New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 10:42 PM

Urdu Section ( 9 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Role of Muslims and Urdu Newspapers in the Freedom Movement تحریک آزادی میں اردو اخبارات اور مسلمانوں کا کردار

نعیم جاوید

5 مارچ،2023

تاریخ زمانوں کے زندہ مطالعہ کا نام ہے، آج کے اجلاس کے اس لمحہ موجود میں زمانے سمٹ آئیں گے جیسے کسی شعری تمثیل کے جام جم میں وقت ، واقعات اور فاصلوں کی ایکائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہوں۔ عنوان کو زمانہ کی کسوٹی پر پرکھیں تو موجودہ صحافت کی اوٹ میں چھپی ہوئی اردو کی روشن صداقتیں فراہم ہوتی ہیں ۔ٹھیک اسی طرح جس طرح پچھلی قوموں نے چند کتابیں اور مذہبی بستیاں مٹادی تھیں۔ مٹ مٹ کر ابھرنے میں بدھ مت کا اجنتا او راس کی تاریخی وادیاں بھی شامل ہیں جسے صدیوں تک چھپادیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح عصبیت کی کارندوں نے اردو کی خدمات کے ساتھ بھی یہی کیا :

ورق ورق الٹ چکا تلاش میں کمی نہ کی

مگر کتاب حریت میں مری داستاں نہیں

جب کہ تحریک آزادی کی اگر کوئی زبان قیادت کررہی تھی تو وہ صرف‘اردو’ تھی ۔اگر ہندوستان کو گزرے وقت کے مہمات ،عوامی جذبات ، اور حریت فکر کی دستاویزات کے خزانوں کی تلاش ہے انہیں تو صرف ایک زبان کی یادداشتیں کافی ہیں۔ جو آزاد ذہنوں کے فیصلے ،ذہنی توانائیوں کی تاریخ او ردلیری کا دبستان بن کر گزرہے زمانوں کی زندہ کردیتی ہے۔ ویسے زبان وادب کامذہب سے ایک پر اسرار ذہنی رشتہ رہتاہے ۔اسلام تو بنیادی طور پر سلامتی حریت فکر کامذہب ہے جس نے تصور جہاد سے روحانی نشاط فراہم کیا۔ وہ غلامی کو قوموں کے ذہنوں سے مستقل نکال کر ان کا نصیبہ بدل دیتاہے۔ تحریک آزادی میں اردو کے خلاق ذہنوں ،روشن ضمیر نثرنگاروں اور شعرا نے عوام کے سروسینوں میں آتش فشا ں جذبات کی دہانے کھول دیئے۔ میری دانست میں تحریک آزادی کی جنگاہ میں حریت پسندوں کے چار دستے بنتے ہیں۔ ایک اول دستہ اس وقت بادشاہ ، سربراہ اور جیالے نوابوں کا تھا۔ دوسرا ان عظیم شخصیات کا جواپنی ذات میں ایک کائنات تھیں۔ تیسرا اداروں کی برپا کردہ تحریکات کا اور چوتھا میدان صحافت کے حشر انگیز قلم کاروں کا جن کے قلم سے عوام کے دل وجگر کو ایسی تب وتب ملی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ویسٹ انڈیا بنانے اورسونے کی چڑیا کو چڑیل بنانے کی سازش کو ناکام بنا دیا تھا۔

1726ء میں تحریک آزادی کی اولین آواز علم اسلام کی ایک اہم ترین شخصیت شاہ ولی اللہ کے گھرانے سے ابھری ۔ ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز ؒ کا قلم شعلے اگلنے لگا اور اقدامات حشر انگیز ہوگئے۔ اس تاریخی جملہ نے علماء کی صفوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا جب انہوں نے سید احمد شہیدؒ سے کہا تھا کہ ‘ کتاب رکھ دو خدانے تم کو دوسرے کام کے لئے پیدا کیاہے’ کیونکہ انگریز تاجروں کے بھینس میں فاجروں کی مدد سے ہندستان کو لوٹنے آئے تھے اور ان کی زمین تنگ کرنا ضروری ہوگیا تھا۔

