New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 08:46 PM

Urdu Section ( 25 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims Stand at a Crossroads Today آج مسلمان دوراہے پر کھڑے ہیں

معصوم مراد آبادی

23جنوری، 2025

مسلمانوں کے تعلق سے ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو وہ کئی اعتبار سے بہت پریشان کن ہیں۔ یوں تو آزادی کے بعد سے ہی یہ تکلیف دہ سلسلہ جاری ہے۔اس کا سبب ملک کی تقسیم کا افسوس ناک واقعہ ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات، منفی پروپیگنڈے نے انہیں حرف غلط بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں انہیں دیوار سے لگانے میں مسلسل مصروف رہی ہیں، لیکن ان حالات سے لڑنے کے لیے مسلمانوں کو جس حکمت سے کام لینا چاہئے تھا وہ نہیں لیا گیا۔ اس عرصے میں مسلم قیادت نے بھی انہیں محض جذباتی مسائل میں الجھا کرمخالفین کے ایجنڈے کو دانستہ طور پر پورا کیا۔ اس عرصے میں مسلمانوں کی عملی قوت کو بروئے کار لانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس کی ذمہ داری اس مسلم قیادت پرزیادہ عائد ہوتی ہے جس نے صالح قیادت کا کردار ادا کرنے کی بجائے مسلمانوں کو ایک سیاسی ریوڑ کی طرح اپنے حقیر مفادات کے لیے استعمال کیا۔

مسلمانوں میں سیاسی اور سماجی شعور کے فقدان نے ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے جس کا کوئی مداوا نظر نہیں آتا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ ملک کی آزادی میں بے مثال اور سرفروشانہ خدمات انجام دینے کے باوجود آج ملک میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وہ بیگانوں جیسی زندگی بسرکرنے پرمجبور ہیں۔ وہ سیکولر پارٹیاں جنہیں مسلمانوں نے اپنا مسیحا سمجھا تھا، انہوں نے انہیں منجھدار میں چھو ڑ دیا ہے۔ ان کا ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ان کی بدحالی دور کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں وزیراعظم کا پندرہ نکاتی پروگرام کی بہت دھوم تھی، جو اقلیتو ں کی فلاح وبہبود کے لیے وضع کیا گیا تھا اور ریاستوں کو اس کے نفاذ کی ذمہ داری سوپنی گئی تھی، لیکن اس کا نتیجہ صفرہی رہا۔ البتہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں سچر کمیٹی بنائی گئی، جس نے ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی بدحالی کا جائزہ لے کر بڑی دردناک تصویر پیش کی۔ اس کمیٹی کی کوکھ سے ملک میں پہلی بار اقلیتی امور کی مرکزری وزارت وجود میں آئی، جس نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور فنی استعداد کو فروغ دینے کے لئے کچھ عملی اقدامات کئے، لیکن مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد اس وزارت کے بال وپر پوری طرح کتر دیئے گئے اور اس کا وزیر بھی کسی غیر مسلم کوبنادیا گیا۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ نہ ہی اس حکومت کو مسلمانوں سے کوئی سروکار ہے۔ وہ مسلم مسائل پر گفتگو کرنابھی پسندنہیں کرتی کیونکہ اس کے نزدیک یہ ’نازبرادری‘ ہے۔ آج مسلمان دورائے پرکھڑے ہیں۔ نہ تو ان کے پاس کوئی مضبوظ قیادت ہے او رنہ ہی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی۔ جوکچھ ٹوٹی پھوٹی قیادت تھی، اسے داروگیر کے مراحل سے دوچار کرکے عضو معطل بنادیا گیا ہے۔ حکومت صرف ہندوراشٹر کے منصوبے میں رنگ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔

گزشتہ برسوں سے جب سے ملک میں اقتدار تبدیل ہوا ہے تب سے صورتحال بہت سنگین ہوگئی ہے۔ اس حکومت نے مسلمانوں کواجنبی بنانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ ان کے پرسنل لاء پرحملہ کرکے یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی شدید مخالفت کے باوجود طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ جس کی اجازت ملک کا آئین بھی دیتا ہے، اس پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں اور جو لوگ اس کام میں مصروف تھے، انہیں سنگین دفعات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ’لوجہاد‘ کی نام نہاد اصطلاح وضع کرکے بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگادی گئی ہے۔ کھربوں روپیوں کے اوقاف کا تیا پانچہ کرنے کے لیے وقف ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے۔ اوقاف کو ’زمین مافیا‘ کہا جارہاہے۔ سب سے خطرناک حملے مسجدوں، مزاروں او ر درگاہوں پر ہورہے ہیں۔ ہر عالیشان مسجد کے نیچے ایک مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہاہے۔ ملک کی عدلیہ اس کام میں معاون کا کردا رادا کررہی ہے۔ غرضیکہ ان حالات پر نظر ڈالئے تو خوف وہراس کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ حالات چاہے کتنے سنگیں کیوں نہ ہوں، ان کے آگے سپر نہیں ڈالنا چاہئے۔ مایوسی کفر ہے اور نا امیدی گناہ۔ مگر سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ مخالفین کی سازشوں او رمنافقین کی یورشوں کے باوجود مسلمان اپنی دنیا میں مست ہیں۔ صرف چند لوگ ہیں جو حالات کی کلائی موڑ نے کی سعی نا کام کرتے رہتے ہیں،مگر موجودہ ماحول میں عام مسلمانوں کے اندر جو بیداری نظر آنی چاہئے اس کی زبردست کمی محسوس ہوتی ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلمان اپنی صفوں کو درست کریں؟

یہاں سب سے بڑاسوال یہی ہے کہ آخر مسلمان کریں تو کیا کریں او روہ مسلمان امت واحد اور صالحہ کیسے بنیں؟ اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلمان اپنے کردار کو درست کریں۔ ان کے اندر اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے کی کمی سب سے زیادہ ہے۔ جھوٹ فریب، بے ایمانی اوربدمعاملگی ان کی پہچان بن گئی ہے۔ وہ مسلمان جو کسی زمانے میں سچائی اورایمانداری کا پیکر کہلاتے تھے، بے ایمانی، جھوٹ فریب اور سودخوری جیسے گناہوں میں ڈوب گئے ہیں۔ بظاہر اسلامی وضع قطع اختیار کرنے والے لوگوں کے معاملات بھی درست نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نصرت الہٰی سے محروم ہیں۔ ان کی عبادتیں اور دعائیں رائیگا جارہی ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے کردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں۔ دوسرے ان کے اندر جو فروعی اختلافات ہیں انہیں دور کیا جائے۔ علمائے کرام کی جو توانائی مسلکی تنازعات میں صرف ہوتی ہے، وہ مسلمانوں کو تعلیم یافتہ اور باشعور بنانے میں صرف کی جائے۔ اس کے ساتھ مسلم آبادیوں میں طبی سہولتوں کی بہت کمی ہے۔ متمول مسلمان اپنی دولت شادیوں او رمکانوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کی بجائے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور مسلم علاقوں میں نرسنگ ہوم کھولنے پر خرچ کریں۔ یہ کام پیشہ ورانہ بنیادوں پر بھی کیا جاسکتاہے۔ مجلس اتحاد المسلمین نے حیدر آباد میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں او ربہترین اسپتالوں کا جو جال پھیلا یا ہے، اس سے وہاں کے لوگ بہت استفادہ کررہے ہیں۔ برادرم اسدالدین اویسی نے ایک روز حیدر آباد میں مجھے ان اداروں کا نظارہ کرایا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ کاش شمالی ہند کے مسلمان بھی اس کی پیروی کرسکتے۔شمالی ہند میں جماعت اسلامی نے دہلی کے اوکھلا علاقہ میں الشفاء اسپتال قائم کرکے ایک اچھی پہل کی ہے۔ ایسے مزید اسپتال کھولنے چاہئیں۔مسلم خواتین بچوں کی پیدائش کے دوران سرکاری اسپتالوں میں جن رسوائیوں سے دوچار ہوتی ہیں، ان کا ازالہ اپنے یہاں میٹرنٹی ہوم کھول کر کیا جاسکتاہے۔ اپنے بچوں کی تربیت پر خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی قسم کے ماحول میں رہتے ہیں او ران کا رابطہ کن ہم جولیوں کیساتھ ہے۔ مسلم علاقوں میں گالی گفتاری کا ماحول عام ہوتاہے، جس کابہت بڑا اثر ذہنی اور شعوری تربیت پر پڑتاہے۔ رات گئے تک نوجوان لڑکے خواہ مخواہ سڑکوں پر مٹر گشتی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آوارگی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس سے حتی المقدور اپنے بچوں کو محفوظ رکھیں۔ ایک بڑامسئلہ مسلم دانشوروں کے درمیان تال میل قائم کرنے کابھی ہے۔ ان کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

23 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی

--------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-stand-crossroads-today/d/134429

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..