مصطفی اکیول
3 اکتوبر 2016
داعش کی آن لائن میگزین کے حالیہ شمارے کے سرورق پر ایک جہادی جنگجو کی تصویر چھپی ہوئی ہے جس کے پیچھے اس جماعت کا بدنام زمانہ ایک سیاہ پرچم ہے۔ اسے اس تصویر میں ایک چرچ کی چھت پر دکھایا گیا ہے جو کہ چھت پر موجود کراس (cross) کے علامتی نشان کو توڑ رہا ہے۔ اور اس کے نیچے یہ شہ سرخی ہے، "صلیب توڑو۔"
پہلی نظر میں اس سے یہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ داعش خصوصا عراق اور شام کے عیسائیوں کی بیخ کنی کی اپنی سفاکانہ مہم انجام دے رہا ہے۔ لیکن "صلیب کو توڑو" کوئی ظالمانہ جملہ نہیں ہے۔ اس سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی مراد لی جاتی ہے جو قیامِ قیامت سے پہلے حقیقت کا روپ اختیار کرے گی۔
اس پیشین گوئی کا تعلق حدیث یعنی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول سے ہے جسے قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح اور مستند کتاب شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ اسلامی نظریے کی تشکیل میں ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ بعض احادیث کے مطابق قیامت چند مراحل میں آئے گی۔ اس کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہو گا کہ پوری دنیا پر ناانصافی کا غلبہ ہو گا اور مسلمانوں پر ظلم کیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد اللہ کی جانب سے ہدایت یافتہ دو نجات دہندگان ظاہر ہوں گے جن میں سے ایک حضرت مہدی علیہ السلام ہیں جو مسلمانوں کو متحد کریں گے، انہیں مزید طاقتور اور بااختیار بنائیں گے اور ان کے بعد ایک سابق نبی مبعوث ہوں گے جنہیں حضرت مہدی علیہ السلام کی حمایت کرنے اور برائی کو شکست دینے کے لئے دوبارہ اس دنیا میں بھیجا جائے گا۔ یہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوں گے جیسا کہ کوئی اس کی توقع کر سکتا ہے بلکہ وہ حضرت یسوع علیہ السلام ہوں گے، جن کی قرآن مجید میں میں تعریف کی گئی ہے اور انہیں " کلام اللہ" کہا گیا ہے۔
بہت سے عیسائیوں کو بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کا انتظار ہے لہٰذا، انہیں بھی یہ ایک اچھی خبر معلوم ہو سکتی ہے۔ لیکن اسلامی کتب ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ یسوع مسیح عیسائیت کو ختم کرنے اور اسلام کی سچائی کی تصدیق کرنے کے لیے دوبارہ مبعوث کیے جائیں گے۔ داعش کی میگزین کی اس شہ سرخی سے ایک مشہور و معروف حدیث کی طرف اشارہ تھا جو کہ اس طرح ہے، "مریم کے بیٹے جلد ہی تمہارے درمیان ایک منصف بادشاہ کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور وہ صلیب توڑیں گے اور خنزیروں کو قتل کریں گے۔ "اس پیشن گوئی کی تعبیر بالعموم یہ کی جاتی ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ اپنی ہی عبادت کی روایت کا خاتمہ کریں گے جس کی علامت صلیب کو قرار دیا گیا ہے اور غذائی قوانین کا دوبارہ قیام کریں گے جنہیں عیسائیت نے ترک کر دیا ہے لیکن یہودی اور مسلمان ان پر اب بھی عمل پیرا ہیں۔
تمام مسلمان ان الہامی پیشین گوئیوں کو نہیں مانتے ہیں جن میں سے بیشتر قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ جو لوگ ان پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر لوگ ظالم و جابر اور سفاک داعش کے لیے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اسلامی الہامات اب بھی ایک طاقتور محرک ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کے 2012 کے ایک سروے کے مطابق نو مسلم اکثریتی ممالک کے مسلمانوں کی نصف سے زیادہ آبادی حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد کو "قریب الوقوع" مانتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ خود ان کے ہی دور میں امام مہدی کی آمد ہو سکتی ہے۔ داعش نے صرف یہ دعوی کیا ہے کہ یہ ان پیشن گوئیوں کو حقیقت کا روپ دے رہا ہے۔
جہادی تشدد کے علاوہ ان اسلامی پیشین گوئیوں کے اکثر منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ حالیہ تاریخ اور موجودہ واقعات پر اگر نظر ڈالی جائے، جس کی بہترین توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے تو ان کا تجزیہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سوال کو ہی دیکھ لیں کہ ہم مغرب کے مقابلے میں اس حد تک پسماندگی کا شکار کیوں ہو گئے ہیں؟ جو کہ گزشتہ دو صدیوں سے پوری مسلم دنیا کے لیے کشمش کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ ان الہامی روایتوں میں جن کی تجدید 1980کی دہائی میں سید ایوب اور ان کے پیروکاروں جیسے مصر کے مشہور و معروف اسلامی علما نے کی ہے، یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اس حالت کی وجہ "دجال" کی طاقت ہے۔
اگر مسلمانوں کی اس پسماندہ صورت حال کے لئے دجال ذمہ دار ہے تو پھر آسمانی ہدایت یافتہ نجات دہندہ ہی اس کا کوئی حل تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ اسلامی دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان اس تفاوت کا حقیقی حل تلاش کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو کہ سائنس، اقتصادی ترقی اور لبرل جمہوریت ہے۔
مسلمانوں اور شاید دیگر آسمانی مذاہب پر ایمان رکھنے والوں کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ پیشین گوئیوں پراپنے اس قدر اعتماد کی قیمت نہ صرف یہ کہ انہیں عقلی طور پر بلکہ اپنے مذہب کی ایک بنیادی قدر سے بھی چکانی ہو گی۔ اس لیے کہ اس بات پر زور دینے کا مطلب کہ ہم آخری دور میں جی رہے ہیں یہ ہیے کہ ہم بہت خاص ہیں۔ ہم اس خدا کی تخلیق کردہ بے شمار مخلوقات میں سے ایک نہیں ہیں۔ ہم ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ اس عقیدے میں مضمر واقعی کوئی تقویٰ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک باطل تصور ہے۔
مسلمانوں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ آخری دور کے بارے میں ان پیشین گوئیوں کو تشبیہاً پڑھنا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے ۔ اس سے ہمیں اپنے ذہنوں کے دریچوں کو بند کرنے کے بجائے کھولنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر 19ویں صدی کے اسلامی اسکالر محمد عبدہ کا کہنا ہے کہ یسوع کی آمد ثانی اسلام کے اندر اصلاحات کے لئے ایک استعارہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یسوع مسیح کے دور کے قدامت پسند یہودیوں کی طرح آج کے قدامت پسند مسلمان لفظی طور پر اسلامی قانون پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں لیکن وہ اس کی روح اور اخلاقی تعلیمات سے غافل ہیں۔ عبدہ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک "مسیح پر مبنی تجدید" کی ضرورت ہے جس میں "رحمت، محبت اور امن" پر زور دیا گیا ہو۔ تجدید کا یہ نظریہ "صلیب توڑنے،" پر نہیں بلکہ " کریسسنٹ کی مرمت کرنے" پر مرکوز ہے۔
مسلمان یسوع کی آمد ثانی کے تصور کو اسلامی ریاست کے ہولناک تناظر میں یا عبدہ کے متاثر کن تناظر میں سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان مذہبی نصوص میں زندگی یہ انسان ہی ڈال سکتے ہیں۔ اور مسلمانوں کا مقصد خود نیک پسندی اور دوسروں کے خلاف اپنی تلوار تیز کرنا ہے یا عاجزی کے ساتھ خود کو تعلیم یافتہ کرنا اور اپنے اندر علم و حکمت کا نور روشن کرنا ہے-اس سے بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔
ماخذ:
nytimes.com/2016/10/04/opinion/the-problem-with-the-islamic-apocalypse.html?emc=eta1&_r=0
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/the-problem-with-islamic-apocalypse/d/108754
URL for this article: