نجم سیٹھی
15 جون، 2014
وسطی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی طرف سے کراچی ایئرپورٹ پر حملے نے کم از کم ایک حقیقت آشکار کردی کہ ان دہشت گردوں نے نہایت ہوشیاری سے مذاکرات اور جنگ بندی کی آڑ میں ریاست کے اندر اپنے مورچے پکے کرلئے ہیں۔ صورت ِ حال اتنی گمبھیر ہوچکی ہے کہ اب صرف بے دریغ طاقت کا استعمال ہی ان کے گھنائونے عزائم کو خاک میں ملا کر ریاست کا تحفظ کرسکتا ہے۔ اس صورت ِ حال کا ادراک کرتے ہوئے فوج نے اعلان کیا کہ وہ ان دہشت گردوں کا قبائلی علاقوں سے قلع قمع کردے گی اور اس کام کے لئے امریکی ڈرون حملوں کی مدد بھی لی جائے گی۔ کیا اس سے ریاست ِ پاکستان کے رویّے میں تبدیلی کا عندیہ ملتا ہے کہ یہ آخر کار تمام دستیاب وسائل استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئےتیار ہوگئی ہے؟
تاہم ریاست کی طرف سے دہشت گردوں کو کچلنے کے عزم پر کچھ سوالیہ نشان ضرور اٹھتے ہیں۔ریاست ایک سال قبل اس فیصلے پر کیوں نہیں پہنچی جب ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیدارن، جیسا کہ جنرل مشرف، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی، بے نظیر بھٹو اور اے این پی کے بہت سے ارکان ان دہشت گردوں کی کارروائی کا نشانہ بنے (جنرل مشرف دہشت گردوں کے حملوں میں متعدد مرتبہ بال بال بچے)۔ دفاعی اداروں کے جوانوں کے علاوہ اعلیٰ افسران، جیسا کہ لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ، میجر جنرل امیر فیصل علوی، میجر جنرل ثنا اﷲ نیازی، کمانڈنٹ صفوت غیور اور بہت سے دیگر کو دہشت گردوں نے شہید کردیا تو ریاست نے دہشت گردوں سے اغماض کی پالیسی کیوں اپنائے رکھی؟جب دہشت گردوں نے حساس تنصیبات، جیسا کہ باچا خان ایئرپورٹ پشاور، منہاس ایئربیس کامرہ، مہران نیول بیس کراچی، عسکری مسجد راولپنڈی کینٹ اور پی او ایف واہ کینٹ کو ہدف بناکر کارروائیاں کیں تو ریاست کہاں سوئی رہی؟ ان خون آشام درندوں کو پانچ ہزار سیکورٹی کے جوانوں اور پچاس ہزار عام پاکستانی شہریوں کا خون بہانے کی اجازت کیوں دی گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ اتنے بھاری نقصان کے بعد بھی ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ریاست اور معاشرے میں کوئی اتفاق ِ رائے دکھائی نہیں دیتا۔ اس ضمن میں پھیلی ہوئی (جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی) کنفیوژن کی ذمہ داری عمران خان جیسے افراد پر عائد ہوتی ہے۔ کیا ہمیں ابھی بھی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے جھانسے میں آکر ان کو اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی اجازت دینی چاہئے یا پھر ہمیں اس خونریزی کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کرنی چاہئے۔ کیا یہ غیر ملکی دہشت گرد ہیں یا مقامی افراد ہیں؟کیا ان کے درمیان ’’اچھے دہشت گرد‘‘ اور ’’برے دہشت‘‘ کی تخصیص ہوسکتی ہے؟ کیا ہونے والے واقعات انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہیں یا پھر یہ کوئی ’’پالیسی‘‘ ہے؟ اس تمام صورت حال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے... سول حکومت پر یا دفاعی اداروں پر یا دونوں پر؟اب ہم اس کینسر سے کیسے نمٹیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات پاکستانیوں کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کے وقت سے ہم ملک کو ایک سیکورٹی ریاست میں تبدیل کرنے میں کوشاں رہے ہیں تاکہ بیرونی خطرے اور جارحیت (عام طور پر مشرقی بارڈر سے) سے نمٹ سکیں لیکن موجودہ صورت ِ حال میں خطرہ بیرونی نہیں بلکہ ریاست اندرونی دشمن کے بے رحم حملوں کی زد میں ہے۔ اس حقیقت کا اظہار سابق آرمی چیف جنرل کیانی صاحب جو بطور ڈی جی آئی ایس آئی بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں، سے بہتر کسی نے نہیں کیا ۔ کیانی صاحب نے ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے عوامی سطح پر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی عناصر سے ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس، فوج، پیرا ملٹری فورسز، سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت 33 ادارے پاکستان کو درپیش خطرات کا تدارک کرنے کے لئے موجود ہیں۔ ان کے آٹھ لاکھ سے زیادہ جوان اور افسران ہیں۔ ان پر تقریباً ایک ہزار بلین روپے سالانہ خرچ ہوتا ہے اور یہ رقم ٹیکس دہندگان کی جیب سے آتی ہے تاکہ اُنہیں دہشت گردوں اور قاتلوں سے بچایا جاسکے۔ بدترین ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طر ف سے پیش کردہ ’’نیشنل انٹرنل سیکورٹی پالیسی‘‘ کے مسودے کے مطابق ان اداروں میں چھپن ہزار آسامیاں خالی ہیں (آٹھ لاکھ میں سے صرف چھپن ہزار) اور اگر یہ آسامیاں پُر ہو جائیں تو سیکورٹی کی صورت ِحال میں بہتری آسکتی ہے۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ پہلے کا تعلق ریاست کی طرف سے دہشت گردی کی مختلف جہتوں کے ادراک سے ہے۔ دوسرے کا تعلق ان کے مقابلے میں ریاست کے ردعمل سے ہے۔ اگر دہشت گردی کے حوالے سے ریاست کنفیوژن ، ژرف نگاہی اور ژولیدہ فکری کا شکار ہو کر حقائق کی تفہیم سے عاجز ہے تو پھر اس کا ردعمل یقینی طور پر ناکافی اور نیم دلانہ ہوگا۔ ہندو اور مسلمان ایک ریاست میں اکٹھے نہیں رہ سکے اور معاشی اور سیاسی امتیاز اور اس کے نتیجے میں کئے جانے والے استحصال کی وجہ سے مسلمانوں نے الگ ریاست حاصل کرلی۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں ہے تاہم آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت کو اپنا ازلی دشمن ماننے کی پالیسی کو قومی سوچ کا حصہ بنادیا گیا۔ آج چھے عشروں کے بعد بھی اسی سوچ کا تسلسل پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے دو منفی نتائج برآمد ہوئے۔
پہلا یہ کہ سول حکومت پر عسکری اداروں کو بالادستی حاصل ہو گئی۔ اس کی وجہ سے جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کو نقصان پہنچا۔ دوسرا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے فوج نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کا اصول وضع کرلیا اور غیر ریاستی عناصر کو تحریک دیتے ہوئے دشمن پر دبائو بڑھایا اور روایتی اسلحے میں کمی کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ جہادی گروہ اور طالبان کی تخلیق اسی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ اس فارمولے کے منفی اثرات کی لپیٹ میں اور بھی بہت سے معاملات آتے ہیں۔ ہم نے امریکہ کے ساتھ محبت اور نفرت کی پالیسی آگے بڑھانا شروع کردی۔ اس نے ہماری معیشت اور سیاسی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اس نے ملک میں فرقہ واریت کے عفریت کو سراٹھانے کا موقع دیا اور مختلف اکائیوں کے درمیان لسانی تعصبات کو ابھارا۔
اس تمام پسِ منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وزیرستان میں کچھ ٹارگٹڈ اپریشن کرنے سے یہ معاملہ حل نہیں ہو جائے گا۔ اس کے لئے سول اور ملٹری افسران، میڈیا اور عدلیہ کے درمیان ایک نئے سماجی اور سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی دشمن ، جو ہماری صفوں میں موجود ہے، کا ادراک کرتے ہوئے ، کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے لئے سول ملٹری اختیارات میں توازن، علاقائی اور عالمی تعاون، انسانی حقوق اور سماجی ہم آہنگی کوفروغ دیا جائے۔تدریسی نصاب میں انتہا پسندانہ سوچ پر مبنی لٹریچر کو نکال کر مندرجہ بالا معروضات کو جگہ دی جائے۔ یہ اقدامات جتنی جلدی طے پاجائیں گے، اُتناہی بہتر ہے۔
15 جون، 2014 بشکریہ : روز نامہ جنگ ، کراچی
Related article:
Zarb-e-Azb: Good Luck, Pak Army
URL for English article:
तालिबान के खिलाफ पाकिस्तानी सेना का ऑपरेशन 'ज़र्बे अज़्ब'
URL for Hindi article:
طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کا آپریشن ’ضرب عضب
URL for Urdu article:
Zarb-e-Azb Exposes Jama’at-e-Islami and Jamiat ul-Ulema-e- Islam's Pro-Terrorism Ideology
URL for New Age Islam Edit Desk:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/question-mark-resolve-crush-terrorists/d/87641