہت کم گرفتار کیا ہے جو کسی خودکش بم حملہ کی تیاری میں تھیں اس اعتبار سے اسپوژمئی کا کیس غیرمعمولی لگتا ہے۔

سینٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے افغان پارلیمان کے ایوان زیریں میں صوبہ ہلمند کے ایک حصے کی نمائندگی کرنے والی حبیبہ سعادت نے کہا کہ ماضی میں طالبان شورش پسند اکثر خودکش حملوں کے لیے معصوم بچوں کا استحصال کرتے رہے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب حکام نے یہ اعلان کیا ہو کہ وہ (طالبان) اس کام کے لیےایک لڑکی کا استعمال کر رہے ہیں۔

بہت سے افغان شہری ایسے ہیں جن کے لیے عسکریت پسندوں کا اپنے جرم سے انکار کو قبول کرنا غیرممکن ہے۔ تاہم خودکش بم حملے کے لیے کسی لڑکی کا استعمال کرنا طالبان کے لیے بھی ایک انوکھی بات ہے۔

افغان شہری محمود احمد زئی کا کہنا ہے کہ کابل میں واقع کم سنوں کی اصلاح گاہ میں درجنوں کی تعداد میں ایسے بچے موجود ہیں جنہیں سیکورٹی فورسز نے خودکش بم دھماکہ کرنے سے عین قبل ہی اپنی حراست میں لیا ہے۔ انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیاکہ اس طرح کے مقاصد کے لیے طالبانیوں کے اندر بچوں کے استعمال کے رجحان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

پولیس کا ماننا ہے کہ جھوٹ اور پردہ پوشی عوام کی دوبارہ حمایت حاصل کرنے کے لیےایک سازش کا حصہ ہے۔ یہ معمول افغانستان کی سرحدوں سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔

پشاور پولیس کے تحقیق کار خالد خان کا کہنا ہے کہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرنا ان کی ایک حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عوام کی نظروں میں اپنی گرتی ہوئی شبیہ کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان نے ایسے بے شمار حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف طور پر انکار کر دیا ہے جن میں بڑے پیمانے عام شہریوں کی موت ہوئی ہے جس کی بناء پر عوام نے ان کی مذمت کی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ عوام کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کی یہ تمام تر کوششیں ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

ماخذ: http://centralasiaonline.com/en_GB/articles/caii/features/pakistan/main/2014/01/29/feature-01

URL: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/taliban-lie-using-child-suicide/d/35520

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/taliban-lie-using-child-suicide/d/45959

 

Loading..

Loading..