مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
8 جولائی 2023
زبانیں ہمیشہ بات چیت کا
ذریعہ رہی ہیں۔ دیگر جانداروں کے برعکس، انسانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت
کرنے کے قابل ہونے کے لیے ایک زبان تیار کی۔ ہر زبان وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر
ہوئی اور آج بے شمار زبانیں ہیں جو انسانوں نے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے
بولتے اور لکھتے ہیں۔ کسی بھی زبان کی بنیادی افادیت یہ ہے کہ وہ ہمیں ایک دوسرے
کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل بنائے۔ نطق کی یہ صلاحیت انسانیت کا سب سے بڑا معجزہ
ہے۔ انسانوں نے زبان ایجاد کی ہے اور اب کمپیوٹر کی زبان کی آمد سے انسان مصنوعی
ذہانت (AI) کو بھی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ AI انسانیت کا مستقبل
بننے والا ہے کیونکہ یہ بنی نوع انسان پر غلبہ حاصل کرے گا۔
تاہم، زبان متحد کرنے کے
ساتھ ساتھ تقسیم کرنے والا عنصر بھی ہو سکتی ہے۔ ہر زبان کے اپنے حامی بھی ہوتے
ہیں اور مخالفین بھی کیونکہ زبانوں کے درمیان ہمیشہ مقابلہ رہتا ہے۔ اگر کسی ملک
میں زبانوں کی کثرت ہو تو وہاں تقسیم اور جھگڑے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ لسانی بنیاد
پر جھگڑوں میں ہندوستان کا اپنا ہی مقام ہے۔ ہندوستان میں پھیلی ہوئی فرقہ پرستی
نے لسانی تقسیم کو مزید ہوا دی ہے۔ تقسیم کے بعد اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار
دیا گیا۔
جیسا کہ پاکستان نے اردو
کو اپنی سرکاری زبان کے طور پر اپنایا اور ہندوستان نے ہندی کو، یہ تقسیم مزید تیز
ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ اردو کے گڑھ جہاں اس کی پیدائش ہوئی، پرورش ہوئی، اس کا
ارتقاء ہوا اور پھلی پھولی، اردو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ اس سے قبل اردو کے
بعض اہم کرداروں اور اسکالروں نے، جن کا زبان سے معاشی تعلق ہے، اعلان کیا تھا کہ
اس زبان کو مرزا غالب، علامہ محمد اقبال اور فیض احمد فیض جیسے شاعروں کی پشت
پناہی حاصل ہے، اس لیے اسے مارا نہیں جا سکتا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب وہ اپنے
خیالات بدل چکے ہوں گے۔
اردو فکشن، غیر افسانوی
ادب اور شاعری کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے بعد ان اہم زبانوں
میں سے ایک ہے جس میں عصری اسلامی ادب تیار کیا گیا ہے۔ زیادہ تر بڑے شعری
مجموعوں، مذہبی اور تاریخی کتب کا عربی اور فارسی دونوں زبانوں سے اردو میں ترجمہ
کیا گیا ہے، جس نے اسے بے حد تقویت بخشی ہے۔ اردو پر عبور رکھنے والا اسلامی سکالر
بن سکتا ہے کیونکہ اسلام کے تمام بنیادی ماخذ و مصادر اردو میں دستیاب ہیں۔ اس لیے
بہت سے سازشی تھیوری کے ماننے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اردو کو منظم
طریقے سے نشانہ بنایا اور تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس میں کچھ سچائی ہو سکتی ہے لیکن
حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اردو کے تحفظ اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے
کروڑوں کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، حالانکہ اب فنڈز میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔
اس کٹوتی کی وجوہات کو ایک
بار پھر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا اور اسے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار
دیکر اس کی مذمت کی گئی۔ تاہم، اصل وجوہات پر کبھی توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ فنڈز
کیسے استعمال ہوتے ہیں؟ ان سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ تسلیم شدہ سرکاری اداروں کی
طرف سے صرف چند اداروں کو ہی فنڈز کیوں مختص کیے جاتے ہیں؟ اردو کے لیے کام کرنے
والے ان اداروں کی سربراہی کے لیے حکومت کے مقرر کردہ مخصوص افراد ہی کیوں مقرر
کیے جاتے ہیں، اور آخر کار وہ اردو سے زیادہ اپنے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ اور
جب ان کے عہدے کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہندوستان
میں اردو (اسلام) کو خطرہ ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔
ایسی زبان جو روزگار کے
