نصیر احمد، نیو ایج اسلام
21 مئی 2024
شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو
جس نے اتنی طویل عمر پائی ہو، کہ اس کے دل میں
اپنےدین کے بارے میں شکوک و شبہات اور تنگی نہ پیدا ہوئی ہو ۔ کچھ لوگ
خاموشی سے اپنا مذہب چھوڑ دیتے ہیں، اور کچھ اپنے مذہب کی طرف واپسی کا راستہ تلاش
کرتے ہیں، جب کہ کچھ اپنے سابقہ مذہب کے سخت دشمن بن جاتے ہیں۔ مختلف لوگوں کی
زندگیوں میں، یہ مختلف قسم کے تجربات، ہمارے روحانی سفر میں، ہماری سوجھ بوجھ اور
خود احتسابی کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
مذہب سے دوری کی سب سے
عام وجوہات کو ذیل میں زیر بحث لایا گیا ہے:
1. سماجی تعاملات
مغربی تعلیم میں، خدا اور
مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور یہ مکمل طور پر سیکولر ہے۔ مذہبی ہونا وہاں
اچھا نہیں مانا جاتا۔ الحاد وہاں کا رواج ہے۔ عالم مغرب میں، بائبل پر سوال اٹھانا
تنقیدی سوچ کی پہچان ہے، اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے، تو آپ مذہب کے اندھے پیروکار
ہیں۔ یہ بات معقول بھی ہے، کیونکہ بائبل میں بہت سے نقائص اور تضادات ہیں، یہ چار
انجیلوں کی ایک ترمیم شدہ تالیف ہے، جبکہ بے شمار اناجیل ایسے بھی ہیں، جنہیں غیر
مستند اور محرف قرار دیا گیا ہے۔ مسلمان، قرآن کو، اور بائبل سے اس کے فرق کو
سمجھے بغیر، اپنے مغربی معاشرے کی نقل کر لیتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن پر
محض سوال اٹھانے کا عمل، انہیں تنقیدی مفکر بنا دیتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ
قرآن میں کوئی نقص یا تضاد نہیں ہے۔
عالم مغرب میں ان تمام
مسلمانوں کے خلاف ایک گہرا تعصب ہے، جو اہل مغرب
کے خیال میں، سماجی اور ثقافتی طور پر پسماندہ اور وحشی ہیں ۔ عالمِ مغرب
کے مسلمان، اپنی شناخت کی تمام علامتوں کو چھوڑ کر، بشمول اپنی مذہبیت کے، اپنی
مسلم شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، اپنے مذہب پر مضبوطی سے
قائم دوسرے لوگ، کھلے عام اور فخر کے ساتھ اپنی مذہبی شناخت کا اظہار کرتے ہوئے ان
تعصبات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
اشرافیہ طبقے میں، ہر جگہ
یہی بات رائج ہے، کہ خدا پر عقیدہ رکھنا غیر معقول ہے، اور الحاد یا ارتیابیت کی
بنیاد عقل و استدلال پر ہے، جو توہم پرستی سے خالی ہے ۔ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ، جو اپنی سماجی
حیثیت بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر وہی اس دباؤ کا شکار ہیں، کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر اس نئی، پرجوش،
مسحور کن، سیکولر دنیا میں اپنی جگہ بنائیں ۔ اس جذبے نے پچھلی دو صدیوں کے
اندر، لاتعداد ایسے نوجوانوں کی زندگیوں کو زبردست انداز میں متاثر کیا ہے، جو اپنی سماجی حیثیت بہتر کرنے
کی کوشش کر رہے ہیں۔
2. ذاتی سہولت
معاشرے کے اشرافیہ طبقے
کی ذاتی سہولت اور آسائش، ان کی مذہب سے
دوریکا ایک سب سے بڑا سبب ہے۔ مذہبی ہونے
کے لیے نماز، روزہ، صحیفوں کی تلاوت ، مساجد/گرجا گھروں/مندروں میں جانے، زکوٰۃ و
خیرات ادا کرنے اور حج و زیارت وغیرہ کے لیے کافی وقت صرف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جبکہ اشرافیہ طبقہ پیسہ کمانے، طاقت و اقتدار کا کھیل کھیلنے، اور آگے بڑھنے کی
کوشش میں مصروف ہے۔ ان کے پاس مذہب کی طرف کوئی میلان، یا اس کے لیے کوئی وقت ہی
نہیں ہے۔
3. فتنہ
دولتمند اور مراعات یافتہ
لوگوں کے لیے، جنسی آزادی، عریانیت، فحاشی، اور جنسی خواہشات کی تکمیل کے مواقع
سے بھری، آج کی اس طاقتور سیکولر اور گمراہیت سے بھرپور دنیا میں، ایک سنجیدہ مومن بننا ناممکن ہے۔ اس
ماحول میں، جنسی لذتوں، اور ان اشیاء کا استعمال
ترک کر دینا، جنہیں مذہب نے ممنوع
قرار دیا ہے، اکثر لوگوں کے لیے ناممکن ہے۔ دنیا کے دولتمند، مشہور اور طاقتور
اشرافیہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے،
کیریبین میں جیفری ایپسٹین کے "پیڈو فائل آئی لینڈ" کی زبردست
کامیابی، مذہب کی طرف سے حرام کردہ، جنسی
بے راہ روی کے فتنوں کے عروج کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔
اقتدار کے عہدوں پر فائز
لوگ، ذاتی مفادات کے پیش نظر بدعنوان بننے سے خود کو نہیں روک سکتے۔
ایسے لوگوں کے لیے، اپنے
مذہب اور خدا پر یقین رکھنا آسان نہیں ہے، جو انہیں ممنوع چیزوں میں ملوث ہونے پر،
آخرت میں ابدی عذاب سے خبردار کرتا ہے۔ وہ فلسفی فریڈرک نطشے کے فلسفے میں پناہ
ڈھونڈھتے ہیں، جس نے اعلان کر دیا ہے کہ خدا مر چکا ہے۔ اگر یا تو خدا کا وجود ہی
نہیں ہے، یا مذہب انسان کا بنایا ہوا ہے، تو ان دونوں صورتوں میں، اخلاقیات کی
پاسداری اپنی مرضی کی بات ہے ۔ اچھا محسوس کرنے کے لیے، اپنے اشرافیہ معاشرے کی
اخلاقی اقدار کی اتباع کرنا ہی کافی ہے۔
اپنے اشرافیہ حلقوں میں مقبول ہونے کے لیے
بھی، ایسا کرنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ ذاتی سہولت و
آسائش کی وجہ سے مذہب سے دور ہونے کا تعلق
انسان کی مرضی سے ہے، نہ کہ خدا اور اپنےمذہب پر یقین کی کمی وجہ سے۔ تاہم، برسوں
تک اپنے افعال و کردار کو عقل کے ترازو
پر تولنے کے بعد، وہ اب ان جھوٹوں پر یقین کرنے لگے ہیں جو انہوں نے خود
کہے تھے۔
4. جنسی رجحان
آج کے آزاد معاشرے میں،
جس میں LGBQT کمیونٹی کے حوالے سے لوگوں میں مثبت رویہ پایا جاتا ہے، اور مختلف جنسی رجحانات کے حامل
لوگوں کو وسیع تر قبولیت عام حاصل ہے، دیگر جنس پرستی کے علاوہ جنسی رجحانات کے
حامل لوگوں کے لیے، ان کے اس مذہب میں خامیاں تلاش کرنا آسان ہے، جو اس طرح کے
رویے کو مسترد کرتا ہے۔
صرف 300 سال پہلے تک،
جنگوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے علاوہ، انسانوں میں بچوں کی اموات، بنمانسوں
کی بہ نسبت زیادہ تھی۔ اور یہ بات سمجھی جا سکتی ہے، کہ مذہب نے پرجاتیوں کی بقا
کو یقینی بنانے کے لیے، دیگر جنس پرستی کے
علاوہ، دیگر تمام جنسی رجحانات کو سختی سے مسترد کیا۔ لیکن مذہبی رہنما اس مسئلے
کو انتہائی حد تک لے جاتے ہیں، حالانکہ قرآن اس کے لیے آخرت میں کسی سزا کی بات
نہیں کرتا، جبکہ اس طرح کے رویے کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
5. تھیوڈیسی
مذہب سے مایوسی کی عام
وجہ، ان سوالات کو حل کرنے میں ناکامی ہے کہ، "اچھے لوگوں کے ساتھ برا کیوں
ہوتا ہے؟" اور، ذاتی سطح پر، "میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے ایسا کیا
کیا، کہ میرے ساتھ ایسا ہوا؟‘‘ یا محض اس لیے بھی لوگ مذہب سے مایوس ہو جاتے ہیں،
کہ خوب دعائیں کرنے کے بعد بھی، ان کی خواہشات ادھوری رہ جاتی ہیں۔ ان کے دل میں
بھی وہی آتا ہے جو غالب نے کہا تھا:
کیا وہ نمرود کی خدائی
تھی بندگی میں، میرا بھلا نہ ہوا
مذہبی ماہرین ان مسائل سے
نبردآزما لوگوں کے ساتھ کافی وقت گزارتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب انبیاء کی کہانیوں
میں ملتے ہیں، جنہوں نے، سخت مشکلات کا مقابلہ، صبر اور ایمان کی طاقت کے ساتھ
کیا، اور جنہیں کامیابی سے ہمکنار کیے جانے سے پہلے، بہت سی تکالیف، ناکامیوں اور مصیبتوں کے مراحل سے گزارا گیا۔ ان سوالات
کے جوابات بھی آیات مبینات میں ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے، یہ اللہ کو قریب
سے سمجھنے اور اللہ کے قریب آنے کا دور ہوتا ہے۔ کمزور مذہبی تعلیمات کی بنیادوں
پر پرورش پانے والے لوگ، اس صورتحال میں، ممکن ہے کہ اپنے دین سے دور ہو جائیں۔
6. مذہبی رہنماؤں کے بدعنوان اور غیر اخلاقی رویے کی بنیاد پر دین
سے مایوسی
اوپر بیان کی گئی وجوہات
نسبتاً سطحی ہیں، اور لوگ اس دباؤ پر قابو پا سکتے ہیں، اور چند سالوں یا دہائیوں
تک دوری بنانے کے بعد ، دوبارہ مذہب کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہی لوگ
زیادہ تر اپنے مذہب کی طرف واپس لوٹیں، جو اپنے اخلاقی اصولوں کی پیروی میں ثابت
قدم رہتے ہیں، اور سہولت یا تھیوڈیسی کی بنا پر، اپنے مذہب کو نظرانداز کرتے رہتے
ہیں۔
لوگوں کے نہ صرف اپنا
مذہب چھوڑنے بلکہ مرتد ہونے، یعنی اپنے آباؤ و اجداد کے دین کا دشمن بننے، کی سب سے زیادہ مضبوط اور دیرپا وجہ، نفسیاتی
ہے۔
7. بے دینی کی ذہنیت: آباؤ اجداد
کے عیب دار ہونے کا نظریہ
نفسیاتی تجزیہ سے ہمیں،
آباؤ اجداد کے عیب دار ہونے اور خدا پر
یقین کے درمیان، ایک گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے۔ اسی سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے، کہ
ذاتی خدا منطقی طور پر ایک عالی مرتبت باپ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی
سے بھی عیاں ہے، کہ جب باپ کی طاقت ختم ہو جاتی ہے، تو نوجوان کیسے اپنا مذہبی
عقیدہ کھو دیتے ہیں (Leonardo da Vinci ، 1910، 1947 صفحہ 98)۔
ایک بار جب کوئی بچہ یا
نوجوان مایوس ہو جاتا ہے، اور اس کی نظر میں اپنے دنیاوی باپ کی عزت ختم ہو جاتی
ہے، تو ان کے لیے اپنے آسمانی باپ پر یقین کرنا، ناممکن ہو جاتا ہے۔ یقیناً،
ایسے بہت سے طریقے ہیں جن سے ایک باپ اپنا
اختیار کھو سکتا ہے، اور بچے کو شدید مایوس کر سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ طریقے، جن
کی تائید طبی ثبوتوں سے ہوتی ہے، ذیل میں بیان کیے گئے ہیں
1. ہو سکتا ہے کہ باپ موجود تو ہو لیکن کمزور، بزدل اور عزت کے
لائق ہی نہ ہو
بصورت دیگر وہ خوشگوار یا "اچھا" نہ ہو
2. ہو سکتا ہے کہ وہ موجود تو ہو، لیکن جسمانی، جنسی، یا نفسیاتی
طور پر بدسلوکی کا ارتکاب کرتا ہو۔
3. یا ہو سکتا ہے، کہ وہ
مر گیا ہویا خاندان کو چھوڑ کر غائب ہو گیا ہو۔
(یہ اقباس، پروفیسر پال سی
وٹز، شعبہ نفسیات، نیویارک یونیورسٹی کے ایک مقالے سے ماخوذ ہے)
جو لوگ اپنے باپ کے مذہب
کے دشمن بن جاتے ہیں، اور اسے زیرکرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے، وہ اپنے باپ کو
ذلیل کر کے ذہنی سکون حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس کا باب "عیب
دار" ہو،مرتد نہیں نکلتا، اور نہ ہی یہ کوئی لاعلاج مرض ہے۔ ایک مرتد جو
مسئلہ کی جڑ کو پہچاننے کے قابل اور عقلمندہے،
وہ تلخی کو دور کرے گا اور اپنے دین پر واپس آ جائیگا۔ تاہم، اگر اس میں متعدد اسباب
کارفرما ہوں، تو اپنے دین کی طرف واپس آنا
ناممکن ہو سکتا ہے، جب تک کہ کوئی شخص اپنی مرضی کے خلاف جاکر، شعوری طور
پر اس کی کوشش نہ کرے۔ میرا مضمون، جس کا ذیل میں حوالہ دیا گیا ہے، ظاہر
کرتا ہے کہ اگر ایسا کرنے کا جذبہ موجود
ہو، تو اپنے آپ کو ارتداد سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔
ارتداد کی روک تھام اور
علاج
English
Article: Why Some People Leave Their Religion
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism