New Age Islam
Tue Mar 25 2025, 11:36 PM

Urdu Section ( 30 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims in the United Nationhood and Shared Society of India-Part-1 بھارت کی متحدہ قومیت اور مشترکہ معاشرت میں مسلمان

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

(حصّہ اول )

29 اکتوبر 2024

اگلے زمانوں میں ملکوں کی سرحدیں ان کے حکمرانوں کے زورِ بازو سے طے ہوتی تھیں جن کی حد بندیاں گھٹتی بڑھتی رہتی تھیں۔ آج بھی طاقت کے بل پر سرحدوں کو اور کسی ملک کے جغرافیہ کو توڑا اور بدلا جاسکتا ہے لیکن جب سے نیشن اسٹیٹ کے تصور نے مقبولیت حاصل کی ہے ہر ملک کی آزادی، حاکمیت اور اس کی اندرونی خود مختاری میں مداخلت کو بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کے خلاف تسلیم کیا جاتا ہے۔

ماضی میں نقل و حمل کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ملکوں اور خطوں میں ایک ہی نسل، زبان اور قوم کے لوگ رہا کرتے تھے۔مگر جیسے جیسے ان سہولیات میں اضافہ ہوا تو ایک خطے کے لوگ جن کی زبان الگ تھی اور جن کا عقیدہ الگ تھا، وہ بھی ان ملکوں اور خطوں میں جاکر رہنے لگے۔ آج کی تاریخ میں دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک یا خطہ ہوگا جہاں ایک رنگ،نسل، زبان اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔جو ملک جتنا بڑا اور خوشحال ہے، جس کی آب و ہوا اچھی ہے اور جہاں امن اور ترقی کے امکانات زیادہ ہیں وہاں آپ کو ہر علاقے اور نسل و تہذیب کے لوگ ملیں گے۔ اس کی وجہ سے کبھی کبھی ان کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔

نیشن اسٹیٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کی تاریخ سترہویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔یورپ میں ۳۰ سال کی طویل جنگ کے بعد ۱۶۴۸ء میں ویسٹ فیلیا(Westphalia)امن معاہدے کے تحت قومی ریاست (Nation-State) کا تصور ابھر کر سامنے آیا جس کو عرف عام میں ویسٹ فیلیا نظام کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے ایک عالمی ضابطہ یہ طے پایا کہ ہر ریاست اپنے علاقے اور اندرونی معاملات میں خود مختار ہوگی اور کوئی باہری طاقت اس ملک اور اس کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔کوئی ملک رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے چھوٹا ہو یا بڑا وہ ایک دوسرے کے برابر تسلیم کیا جائے گا۔ اس قومی ریاست کے چار اجزاء تسلیم کیے جاتے ہیں۔(۱) اس کی متعین سرحد ہوتی ہے (۲) اس کی مستقل آبادی ہوتی ہے (۳) اس کی حکومت ہوتی ہے اور (۴) اس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ دوسری ریاستوں سے تعلقات اور معاہدات کرے۔ اور اس حیثیت میں ایک ریاست دوسری ریاست کے وجود کوتسلیم کرے۔

مندرجہ بالا تعریف کی رو سے دو اولین شرط یہ ہے کہ اس کی متعین سرحد ہو جس کو انگریزی میں Defined Boundary کہتے ہیں اور دوسری شرط مستقل آبادی ہو۔ بھارت اس اعتبار سے ایک نیشن اسٹیٹ ہے جو مندرجہ بالا تمام شرائط پوری کرتا ہے۔

بھارت کی تاریخ و تہذیب بہت پرانی ہے اوربھارت اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے عالمی نقشہ میں منفرد حیثیت رکھتا ہے جس پر علامہ اقبال نے بہت صحیح فرمایا ہے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ اس سے بہتر تعریف بھارت کی نہیں ہوسکتی ہے۔

ہم جس جدید بھارت میں رہ رہے ہیں اس کا جنم 15اگست 1947 کی درمیانی شب کو اس وقت ہوا جب سنٹرل اسمبلی میں یونین جیک اتار کر آزاد بھارت کا ترنگا جھنڈا پھیرایا گیا۔ اس وقت بھارت کے عبوری وزیر اعظم پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ’’ بہت سالوں پہلے ہم نے تقدیر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم اپنے وعدوں کو پورا کریں گے جبکہ ہم پرانے عہد سے نکل کر نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں اور ہمیں اپنے جذبات کے اظہار کی آزادی مل رہی ہے۔ جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم ہر آنکھ کے آنسو پونچھیں گے اور اپنے خوابوں کی تکمیل کریں گے۔‘‘ وہ خواب تھا ایک پرامن خوشحال اور محبت اور بھائی چارہ سے لبریز بھارت کا۔ ملک کا جو دستور 26جنوری1950 کو لاگو کیا گیا وہ تمام بھارت میں رہنے والے لوگوں کے اجتماعی آرزوؤں کا عکاس ہے جس کے لیے ملک میں ایک جمہوری اور سیکولر نظام کے قیام کو بنیادی پتھر مان کر نئے بھارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔

بھارت نے کوزے میں بند اپنے محدود تصورات سے کنارہ کرتے ہوئے اپنے عالمی کردار کی ادائیگی کے لیے سنسکرت کے اس اشلوک کو اپنا اصول بنایا جس میں وسودیو کٹمبھکم کی بات کہی گئی ہے اور جی20- کے اجلاس میں اس نعرے کو نئی معنویت دیتے ہوئے اس کو ون نیشن ون ورلڈ میں تبدیل کرکے اپنے عالمی کردار کا اظہار کیا۔یہ تصور اس اسلامی تصور کا چربہ ہے جس میں الخلق عیال اللّٰہ کی بات کہی گئی ہے یعنی پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ و ہ لوگ ہیں جو اللہ کے اس کنبہ کا خیال رکھیں، ان کی بھلائی کے لیے کوشاں ہوں، ان کو امن، برابری اور انصاف دلانے میں سرگرم ہوں ۔ اسلام کے نزدیل کوئی پرایا نہیں ہے بلکہ سب اپنے ہیں، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ اور ان کی خیرخواہی اور بھلائی مسلمانوں کا مقصدِ وجود ہے۔ اگر ایک شخص اپنے اس فرض منصبی سے غافل ہے گویا وہ اپنے مقصد وجود سے غافل ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس اصلی کردار کی طرف لوٹ کر نہیں آجاتا ہے اس وقت تک اس کا ایمان و اسلام ناقص ہے۔ لہٰذا مسلمان کبھی دنیا یا کسی ملک پر بوجھ نہیں بن سکتا بلکہ وہ اپنے سیرت و کردار اور اخلاق و اعمال کے لحاظ سے سورج، چاند، دھرتی، ہوا اور پانی کی طرح اتنا ہی مفید ہے کہ دنیا اس کے مثبت کردار کے بغیر امن، انصاف، خوشحالی اور خیرسگالی کے مقاصد کو کبھی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔

ہندوستانی مسلمان اس عالمی انسانی مشن کا حصہ ہے۔ لہٰذا اس کا تصور دین اور تصور انسانیت زمین پر کھینچی گئی فرضی اور تصوراتی حد بندی کی قائل نہیں ہے۔ وہ جس ملک، مقام اور علاقے میں رہتا ہے وہ اس کا لازمی اکائی بن کر رہتا ہے جس کو کسی بھی طریقے سے اس خطہ اور آبادی سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے قوم پرستی کے محدود تصور نے نہ صرف پوری عالمی برادری کو مصنوعی خانوں میں بانٹ رکھا ہے بلکہ خود ایک ملک اور خطہ ارض کے اندر رنگ، نسل، زبان، مذہب اور نہ معلوم اور کن کن بنیادوں پر ایک دوسرے کے درمیان دیوار کھڑی کررکھی ہے۔ جس نے متحدہ قومیت اور مشترکہ انسانیت کے تصور کو پارہ پارہ کردیا ہے، جس کو  Parochialism کہتے ہیں جو ذہن کو اتنا محدود کردیتا ہے کہ ہم بڑی اور مکمل تصویر دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور ہماری سوچ اتنی محدود ہوجاتی ہے کہ ہم کنویں کے مینڈک بن جاتے ہیں۔

(جاری )

29 اکتوبر 2024،بشکریہ: روزنامہ صحافت، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-united-nationhood-society-india-part-1/d/133579

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..