گریس مبشر، نیو ایج اسلام
(حصہ 2)
8 فروری 2025
اگرچہ اسلام پسندوں کی رائے ہے کہ سیکولرازم اسلام سے متصادم ہے اور مسلمانوں کو شریعت کے قوانین کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست قائم کرنی چاہیے، ایسے بے شمار مضبوط اسلامی دلائل موجود ہیں جن سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت سے سمجھوتہ کیے بغیر، سیکولر حکومتوں میں پرامن طریقے سے رہ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں سیکولرازم کے خلاف دعوں کو غلط استدلال پر مبنی ثابت کیا گیا ہے، اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے، کہ اسلام میں مذہبی بنیاد پر ایک تھیوکریٹک ریاست کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
1. اسلام ایک مکمل طرز زندگی - کیا اس کے لیے اسلامی حکومت کی ضرورت ہے؟
اسلام پسندوں کی دلیل
اسلام پسندوں کا ماننا ہے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے، جس میں سیاست، قانون اور حکومت سب شامل ہے۔ ان کے گمان میں اسلام کی یہ جامع فطرت سیکولرازم کے خلاف ہے، جو مذہب کو سیاست سے الگ کرتی ہے۔
تردید
اگرچہ اسلام انسانی زندگی کو متاثر کرنے والے زیادہ تر معاملات پر رہنما اصول پیش کرتا ہے، لیکن یہ حکومت کی کسی خاص شکل کا تعین نہیں کرتا۔ قرآن کا تعلق سیاسی تنظیم کی تفصیلات سے زیادہ ایمان، حسن اخلاق اور ذاتی سطح پر انصاف سے ہے۔
اسلامی اسکالر ڈاکٹر خالد ابو الفضل کہتے ہیں:
قرآن وسیع اخلاقی اور معنوی اصول بیان کرتا ہے لیکن حکومت کی کسی مخصوص شکل کا مطالبہ نہیں کرتا۔ جو چیز اہم ہے وہ انصاف، اچھی حکومت اور عوام کی فلاح و بہبود ہے۔" ابو الفضل، اسلام اور جمہوریت کا چیلنج
قرآن خود کسی خاص سیاسی نظام کے بجائے انصاف پر زور دیتا ہے:
"بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘ (سورۃ النساء 4:58)
یہ آیت اسلامی حکومت کے حوالے سے کچھ نہیں کہتی بلکہ حکومت پر عدل کا حکم دیتی ہے، جو سیکولر حکومت میں بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
مزید، امام ابوحنیفہ نے، جو سنی اسلام کے سب سے بڑے علماء میں شمار کیے جاتے ہیں، کسی خاص قسم کی سیاسی نظام کی بات نہیں کی ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے انصاف کی طرف قانونی اور اخلاقی رہنما خطوط پر زیادہ کام کیا۔ ان کے نقطہ نظر میں اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے طرز حکومت میں لچک کی بات کی ہے، تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ سیکولر حکومتیں بھی درست ہوسکتی ہیں بشرطیکہ وہ انصاف کریں۔
2. حاکمیت صرف اللہ کی ہے - کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین باطل ہیں؟
اسلام پسندوں کی دلیل
اسلام پسندوں کا ماننا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین حاکمیت الٰہ کے خلاف ہیں۔ وہ آیات کا حوالہ دیتے ہیں جیسے:
’’حکم نہیں مگر اللہ کا‘‘۔ (سورہ یوسف 12:40)
تردید
یہ دلیل نظام حکومت میں انسانی اختیارات کے کردار کی مکمل طور پر غلط تفہیم پر مبنی ہے۔ حاکمیت الٰہ تھیلوجیکل لحاظ سے مطلق ہے، جبکہ عملی طور پر حکومت چلانے میں انسانی تعبیر و تشریح اور قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخی طور پر اسلامی طرز حکومت میں بھی حکمرانوں اور علماء نے اجتہاد کی بنیاد پر قانونی فیصلے کئے ہیں۔
اسلامی اسکالر ڈاکٹر عبداللہ سعید کہتے ہیں:
اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کہ ہر قانون کو براہِ راست قرآن و حدیث سے لینا چاہیے۔ اسلامی روایت میں انسانوں کو، دلیل و استدلال کے ساتھ ایسے قوانین بنانے کی اجازت ہے، جس سے انصاف اور عوامی فلاح و بہبود کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔ (اسلامی فکر: ایک تعارف)
قرآن خود لوگوں کے درمیان مشاورت اور فیصلہ سازی کی ترغیب دیتا ہے:
"اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے۔" (سورہ شوریٰ 42:38)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حکومت کی بنیاد مشاورت اور باہمی فیصلہ سازی پر رکھی جا سکتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے جدید سیکولر جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ امام غزالی نے فرمایا:
