ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
16 جون،2023
۲۵؍
سال کے بعد کسی شوق میں دوبارہ آپ سے رجوع نہیں کیا۔ ملی حلقوں میں بے اطمینانی
کی کیفیات ، ادراک کے عمل میں جمود ، آج کے ہندوستان میں اکثریتی ہندو نفسیات کا
تبدیل شدہ چہرہ ، مسلم نفسیات پر اُس کے اثرات اور اِس پس منظر میں ایک نئی فکر
پہل و سمت کی ضرورت و افادیت نے مجھے اس طرف رخ کرنے کی تحریک دی ہے۔محض تنقید کسی
مسئلے کا حل نہیں ہوتا!مسلم مسائل پر خالص مسلم پس منظر میں ۹۰؍
کی دہائی میں ہر موضوع پر میرا قلم اٹھ چکا ہے۔ منشور مسلم سے ۲۰۱۲ء میں ذہنی و فکری ہم
آہنگی تک ۱۷؍
تصانیف ہیں۔ تاریخ کو عصر حاضر کے تناظر میں دوبارہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ایک فکر کا کام فکری رخ کو موڑنے اور صحیح سمت کی طرف لے جانا ہوتا ہے۔ قبول کرنا
، نہ کرنا یہ قاری کا حق ہے۔کچھ باتیں وقت پر سمجھ میںآتی ہیں کچھ بہ دیر! وطن
عزیز ہندوستان میں عرب تاجر اس وقت آتے تھے جب دنیائے عرب میں اسلام اپنی قطعی
شبیہ ، تفصیل و تفسیر کے ساتھ مکہ مکرمہ کی زمین مقدس پر طلوع ہورہا تھا۔ ابھی
قبلہ کا رخ بھی بیت المقدس کی طرف ہے کہ گجرات کے ساحل پر وہ پہلی مسجد تعمیر ہوتی
ہے جس کا رخ قبلہ اولیٰ کی طرف ہے اور بعد میں وحی متعلقہ کے بعد اُس کا رخ موجودہ
قبلے کی طرف کیا گیا ہے۔ یہ عمل بطور نمونہ ایک زندہ حقیقت کی شکل میں آج بھی
موجود ہے۔
اس طرح اسلام تو یہاں
اللہ کے رسولؐ کی زندگی میں آچکا ، مسجد بھی تعمیر ہوچکی اور آپ کا یہ فرمان بھی
آچکا کہ مجھے ہند سے بھینی بھینی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں۔ یہ تو اسلام اور
ہندوستان کا پہلا مذہبی و روحانی تعلق ہے۔ گویا ہند وہ زمین ہوئی جس سے میرے آقا
کا تعلق ثابت ہے۔ اسی طرح کی کئی اور مسجدیں جنوبی ہندوستان میں کیرالہ اور تمل
ناڈو کے ساحل پر تعمیر ہوئیں۔ تاجروں کے علاوہ، علم و ادب کے محققین‘ اولیاء اللہ
کی ایک بہت بڑی جماعت ‘ عرب،افغان، ترک، منگول اور مغل بھی آئے۔ان کی بیشتر نسلیں
یہیں آباد ہوگئیں اور انہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنالیا۔ جو لوٹنے کی نیت سے
حملہ آور ہوئے تھے وہ اپنے اہداف کو حاصل کرکے چلے گئے۔ اس طرح اسلام یہاں مخلوط
حوالوں سے داخل ہوا۔ جس میں لگ بھگ ۷۰۰؍
برس کا براہ راست مسلم اقتدار کا دور بھی شامل ہے۔ دعوت و تبلیغ ، سرکاری ذرائع کا
براہ راست یا بالواسطہ زمین کا فراہم کیا جانا اور کہیں کہیں دیگر جبری طریقۂ کار
جیسے ذرائع بھی وطن عزیز میں اسلام کے پھیلنے میں اپنا کم یا زیادہ عمل دخل رکھتے
ہیں۔ اس خطے میں اگر موجودہ ہندوستان افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کی مسلم
آبادی کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ تقریباً ۸۰؍
کروڑ کے آس پاس بنتی ہے۔ ظاہر ہے یہ آبادی تبدیلیٔ مذہب کے نتیجے میں اپنا وجود
رکھتی ہے۔ ۱۰۰؍
کروڑ ہندو یہاں کے آبائی سناتن دھرم سے جڑے ہوئے ہیں۔ بقیہ سناتن چھوڑ کر دیگر
مذاہب کی طرف چلے گئے۔ جن میں سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ ان حقائق کو ذہن
میں رکھیں ۔
تصور کریں جس مٹی ، اس کے
لوگوں ، اس کی تہذیب ، تمدن ، اخلاقیات اور سب سے بڑھ کر ضمیر نے اپنے جسم کا اتنا
بڑا حصہ آپ کو دے دیا، یا وہ خود منتقل ہو گیا یا پھر کسی جبر کے کچھ واقعات کے
نتیجے میں کسی حد تک ایسا ہوا وہ قوم ۱۸۵۷ءمیں
آخری مسلم مغل بادشاہ کی قیادت کو تسلیم کرتی ہے۔ فرنگیوں کے خلاف پہلی آزادی کی
جنگ اس کی قیادت میں لڑتی ہے ۔ اس ظرف کو سلام کیا جانا چاہئے۔
اس جنگ میں شکست کے بعد
بجائے اپنے آبائی و مقامی رشتوں کے درمیان میں رہتے ہوئے کسی مشترکہ حکمت عملی کی
طرف دیکھنے والے مسلمانان ہند کی قیادت خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا ماتم مناتی ہے ۔
وطن عزیز میں خلافت تحریک قائم کرتی ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ بعد میں قومی تحریک
میں ضم ہوجاتی ہے۔ یہاں سے وہ کرب شروع ہوتا ہے اور وہ اصطلاح وجود میں آتی ہے جو
ایک ہندوستانی وحدت کو جو لگ بھگ آٹھ سو برس سے ایک چلی آرہی تھی دو متحارب
وحدتوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ ہندو مسلم!
اس کے بعد مشترک احیاء ،
احیائے ہند؍
احیائے سناتن اور احیائے اسلام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پس منظر میں اب آل انڈیا
مسلم لیگ، اس کا لا الہ الا اللہ کا نظریہ، علیحدہ ریاست کا قیام، ہندو مسلمان
ساتھ نہیں رہ سکتے، دونوں میں کچھ بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ اس نظریے کا مسلم عوام و
خواص میں واضح جگہ حاصل کرلینا جہاں مسلم نفسیات کو ایک مخصوص سمت میں لے جارہا ہے، وہیں سناتن دھرم کے ماننے والوں
میں بھی یہ مزاج اور نفسیات اپنی جگہ بنانا شروع کردیتی ہے۔ یہ مزاج رد عمل کی شکل
میں وہاں وجود میں آرہا ہے۔ آزادانہ پہل کی شکل میں نہیں!
تقسیم ہند اور قیام
پاکستان اور ہندوستان میں کثیر مسلم آبادی کا بطور اقلیت رہ جانا کوئی حادثہ نہیں
ہے۔ یہ سب دانستہ عمل و تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہمارا یہاں رہنا ایک
اتفاق نہیں بلکہ رضاکارانہ انتخاب کا نتیجہ ہے‘ درست نہیں ہے۔ اس کی زمین دلیل پیش
کرنے سے قاصر ہے۔ ہندو نفسیات پر حوادث، واقعات، تبدیلیاں اور زبان و اسلوب اثر
انداز ہونے کا جو عمل جاری ہے اس سے قاری غافل نہ ہوں۔ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک دو لخت ہوتا
ہے۔ اسی سال محض دو مہینے بعد اکتوبر میں کشمیر پر حملہ ہوجاتا ہے، موجود ہندو
مسلم خلیج اور اس کی زمین مزید جڑ پکڑلیتی ہے۔ ۱۹۷۱ء تک مسلمان برابر
پاکستان جارہے تھے۔ قیام بنگلہ دیش کے بعد ہندوستانی مسلم نفسیات ہندوستان کے
حوالے سے مستحکم ہونا شروع ہوئی ہے۔
اس ملک کی اکثریت ایک
آئین بناتی ہے۔ سب کو حتی کہ اس اکائی کو بھی جو ابھی اسلام کے نام پر ایک علیحدہ
ملک بنا کر بیٹھی ہے‘اس میں برابرکے حقوق دیتی ہے۔ ۳۱؍
فیصد آبادی اس ملک سے نئے ملک پاکستان منتقل ہوتی ہے اور ۲۵؍
فیصد علاقہ ہم سے چلاجاتا ہے، وہ ہندوستان جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے
براہ راست جڑی ہونی چاہئے تھیں وہ آج سکڑ کر کہاں آگئیں۔ وہ پہلا وزیر تعلیم اور
وزیر ریلوے دو مسلمانوں ‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی کو بناتی
ہے۔ آئین میں بحیثیت اقلیت خصوصی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ درگاہ ایکٹ، حج ایکٹ ، وقف
ایکٹ، تعلیمی اداروں کے قیام، مکمل مذہبی آزادی، لاکھوں مساجد، مدارس، خانقاہیں،
قومی اقلیتی کمیشن، کئی صدور مملکت ، نائب صدور، چیف جسٹس کوئی شعبہ زندگی سیاست
سے سفارتکاری تک، انتظامیہ سے عدلیہ تک، میڈیاسے فلمی و موسیقی دنیا تک ہر جگہ اور
ہر دور اقتدار میں اس سب کے ساتھ اس کیلئے مواقع موجود ہیں۔ یہ سب آج کی نفسیات
میں دھیرے دھیرے جمع ہوتا آرہا ہے اچانک کچھ نہیں ہوا ہے۔
آج اقتدار اس قیادت،
جماعت، نظریے، افراد و اداروں کے پاس ہے جن سے مسلمانان ہند نے دانستہ فاصلہ و
دوری تلخی کی حد تک بڑھا کر رکھی ہے۔ آئین وہی ہے ، ادارے سب اپنی جگہ موجود اور
فعال ہیں، کوئی بنیادی آئینی تبدیلی سامنے نہیں‘ تین طلاق پر قانون سازی اپنی دی
ہوئی زمین کے باعث، رام مندر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ، کشمیر میں ۳۷۰؍
کا فیصلہ بی جے پی کا اعلانیہ موقف، سابقہ سات دہائیوں سے چلے آرہے تمام قوانین،
ادارے و روایات جوں کے توں، سی اے اے اور این ٓر سی پر یقین دہانیوں کے عین مطابق
عمل، وزیر اعظم کا لنچنگ پر واضح موقف، سنگھ کا مسلمانان ہند کے ساتھ متواتر اور
مسلسل رابطہ، مسجد اور مدرسے میں سر سنگھ چالک کا دورہ ‘قطع نظر اس کے کہ مسلمانان
ہند کی جانب سے ان میں سے کسی بھی عنوان سے خیر مقدم کا علامتی اعلان یا بیان تک
نہیں، ہندو اکثریت اور آج کی ہندو نوجوان نفسیات یہ کہتی اور اس طرح سوچتی ہے کہ
ہم ان کی تاریخ کا بوجھ ڈھوئیں۔‘یہ علیحدہ ملک بنا کر بھی ہم سے برابری مانگیں جو
ہم ان کو دے رہے ہیں۔ ان کے ہاں ہمارے مذہبی جذبات کے حوالے سے لچک اور گنجائش نام
کی کوئی چیز نہیں!سڑکوں پر نماز پڑھیں گے، صبح ساڑھے چار بجے لائوڈ اسپیکر پر اذان
دے کر ہمیں نیند سے اٹھائیں گے اور ہماری ایک نہیں مانیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ مسلمان
اس ملک پر حملہ آور ہوئے، ہماری عبادتگاہیںتوڑیں‘ خالص وہ ہندو مذہبی شہر جن کا
اسلام اور مسلمان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے بیچوں بیچ عالیشان مسجدیں‘ یہ وہ
کڑوی باتیں اور حقائق ہیں جن کا سمجھنا اب ضروری ہوگیا ہے۔
حقیقت بھلے ہی آپ کو
پسند نہ ہو مگر زمین ایسی ہی ہے۔ نظریہ ہندو تو جس پر میں تفصیل سے کسی وقت لکھوں
گا ‘ آج کی حقیقت ہے۔ سنگھ پریوار(جس میں بی جے پی اور اس کی سرکار، قومی قیادت
براہ راست نہ سہی مگر عملاً شامل ہے)اس کے مکھیہ آر ایس ایس چیف سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن رائو بھاگوت یہ کہہ
چکے ہیں کہ آپ اپنے کو بھارتیہ کہیں یا ہندوستانی ہم سب کو ہندو مانتے ہیں۔ ہر
بھارتیہ کا ڈی این اے ایک ہے، سب کے پوروج سمان ہیں، بھارت ہندو راشٹر ہے۔ گئو
ماتا پوجنیہ ہے۔ کسی طرف سے اس کے خلاف کوئی بیان موجود نہیں! منطق اور دلائل کا
وقت جاچکا مگر، فہم ، ادراک اور عمل و تحریک میں کیا رہ گیا اب وہ اہم ہے اور وہ
ہی دعوت فکر دے رہا ہے۔
16 جون،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism