مصطفی اکیول
3 فروری 2016
ہم مسلمان یہ ماننا پسند کرتے ہیں کہ ہمارا مذہب "امن کا مذہب" ہے لیکن آج اسلام تنازعات اور خونریزی کے ایک مذہب کے طور پر ابھر رہا ہے۔ شام، عراق اور یمن میں خانہ جنگی سے لیکر لبنان اور بحرین میں اندرونی کشیدگی اور ایران اور سعودی عرب کے درمیان خطرناک کشیدگی تک مشرق وسطی مسلمانوں کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات سے دو چار ہے جس سے قدیم سنی شیعہ دشمنی کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
در اصل مذہب ان تنازعات کی اصل وجہ نہیں ہے بلکہ سیاست اس کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اسلام اور اس کی تاریخ کے غلط استعمال نے ان سیاسی تنازعات کو مزید بدتر بنا دیا ہے اس لیے کہ جماعتیں اور حکومتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ طاقت یا علاقے پر قبضہ کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور جب دشمنوں کو صرف مخالف سمجھنے کے بجائے کافر اور ملحد گمان کیا جانے لگتا ہے تو امن کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
مذہب اور سیاست کے اختلاط نے خود اسلام کو زہر آلود کر دیا ہے، اور وہ بھی مذاہب کی مذہبی اور اخلاقی تعلیمات پر غالب آچکا ہے ۔ عاجزی اور ہمدردی کی قرآنی تعلیمات کو متصادم گروہوں کے متکبر اور متشدد لوگوں نے فراموش کر دیا ہے۔
ایک خودکش بمبار نے صنعا، یمن میں گزشتہ سال کے آخر میں ایک مسجد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ نیو یارک ٹائمز۔
یہ اسلام میں کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ ساتویں صدی کے دوران حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جسے تمام مومنوں نے قبول کیا تھا، تمام مسلمان متحد تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ایک ایسی کشیدگی پیدا ہوئی جس کا نتیجہ خون خرابے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ قرآن کی تشریح کس طرح کی جائے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسباق کو کس طرح سمجھا جائے۔ بلکہ مسئلہ سیاسی اقتدار کا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کے خلیفہ یا جانشین کے طور پر حکومت کرنے کا حق کس کو ہے؟
اس سیاسی کشیدگی نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو حضرت علی کے خلاف کر دیا۔ ان کے پیروکاروں نے 656 میں جنگ جمل میں ایک دوسرے کے ہزارو پیروکاروں کا قتل کیا۔ اس کے اگلے سال انہوں نے جنگ صفین میں اور بھی خونی جنگ لڑی جس میں حضرت علی اور دمشق کے گورنر معاویہ کے پیروکار ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے ۔ جس کے نتیجے میں سنی اور شیعہ کی تقسیم وجود میں آئی جو آج بھی برقرار ہے۔
دوسرے الفاظ میں، زمانہ اوائل کے عیسائیوں کے بر عکس جو بنیادی طور پر مسیح کی نوعیت کے بارے میں اپنے مذہبی احکام کے تنازعات کی وجہ سے مختلف فرقوں میں تقسیم ہو چکے تھے، ابتدائی دور کے مسلمان سیاسی تنازعات کی وجہ سے حکومت کے لیے مختلف فرقوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔
مذہب اور سیاست کے اس اختلاط کو ختم کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ سیاست زدہ مذہب کو فطری سمجھنے یا اس پر فخر کرنے کے بجائے جیسا کہ کچھ مسلمان کرتے ہیں، اسے ایک مسئلہ کے طور پر دیکھنا چاہئے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس حل کی شروعات ‘‘خلافت’’ کے تصور میں ایک انقلابی تبدیلی کے ساتھ ہو جانی چاہئے۔ صرف یہی نہیں کہ وحشی اسلامی ریاست نے اپنے سفاکانہ مقاصد کے حصول کے لئے اس تصور کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ مسئلہ اس سے بھی زیادہ گہرا ہے: روایتی مسلمان خلافت کو اسلام کا ایک جزو لاینفک مانتے ہیں، اور غیر ارادی طور پر صدیوں سے مذہب کی سیاست کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کا حکم نہ تو قرآن میں دیا گیا ہے اور نہ ہی حدیث میں، بلکہ اس کی بجائے یہ امت مسلمہ کے تاریخی اور سیاسی تجربے کی پیداوار ہے۔
اس کے علاوہ، ایک مرتبہ مسلمانوں نے خلافت کو دین کا ایک لازمی حصہ مان لیا، تو اس کے بعد سیاسی رہنماؤں اور اسلامی علماء نے اس کے ارد گرد ایک آمرانہ سیاسی روایت کی تعمیر کر دی۔ جب تک خلیفہ نیک اور قانون پسند تھے تب تک مسلم اسلامی مفکرین نے ان کی اطاعت کو لازم قرار دیا تھا۔ تاہم، اس روایت میں اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا کہ فضیلت ایک اضافی شئی ہے، اقتدار کا خود ایک فاسد اثر ہے اور یہاں تک جائز حکمرانوں کے جائز مخالفین بھی ہو سکتے ہیں۔
19ویں صدی کے وسط میں سلطنت عثمانیہ اور پھرتخت خلافت نے مغرب کے لبرل اقدار اور اداروں کو درآمد کر کے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ جس میں سلطان کے اختیارات محدود تھے ایک منتخب پارلیمنٹ قائم کیا گیا اور سیاسی جماعتوں کی اجازت دی گئی۔ یہ امید افزا کوششوں، جس نے خلیفہ کو برطانوی طرز کی جمہوری بادشاہت کا سربراہ بنا دیا وہ صرف جزوی طور پر ہی کامیاب رہا۔ یہ اس ختم ہوا جب ریپبلکن ترکی نے پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت کے ادارے کو ختم کر دیا۔
جدید دور کی اسلام پسند تحریک کی پیدائش خلافت کے بعد پیدا ہونے والی خلا کا ردعمل تھا۔ حد سے زیادہ سیاسی اسلام پسندوں نے نہ صرف اس روایتی نقطہ نظر کو برقرار رکھا کہ مذہب اور ریاست لازم و ملزوم ہیں؛ یہاں تک کہ وہ ریاست کے طور پر مذہب کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک ممتاز اسلام پسند نظریہ ساز سید قطب نے 1960 میں لکھا تھا کہ "سچا دین اس نظام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسے اللہ نے انسانی زندگی کے معاملات کو طئے کرنے کے لیے نازل کیا تھا"۔ اور چوں کہ خدا انسانی امور کو طے کرنے کے لیے خود آسمان سے نازل نہیں ہوگا اسی لیے اسلام پسندوں کو اس کے نام پر یہ کام کرنا ہوگا۔
تمام اسلامی مفکرین نے اس نظریہ کو اختیار نہیں کیا۔ 20ویں کے صدی کے عالم سعید نورسی نے سیاست کو ایک مقدس شعبہ نہیں بلکہ ہنگامہ آرائی کا ایک شیطانی شعبہ مانا۔ انہوں نے لکھا کہ "میں شیطان اور سیاست سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں"۔ ان کے پیروکاروں نے ترکی میں ریاست سے صرف مذہبی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلامی سول سوسائٹی کی تحریک قائم کی ۔ عبدالوہاب الافندی اور عبداللہی احمد النعیم جیسے ان کے ہم عصر مسلمان علماء و مفکرین نے ایک ایسے لبرل سیکولرازم کو گلے لگانے کے لیے مضبوط اسلامی دلائل پیش کیے جس میں تمام مذاہب کو احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہو۔ انہوں نے بجا طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مسلمان اپنے مذہب میں جن باتوں کو درست پاتے ہیں ان پر عمل کرنے کےلیے سیکولرازم کو گلے لگانے کی ضرورت ہے۔
ان میں سے کسی بھی بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کو انصاف کے اپنے بنیادی اقدار کے ساتھ سیاست سے مکمل طور پر صرف نظر کر لینا چاہئے۔ مذہب سیاسی زندگی میں ایک تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے اس لیے کہ یہ لوگوں کو اقتدار تک حق کی آواز پہنچانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لیکن جب اسلام کو اقتدار کے ساتھ ضم کر دیا جاتا ہے تو اس کے اقدار ختم ہونے لگتے ہیں۔
ماخذ:
nytimes.com/2016/02/04/opinion/how-politics-haspoisoned-islam.html
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/how-politics-poisoned-islam/d/106229
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/how-politics-poisoned-islam-/d/106246