New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:57 PM

Urdu Section ( 16 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muttaqi's Visit: Context, Background, and Outlook متقی کا دورہ: منظر، پس منظر اور پیش منظر

سہیل انجم

15 اکتوبر،2025

دنیا کا ہرامن پسندانسان دہشت گردی کا مخالف ہے۔ ہندوستان بھی دہشت گردی کامخالف ہے۔ 2021ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد دہشت گردی کے الزامات کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اس پر سخت پابندیاں عاید کر دیں۔ ہندوستان کے دورے پر آنے والے وہاں کے موجودہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کانام سلامتی کونسل کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل ہے۔البتہ اس نے اس دورے کے لئے ان پرسے پابندیاں عارضی طورپراٹھا لیں۔ جب 1990 ء کی دہائی میں پہلی بارطالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو پاکستان، سعو دی عرب او رمتحدہ عرب امارات نے اسے تسلیم کیا تھا۔ جبکہ ہندوستان نے تسلیم نہیں کیا تھا۔حالانکہ اس سے قبل 1979 ء میں افغانستان پر سو ویت روس کے حملے کے بعد اس کی حمایت کرنے والی نجیب اللہ حکومت کی حمایت کی تھی۔ادھر 2021ء میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو کسی ملک نے بھی اس کوتسلیم نہیں کیا۔ البتہ طالبان سے لڑنے والے روس نے 2023 ء میں ان کی حکومت کوتسلیم کرلیا۔ یاد رہے کہ طالبان مجاہدین نے پاکستان کی فوجی مدد سے روس کو وہاں سے نکلنے پرمجبور کیا تھا۔ روس ان چند ملکوں میں شامل رہاہے جنہوں نے 2021 ء میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کابل میں اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا۔اس نے دہشت گردی سے متعلق اپنی فہرست سے طالبان کو نکال بھی دیا ہے۔گزشتہ دنوں افغانستان کے معاملے پرروس میں ایک عالمی کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں افغانستان کے علاوہ ہندوستان، پاکستان، چین، قزاقستان، کرغیز ستان، تاجکستان اور از بکستان نے شرکت کی تھی۔طالبا ن حکومت کی کوشش ہے کہ ا س پر عاید پابندیاں اٹھالی جائیں اور عالمی برادری اسے تسلیم کرلے۔ ادھر ہندوستان نے اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا۔البتہ اس نے اس کادرجہ کم کردیا اور صرف ٹیکنیکل اسٹاف کو باقی رکھا تھا۔ لیکن امیرخان متقی سے مذاکرات کے دوران وزیر خارجہ جے شنکر کابل میں ہندوستانی سفارت خانے کوفعال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

افغانستان میں طالبان کی موجودگی کے قیام کے بعد خطے کی سیاست کافی بدل گئی ہے۔چین نے اسی وقت سے اس کے ساتھ اپنے روابط بڑھانے شروع کردیے۔ اس کے پروجیکٹ ’بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹییو‘ کی گرمیاں بھی بڑھ گئیں۔ جب کہ افغانستان اور ہندوستان دونوں موجودہ حالات کے تناظر میں باہمی روابط کو استوار کرناچاہتے ہیں۔ہندوستان نے  حالات کی تبدیلی کا احساس کرتے ہوئے اپنے سابقہ موقف کوبدلا ہے۔ اس نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے وزیرخارجہ متقی کوہندوستان آنے کی دعوت دی۔ اس کی وجہ جہاں چین کے بڑھتے اثرات ہیں وہیں دوسری وجہ افغانستان او رپاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی اور تیسری وجہ دونوں ملکوں کے درمیان جو تاریخی اور دوستانہ رشتے رہے ہیں او رجو ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں ا ن کوبحال رکھنا ہے۔ اس نے افغانستان میں ارب ڈالر کی امداد کی ہے۔ اس نے ایک ہزار وظیفے اسپانسر کیے ہیں اور یہاں سولہ ہزار افغانستان اسٹوڈنٹس پڑھ رہے ہیں۔ ہندوستان یہ بھی چاہتاہے کہ افغانستان سے ہند مخالف سرگرمیاں بند ہوں۔امیر خان متقی نے جے شنکر کی موجودگی میں اعلان کیا کہ ان کاملک اپنی سرزمین کوکسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ باہمی مشترکہ اعلامیے میں پہلگام حملے کی مذمت کی گئی، جس پرپاکستان چراغ پا ہے۔سینئر تجزیہ کار دونوں ملکوں میں بڑھتی قربت کو مثبت سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہندوستان کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔ کیونکہ اگر ہندوستان طالبان سے روابط نہیں رکھے گا تو پاس افغان کشیدگی او رامریکی صدر کی جانب سے بگرام ایئر بیس کی واپس لینے کی بار بار دھمکی کے پیش نظر خطے میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ہندوستان نے بگرام ائیربیس کی واپسی کی دھمکی پرافغانستان کی حمایت کی ہے۔ اسے بھی ایک مثبت اشارہ سمجھا جارہاہے۔طالبان حکومت کی جانب ہندوستان کے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کا احساس وہاں کے وزیر خارجہ کو بھی ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں پاکستان کو انتباہ دیا کہ تشد دکے بجائے امن کا راستہ اختیار کرے۔ ان کایہ بیان اہمیت کا حامل ہے کہ افغانستان کے صبر کو آزمایا نہ جائے۔جاکر سویت یونین، امریکہ او رناٹو سے پوچھو و ہ کچھ سمجھادیں گے۔طالبان پرانسانی حقوق اورخواتین کے معاملات پرالزامات لگتے رہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا اورمتعدد سیاست داں بھی ایسے الزامات عاید کرتے رہے ہیں۔اس معاملے پر مغربی ملک بھی افغانستان پردباو بناتے رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ہندوستان کواس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ یہ مسائل برسوں تک افغانستان میں ا مریکی موجودگی کے دوران بھی رہے ہیں۔ لہٰذا اسے طالبان حکومت سے اپنے روابط کو مضبوط کرنا چاہئے۔ لیکن وہ فی الحال عالمی رائے عامہ کے پیش نظر طالبان حکومت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اسے عالمی تنقید کا سامنا کرناپڑے گا۔

بہر حال اس دورے کے موقع پرکچھ تنازعات بھی پیدا ہوئے جن میں سب سے بڑا تنازع متقی کی پریس کانفرنس سے خاتون صحافیوں کو الگ رکھنا تھا۔ اس قدم پراپوزیشن اور صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کی  گئی اوراسے طالبان حکومت میں خواتین کے انسانی حقوق کی صورتحال سے جوڑ کر دیکھا گیا۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے استدلال کیاکہ اس معاملے میں اس کا رول نہیں ہے۔یہ فیصلہ مکمل طور پر ان کا تھا، ہمارا نہیں۔جب یہ تنازع بہت زیادہ بڑھا تو امیرخان متقی کے وفد نے کابل میں اعلیٰ اتھارٹی سے رابط قائم کیا اوراسے کیا کرنا چاہیے اس پرمشورہ طلب کیا۔ذرائع کے مطابق وہاں کی اعلیٰ اتھارٹی نے ایک او ر پریس کانفرنس کرنے اور خاتون صحافیوں کوبلانے کا حکم دیا۔ لہٰذا دوسرے روز امیر خان متقی نے ایک اور پریس کانفرنس کی جس میں ملکی وغیر ملکی خاتون صحافیوں نے شرکت کی۔ حالانکہ ان کو اس روز تاج محل کا دیدار کرنے آگرہ جانا تھا۔ لیکن آگرہ جانے کا ان کا دورہ منسوخ کردیا گیا۔ اسے طالبان کا لچک دار رویہ سمجھا جارہاہے۔ممکن ہے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا ہوکہ میزبان ملک ہندوستان کو ندامت کا جو سامنا ہے اس سے اسے نکالا جائے او راپنی خواتین مخالف شبیہ کو بھی توڑا جائے۔البتہ خاتون صحافیوں کو دوپٹے کے ساتھ آنے کی ہدات دی گئی۔ کانفرنس میں امیر خان متقی سے خواتین کے حقوق کے تعلق سے سخت سوالات کیے گئے جن کا جواب انہوں نے بڑے صبر وتحمل کے ساتھ دیا۔لڑکیوں کے حصول تعلیم پرعاید پابندی کے الزام کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایک کروڑ اسٹوڈنٹس ہیں جن میں 28/ لاکھ خواتین اورلڑکیاں ہیں۔البتہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں کچھ پابندیاں ہیں۔میڈیا ں میں جہاں خاتون صحافیوں کامعاملہ چھایا رہا،وہیں امیر خان متقی کے دارالعلوم دیوبند کے دورے میں ان کے غیر معمولی استقبال کا معاملہ بھی کافی سرخیوں میں رہا۔نیشنل میڈیا نے اس کی بھرپور کوریج کی۔بعض مسلم مبصرین کو اس بات کا خدشہ ہے کہ آگے چل کر مسلم دشمن قوتیں اس موقع کی ویڈیو فوٹیج دکھاکر مسلمانوں پریہ الزام لگاسکتی ہے کہ وہ ’طالبانی ذہنیت‘ کے حامل ہیں۔یعنی دہشت گردانہ رجحان رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہناہے کہ جب متقی کے آر ایس ایس کا ادارہ سمجھنے جانے والے’وویکا نند فاؤنڈیشن‘ میں جانے پر اعتراض نہیں کیا گیا تو دارالعلوم جانے پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ طالبانی ذہنیت کاالزام لگاکر مسلمانوں کو ہدف بنایا جاتا رہا اور دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کااڈہ بتایا جاتارہا ہے۔ اگر آگے چل کر ایسا کوئی الزام عاید کیا جاتاہے توحیرت نہیں ہوگی۔ سیاست دانوں کی جانب سے بھی ایسے معاملات میں سیاسی ضرب تقسیم سے ملنے والے حاصل کے تناظر میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔

------------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muttaqi-context-background-outlook/d/137274

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..