غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
27 مئی،2022
کیا ہمارے برے اعمال
ہماری پریشانیوں کے اسباب ہیں ؟
1. آج ہم اچھے اعمال
اور نتائج حاصل کرنے کے بجائے بری عادتوں اور غلط رسوم و رواج کو اپنانے میں لگے
ہوئے ہیں۔
2. آج ہم یہ شکایت
کرتے پھر رہے ہیں کہ ہم پریشانیوں اور
بحرانوں کے شکار ہیں اور دوسرے ان سب کے ذمہ داری ہیں ۔
3. قرآن و سنت کی
تعلیمات سے صاف طور پر واضح ہے کہ پریشانیوں اور بحرانوں سے بچنے کے لئے سب سے
پہلے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اپنے گناہوں اور برے
اعمال کی اللہ رب العزت سے معافی مانگیں۔
۔۔
آج ہم مسلمانوں کی عادت
بن چکی ہے کہ اپنے مشکلات و مصائب کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھتے ہیں ۔ ہم میں سے
اکثر کا حال ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات
سے غافل ہیں ۔ ہم اچھے اعمال اور نتائج حاصل کرنے کے بجائے بری عادتوں اور
غلط رسوم و رواج کو اپنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہماری اکثریت اسلام کی خوبصورت تعلیمات کی طرف متوجہ ہونے کے
بجائے بدعنوانی، بے حیائی اور بدکاریوں میں لگی ہوئے ہے۔ آج ہم یہ شکایت کرتے پھر رہے ہیں کہ ہم پریشانیوں اور بحرانوں کے شکار ہیں اور دوسرے
ان سب کے ذمہ دار ہیں ۔ لیکن ہم ان کے اسباب وعلل پر غور نہیں کرتے ۔ آخر
یہ پریشانیاں ہم پر کیوں مسلط ہوئیں ؟
قرآن و سنت کی تعلیمات
سے صاف طور پر واضح ہے کہ پریشانیوں اور بحرانوں سے بچنے کے لئے سب سے پہلے
مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اپنے گناہوں اور برے اعمال
کی اللہ رب العزت سے معافی مانگیں۔ ان پر لازم ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے
اللہ تعالی کو راضی کریں کیونکہ دنیا آفات و پریشانیوں سے نجات اور سکون و راحت
کے تمام خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔
اگر وہ اللہ تعالی کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالی یقینا انہیں
پریشانیوں سے نجات اور اپنے فرماں بردار بندوں کو سکون اور راحت عطا کرے گا ۔
اگر بندہ گناہوں کو ترک
کر دے اور فرمانبرداری اختیار کرلے تبھی اللہ تعالی اس بندے سے راضی ہوگا۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ برے اعمال اللہ تعالی کی ناراضگی اور نہ صرف آخرت کے عذاب بلکہ
دنیاوی پریشانیوں کا بھی باعث بنتے ہیں۔ آج ہمارے مسلم معاشرے میں بے سکونی، بدامنی، قتل و غارت گری، رزق کی کمی،
مال و دولت اور زمین جائیداد کی غیر منصفانہ تقسیم عام بات ہو چکی ہے ۔ ہمارے برے
اخلاق ہمارے معاشرے کی پہچان بن چکے ہیں۔
یہ ہمارے برے اعمال ہی کا
نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے برے اعمال
ہمارے افکار و نظریات پر اس شدت کے ساتھ حملہ آور ہے کہ ہم تعلیمی پسماندگی سے
نکلنے، سماجی و سیاسی ذلت سے محفوظ ہونے
اور قدرتی آفات سے مامون ہونے سے قاصر ہیں ۔ یقینا یہ سب اللہ رب العزت کی طرف سے
بندوں کے برے اعمال پر اظہار ناراضگی ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید
میں لوگوں کو اپنے غیض و غضب سے آخر کیوں ڈرایا ہے ؟ اس کا جواب بالکل ظاہر ہے کہ
ایسا اس لیے ہے تاکہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں اللہ تعالی سے خوف کرتے ہوئے
برائیوں سے باز رہے اور صالح اعمال کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ تعالی لوگوں کو برائیوں
کے انجام سے متنبہ فرماتا ہے تاکہ وہ لوگ رجوع الی اللہ کی اپنی اصل منزل بھول نہ
پائیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
اللہ تعالی کی ناراضگی صرف آخرت اور جہنم تک محدود نہیں بلکہ برے اعمال کے نتیجے
میں دنیاوی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے آزاد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت
دونوں کا رب ہے۔ دنیا دارالعمل ہے تو آخرت دارالجزا ہے۔ انسان کی اخروی نجات اس کے
دنیاوی اعمال پر منحصر ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے :
(وَ مَ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا
عَنْ كَثِیْرٍؕ}
ترجمہ : اور تمہیں جو
مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تووہ
معاف فرمادیتا ہے۔(۴۲:۳۰)
اس آیت میں مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے ۔ اس آیت میں ان
لوگوں سے خطاب ہے جو برے اعمال اور گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اس آیت کا مفہوم
یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں
اور مصیبتیں لوگوں پر پہنچتی
ہیں اکثر اُن کا سبب ان کے برے اعمال اور
گناہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا
ضروری ہے کہ اگر بندہ صدق دل سے اپنے گناہوں سے تائب ہو جائے تو اللہ تعالی انہیں
ان تکلیفوں سے نجات دے دیتا ہے اور ان کی تکلیفوں کو سابقہ گناہوں کا کفارہ بنا
دیتا ہے ۔ قرآن و سنت اور صوفیائے کرام کے اقوال سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
بسا اوقات مومنوں پر مسلط ہونے والی پریشانی اور آزمائش ان کے لیے خوشحالی اور ان کے درجات کی بلندی کا
ذریعہ ہوتی ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ
لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور
گناہ کرنا ہے۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں
سے بچ سکتے ہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: (اے لوگو!) تمہارا رب
عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے ’’اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں
انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا، دن میں
ان پر سورج کو طلوع کروں گا اور
انہیں کڑک کی آواز تک نہ سناؤں گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃرضی اللّٰہ
عنہ، ۳ / ۲۸۱،
الحدیث: ۸۷۱۶)
مذکورہ حدیث میں مسلمانوں
کے لیے یہ سبق ہے کہ اگر مسلمان اپنے
گناہوں پر نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں تو اللہ تعالی ان کی دنیاوی
پریشانیوں کو دور فرماکر انہیں خوشحالی عطا فرمائے گا ۔
نیز انہیں بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ برے اعمال کی
وجہ سے ان پر جو مصیبتیں آتی ہیں ، ان
میں وہ بے صبری اور شکوہ شکایت کا مظاہرہ نہ کریں
بلکہ انہیں اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہوئے صبر و شکر سے کام لیں۔
ترغیب کے لئے یہاں گناہوں
کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں سے
متعلق اور ان مصیبتوں کے گناہوں کا کفارہ ہونے کے بارے میں پانچ اَحادیث ملاحظہ
ہوں ،
(1)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت
ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: ’’بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی
ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر
رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت
فرمائی ’’وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ
یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الشوری۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۶۳)
(2)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ
اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’نیک
کاموں سے عمر بڑھتی ہے،دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک آدمی اپنے کسی گناہ کی
وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۴۰۲۲)
(3)…حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لکڑی
کی خراش لگنا،قدم کا ٹھوکر کھانا اور رگ کا پھڑکنا کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور
جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ ا س سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ
مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ
كَثِیْرٍ‘‘۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الصبر علی البلایا مطلقاً، ۲ / ۳۰۴، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۶۶۶)
(4)… حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت
ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا’’مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے توا س کی وجہ سے
اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا ا س کی ایک خطا مٹادیتا ہے۔ (مسلم،
کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما یصیبہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۱، الحدیث: ۴۷(۲۵۷۲)
(5)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن
کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے۔ (شعب الایمان ، السبعون من شعب
الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع و الامراض ۔۔۔ الخ ، ۷ / ۱۵۸ ، الحدیث: ۹۸۳۵، احادیث ماخوذ از صراط
الجنان فی تفسیر القرآن)
اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں
کو توبہ کی سعادت ،
اپنی اطاعت و فرماں برداری میں
مشغول رہنے اور گناہوں کو ترک کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔ اللہ تعالی ہمیں جملہ
مصائب و آلام اور مشکلات و پریشانیوں سے محفوظ و مامون رکھے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism