نجیب جنگ
29 اکتوبر ، 2012
تیونس میں ایک میونسپل کارکن
او راس کے مدد گاروں نے محمد بو عزیزی کو جس بد سلوکی اور توہین کا نشانہ بنایا وہ
انقلاب یتونس او ر وسیع تر بہار عرب کا سبب بنی ۔ اس بد سلوکی نے نہ صرف تیونس کے اندر
مظاہروں اور احتجاجی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ کئی دیگر عرب ممالک میں بھی ایسی
ہی تحریکوں کی بنیاد ڈالی ۔ اسی طرح پشاور میں طالبان کے ہاتھوں اسکول کی طالبہ ملالہ
پر گولی چلانے کی ظالمانہ اور بے رحمانہ کارروائی پر پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں
میں حوصلہ افزا ردعمل ہوا ہے۔
اس کے بعد سے دنیا بھر کے
عوام کی طرف سے مسلسل افسوس و حیرانی اور اس کمسن بچی کی حمایت کا اظہار کیا جارہا
ہے ۔ پاکستان اور افغانستان میں اسکولوں کے 10 سال سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکیاں، جن
میں سے بعض نے اپنے چہرے بھی نہیں ڈھنک رکھے تھے، باہرنکل آئے ۔ افغان وزارت تعلیم
نے ملالہ کے لیے ملک گیر سطح پر دعائیہ اجتماع منعقد کیا جس میں ملالہ کو جون آف آرک
کاہم رتبہ قرار دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ حوصلہ افزابات یہ ہے کہ کئی اسلامی تنظیمیں
طالبان کی مخالفت میں آگے آئی ہیں ۔
یہ بات اس لیے دل بڑھانے والی
ہے کہ کئی سال سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ طالبان کے خلاف قدامت پسند مسلمان کم رد عمل
ظاہر کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عمومی فتوے دیوبند جیسی اسلامی درسگاہوں سے جاری
ہوئے لیکن طالبان پر مخصوص تنقید کے معاملے میں خاموشی اختیار کی گئی ۔پندرہ سال پر
پھیلے اس عرصے کا افسوسناک پہلو یہ رہا ہے کہ اسلام کو آزادی اظہار اور آزادانہ تبادلہ
ٔ خیال کا مخالف قرار دیکر بہت سے لوگوں نے اسے نرغے میں لیا ہے۔ بار بار دنیا بھر
کے مسلمانوں نے ایسے مذہبی جذبات مجروح کرنے والے مسائل پر تشدد آمیز رد عمل ظاہر
کیا ہے جب کہ ایسی ہی صورت حال میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا رد عمل ظاہر نہیں
ہوتا ۔
یہ بات اکثر بھلادی جاتی ہے
کہ ہنگامہ آرائی بہت مختصر اقلیت کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے
کہ آج دنیا میں مسلمانوں کی تعداد دو بلین سے زیادہ ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد اپنا
کاروبار عام معمول کے مطابق کرتی ہے۔ پھر بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ وسیع اکثریت
ایک مختصر اقلیت پر نہ قابو پاسکتی ہے اور نہ ہی اسے متاثر کرسکتی ہے جو کہ درحقیقت
مذہب اسلام اور اس کے پیغمبر کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک موقع پرفرمایا کہ ‘‘ طاقتور وہ نہیں ہے جو اپنی طاقت سے لوگوں پر حاوی
ہوجائے بلکہ طاقتور وہ شخص ہے جو غصے کی حالت میں خود پر قابو رکھے ’’۔مسلمانوں کے
غصے کے اسباب مدافعت پسند حکومتوں ، مسلم ممالک پر قبضہ جمانے یا ان کے معاملات میں
مغرب کی دخل اندازی کی کو ششوں اور اس احساس میں تلاش کیے جاسکتے ہیں کہ باقی دنیا
اسلام کو قرونِ وسطیٰ کا مذہب تصور کرتی ہے جو جدید دور کے لیے ناموزوں ہے لیکن یہ
حقیقت بھی بھلائی نہیں جاسکتی کہ اسلام کی بنیاد بسم اللہ الرحمن الرحیم پررکھی گئی
ہے یعنی اللہ کے نام سے شروع جو نہایت رحم والا اور مہر بان ہے۔
معروف اسلامی دانشور مولانا
ابو الکلام آزاد نے اپنی تین جلدوں پرمشتمل تفسیر ترجمان القرآن کی پوری پہلی جلد
ان پرُ اسرار الفاظ کی تفہیم کے لیے وقف کردی۔ اگرکوئی شخص ان الفاظ میں پوشیدہ پرُ
اسرار معانی کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو سمجھ لے تو امید ہےکہ
وہ قرآن کریم کی اس ہدایت کو سمجھ جائے گا کہ ‘‘ دوسروں سے نفرت تمہیں انصاف کے راستے
سے بھٹکا نہ دے (قرآن ۔5:8) اور مزید یہ کہا گیا ہے کہ ‘‘ایسا ثواب ان لوگوں کے علاوہ
کسی کو نہیں ملے گا جو صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں ’’۔ (قرآن ۔41:35)
اس لیے مسلمانوں کو عفو و
کرم اور سخاوت اور نرم دلی کی قدروں پر پھر سے غور کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے انہیں اپنے
رویے اور سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی۔ اپنے خیالات کو زیادہ نرم اندازہ میں
پیش کرنا اور بے لگام تشدد کے بھونڈے مظاہرے پر قابو پانا ہوگا۔ ہندوستان کے مسلمانوں
کو یہ بات لازماً سمجھنا چاہیے کہ درجنوں فسادات ، بابری مسجد اور1991 میں ممبئی، 2002 میں گجرات کے روح فرسا تجربات کے باوجود ہندوستان
سیکولر رہا ہے، کیونکہ 85 فیصد ہندوستانی جن کی بڑی اکثریت ہندو ہے ثابت قدمی سے سیکولر
زم پر قائم ہے۔
سٹی زنز آف جسٹس اینڈ پیس
اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مشترک اقدام کے طور پر اس ادارے میں حال ہی میں منعقد ایک
سمینار کے بیشتر شرکاء جو مختلف جلسوں میں اظہار خیال کرچکے ہیں غیر مسلم تھے ۔ پروفیسر
رومیلا تھا پر ، شوو شواناتھن، دپانکر گپتا، مکل کیسون ، آر بی سری کمار، پروفیسر
پربھات پٹنائک ، ہرش مندر ، راجد یپ سردیسائی ،اشیش کھیتان ، رام رحمان اور مدن گوپال
سنگھ نے پر جوش بحث و استد لال سے ثابت کردیا
کہ سیکولر زم ہمارے ڈی این اے کا لازمی حصہ ہے۔ تو مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا ضروری
ہے کہ حصار بندی کی ذہنیت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ وہ ہندوستان کے قابل فخر
شہری ہیں اور رہیں گے۔ ہندو اکثریت کی طرح مسلمانوں کی اکثریت کو بھی ہندوستان کے قانون
و آئین تک رسائی حاصل ہے ۔لیکن اس مقصد کو پانے کے لیے انہیں اس اقلیت سے ٹکر انا
ہوگا جو قانونی ذرائع سے مسائل حل کرنے کے بجائے غیر آئینی راستے اختیار کرتی ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ ہندستان میں اقلیتوں کو کم و بیش اسی طرح کی دشواریوں کا سامنا
ہے۔ ہندوستان میں ہم فرقہ واریت اور تفریق کا مقابلہ جارحیت سے نہیں بلکہ بہتر تعلیم،
باہمی بات چیت ، ہمدردی و اخلاق مندی اور اس
پختہ یقین کے ساتھ کرسکتے ہیں کہ ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت سیکولر اقدار اور انصاف
پسندی کی حمایت کرتی ہے۔ جب مغربی معاشرے بڑی حد تک اپنے نسلی مسائل حل کرنے میں کامیاب
ہیں تو ہم کیوں نہیں ہوسکتے ؟
---------
نجیب جنگ جامعہ ملیہ اسلامیہ
کے وائس چانسلر ہیں
29 اکتوبر، 2012 بشکریہ :
انقلاب ، نئی دہلی
URL
for English article: https://newageislam.com/islamic-society/nothing-be-gained-siege-mentality,/d/9124
URL: