مظفر اعجاز
چند روز قبل جب طالبان کے
ایک رہنما ملا وکیل احمد متوکل نے کہا تھا کہ طالبان کا ایک حصہ امریکہ سے مذاکرات
کا خواہشمند ہے تو اس وقت ایسا محسوس ہوا تھا کہ کوئی معاملہ اندر اندر چل رہا ہے
اور چند دنوں میں معاملہ باہر آگیا او رکابل کے مضافات میں امریکی حکام اور طالبان
کے درمیان خفیہ ملاقات کی خبر سامنے آگئی۔ ایک اخبار نویس یہ بات اچھی طرح سمجھتا
ہے کہ اس قسم کے انکشافات ہوتے نہیں ہیں بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ
ملا وکیل احمد متوکل کا یہ کہنا بھی کسی منصوبے کا حصہ تھا کہ بعض طالبان امریکہ
سے مذاکرات کرناچاہتے ہیں اور اب اس ملاقات کی خبر بھی کسی منصوبے کے تحت ہی جاری یا
منکشف ہوگئی ہے۔خبر کے مطابق یہ مذاکرات کابل کے مضافات میں خفیہ مقام پرہوتے ہیں۔
خفیہ مذاکرات کا خفیہ ہونا بھی اس تفصیل کے بعد مشتبہ ہوجاتاہے کہ جس میں بتایا گیا
ہے کہ امریکی سفیر لیفٹنینٹ جنرل کال ریکن بیری نے چار رکنی امریکی وفد کے ساتھ وکیل
احمد متوکل کی سربراہی میں چار رکنی طالبان وفد سے ملاقات کی۔اس ملاقات کی مزید
تفصیل سے یہ بھی پتا چل گیا کہ افغانستان میں عملاً کیا صورتحال ہے جن طالبان یا
القاعدہ کی کمرتوڑ دی گئی تھی جہاں سے ان کے ٹھکانے پاکستان کے قبائل علاقوں میں
اور پھر شمالی افریقہ منتقل ہوگئے تھے وہاں کس کی عملداری ہے۔ یہ کہنا تو قبل از
وقت ہوگا کہ عملداری طالبان کی ہے یا القاعدہ کی لیکن یہ طے ہے کہ افغانستان کے چھ
صوبوں میں امریکہ یا ناٹو کی عملداری نہیں اور حامد کرزئی کی بھی نہیں۔
اس ملاقات میں طالبان کا
ہلمندقندھار، کنٹرنورستان، جلال آباد اور ارزگان میں شریعت نافذ کرنے کی پیش کش
کردی گئی ہے۔ یہ پیش کش مشروط ہے اور شرط یہ ہے کہ طالبان ان صوبوں میں موجودہ فوجی
تنصیبات پر حملے نہیں کریں گے اور القاعدہ کی سرکوبی کے لئے اتحادی فورسز کی مدد
بھی کریں گے۔اس خفیہ ملاقات کی یہ تفصیل بھی سامنے آگئی ہے کہ ملا وکیل احمد متوکل
نے ملا برادر کے ذریعہ یہ تجویز ملا عمر تک پہنچا دی ہے تاہم طالبان کی جانب سے
کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ افغانستان میں 26 ملکوں کی افواج ناٹو کے پرچم تلے
سرگرم ہیں،27واں ملک پاکستان ہے جس کی افواج کے بارے میں مولوی فضل اللہ کا کہنا
ہے کہ اوباما کو مزید فوج افغانستان بھیجنے کی ضرورت نہیں یہ کام پاکستانی فوج
بخوبی دے رہی ہے پھر القاعدہ کی سرکوبی کے لئے طالبان کی 28ویں فورس کی ضرورت کیوں
پیش آگئی؟ کیا امریکی حکام اس صورتحال سے مایوں ہیں اور کیا ملا وکیل احمد متوکل
کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی پیشکش طالبان کو قبول ہوگی۔ پہلا سوال تو یہی پیدا
ہوتا ہے کہ امریکی اور ناٹو افواج کے زیر سایہ شریعت کیسی نافذ ہوگی؟کیا کرنا ہے
اور کیا نہیں کرنا، یہ فیصلہ شریعت کورٹ نہیں امریکی سفیر کرے گا۔ دوسرے یہ کہ
طالبان کو فوجی چھتری تلے شریعت کی پیشکش کر کے ان سے حامد کرزئی حکومت والا کام لینے
کی کوشش کی جائے گی۔ اب شاید بارک اوباما کی یہ بات بھی سمجھ میں آجائے کہ ”ہم
بدعنوان کرزئی حکومت کے لیے مزید امریکیوں کی قربانی نہیں دے سکتے“ چنانچہ اب انہوں
نے بدعنوان کرزئی حکومت کی جگہ طالبان کی ”معتدل“ قیادت کو لانے او ران سے کرزئی
حکومت کا ان صوبوں میں کنٹرول نہ ہونے کا تاثر دیا ہے۔
اگر کرزئی حکومت کا کنٹرول
ہوتا تو اس قسم کی پیشکش او راس قسم کے مذاکرات کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ دوسری طرف
برطانیہ کے وزیر اعظم ے افغانستان سے فوج نکالنے کے لیے جنوری میں کانفرنس کی میزبانی
کی پیشکش کی ہے۔گورڈن براؤن کا خیال ہے کہ 2008 ء میں درجنوں کمانڈرز کے قتل کے
باوجود القاعدہ اب بھی برطانیہ کی سلامتی کے لیے سب سے بڑاخطرہ ہے انہوں نے مشورہ
دیا کہ اتحادی افواج کو 2010 ء میں افغانستان سے انخلاء کا آغاز کردینا چاہئے۔ اگر
القاعدہ اب بھی برطانیہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے تو مسٹر گورڈن براؤن 2010ء میں
انخلا کا آغاز کیوں؟ اپنے ملک کو سب سے بڑے خطرے کو یوں ہی چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟
مسٹر گورڈن براؤن کی گفتگو امریکی سفیر کے طالبان سے مذاکرات او رملا متوکل کا
گزشتہ ہفتے کا انکشاف الگ الگ باتیں نہیں ہیں بلکہ ان سب کا ایک دوسرے سے کوئی نہ
کوئی تعلق ہے۔ا س سلسلے کی ایک کڑی افغانستان سے متعلق امریکی صدر کے خصوصی ایلچی
رچرڈ ہالبروک کی روسی ہم منصب سے ملاقات ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا حالات کی
تبدیلی کہ جس افغانستان سے روس کونکالنے کے لیے ایک زمانے میں امریکہ نے ساری دنیا
کی مدد حاصل کی تھی اب وہ افغانستان سے متعلق پالیسی پر بات چیت کرنے کے لیے اس
روس سے رابطہ کرنے پر مجبور ہے۔ اگر افغانستان او رپاکستان کے حوالے سے دوسرے ملکو
ں سے تعاون چاہتا ہے۔ کیسا تعاون چاہتا ہے؟ اس کے بارے میں خبر منکشف نہیں کی گئی
کیونکہ اس میں کچھ راز ہیں۔ لیکن خطے میں جس طرح تبدیلیاں ہورہی ہیں اور جس طرح
افغانستان اور پاکستان پر سے امریکی افواج کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے او ربرطانیہ
کی جانب سے اتحادی افواج کے انخلاء کے لیے کانفرنس کی میزبانی اور 2010ء کی ڈیڈلائن
یہ سب بتارہی ہیں کہ افغانستان سے نکلنے کی پالیسی پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ ہم
سمجھتے ہیں کہ روس سے جو تبادلہ خیال ہوا ہے وہ محفوظ واپسی یادوسرے عسکریت پسند
گروپوں کو افغانستان میں داخل نہ ہونے دینے کی بات چیت ہے۔ کم از کم اس قسم کی
ملاقاتوں سے امریکہ روس کا عندیہ لینا چاہتا ہے کہ افغانستان کے بارے میں اب وہ کیا
سوچ رہا ہے۔ہمیں نہیں پتا کہ حقیقتاً کیا گفتگو ہوئی ہے لیکن یہ حقیقت بھی تو تاریخ
کا حصہ بن چکی ہے کہ جب ہنری کسنجرروس کے دورے پر گئے اور روسی رہنماؤں سے 1988 ء
میں طویل گفتگو ہوئی تو اس میں افغانستان میں روسی افواج خطے کے دوسرے ممالک افغان
مجاہدین سمیت سب امور پر بات ہوئی لیکن روس کے ٹکڑے ہونے کے کسی شائبہ پر بھی بات
نہیں ہوئی تھی جب کہ ایسی ملاقاتوں سے دور بیٹھے لوگ حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے
تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سوویت یونین تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے والا ہے۔
اس حوالے سے سیدابوالاعلیٰ
مودودی کی پیشگوئی بھی ریکارڈپر ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ کمیونزم کو ماسکو او
رسرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن میں پناہ نہیں ملے گی۔1990 ء کا عشرہ کمیونزم کے
سکڑنے کا عشرہ تھا او رکمیونسٹ سوویت یونین سے 6مسلم ممالک ابھر کر سامنے آگئے اب
واشنگٹن میں کسی نہ کسی عنوان سے سرمایہ دارانہ نظام تڑپ رہا ہے۔ لہٰذا یہ نہیں
کہا جاسکتا کہ مسٹر ہالبروک کی روسی رہنماؤں سے کیا بات ہوئی ہے لیکن افغانستان کے
حالات پرنظر رکھنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب افغانستان میں کوئی تبدیلی ہونے والی
ہے۔ تبدیلی لانے والے اپنا منصوبہ بناتے ہیں لیکن میدان جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا
ہے افغانستان میں تبدیلی ان کی مرضی سے آتی ہے۔ اس حوالے سے حز ب اسلامی کے رہنما
گلبدن حکمت یار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔حکمت یا رنے جس طرح طالبان کے لیے
راستہ چھوڑا تھا او رمزاحمت کی پالیسی سے اجتناب کیاتھا اسی طرح اب حکمت یار کے لیے
افغانستان میں راستے نکل رہے ہیں او رکوئی بعید نہیں کہ جب افغانستان سے غیر ملکی
افواج کا انخلاء ہوتو مذاکراتی طالبان،کرزئی اورامریکہ کے پسند یدہ طالبان کے
بجائے کوئی اور معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکا ہو۔۔ بہر حال جہاں تک امریکی اور
ناٹو افواج کی چھتری تلے چھ صوبوں میں شریعت کی پیشکش کا تعلق ہے تو ہمیں یقین ہے
کہ ایسی کوئی شریعت نہیں جو غیر مسلموں کی افواج کا چھتری تلے نافذ کی جائے۔ شریعت
تو ہے ہی غالب ہونے کے لیے یہ کسی فوج کے غلبہ کو کیسے تسلیم کرلے گی اگر ایسا
ڈرامہ رچا یا بھی گیا تو وہ شریعت نہیں کوئی او رچیز ہوگی۔ یہ بات ملامتوکل بھی
جانتے ہیں اور پیشکش کرنے والے بھی کہ دین و شریعت اسلامی تو غالب رہنے کے لیے ہی
آئے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/afghanistan-taliban-shariat-under-nato’s/d/2137