نعیم صدیقی
دوسرا
حصہ
4 فروری 2022
عقل سے کام لے کر مطالعۂ
کائنات و حیات کا مشورہ دے کر قرآن پیچھے نہیں ہٹ جاتا بلکہ شہرِ زندگی کے مسافر
کو ایک گائیڈ کی طرح اپنے ساتھ گھماتا ہے اور ایک ایک کرکے آیاتِ حقیقت کو اس کے
سامنے کھولتا ہے۔
وہ مونس و ہمدم بن کر اس سے کہتا ہے کہ آؤ،
تمہارے ساتھ ہوکر تمہیں کچھ دکھاؤں۔ پیارے انسان یہ دیکھتے ہو کہ سورج کس
باقاعدگی سے مشرق سے نکل کر مغرب میں ہر روز ڈوبتا ہے اور چاند تاروں کی گردش
دیکھو، دن اور رات کا ادل بدل دیکھو،
موسموں کے چرخے کا گھماؤ دیکھو، یہ مقرر ڈھنگ سے چلنے والی ہوائیں، یہ ہواؤں کے
دوش پر لَد کر آنے والے بادل اور پھر بادلوں کا کثیف بن جانا، یہ مردہ زمینوں کا
زندہ ہونا، یہ ننھے ننھے بیجوں کا پھوٹنا، یہ نشوونما پاتی فصلیں، یہ ہرے بھرے
کھیت، یہ طرح طرح کے کھیت، ان پر لگنے والے مختلف رنگوں اور ذائقوں کے پھل، یہ
زمین پر بنے ہوئے راستے اور ان کو نمایاں کرنے والے نشانات، یہ سمندروں پر تیرتی
کشتیاں، یہ پہاڑ جیسی اٹھتی موجیں، یہ کشتیوں اور طوفانوں کی کشاکش میں انسانی
زندگی کا ڈانواں ڈول ہونا، خود انسان کا اپنا نظامِ ولادت اور پرورش، انسانوں کی
شکلوں اور رنگوں اور بولیوں کا تفاوت، یہ تمہارے سامنے پھیلی ہوئی کتاب ِ حقیقت کی
روشن آیات ہیں۔ ان میں تم تین باتیں
نمایاں دیکھتے ہو۔ ایک نظم و ترتیب، دوسرے توافق اور تیسرے حسن و جمال، اور و ہ
دریافت کرتا ہے:
’’تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے
ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا
تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو۔‘‘
(الملک:۳)
قرآن اپنے شاگرد کو پھر
توجہ دلاتا ہے کہ یہ تمام چیزیں قانون کی پابند ہیں اور ایک اقتدار میں جکڑی ہوئی
ہیں۔ اتنے بھاری بھاری اجرام اور عالمِ
طبعی کی طوفانی طاقتوں کو ضوابط کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے اور وہ قوت ِ
برتر کے سامنے مطیع و منقاد اور مسلّم عاجز بنی ہوئی ہیں:
’’اور جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس
نے خوشی سے یا لاچاری سے (بہرحال) اللہ کی فرمانبرداری اختیار کی ہے ۔‘‘ (آل
عمران:۸۳) اس استدلال کے
راستے قرآن آدمی کو ساتھ لئے اس شعور تک پہنچاتا ہے کہ نظم و ترتیب اور توازن و
توافق اور قانون و ضابطہ اور حسن وجمال کے ساتھ چلنے والی اس دنیا میں جہاں پتہ
پتہ ، قطرہ قطرہ اور ذرہ ذرہ (اور آج کی معلومات کے مطابق ایٹم کا ایک ایک برقیہ)
ایک بندش میں جکڑا ہوا ہے خود تم بھی نہ
تو عملاً آزاد ہو اور نہ آزادی کا استحقاق رکھتے اور نہ ہی آزادی میں تمہارا
بھلا ہے۔
یوں قرآن، شہر زندگی کے انجان نووارد کو
گھماتے پھراتے اور یہاں کے احوال کا مشاہدہ کراتے کراتے اُس کے اندر غیرمحسوس طور
سے یہ احساس پیدا کردیتا ہے کہ یہاں تمہارا مقام مالک اور حاکم و مقتدر کا نہیں ہے
بلکہ محکومی اور عبودیت کا ہے اور تمہاری خیر اسی میں ہے کہ اپنے آپ کو ’’ملیکِ
مقتدر‘‘ کی رضا کے حوالے کردو۔
(۶) قرآن متذکرہ بالا
سارے ابتدائی اسباق میں جن کا مقصد اصل سبق کے لئے مخاطب اور قاری کو تیار کرنا ہے
وہ درحقیقت ہدایت کی پیاس پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بعد میں ہدایت کی طرف نشاندہی کرتا
ہے۔ وہ پہلے طلب پیدا کرتا ہے پھر مطلوب کو سامنے لے آتا ہے۔ پہلے سوال ابھارتا
ہے پھر جواب فراہم کرتا ہے۔ قرآن اہلِ
تدبر اور تفکر اور اصحاب ِ احتیاط و تقویٰ کو وہ اصل سبق دیتا ہے جس کے لئے بڑی
تیاریاں ہیں اور بڑا اہتمام ہے۔ آئیے، اس مرکزی سبق کو قرآن سے اخذ کریں۔
وہ مختصر سا سبق یہ ہے:
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں
پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
(البقرہ:۲۱)
یعنی غور و فکر کرنے والے
(اولو الالباب) جب یہ حقیقت پا لیں کہ یہاں نظم و توافق ہے ، مقصد و غایت ہے، حسن
و جمال ہے تو انہیں اس صداقت تک ازخود پہنچنا چاہئے کہ یہ سارا سلسلۂ وجود
حکیمانہ قوانین پر مبنی ہے اور قانون کا وجود یہ پتہ دیتا ہے کہ کوئی قانون ساز
اور کارپرداز ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وہ اللہ ہے، وہی تمہارا رب ہے اور اس رب کے
ساتھ تمہارے تعلق کی ایک ہی صورت عقلاً
بھی درست ہے اور عملاً بھی صحیح ہے کہ تم اس کے عبد بن کے رہو مگر عبادت کسی جزوی
صورت میں مراد نہیں ، یہاں پوری زندگی کا مصرف بیان ہوا ہے۔ اس کائنات میں دو ہی
بڑے مناصب ہیں: ایک رب اور معبود ہونے کا، دوسرا بندہ اور عبادت گزار ہونے کا۔
انسان بہرحال رب اور معبود نہیں ہے۔ اس کا منصب صرف دوسرا ہی ہوسکتا ہے اور وہی
ساری مخلوق کا مقام بھی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے کسی بھی گوشے میں اور زمانہ کے کسی
بھی حصے میں عبدیت کے مقام سے الگ نہیں ہوسکتا اور اس کے لئے کوئی امکان نہیں ہے
کہ رب یا معبود کے مرتبے پر فائز ہو یا اس مرتبے میں ربِ کائنات کا حصہ دار
ہوسکے۔ پوری زندگی کو خدا کی عبادت میں
لگا دینا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ قرآن کا دانشور شاگرد اپنے ربّ کے سامنے سرتسلیم
خم کردے، پوری طرح جھک جائے اور خدا کے بالمقابل اپنی آزادی سے دستبردار ہوجائے۔
اس بارے میں قرآن کا سبق یہ ہے کہ :
’’تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔‘‘
(الحج:۳۴)
(۷) لیکن
یہ مسلک ِ اسلام ، یہ دین حق، یہ عبادت ِ رب کوئی ایسی چیز نہیںکہ افراد اپنی حد
تک اس کے کچھ تقاضے پورے کرکے فارغ ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ایک بڑا عظیم الشان فریضہ
اور مشن ہے جو اس کے ماننے والوں کو تفویض کیا گیا ہے: ’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور
ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے
روکیں۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۴) قرآن فی الحقیقت
ایک ایسی تحریک برپا کرنا چاہتا ہے جس کے تحت ہر خداپرست نیکی کا علمبردار بن کے
بدی کے خلاف میدان میں اترے، بدی کی قوت کے
بالمقابل نیکی کی قوت باقاعدہ محاذ آرا ہو۔ یہی وہ بنیادی مشن ہے جس کے
لئے قرآن ایسے لوگوں کی تلاش میں ہے جنہیں وہ اس مشن کے شہداء (علمبردار) بنانا
چاہتا ہے۔
(۸) نیکی کی تلقین
کرنے اور بدی کا انسداد کرنے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ قرآن یہ تصور بھی دلاتا ہے
کہ نیکی کسی جزوی عمل کا، یا چند جزوی وظائف کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ نیکی ساری
زندگی پر پھیلا ہوا ایک نظام ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور
مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر
اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت
میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور
مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز
قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کرے تو اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہو، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری)
میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر
کرنے والا ہو، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔‘‘ (البقرہ:۱۷۷) دیکھئے،
یہاں افکار و اعمال اور اعتقادات و اخلاق سب کچھ مذکور ہے، مصلیٰ سے لے کر میدانِ
جنگ تک سارے مراحل سامنے آگئے ، مالی اور اقتصادی امور بھی شمار کرادیئے گئے۔
اتنی ساری چیزوں کو اختیار کرکے پوری زندگی کو ایک خاص نقطے پر ڈھالنا ہے۔ ظاہر ہے
کہ اس وسیع تصور ِ نیکی کے ساتھ فرد کسی بگڑے ہوئے معاشرے کے درمیان اپنے آپ کو
پوری طرح سنوار نہیں سکتا۔ اسے پورے معاشرے کو سنوارنا ہوگا اور اس کے لئے ’’امر
بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔(جاری)
4 فروری 2022 ، بشکریہ: انقلاب،نئی
دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism