گریس مبشر، نیو ایج اسلام
2 نومبر
2023
فلسطین اسرائیل تنازعہ کا
اسلام کے نام پر استحصال بنیاد پرستی کے فروغ کا باعث بنے گا۔ اسرائیل کے تشدد کی مذمت
میں ہونے والے ظاہروں کے پیچھے چھپے جہادی نظریات کو رد کرنے کے لیے مناسب احتیاط برتی
جانی چاہیے۔ کسی بھی صورت میں فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو ملایا نہیں جا سکتا، جیسا
کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اہم نکات:
1.
غزہ کے شہریوں پر اسرائیل کی طرف سے جاری تشدد کی مذمت کی جانی چاہیے۔
2.
عالمی جہادی تحریکوں کے مسئلہ فلسطین کے ساتھ ٹھوس روابط ثابت ہوئے ہیں۔ عبداللہ
عزام سے لیکر اسامہ بن لادن تک بنیاد پرست رہنماؤں نے مسئلہ فلسطین کو جہاد کے لیے
ایک حیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
3.
ہندوستان میں بھی، اس مسئلے کو اکثر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے جس کی وجہ
سے مذہبی منافرت اور بنیاد پرستی نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔
4.
سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی فلسطین کے جذباتی مسئلے کی وجہ
سے بنیاد پرستی سے چوکنا رہنا چاہیے۔
——————
کیرلا میں جماعت کے یوتھ ونگ
کو کیا ضرورت تھی کہ وہ حماس کے لیڈر کو - آن لائن ہی سہی - تقریر کے لیے مدعو کرے؟
کیا ہمیں اپنے نوجوانوں کو حماس کی قیادت اور مسلح اور پرتشدد مزاحمت کے ان کے نظریات
سے متاثر ہونے کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر کسی مقبوضہ
علاقے کے باشندوں کو مسلح مزاحمت کا سہارا لینے کی اجازت دے۔ لیکن یہ کسی بھی حالت
میں شہریوں کے خلاف تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ اسرائیل کی حکومت کا شہریوں پر زبردست
تشدد کرنا، جیسا کہ اس نے ماضی میں بھی کیا ہے، حماس کے عسکری ونگ کو اسرائیلی شہریوں
پر تشدد کرنے کے جرم سے بری نہیں کرتا۔ نہ تو اقوام متحدہ کا چارٹر اور نہ ہی اسلامی
اصول مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کو معصوم شہریوں پر تشدد کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کون
سا باشعور مسلمان ہمارے نوجوانوں کو غیر انسانی نظریے سے متاثر ہونے دے گا؟ کیرلا میں
جماعت اسلامی یوتھ ونگ نے جو کیا ضروری ہے کہ ہم اس طرح کے احمقانہ اقدام اٹھانے سے
قبل ان کے نتائج کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیں۔
—————————————
فلسطین ایک بار پھر دنیا کے
ماتھے پر ایک بدنما زخم کا روپ دھار چکا ہے کیونکہ اسرائیلی فورس وہاں کے شہریوں پر
مسلسل بھاری بھرکم بم گرا رہے ہیں۔ انسانوں کے اس طرح قتل عام کو روکنے کے لیے عالمی
رہنماؤں کو فوری طور پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے عام شہریوں کو نشانہ بنا
کر اشتعال انگیزی کی شروعات کرنے پر حماس کی جتنی بھی سرزنش کی جائے کم ہے۔ اگرچہ غزہ
کے لوگ مظلوم ہیں، 'کھلے جیل' میں رہنے پر مجبور ہیں، لیکن عام شہریوں کے خلاف تشدد
کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں مانا جا سکتا اور نہ ہی مانا جانا چاہیے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ حماس سیاسی اسلام پسندی کے نظریے سے متاثر ہے۔
اسلام کسی بھی طرح سے ظلم کی حمایت نہیں کرتا۔ مذاکرات اور سیاسی تعامل کے ذریعے تصفیہ،
اگرچہ موجودہ سیاسی حالات میں اس کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی، ہی مسئلہ فلسطین کا
ایک واحد حل ہے۔ اب حماس کے تشدد کا خمیازہ عام شہریوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے، اس سے
اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لینے کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فلسطین کے معاملے کو، بنیاد پرست عناصر
نے لوگوں کو عالمی جہادی تحریک کی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسرائیل اور
یہود دشمنی کے بارے میں ان کے تحفظ پسندانہ رویے نے امریکہ دشمنی کی شکل اختیار کر
لی ہے۔
فلسطین عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی مسئلہ ہے کیونکہ یہ ان
کی مذہبی علامتوں اور استعماریت اور جدید استعماری عالمی نظام سے عمومی عداوت سے متعلق
ہے۔ مسلمانوں کی نظر میں فلسطین کا مسئلہ عالم عرب کی وحدت اور غیرت اسلامی کے ہمیشہ
کے لیے ختم ہو جانے اور مغرب کے بڑھتے ہوئے تسلط کی علامت ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں جہاد کے دعوں کا پایا جانا اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر
کرتا ہے۔ اس مسئلے کو بنیاد پرست عناصر نے جہاد کا نعرہ بلند کرنے کے لیے استعمال ہے۔
صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے نیچے دی گئی ویڈیوز دیکھیں۔
چونکہ یروشلم کو اسلام کا
تیسرا مقدس ترین مقام مانا جاتا ہے، فلسطین پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات سے جڑا
ہوا ہے۔ یہ مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ان کی وحدت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے
اور کس طرح عالم مغرب نے مسلمانوں کے ساتھ تاریخ کا سب سے عظیم دھوکہ کیا۔ اس کے علاوہ،
فلسطین مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے ایک جذباتی مسئلہ رہا ہے کیونکہ وہ انہیں اسلامی تہذیب
اور خلافت کے زوال کی یاد دلاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی عصری سیاست میں بھی فلسطین کی ایک بڑی سیاسی اہمیت ہے۔ مسئلہ
فلسطین کو عرب ریاستوں نے سیاسی آلہ کار کے طور پر اور خاندانی حکمرانی کی حمایت کے
لیے بھی استعمال کیا ہے۔ عرب ریاستوں نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو خطے میں سیاسی جواز
حاصل کرنے کے لیے، اور سنی شیعہ تنازعہ (ایران بمقابلہ جی سی سی ممالک) کے توڑ طور
پر استعمال کیا ہے۔ عرب ممالک کا مسئلہ فلسطین کو سیاسی رنگ دینا بھی اس مسئلے کو سنگین
بنانے کا ذمہ دار ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی فلسطین ہمیشہ سے سیاسی طور پر ایک پیچیدہ مسئلہ
رہا ہے۔ دائیں بازو کی جماعتیں اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں، جبکہ مرکزی جماعتیں 'دو
ریاستی پالیسی' کو اپناتی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں نے تاریخی طور پر فلسطین کی حمایت
کی ہے اور حکمران جماعتوں پر اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔
ہندوستان نے ماضی میں مسلمانوں کے جذبات کے احترام اور قومی مفادات کے تحفظ
کو بڑے توازن اور احتیاط کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے جدید سامراجیت
کے خلاف اپنی عظیم عالمی جدوجہد کے طور پر ہمیشہ فلسطین کا ساتھ دیا ہے۔
عالمی جہادی تحریک میں فلسطین
فلسطین کو جہادی تحریکوں نے بڑی بیدردی کے ساتھ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے
میں مسلمانوں کی ناکامی کی علامت قرار دیا ہے۔ وہ فلسطین کی ناکامی کی وجہ اسلامی شریعت
اور خلافت کی ناکامی کو قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ، وہ فلسطین کو ایک خیالی حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے،
جہاد کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست بعض اوقات
مذہبی جذبات اور مالی امداد کی فراہمی کا سبب بنتی ہے۔
عبداللہ عزام، جسے پہلا انٹرنیشنل جہادی مانا گیا ہے، نے اپنے جہادی سفر
کی ابتداء فلسطین سے کی ہے۔ 1948 کے نکبہ کی وجہ سے بے گھر ہو کر اس نے اسامہ بن لادن
سمیت جدید مسلم دہشت گردوں کی ایک بدنام زمانہ جماعت تیار کی۔ اس نے مسلمانوں سے پرتشدد
ذرائع سے فلسطین کو آزاد کرانے کی اپیل کی اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے عالم مغرب
کے خلاف جنگی حملوں پر زور دیا۔
اس کے بعد سے، فلسطین بار بار دہشت گردوں کا مرکز نظر بنا ہوا ہے۔ وہ تنازعات
کے پرامن تصفیہ کے لیے یاسر عرفات کی گفت و شنید کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انسانی
حقوق کی بلاجواز پامالی اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے یکسر نظر انداز کیے جانے،
نے اس جذباتی بارود کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ منگولوں کے خلاف ابن تیمیہ کے فتوے کا
استعمال کر کے، جہادی لیڈر مسلمانوں کو شعوری طور پر ہتھیار اٹھانے کے لیے آمادہ کرتے
ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کے تشدد نے، ان کی نظر میں، جہادی فتنوں کو حق بجانب
ثابت کر دیا ہے۔
اسامہ بن لادن نے اپنے
1996 کے فتوے میں جب امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو اس نے اسرائیل کے لیے امریکہ
کی حمایت کو جہاد کے جواز میں پیش کیا۔ جہادی لٹریچروں میں اکثر اشتعال انگیز نظریے
کو پھیلانے کے لیے فلسطین کے مسائل کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جہیمان العتیبی نے
1976 میں جب سعودی عرب کے آل سعود کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تو اس نے بھی امریکہ کے
ساتھ آل سعود کے تعلقات کا حوالہ دیا، کیونکہ امریکہ صہیونی ریاست کی غیر مشروط حمایت
کرتا ہے۔ آئی ایس آئی ایس نے اپنے لٹریچر کے ذریعے پوری دنیا میں جو خیالی پلاؤ پکایا
ان میں سے ایک فلسطین پر دوبارہ قبضہ کرنے کا تھا۔ ایران اور اس کے ہمنوا، بشمول حزب
اللہ کے، بھی عسکریت پسندی کے ذریعے اس خطے میں سنیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے
لیے عسکری طور پر فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔
لہذا، عالمی سطح پر مسلمانوں کی نظر میں فلسطین ہمیشہ تنازعات کی جڑ بنا
رہے گا۔ اسرائیل کا وحشیانہ تشدد اس جذباتی اپیل کو مزید ہوا دیتا ہے۔ اس مسئلے کا
اسلامی تعلیمات سے بہت گہرا تعلق ہے، دنیا کیسے ختم ہوگی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہاں
آئیں گے اور کب مسلمان مسجد اقصیٰ پر دوبارہ قبضہ کریں گے۔ ان مسائل کی بنیاد اسلامی
پیشن گوئیوں پر ہے، لہٰذا، اسرائیل کے وحشیانہ تشدد سے پرہیز کرنے اور ساتھ ہی ساتھ
خطے میں تشدد کو کم کرنے کے لیے ان پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں
شرپسند عناصر سیدھے سادے مسلم نوجوانوں کو اپنا شکار بنانے کی تاک میں ہیں۔
آن لائن لٹریچر ایسے جہادی نظریات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ پرتشدد ذرائع سے فلسطین کی آزادی
کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جذباتی اشتعال انگیزی مرکزی دھارے کی مسلم تنظیموں میں بھی دیکھی
جاتی ہے جو بعض اوقات جذبات میں بہ کر بے قابو ہو جاتی ہیں۔ صورتحال کو عملی طور پر
سمجھے بغیر اس طرح جذبات میں بہ جانا لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کر سکتا ہے۔
لہٰذا، تشدد اور فلسطینی شہریوں پر حملوں کی مذمت اور کارروائی کے مطالبے
کے درمیان ایک عمدہ توازن برقرار رکھا جانا چاہیے۔ آج کے عالمی سیاسی منظر نامے میں،
مذاکرات اور سیاسی تصفیہ کے ذریعے ہی تشدد کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ عالمی یکجہتی کے
لیے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کی ذمہ دار قیادت اور سیکیورٹی اداروں کو، جذباتی
مسائل کا استحصال سے فروغ پانے والی بنیاد پرستی کو، روکنے کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔
جماعت اسلامی، کیرالہ کی طرف سے منعقد کی گئی ایک ورچوئل کانفرنس سے خطاب
کے لیے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو مدعو کرنے سے لیکر بڑے مسلم رہنماؤں کے ردعمل
تک، ایسا لگتا ہے کہ ملک میں مسلم نوجوانوں کی ناراضگی کو ہوا دیا جا رہا ہے۔ آل انڈیا
مسلم لاء بورڈ کی حمایت مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کر سکتی ہے۔
اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علموں کا حماس کے حملوں کی حمایت
کرنا بھی موجودہ صورتحال پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
کیرلا میں جماعت کے یوتھ ونگ کو کیا ضرورت تھی کہ وہ حماس کے لیڈر کو -
آن لائن ہی سہی - تقریر کے لیے مدعو کرے؟ کیا ہمیں اپنے نوجوانوں کو حماس کی قیادت
اور مسلح اور پرتشدد مزاحمت کے ان کے نظریات سے متاثر ہونے کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہو
سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر کسی مقبوضہ علاقے کے باشندوں کو مسلح مزاحمت کا سہارا
لینے کی اجازت دے۔ لیکن یہ کسی بھی حالت میں شہریوں کے خلاف تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔
اسرائیل کی حکومت کا شہریوں پر زبردست تشدد کرنا، جیسا کہ اس نے ماضی میں بھی کیا ہے،
حماس کے عسکری ونگ کو اسرائیلی شہریوں پر تشدد کرنے کے جرم سے بری نہیں کرتا۔ نہ تو
اقوام متحدہ کا چارٹر اور نہ ہی اسلامی اصول مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کو معصوم شہریوں
پر تشدد کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ کون سا باشعور مسلمان ہمارے نوجوانوں کو غیر انسانی
نظریے سے متاثر ہونے دے گا؟ کیرلا میں جماعت اسلامی یوتھ ونگ نے جو کیا ضروری ہے کہ
ہم اس طرح کے احمقانہ اقدام اٹھانے سے قبل ان کے نتائج کے بارے میں بھی سوچنا شروع
کر دیں۔
Poster
of Hamas leader attending Kerala conference virtually
-----
-----
مسئلہ فلسطین کے بہانے جہاد
کو فروغ دینے کی تصویر
download.jpeg
WhatsApp تصویر 2023-11-01
16.50.15_15b89b14.jpg پر
WhatsApp تصویر 2023-11-01
16.50.16_f34efe12.jpg پر
WhatsApp تصویر 2023-11-01
16.50.15_60d9a952.jpg پر
WhatsApp تصویر 2023-11-01
16.50.14_9c84040b.jpg پر
ٹیلیگرام
گروپ تبلیغ۔
https://t.me/indiastandwithpalestine
https://fb.watch/o1WDJN9NDS/?mibextid=Nif5oz
اسٹوری کے مفید لنکس
https://www.orfonline.org/expert-speak/reading-hamas-from-an-indian-security-vantage-point/
English
Article: Muslims In India Should Be Wary of Radicals Using the
Palestine Conflict to Lure People to Violence
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism