New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 12:40 PM

Urdu Section ( 24 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims And Non-Muslims: Refuting The Extremist Doctrine Of Al-Wala Wal-Bara مسلم اور غیر مسلم: الولاء والبراء کے انتہا پسند نظریہ کی تردید

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

13 اپریل 2024

اس نظریے کو سمجھنا، بین اسلامی تعلقات اور وسیع تر بین المذاہب تعاملات دونوں پر، اس کے مضمرات کے ایک محتاط نظریہ کے لیے، انتہائی ضروری ہے۔

اہم نکات:

1. کفار (غیر مومنوں) کے بارے میں قرآن کا پیغام وسیع، اورتعبیرات و  تشریحات مختلف ہیں۔

2. الولاء والبراء ایک قبائلی تصور سے ایک پیچیدہ نظریاتی ہتھیار میں تبدیل ہو گیاہے، جسے مذہبی مباحث سے لے کر سیاسی تشدد کے جواز تک کے لیے، مختلف حالات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

3. حالیہ برسوں میں، احمد موسی جبریل اور عبداللہ الفیصل، جیسے دور جدید کے علما نے اس نظریے کی جم کر اشاعت کی ہے، اور عالمی سطح پر اس نظریہ کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا استعمال کیا ہے۔

------

اس مضمون میں، اسلام کے اندر اس کی اپنی تعلیمات، اور غیر مسلموں کے ساتھ اس کے تعامل کے حوالے سے، پیچیدہ نظریات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسلام کے اندر کچھ تشریحی روایات، ایک دفاعی طرزعمل  پر زور دیتی ہیں، جن کی جڑیں اس تاریخی سیاق و سباق میں پیوستہ ہیں، کہ جب مسلمانوں کو مشق ستم بنایا جاتا تھا۔ یہ نظریہ شیخ محمد الشعراوی جیسے علما نے بیان کیاہے، جو اپنی کتاب "الجہاد فی الاسلام" میں لکھتے ہیں، کہ جہاد بنیادی طور پر دفاعی عمل ہے، جس کا مقصد جبراً تبدیلی مذہب یا توسیع پسندی کو فروغ دینے کے بجائے، امت کو بیرونی خطرات سے بچانا ہے۔  الشعراوی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ بنیادی تعاملات، باہمی احترام اور رواداری پر مبنی، پرامن دعوت اور تعاون کے ذریعے انجام دیا جانا چاہیے۔

یہ نقطہ نظر ،مختلف تاریخی اور دورِ جدید کے سیاق و سباق میں ابھرنے والی، مزید تفرقہ انگیز تشریحات سے متصادم ہے۔ مثال کے طور پر، الولاء والبراء کا نظریہ، اسلامی نصوص کی بعض تشریحات کی بنیاد پر، امت مسلمہ کے ساتھ سخت وفاداری اور غیروں کے ساتھ قطع تعلق پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ، جووہابی فکر کا ایک اہم عنصر ہے، اور جسے شیخ محمد القحطانی اور ابن تیمیہ جیسے علماء نے کافی اہمیت دی ہے، مومنوں اور کافروں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی وکالت کرتا ہے، جس کی بنیاد پر غیر مسلموں کے تئیں مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی رویوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔

کفار (غیر مومنوں) کے بارے میں قرآن کا پیغام وسیع، اورتعبیرات و  تشریحات مختلف ہیں ۔ ایک طرف تو قرآن کی کچھ آیات کی تعبیر، یوں بیان کی جاتی ہے، گویا ان آیات میں ان لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کا بیان ہے، جو امت مسلمہ کے لیے خطرہ ہیں، جبکہ کچھ دیگر آیات کی تعبیر یوں بیان کی جاتی ہے، گویا ان آیات میں غیر مومنوں کے ساتھ، بقائے باہمی اور ہمدردی پر زور دیا گیا ہو، جب تک کہ وہ براہ راست مسلمانوں کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ برنارڈ لوئس جیسے اسکالر نے لکھا ہے کہ، قرآن مسلمانوں کو اپنی برادری کے اندر ہمدردی اور مہربانی کا مظاہرہ کرنے، اور غیروں کے خطرات کے خلاف ثابت قدم رہنے کی ہدایت کرتا ہے، لیکن ضروری نہیں ، کہ اس کا مطلب، ہر حال میں ہمیشہ غیروں سے دشمنی رکھنا ہو۔

ان نصوص قرآنیہ کی تشریحات، مترجمین کے مذہبی، تاریخی اور ثقافتی نقطہ نظر کے لحاظ سے، کافی مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔ اس سے ان مختلف طریقوں پر بھی روشنی پڑتی ہے، جن کے ذریعہ  اسلامی تعلیمات کو مختلف اقوام اور ادوار کے تناظر میں، سمجھا جاتا ہے اور ان کا اطلاق کیا جاتا ہے، جس سے اسلام کے اندر معتقدات و معمولات کے وسیع دائرہ کار کی عکاسی ہوتی ہے، جو کسی ایک نقطہ نظر سے بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔

اسلامی تعلیمات  میں الولاء والبراء کا تصور مومنوں کے ساتھ، وفاداری اور کافروں کے ساتھ، قطع تعلق پر زور دیتا ہے۔ یہ اصول توحید، اللہ کی وحدانیت کے عقیدے سے جڑا ہوا ہے، جو کہ اسلامی عقیدے کا ایک بنیادی پہلو ہے، جو اس بات کا تعین کرتا ہے،  کہ مسلمان غیروں کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھتے ہیں۔

الولاء والبراء کا ارتقاء

ماقبلِ اسلام عرب کے قبائلی معاشرے میں، "ولاء" (شامل کرنا) اور "براء" (نکالنا) جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے، جن کا مطلب کسی کو امت میں شامل کرنا اور خارج کرنا ہوتا تھا۔ یہ تصور اسلامی سیاق و سباق کے اندر الولاء والبراء کی شکل میں سامنے آیا، اور سب سے پہلے اس کا استعمال،  خارجیوں نے اپنے درمیان وفاداری اور دوسروں کے ساتھ قطع تعلق پر زور دینے کے لیے کیا۔ خوارج، جن کا ظہور  657 عیسوی میں، جنگ صفین کے دوران، خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان امن معاہدے کو توڑنے سے ہوا، بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل میں شامل ہوئے، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامیوں کے ساتھ بھی جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رکھا۔ جنہیں مرکزی دھارے کے اسلامی فقہاء نے گمراہ قرار دیا، انہیں خوارج کے ذریعے، وفاداری اور قطع تعلق کی یہ سخت تشریح، الولاء والبراء کے اس تصور کی بنیاد بنی۔

وفاداری اور قطع تعلق کےاس ثنائی تصور کو، اٹھارویں صدی کے آخر میں وہابی تحریک کے بانی کی اولاد، سلیمان بن عبداللہ الشیخ نے دوبارہ زندہ کیا۔ انہوں نے  الولاءوالبراء کے اس تصور میں فقہی پہلوؤ کا اضافہ کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ حقیقی اسلامی عقیدہ، خدا سے محبت اور اس کے دشمنوں سے نفرت دونوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس تعبیر کو بعد میں آنے والے 'علی ابن عتیق' جیسے علماء نے مزید تقویت دی، اور اسے براہ راست توحید (توحید کے اسلامی عقیدہ) سے جوڑ دیا، اور یہ کہا کہ حقیقی توحید فطری طور پر مشرکوں سے نفرت کا تقاضا کرتی ہے۔

اس نےبیسویں صدی میں ایک سیاسی موڑ لیا۔ 1979 میں، جهيمان العتيبي اور اس کے پیروکاروں نے، الولاء والبراء کے نام پر مکہ کی مسجد حرام پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر، مسلم دنیا کے اندر اور باہر، اسلام کے مزعومہ دشمنوں کے خلاف، سیاسی اور عسکری کارروائیوں کے جواز کے طور پر، اس تصور کو استعمال کیا جانے لگا۔

اسی طرح ایک اور عظیم نظریہ ساز، ابو محمد المقدسی نے بعد میں کہا کہ الولاء والبراء صرف اسلام کا حصہ ہی نہیں، بلکہ اس کی بنیاد ہے، اس تصور کے انکار کو خود اسلام کے انکار کے مترادف قرار دیا۔ ان کی تعلیمات نے جہادیوں کی ایک نئی نسل پیدا کی ہے، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مغرب اور اس کے اتحادیوں کو اپنا اصل دشمن مانتے  ہیں۔

1990 کی دہائی تک، حمود العقلاء الشعيبي جیسی شخصیات نے الولاء والبراء کو مزید سیاسی رنگ عطا کیا، اور اسے مسلم سرزمین میں مغربی اثر و رسوخ اور فوجی موجودگی کی مخالفت کرنے کے لیے، ایک دینی ضرورت  قرار دیا۔ اس نقطہ نظر نے11  /9کے بعد مزید توجہ حاصل کی، کیونکہ ایمن الظواہری جیسی شخصیات نے، غیر مسلموں اور عالم مغرب کے ساتھ تعاون کرنے والی حکومتوں کے خلاف، مستقل طور پر البراء کا اصول استعمال کرنے پر زور دیا۔

حالیہ برسوں میں، احمد موسی جبریل اور عبداللہ الفیصل جیسے جدید علما نے اس نظریے کی جم کر اشاعت کی ہے، اور عالمی سطح پر اس نظریہ کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا استعمال کیا ہے ۔ ان کی تعلیمات، کہ جو غیر اسلامی حکومت اور معاشرتی نظام کے حوالے سےنفرت سے پر ہیں، کا تعلق مختلف انتہا پسندانہ کارروائیوں سے پایا جاتا رہا ہے، اور پوری دنیا میں لوگوں کے درمیان بنیاد پرستی کے فروغ میں ان کا ہی کردار مانا جاتا ہے۔

اس طرح،  الولاء والبراء ایک قبائلی تصور سے ایک پیچیدہ نظریاتی ہتھیار میں تبدیل ہو گیاہے، جسے مذہبی مباحث سے لے کر سیاسی تشدد کے جواز تک کے لیے، مختلف حالات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور جس انداز میں اسکی  تعبیر و تشریح پیش کی جاتی ہے اور اس کا اطلاق کیا جاتا ہے، وہ اب بھی عہد حاضر کی اسلامی فکر اور عالمی جیو پولیٹیکل پر اثر انداز  ہے۔

فقہی بنیادیں اور سماجی اثرات

الولاء والبراء کا معنی وفاداری اور قطع تعلق ہے۔ یہ مسلمانوں سے، خودکو حلال (جائز) کے ساتھ جوڑنےاور حرام (ممنوعات شرعیہ) سے الگ کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس نظریے کو، ایمان اور عمل کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے، کچھ لوگ توحید کی طرح ہی اہم سمجھتے ہیں ۔

غیر مسلموں کے ساتھ تعامل

اسلامی تعلیمات کے مصدر و منبع، قرآن اور احادیث میں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات پر ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ سورۃ الفاتحہ جیسی قرآن کی آیتوں میں ، مسلمانوں کو اللہ کے پسندیدہ بندوں کے راستے پر چلنے، اور ان لوگوں کے راستوں سے بچنے کی ہدایت دی گئی ہے، جن پر اللہ کا غضب ہوا یا جو گمراہ ہو گئے۔ الطبری جیسی تاریخی تفسیروں میں ، اس حوالے سے یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک خاص حوالہ موجود ہے۔

عالمی اور سیاسی تناظر  میں الولاء والبراء

وسیع تر معنوں میں، الولاء والبراء اسلامی سیاسی نظریہ کو متاثر کرتا ہے، خاص طور پر دار الاسلام اور دار الحرب کے درمیان فرق کے تناظر میں۔ یہ اصول کچھ اسلامی مکاتب فکر کے جیو پولیٹیکل نظریہ کی بنیاد ہے، جو غیر اسلامی حکومتوں کے ساتھ اس وقت تک تصادم کو ضروری مانتے ہیں، جب تک کہ وہ اسلامی حکومت میں شامل نہ کر لیے جائیں۔

سلفی جہادی تشریحات

سلفی-جہادی جیسی انتہا پسند تنظیمیں، الولاء والبراء کی ایک سخت گیر اور غیر لچکدار تعبیر پیش  کرتی ہیں۔ وہ صرف اپنے ہی اسلام پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور تکفیر کرتے ہیں، جس کے مطابق کم متقی مسلمان، یا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کے ملزمان، مرتد قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بنیاد پرست نظریہ، مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے خلاف تشدد پر، ان کے جواز کی حمایت کرتا ہے۔

فطرۃ کا نظریہ

فطرۃ کا تصور، یا اسلام کے حوالے سے  فطری رجحان، اسلامی مشنری سرگرمیوں میں، ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق  ہر انسان پیدائشی طور پر اسلام کی طرف مائل ہوتا ہے، اور پھر تعلیم و تربیت جیسے خارجی اثرات کی وجہ سے، وہ اس راستے سے منحرف ہوجاتا ہے۔ یہ عقیدہ انسانوں کو ان کے اصل دین کی طرف لوٹانے کی کوششوں کو تقویت دیتا ہے۔

خلاصہ کلام

الولاء والبراء کا نظریہ پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے، جو مسلمانوں کے درمیان ذاتی عقیدے، اور اجتماعی شناخت دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ اہل ایمان کے درمیان امت کا ایک  مضبوط احساس پیدا کرتا ہے، اس کی تشریحات وسیع پیمانے پر مختلف ہوتی ہیں، کچھ لوگ اسے ایک طرہ امتیاز کی دعوت سمجھ کر اپناتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اسے اپنے ذاتی کردار کی اصلاح کے لیے، روحانی رہنما اصول مانتے ہیں۔ اس نظریے کو سمجھنا، بین اسلامی تعلقات اور وسیع تر بین المذاہب تعاملات دونوں پر، اس کے مضمرات کے ایک محتاط نظریہ کے لیے، انتہائی ضروری ہے۔

English Article: Muslims And Non-Muslims: Refuting The Extremist Doctrine Of Al-Wala Wal-Bara

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-refuting-extremist-doctrine-wala-bara/d/132191

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..