امکانات پیش نہیں کر سکتی اس سے معاشی استحکام کو بے حد نقصان ہوتا ہے۔ کسی مخصوص
زبان کی حوصلہ افزائی میں حکومت کا یقیناً کردار ہوتا ہے، لیکن جب طلبہ اور عوام
میں اردو کو سیکھنے والے ہی نہیں ہوں گے تو اردو حاشیہ پر چلی جائے گی۔ اساتذہ
بچوں میں اردو کی محبت پیدا نہیں کر پاتے، یہاں تک کہ ان سکولوں میں بھی جہاں اردو
لازمی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ایک بار جب لازمی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے،
طلباء اردو چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف مدارس اردو کی مکمل خدمت کرتے ہیں۔ کالج اور
یونیورسٹی کی سطح پر اردو پڑھائی جاتی ہے جس میں طلبہ کے کیریئر کے امکانات صرف
تدریس، تحقیق، صحافت تک محدود ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر کے لیے یہ معاشی عدم
استحکام اور تاریک مستقبل کا باعث بنتی ہے۔
تاہم وہ مفاد پرست جن کے
معاشی مفادات اردو سے وابستہ ہیں وہ بار بار اردو کو مسلمانوں کی شناخت قرار دیتے
ہیں اور اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ایک ارب اور اس سے زیادہ میں سے چند کروڑ
مسلمان اردو بولتے یا لکھتے ہیں لیکن وہ اردو کو مسلم شناخت سے جوڑنے پر بضد ہیں۔
اگر اردو زبان مسلم شناخت
کا مترادف ہوتی تو مسلمان اس کی حفاظت اور صیانت میں بہت محتاط رہتے۔ لیکن حقیقت
یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس کے بارے میں کافی حد تک غیر سنجیدہ ہیں۔ اس بے حسی
کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان ایک بھی اردو اخبار یا
رسالہ نہیں جاری کر سکے۔ اردو صحافی زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور کوئی
بھی سنجیدہ قاری اردو اخبارات پر مبنی رائے قائم کرنا پسند نہیں کرتا، جس سے اکثر زرد
صحافت کی تشکیل ہوتی ہے۔
اردو میں اشاعتیں بہت کم
ہیں۔ مذہبی کتب کے علاوہ اردو ناول اور شاعری کی کتابیں خریدنے والا کوئی نہیں۔
اردو کے شاعر اور ادیب زیادہ تر اپنی کتابیں بطور تحفہ اور اعزاز کے لوگوں کو پیش
کرتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کیونکہ اردو کو کوئی پڑھنا والا نہیں
ہے۔
ہندوستانی مسلمان جو اپنی
تعداد 200 ملین سے زیادہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اردو اشاعتوں کی چند سو کاپیاں
بھی نہیں خرید سکتے۔ زیادہ تر آزاد اردو پبلشر اور اخبارات آمدنی کی کمی کی وجہ سے
بند ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اردو کے زوال میں کوئی سازش نہیں بلکہ اس میں اردو کے تئیں
ہندوستانی مسلمانوں کی بے حسی کارفرما ہے۔
اگر مسلمان اردو سے مسلم
زبان ہونے کا لیبل ہٹانے کے لیے تیار ہو جائیں تو حالات بہتری کی طرف بڑھ سکتے
ہیں، کیونکہ یہ مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ زبان کسی مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہو
سکتی، یہاں تک کہ عربی کو بھی مسلم زبان نہیں قرار دیا جا سکتا، حالانکہ اس میں
قرآن نازل ہوا ہے۔ نیز، ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت صرف اردو تک محدود نہیں ہے
کیونکہ صرف شمالی ہندوستان میں ہی اردو بطور زبان کے رائج ہے، جب کہ مسلمان پورے
ہندوستان میں موجود ہیں اور مختلف زبانیں بولتے ہیں۔
مزید اردو پڑھنے اور لکھنے
کی تحریک کو لوگوں میں ابھارنے کی ضرورت ہے تبھی اردو زندہ رہ سکے گی۔ اردو میں
مہارت رکھنے والوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے مقامی سطح پر اقدامات کرنے کی
ضرورت ہے۔ مدارس اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں اردو کی صبح اور شام کلاسیں دینے
میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس سے یقیناً اردو کے فروغ کے ساتھ ساتھ بین
المذاہب مکالمے میں بھی مدد ملے گی۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اردو اخبارات، جرائد
اور اشاعتی اداروں کے ماہنامے خرید کر ان کی مدد کریں۔
اگر یہ اقدامات نہ اٹھائے
گئے تو سازشی تھیوریاں زور پکڑیں گی اور مفاد پرست اردو کو ہائی جیک کرتے رہیں گے
اور اردو دن بہ دن فنا ہوتی چلی جائے گی۔
English Article: Muslims and Urdu Language: From Crisis to Conspiracy
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism