New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:13 PM

Urdu Section ( 19 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Lala Lajpat Rai in the Eyes of His Muslim Contemporaries لالہ لاجپت رائے اپنے مسلم ہم عصروں کی نظر میں

 ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام

 17 نومبر 2022

 استعماریت پسند مورخین اور ان کے پیروکاروں نے ہمیں یہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ لالہ لاجپت رائے ایک ہندو فرقہ پرست رہنما تھے اور انہیں فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ انہیں دو قومی نظریہ کے ابتدائی حامیوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

 کیا لالہ لاجپت رائے فرقہ پرست مسلم مخالف رہنما تھے؟ اس کا جواب ان کے مسلمان معاصرین سے تلاش کرنا چاہیے۔

 -----

Lala Lajpat Rai

-----

 تاریخ کا ایک ٹکڑا

 جنگ آزادی کے سرخیل اور ایک مسلم انقلابی عبید اللہ سندھی، جنہوں نے 1915 میں ایک عارضی حکومت بنائی اور بعد میں سبھاش چندر بوس کے ساتھ مل کر لالہ لاجپت رائے کو ایک پرعزم قوم پرست کے طور پر یاد کیا ہے۔ 1940 کی دہائی میں، سندھی نے بتایا کہ لالہ کس طرح ایک بار ترکی پہنچے، جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، ان کا خط موصول ہونے پر جس میں انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ کیا وہ انقلابی منصوبوں پر بات کر سکتے ہیں۔ لالہ نے ہندوستان میں مقیم اپنی ماں کی دیکھ بھال میں بھی ان کی مدد کی۔

 17 نومبر 1928 کو لالہ لاجپت رائے 30 اکتوبر کو لاہور میں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پولیس کے لاٹھیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے۔ اس پر مسلمانوں کا جو ردعمل تھا وہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ انہوں نے ان کے درمیان ایک رہنما کی حیثیت سے کیا عزت و احترام حاصل کیا تھا۔ لاہور کے ایک قد آور مسلم رہنما ڈاکٹر محمد عالم نے پریس کو بتایا، "لالہ لاجپت رائے کے جلوس جنازہ اس محبت کا ثبوت ہے جس کے ساتھ پنجاب کے لوگ مرحوم رہنما کو مانتے تھے….. مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ قوم مسلم نے اس نقصان کے احساس کا اظہار کیا جو ان کی موت سے اس ملک کو پہنچا ہے۔"

 اپنے اخبار ہمدرد میں مولانا محمد علی جوہر نے لکھا ہے کہ ’’ملک لالہ جی کی موت پر گہرا سوگ منائے گا۔ اخبار میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ پنجاب کے رہنما کا ایسے وقت میں انتقال ہوا جب قوم ان کی قیادت چاہتی تھی۔

 ایک مجاہد آزادی اور زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان نے کہا کہ وہ لاٹھی جس سے لالہ کی موت ہوئی، برطانوی راج کے تابوت میں آخری کیل ابت ہوئی۔

 ہندوستانی جنگ آزادی کے ایک اور مجاہد ڈاکٹر ایم اے انصاری نے کہا، "لالہ لاجپت رائے کی موت ایک عظیم قومی خسارا ہے، اس نازک موڑ پر ان کی موجودگی سب سے زیادہ ضروری تھی۔" انہوں نے مزید کہا کہ ’’لالہ لاجپت رائے کی موت سے میں نے ایک پیارے، قریبی اور عزیز دوست کو کھو دیا ہے… بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ لالہ لاجپت رائے ایک متعصب ہندو تھے۔ اس کے بجائے۔ وہ ایک مخلص قوم پرست تھے۔" مولانا یعقوب حسن نے بھی چنئی کے اسی اجلاس میں ان خیالات کی تائید کی۔

 لکھنؤ میں، محمود آباد کے راجہ نے ایک بڑے جلسہ عام کی صدارت کی اور کہا، "لالہ لاجپت رائے ہندوستانی سیاسی فضا میں چمکتا ہوا سورج تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ملک کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اپنی مادر وطن کی بھلائی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔‘‘

 دہلی میں، شیخ محمد تقی نے لالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے وکٹوریہ گارڈیڈ میں منعقدہ ایک بہت بڑے جلسہ عام کی صدارت کی۔ آصف علی، جنہوں نے بعد میں عدالت میں بھگت سنگھ کی وکالت کی جب ان پر لالہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مقدمہ چلایا گیا تھا، انہوں نے کہا، ’’واحد طریقہ جس سے آپ لالہ جی سے اپنی محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں اور ان کی یاد منا سکتے ہیں، وہ ہے ان کے نقش قدم پر چلنا اور اس آدرش کے حصول کے لیے کام کرنا جسے حاصل کرنے کی کوشش میں لالہ جی نے جان دے دی تھی، یعنی مادر وطن کی آزادی۔

 لالہ لاجپت رائے کو یاد کرنے کی اپیل ایک مسلم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کی تھی۔ نئی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، “ڈاکٹر انصاری اور مولانا ابوالکلام آزاد کے دستخط کے ساتھ قوم سے 29 نومبر کو یوم لالہ لاجپت رائے کے طور پر منانے کی اپیل جاری کی گئی ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ اس دن ملک کی آزادی کے سب سے بہادر لیڈر کی موت سے ہونے والے نقصان پر سوگ منانے کے لیے پورے ملک میں نشستیں منعقد کی جائیں۔

 ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالتے اگر لالہ میں مذہبی تعصب کا ذرا سا بھی ذرہ ہوتا۔

 مذاہب، ادب اور ثقافت کے ایک ہم عصر اسکالر جی کے نریمن کے الفاظ میں، ’’یہ ایک بہت بڑی غلطی فہمی ہے کہ لالہ لاجپت رائے مسلم مخالف تھے۔ وہ جس چیز کے خلاف تھے، وہ پاگل پن ہے جو ہم میں سے کچھ کے اندر ہے اور جسے ہم مذہبی جنونیت کا نام دیتے ہیں۔

 ماخذ:: Muslims Respected And Loved Lala Lajpat Rai

English Article: Lala Lajpat Rai in the Eyes of His Muslim Contemporaries

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-lala-lajpat-rai/d/128432

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..