بقول مصحفی:

ہندوستان میں دولت وحشمت جو کچھ کہ تھی

کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی

میں نے شاہ ولی اللہؒ کے گھرانے کو شاہوں کی فہرست میں رکھا ہے کیونکہ ان کا اثر اتنا ہی گہرا تھا ۔ اس کا ایک جلوہ بالاکوٹ کے محاذ پر دنیا نے دیکھا۔1857 میں نواب سراج الدولہ جنہوں نے پلاسی کی جنگ میں میر جعفر کی غداری سے معرکہ کھودیا، ان کی شہادت پر راجہ رام نرائن موزوں کا شعر اردو کی حیات تک زندہ رہے گا:

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پر کیا گزری

اس وقت غالب نے 1857 کے غدر کی تاریخ نکالی تھی ‘‘رستخیر بے جا’’ ۔ ان کے شعر میں دلی کا منظر نامہ دیکھیں:

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے ،گھر نمونہ بنا ہے مقتل کا

شہر دلی کاذرہ ذرہ خاک تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا

پھر 1767 میں میر قاسم ، شاہ عالم ،نواب شجاع الدولہ اور شاہوں میں شیر میسور ٹیپو سلطان نے اپنے خون سے اس زمین کو گلریز کردیا ۔ ایک نظر اب اخبارات ومحاذ صحافت پر ڈالتے ہیں جس میں لاتعداد جرائد نے انگریز وں کے کس بل نکال دئیے تھے ۔اپنے رشحات قلم سے عوام کا اعتماد بحال کیا۔جرأت آزما مہمات میں نئے عہد کا خواب بانٹ کر دلوں کی ویرانیاں دور کیں۔

اب صحافت کا گوشورہ دیکھیں:1836 میں مولوی محمد باقر کا ‘دہلی اخبار’ جس نے فرنگ کو دہلا دیا۔ راجہ رام موہن رائے کے فارسی اخبار ‘مراۃالاخبار’ نے بغاوت کی تحریک کو ہوادی۔ مولوی جمیل الدین کے ‘صادق الاخبار’ نے انگریزوں کو قتل کرنے پر آمادہ کیا۔ عبدالقادر کا اخبار گلشن نوبہار’ شہر کلکتہ میں بغاوت کا محرک بنا۔

1860 میں ایودھیا پرساد کے اخبار‘ خیر خلق خدا’ نے اجمیر میں انگریزوں کے خلاف صفیں ترتیب دیں۔ 1861 میں سید ظہیر الدین کے اخبار ‘جلوہ طور’ نے میرٹھ کے مجاہدین کا دستہ تیار کیا ۔1868 میں خواجہ یوسف کے اخبار ‘آگرہ’ کی سرخی پر لکھا ہوتا تھا ‘ہمارا مقصد ہندوستان کو آزاد کروانا’1872 میں محمد شریف کا اخبار ‘ منشور محمدی’بنگلور کے غیر مندوں کے دلوں میں ہنگامہ برپا کرتا رہا۔مولانا حسرت موہانی کے ‘اردوئے معلی ’ نے مکمل بغاوت کا نقشہ پیش کیا۔ جہاں حسن زبان کی جلوہ سامانیاں تھیں اور حکمت مآب اقدامات کا خاکہ بھی تھا او ران کے اشعار کی دنیا تو متاع اردو ہے:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

1887میں منشی محبوب عالم کے اخبار ‘پیسہ’ لاہور نے پنجاب کے غیور وجفا کشان ہند کو سرحدوں کے حصار تک للکارا۔ مولانا شوکت علی کے اخبار ‘خلافت’ پورے ہندوستان کے جل تھل میں زلزلے بچھانے شروع کئے۔ مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’زمیندار’ نے انگریزوں کی چوکیوں کی چولیں ہلاڈالیں ۔مولانا ابواکلام آزاد کا ‘الہلال ’ اور البلاغ’ تو انسانی تاریخ اور حریت کے باب نصاب دیتا ہے۔ علم ، جذبہ، شعور اورفکر قرآن کا ایسا احاطہ کسی زبان نے نہیں کیا۔ ساتھ ساتھ آزاد کی قیدوبند کی روداد جو غبار خاطر میں رقم ہوئی وہ متاع دانش ہے جس سے اردو کا وقار بلندہوا۔کیونکہ وہ زندان فرنگ میں سیاسی قیدی تھے روحانی قیدی نہیں تھے ۔ سید حبیب کے اخبار ‘سیاست’نے حمیت وغیرت کا نصاب پرھا یا۔مولانا امیر خان کے اخبار ‘سرحد’ ایک سیل رواں تھا جو انگریز وں کی قہاری کو تاراج کرتا جارہا تھا۔ روز نامہ تیج ،ملاپ، نیشنل کانفرنس ،قربانی ، نے اپنے اپنے حلقہ اثر میں ذہن سازی کی ۔یاد رہے یہ سب اردو زبان والے تھے۔

اب آئیے ایک نظر آزادی کے جذبہ کو ادارہ سازی اور تحریکات میں ڈھالنے والوں کا زریں گوشوارہ دیکھتے ہیں۔ جب اشخاص نے اپنے افکار سے تحریکات برپا کیں تب علماء نے فتاویٰ سے دینی دلیل پیش کی،پشت پناہی کی جیسے ‘‘تحریک رشمی رومال’’ اگر ہم میں سے کسی نے اس تحریک کو نہیں پڑھا تو اس نے نقوش آزادی کو سمجھا ہی نہیں۔ انگریزوں کی ‘‘تقسیم بنگال’’ کے داخلی بٹوارے کا سب سے مل کر مقابلہ کیا۔‘‘جلیاں والا باغ’’ جس نے بربریت اور سفاکیت کے باب میں انگریزوں کی پہچان بنائی۔‘‘ خلافت تحریک’’ نے پورے ہندوستان کو جوڑا جس کی گونج پورے عالم میں سنائی دی بلکہ آج جو بڑے ہیرو بنتے ہیں وہ سب اس تحریک کی انگلی پکڑ کے جو ان ہوئے۔‘‘ نان کو آپریشن تحریک’’اور ‘‘تحریک موالات’’نے ان گنت لوگوں سے جان کے نذرانے مانگے جس نے انگریزوں کی اقتصادی کمرتوڑ دی۔مولانا ظفر علی خان کا شعر دیکھیں:

ہندوستان میں ایک نئی روح پھونک کر، آزادی حیات کا سامان کردیا

دے کر وطن کو ترکِ مولات کا سبق، ملت کی مشکلات کو آسان کردیا

لیکن اس کے عوض گرفتاریوں اور جائداد ضبط کرنے کا رواج تب ہی سے شروع ہوا۔ ہزاروں مسلمان اپنی زمینوں او رمکانوں سے بے دخل ہوگئے۔ انہی تحریکات میں کیرالہ کے ‘عرب موپلاکسان تحریک’ کے برپا کرنے پر ایک قائد ابوبکر کو پھانسی کی سزادی گئی او رکئی ساتھیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔مجاہدین عرب موپلا کسان تحریک نے فرنگی جباروں کے جبر پر ملک گیر شورشیں کیں، ان کے توسیع پسندانہ ارادوں کو ناکام کرتے رہے تاکہ انگریز ی عمل داری کا خاتمہ ہوسکے ۔بقول جوش ملیح آبادی :

اک کہانی لکھے گا نئے مضمون کی

جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی

سبھاش چند بوس کو مسلمانوں کی فوجی حکمت عملی اور بہادری پر بھروسہ تھا اس لیے ان کے اکثر کمانڈر س مسلمان ہوتے تھے جیسے جرنل شاہنواز، کرنل حبیب الرحمن ، کرنل راشد علی، انڈین نیشنل آرمی۔

تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں

اک سلسلہ دار ورسن ہم نے بنایا

‘رائل انڈیل نیوی’ بحری بیرہ بمبئی اورکراچی کے ساحل پر کشتیوں میں انقلاب کا نعرہ لگا نے پر کرنل خان کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔‘ کاکوری ٹرین’ کا واقعہ جہاں مجاہدین آزادی نے سرکاری خزانہ لوٹ لیا تھا ۔ کیونکہ لٹروں کو لوٹنا بہادری ہی ہوتی ہے۔ اس واقعہ میں چالیس جاں باز گرفتار ہوئے۔ اشفاق اللہ خاں اور رام پرساد بسمل کو پھانسی دی گئی۔

اس واقعہ سے ابھرنے والا شعر ہندوستان کے اجتماعی حافظہ کا حصہ بن گیا:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

جمعیت علماء ہند جس کے بانی مفتی کفایت اللہ ، خلافت کمیٹی، مولانامحمد علی جوہر، کابل کانفرنس، مولانا عبیداللہ سندھی ، خدائی خدمت گار، خان عبدالغفار خان، مومن کانفرنس ، محمد عاصم بہاری، مجلس احرار ،مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی ،شیعہ پولیٹکل کانفرنس، سید وزیر حسن ، کشمیر نیشنل کانفرنس۔(شیخ محمد عبداللہ)، انجمن وطن بلوچستان ۔عبدالصمد خان، پرجا کرشک پارٹی ۔مولوی فضل حق (بنگال) ،آل انڈیا مسلم مجلس ۔

آزادی کی اس تحریک میں شعرا کی نگارشات نے عروس وطن سے بے پناہ محبت او راس کے نین نقش پر قربان ہونے کے لئے حدیث قوم ووطن کو سرِ دلبراں بنادیا ۔کمال ہنر سے سنور ے شعر جس کے تصور سے چھوٹ پڑتی تھی،نعرے نغموں میں ڈھلنے لگے۔ دلی اضطراب کو قرار رنگ کیا۔ انہیں شاعری کی سرخوشی کی یاد نہیں رہی بلکہ درد مند دل کی فریاد بن گئی ۔نقد جاں لٹانے والی شاعری باغیانہ تھی لیکن عامیانہ نہیں تھی ۔شعرا نے بساط شعر میں بارود بچھادی ۔

نارسائی کو احساس جمال دے کر، سرمستی وجمالیاتی رچاؤ سے صعوبتوں کے آزاد سہل کردیئے ۔یہ غلامی میں سینہ کو بی والی شاعری نہیں تھی بلکہ متاع زندگی نثار کرنے ،آلام کو انگیز کرنے اور صدموں کا سامنا کرنے کی تربیت کرنے والی شاعری تھی۔ ان کی خدمات کا مختصر اشارہ دوں کہ حالی کی مثنوی ‘حب وطن’ اسماعیل میرٹھی کی ہندوستانی نظمیں ،شوق قدوائی کی وطن پر منظر نگاری ،اکبر الہ آبادی کے طنز کیات، وحیدالدین سلیم کے پرجوش نغمے، چکبست کی نظمیں ،علامہ اقبال کی ہمہ گیر حریت فکر کی شعری متاع ،تلوک چند محروم ، عرش ملسیانی ، روش صدیقی، آزاد انصاری جن کا شعر ہے:

جنس آزادی بلا قیمت نہ مانگ

جنس آزادی کی قیمت پیش کر

5 مارچ،2023، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی

------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-urdu-newspapers-freedom-movement/d/129281

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..