"شریعت کا مقصد دنیا اور آخرت میں لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی نظام کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا جانا چاہیے کہ وہ کس حد تک انصاف اور فلاح و بہبود کے لیے پابند ہے۔" (المصطفٰی فی علم الاصول)
انصاف، فلاح و بہبود اور مذہبی آزادی کے حصول میں ایک سیکولر حکومت اسلامی اصولوں کے مطابق ہوتی ہے۔
3. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بطور ایک سیاسی رہنما - کیا اس سے اسلامی ریاست کا قیام واجب ہو جاتا ہے؟
اسلام پسند کہتے ہیں کہ چونکہ پیغمبر اسلام نے مدینہ میں ایک سیاسی رہنما کا بھی کردار نبھایا تھا، اس لیے مسلمانوں کو ان کے نمونے کی تقلید میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنی چاہیے۔
تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی قیادت اپنے زمانے اور حالات کے لحاظ سے منفرد تھی۔ مدینہ کے حاکم کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار، تمام مسلمانوں پر ایک تھیوکریٹک ریاست کے قیام کا حکم نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مشن لوگوں کی روحانی طور پر رہنمائی کرنا تھا، مستقل سیاسی نمونہ پیش کرنا نہیں۔
معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمن فرماتے ہیں:
اس لحاظ سے، "مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت ایک تاریخی ضرورت کی نمائندگی کرتی ہے، نہ کہ یہ ہر زمانے کے لیے ایک مذہبی فریضہ ہے۔ درحقیقت اسلام کے اندر مختلف سیاسی نظاموں کی گنجائش ہے، جب تک کہ ان سے عدل و انصاف کا کام ہوتا رہے۔" اسلام اور جدیدیت
مزید یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود دنیاوی حکام کو تسلیم کرتے تھے۔ آپ نے اسلامی ریاستوں کے علاوہ دیگر حکمرانوں کو اسلامی نظام حکومت نافذ کرنے کے مطالبات کیے بغیر خطوط لکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرامن طریقے سے اسلام کی تبلیغ کی اپنی دعوت کی بات کی۔
4. قومی ریاست پر امت کا تصور - کیا قوم پرستی غیر اسلامی ہے؟
اسلام پسندوں کا کہنا ہے کہ سیکولر حکومتیں قوم پرستی کے ذریعے مسلمانوں کو تقسیم کرتی ہیں، جبکہ اسلام ایک امت کی وحدت کی بات کرتا ہے۔
تردید
قرآن قوموں کے درمیان اختلاف کو تسلیم کرتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی سب کو خوش اسلوبی سے ایک ساتھ رہنے کی دعوت دیتا ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات 49:13)
یہ آیت قومی شناخت کو تسلیم کرتی ہے، اور اس میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ تمام مسلمان مل کر ایک سیاسی نظام قائم کریں۔
جدید اسلامی اسکالر شیخ عبداللہ بن بیہ لکھتے ہیں:
"اسلامی سلطنت کا تصور نہ تو عملی ہے اور نہ ہی اسلام نے اسے لازمی قرار دیا ہے۔ مسلمان اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے وفادار شہری بن سکتے ہیں۔" (اسلام میں امن کی ثقافت)
تاریخی طور پر، ایسی سلطنتیں، حکومتیں اور جمہوریتیں رہی ہیں جن میں مسلمان رہتے تھے۔ سیکولر حکومتیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور مسلمانوں کے درمیان مختلف مسائل پر مذہبی اتفاق رائے میں مداخلت نہیں کرتیں۔
5. سیکولرازم اور اخلاقی بدعنوانی - کیا یہ سماجی تنزلی کا باعث بنتی ہے؟
اسلام پسندوں کا کہنا ہے کہ سیکولرازم غیر اخلاقی ہے، کیونکہ یہ ان پابندیوں کو ختم کرتی ہے جو ایک مذہب کسی معاشرے پر عائد کرتا ہے۔
تردید
اخلاقی اقدار مذہبی ریاستوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، کیونکہ بہت سی سیکولر حکومتوں کے پاس قانون سازی کا اختیار ہوتا ہے، جو انصاف، خاندانی اقدار اور سماجی بہبود کے حق میں کام کرتی ہیں۔ سیکولر نظام لوگوں کو مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ قوانین جمہوری طریقہ کار کے ذریعے منظور کیے جاتے ہیں، نہ کہ مذہبی اکثریت یا اتھارٹی کے ذریعے۔
قرآن یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ تمام غیر مسلم معاشرے غیر اخلاقی نہیں ہیں:
’’سب ایک سے نہیں کتابیوں میں کچھ وہ ہیں کہ حق پر قائم ہیں اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں رات کی گھڑیوں میں اور سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ آل عمران 3:113)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیکی کا تصور اسلامی ریاست سے باہر بھی پایا جا سکتا ہے۔
عظیم عالم دین مفتی تقی عثمانی اسے یوں بیان کرتے ہیں:
"غیر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو مذہبی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کے بجائے، ذاتی تقویٰ اور اجتماعی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔" (فقہ العقلیات)
لہٰذا، مسلمان اپنی اقدار پر ایک سیکولر فریم ورک میں بھی قائم رہ سکتے ہیں، بغیر اپنے طرز زندگی کو دوسروں پر مسلط کیے۔
6. شریعت بمقابلہ سیکولر قانون - کیا مسلمان دونوں کی پیروی کر سکتے ہیں؟
اسلام پسندوں کی دلیل ہے کہ صرف شرعی قانون ہی درست ہے اور سیکولر قانونی نظام سراسر ناجائز ہے۔
تردید
حقیقت یہ ہے کہ شریعت میں محض فقہ سے کہیں زیادہ اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے۔ شریعت کے بہت سے پہلوؤں کو مثلاً معاہدوں، عائلی قوانین اور کاروباری اصول میں، ذاتی فیصلے کے ذریعے، سیکولر نظام کے اندر ہی نافظ کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ اسلامی فقیہ شیخ مصطفی زرقا کہتے ہیں، "اسلامی قانون میں لچک ہے۔ ایک سیکولر نظام جس میں میں انصاف کیا جاتا ہو اور جس میں مذہبی آزادی کی اجازت بھی ہے، اس کے اندر مسلمان اپنی ذاتی زندگی میں شریعت پر عمل کر سکتے ہیں۔
قرآن کسی مسلمان کو ملک کے قانون کے مطابق عمل کرنے سے منع نہیں کرتا، جب تک کہ وہ بنیادی اسلامی اصولوں اور قدروں سے متصادم نہ ہو:
"اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔" - سورۃ النساء 4:59
امام ابن عابدین جیسے کلاسیکی علماء نے فتویٰ جاری کیا کہ مسلمانوں کو ان کے ملک کے قوانین کے مطابق عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے، بشرطیکہ یہ انہیں گناہ پر مجبور نہ کرے۔ (رد المحتار)
نتیجہ
اسلام اور سیکولرازم پر بحث کی بنیاد اسلامی تعلیمات کی مختلف تشریحات پر ہے۔ اسلام پسندوں کا کہنا ہے کہ سیکولرازم اسلام سے متصادم ہے کیونکہ یہ مذہب کو سیاست و حکومت سے الگ کرتا ہے، حاکمیت الٰہ کو کمزور کرتا ہے، اور اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو شریعت سے چلنے والی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ تاہم، بہت سے علماء اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں، کہ اسلام کسی مخصوص سیاسی نظام کے قیام کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کے بجائے انصاف، سماجی بہبود اور مذہبی آزادی کو ترجیح دیتا ہے- جو کہ ایسے اصول ہیں جو سیکولر حکومتوں کے اندر بھی پائے جا سکتے ہیں۔ قرآن اور اسلامی روایت، معاشرے پر مذہبی قانون نافذ کرنے کے بجائے، اخلاقی حکمرانی پر زور دیتی ہے۔ پوری تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے، کہ مسلمانوں نے کامیابی کے ساتھ مختلف سیاسی نظاموں کے تحت زندگی گزاری اور ترقی کی ہے، جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام حکومت کے حوالے سے ایک لچکدار رویہ رکھتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ، ایک طرف تو کچھ لوگ اسلامی حکومت کے حامی ہیں، جبکہ کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ سیکولرازم، جب یہ انصاف اور مذہبی آزادی کو یقینی بنائے، تو فطری طور پر اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں ہے۔
-------
English Article: Can Muslims Live Under Secular Governments? A Refutation of Islamist Arguments – Part 2
URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-under-secular-refutation-islamist-part-2/d/134613
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism