New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 11:12 AM

Urdu Section ( 13 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Were Muslims Responsible for the Heinous Custom of Sati? All Evidences Point To The Contrary کیا ستی جیسے گھناؤنے رسم کے لیے ذمہ دار مسلمان تھے؟ تمام شواہد اس کے برعکس

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 6 ستمبر 2023

 اہم نکات:

 1. ہندو قدامت پرستوں کا کہنا ہے کہ ستی کا رواج اس لیے شروع ہوا کیونکہ ہندوؤں کو مسلمان حملہ آوروں سے اپنی عورتوں کو بچانا تھا۔

 2. مورخین کا کہنا ہے کہ ستی کا تذکرہ یونانی دستاویزوں میں اس وقت ملتا ہے جب اسلام کا ظہور بھی نہیں ہوا تھا۔

 3. اس کے برعکس مسلم حکمرانوں نے اس غیر انسانی عمل کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

 4. اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ دور استعماریت میں اس رسم بد کے احیاء کے پیچھے بنگال کے برہمن تھے۔

 5. ہندو سماج کی برائیوں کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا اخلاقی دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں۔

 ------

 راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک سینئر کارکن نے حال ہی میں کہا کہ مسلمانوں کے حملوں کی وجہ سے ہندو خواتین پر پابندیاں عائد کی گئیں تھیں۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے، اس نے کہا کہ چونکہ اسلامی حملہ آور قیدی عورتوں کو معمول کے مطابق وسطی ایشیا میں غلاموں کی منڈیوں میں فروخت کرنے کے لیے لے جاتے تھے، اس لیے ہندو معاشرے نے کم عمری کی شادی کا رواج شروع کیا، خواتین کو گھروں تک محدود رکھا اور یہاں تک کہ ستی جیسی رام بد کی بنیاد ڈالی۔ یعنی ہندو سماج میں جو کچھ بھی غلط ہے وہ مسلمانوں کی ہی وجہ سے ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی تنظیم کے ایک نظریہ ساز سے ایسی غیر معقول بات کا صدور مسلمانوں کے خلاف اس کے گہرے تعصب کا ثبوت ہے۔

 لیکن ایسا متعصبانہ نظریہ صرف ہندو قدامت پسندوں میں ہی نہیں ہے۔ ماضی قریب میں ملک کے کم از کم دو سابق صدور تاریخ کے حوالے سے ایسی ہی باتیں بیان کر چکے ہیں۔ پرتیبھا پاٹل نے، جب وہ صدر تھیں، یہ کہا تھا کہ ہندو عورتوں کا پردہ کرنا مسلمانوں کے حملوں کی وجہ سے شروع ہوا۔ پرنب مکھرجی نے آر ایس ایس کے کنکلیو میں تقریر کرتے ہوئے اسلامی حملہ آوروں کے حوالے سے ایسی ہی باتیں کی تھی۔ یہ دونوں صدور کانگریس پارٹی سے تھے، جو اس ملک میں سیکولرازم کا دم بھرتی ہے اور تاریخ کے بارے میں آر ایس ایس حاسدانہ نظریہ پر کھل کر تنقید کرتی ہے۔ لیکن پھر، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب تاریخ کی ایک خاص تفہیم کی بات آتی ہے، تو دونوں میں بہت سی چیزیں مشترک معلوم ہوتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کا نظریہ قومی سطح پر عام ہو چکا ہے۔

امتزاج اور استثنیٰ

 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ترکوں اور افغانوں نے ماضی میں اس ملک کو نہیں لوٹا۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو ہندوستانی خواتین کو ایسے حملہ آوروں نے واقعی غلام بنا کر بیچا تھا۔ لیکن ایسے مسلمانوں کی کہانیاں بھی ملتی ہیں جنہوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا۔ دہلی کے سلطان اور مغل یہیں رہے اور یہیں مرے۔ وہ یہاں لوٹ مار کرنے اور اپنے آبائی وطن واپس جانے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ انہوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا تھا۔ ہندو حکمرانوں کے ساتھ ان کے قریبی روابط تھے۔ بہت سے راجپوت بادشاہوں کی مغلوں کے ساتھ رشتہ داریاں تھیں۔ اس طرح کی خاندانی قرابت داری نے ایک دوسرے کی ثقافت اور مذہب کو جاننے کی خواہش پیدا کی۔ اس طرح کے تعاملات کا ہی نتیجہ تھا کہ دارا شکوہ سنسکرت کتابوں کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی تاکہ اسلام اور ہندو مت کے درمیان مشترکہ قدریں تلاش کی جا سکیں۔ بالعموم تصوف اور بھکتی (خاص طور پر نرگن) نے ایک دوسرے پر گہرا اثر ڈالا، اور ایک ایسی کمیونٹیز کی تشکیل کی جو ہندو اور مسلمان کے لیبلوں سے آگے نکل چکے تھے۔ یہ سنگم فنون لطیفہ اور فن تعمیر میں جھلکتا ہے۔ کلاسیکی ہندوستانی موسیقی کا تصور بھی مسلمانوں کی خدمات کے بغیر ناممکن ہے۔ لیڈروں کی آواز وزن رکھتی ہے۔ انہیں ہندوستانی تاریخ کو کسی خاص بیانیے کے مطابق نہیں ڈھالنا چاہیے۔

 مسلم تعلیمات بھی اس سے نہیں بچ سکیں۔ ہمارا مذہبی لٹریچر اس نظریے سے بھرا پڑا ہے کہ مسلمان زمین کے اس حصے کو کفر و شرک سے نجات دلانے آئے تھے۔ ہم نے اورنگ زیب جیسے لوگوں کو ہیرو بنایا، جنہوں نے ہندو عوام پر جزیہ نافذ کیا۔ اکبر کا دین الہٰی، جس نے مختلف مذہبی برادریوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی، مذہبی کتابوں میں اس کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ ندوہ مدرسہ کے نظریہ ساز، علی میاں نے اورنگزیب اور شاہ اسماعیل کی سوانح عمری لکھی، جب کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کے خلاف تھے۔ مزید یہ کہ اس لٹریچر کا زیادہ تر حصہ طاقت کے احساس سے متاثر ہے: مسلمان ایک تہذیبی مشن کے ساتھ اس سرزمین پر آئے اور ہندوؤں کو اس کا احسان مند ہونا چاہیے۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ ہندوؤں کی تہذیب مسلمانوں کے مقابلے میں بہت پرانی اور بہت زرخیز تہذیب ہے۔

 مسلمانوں کی آمد سے قبل ستی کا تصور

 اب آئیے اس سوال کی طرف واپس آتے ہیں جس سے ہم نے آغاز کیا تھا۔ اور آئیے اب ہم ہندوؤں کے ایک انتہائی گھناؤنے رسم کی بات کرتے ہیں: ستی، شوہر کی چتا پر بیوہ کو جلائے جانے کا نام ہے۔ کیا یہ رواج مسلمانوں کی وجہ سے معرض وجود میں آیا، جیسا کہ ہندو قدامت پسندوں کا دعویٰ ہے؟

 مؤرخ وینا تلوار اولڈن برگ نے جوہر اور ستی کے درمیان ایک بڑا فرق واضح کیا ہے۔ جوہر سے خاص طور پر راجپوتوں کی اس رسم کی طرف اشارہ ہے جس میں مفتوح خواتین فاتح کے شیطانی عزائم سے بچنے کے لیے اجتماعی قتل کا ارتکاب کرتی تھی۔ اسے بہادری کا عمل کہیں یا مایوسی کی داستان کا لیکن کسی بھی طرح اسے ستی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جہاں ایک بیوہ کو چتا پر جلا دیا جاتا تھا۔ جوہر کا ارتکاب کرنے والی سب کے سب بیوہ نہیں ہوتی تھیں کیونکہ کئی بار میدان جنگ میں شوہر کا انجام معلوم نہیں ہوتا تھا۔ مزید برآں، بعض اوقات شادی شدہ اور غیر شادی شدہ، دونوں نے طرح کی عورتیں جوہر کا ارتکاب کیا کرتی تھیں۔ لہذا، "جوہر پر عمل علاقے کے دفاع اور شاہی نسب کو پاکیزہ رکھنے کے لیے کیا جاتا تھا، جبکہ ستی کا مقصد عفت و پاکیزگی اور حق زوجیت کی حفاظت کرنا تھا"۔ تلوار کے مطابق شمالی مغرب کئی صدیوں تک میدان جنگ بنا رہا اور راجپوت اس علاقے کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔ "یہ تاریخ مسلمانوں کی آمد سے ایک ہزار سال قبل کی ہے۔" تو صاف ظاہر ہے کہ جوہر اور ستی جیسے نظام کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

 مورخین نے یہ بھی کہا ہے کہ جوہر اس وقت ستی میں تبدیل ہوا جب برہمنوں نے اس رسم کو راجپوتوں سے اپنایا اور اسے رواج بخشا۔ جہاں جوہر ایک خاص اور علاقائی رسم تھی، وہیں ستی زیادہ عام ہو گئی۔ مزید برآں، ستی واضح طور پر عفت و پاکدامنی اور شوہر سے وفاداری کی علامت بن گئی جبکہ جوہر خود کشی سے عبارت ہے۔ یہ دونوں رسوم برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے کافی عرصہ پہلے سے موجود تھے۔ یونانی مورخین اس روایت کو چوتھی صدی قبل مسیح میں راجپوتوں کے ظہور سے قبل کا بتاتے ہیں۔ یونانیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہندوستانی خواتین کو گندھارا جیسی اپنی نئی کالونیوں میں اسیر بنا کر لے گئے تھے۔ یہ ممکن ہے کہ یہی واقعہ ستی جیسی رسم کے مقبول ہونے میں محرک رہا ہو۔ لیکن، ہم یونانیوں کے بارے میں بات نہیں کریں گے! چونکہ اصل خطرہ مسلمان ہیں اس لیے ہر برائی کا ذمہ دار انہیں ہی ہونا چاہیے۔

اس کے برعکس، مسلم حکمرانوں نے درحقیقت اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ہندو رسوم و روایت پر کچھ مسلط کیا جائے۔ اکبر ان بیواؤں کا بہت احترام کرتا تھا جو اپنے مردہ شوہروں کے ساتھ ستی ہو جانا پسند کرتی تھیں، لیکن اس نے رسم بد میں کوئی گنجائش نہیں رکھی اور 1582 میں، ایک فرمان جاری کیا کہ "ستی میں کسی بھی طرح کے جبر کے استعمال کو روکا جائے"۔ شاہجہاں کے زمانے تک ستی کے لیے ریاست سے اجازت طلب کرنا لازمی ہو چکا تھا۔ حالانکہ یہ دلیل ضرور دی جا سکتی ہے کہ مغلوں نے اس پر پابندی نہیں لگائی لیکن انہوں نے اس کی عمل کو انتہائی مشکل ضرور بنا دیا۔

 برہمن اور ستی کا احیاء

 آشیس نندی اور لتا منی نے ستی کے مسئلے پر بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ دور استعماریت میں بنگال کے اندر ستی کی رسم میں احیاء کا مشاہدہ کیا۔ واضح رہے کہ اس وقت تک مسلمانوں کی طاقت ختم ہو چکی تھی اور انگریز پوری طاقت و قوت کے ساتھ ملک کی حکومت پر قابض ہو چکے تھے۔ مورخ سمیت سرکار کا کہنا ہے کہ بنگال بھدرلوک (خصوصاً برہمن) پہلے سے ہی ختم ہوتی ہوئی مسلم اشرافیہ کے خلاف انگریزوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ اور یہی برہمن قوم مٹتی ہوئی ستی کی رسم کو زندہ کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ ہندو بیواؤں سے متعلق پارلیمانی کاغذات 1823 میں ذات پات کے لحاظ سے ستی میں زوال کا ثبوت ملتا ہے۔ ان میں سے تقریباً 63 فیصد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ستی کیے تھے جن میں برہمنوں کی غیر متناسب نمائندگی تھی۔ یاد رہے کہ اس وقت تک مسلمان سیاسی طاقت کھو چکے تھے۔ تو اب ہندو قدامت پرست اسلامی اقتدار کی عدم موجودگی میں ستی کے اس رواج کے احیاء پر کیا کہیں گے؟

 اگر تقابلی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو معاملہ مزید مزید پیچیدہ نظر آتا ہے۔ مورخ جورگ فِش نے 15ویں اور 17ویں صدی کے درمیان بالی اور جاوا کے جزیروں پر ستی کے عمل کو دستاویزی شکل میں پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں جزیروں پر ہندوؤں کا اثرورسوخ تھا۔ اسلام انڈونیشیا میں 17ویں صدی میں آیا جس کے بعد ہم اس رواج کے بارے میں نہیں سنتے۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں کی آمد سے قبل ستی کے وجود کا ثبوت ملتا ہے بلکہ ہمیں اس سے اس اس رسم بد کو ختم کرنے میں اسلام کے مثبت کردار کا بھی پتہ چلتا ہے۔

 ہندوؤں کے ایک طبقے کے لیے یقیناً یہ بہت آسان کام ہے کہ وہ اپنی تمام برائیوں کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرائیں۔ اس طرح کی بے بنیاد باتیں بالآخر ہندوؤں کے کردار کو مجروح کرتی ہیں۔ اگر وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتے تو ممکن ہے کہ وہ بار بار یہی غلطیاں دہراتے رہیں۔

English Article: Were Muslims Responsible for the Heinous Custom of Sati? All Evidences Point To The Contrary

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-heinous-custom-sati-contrary/d/130666

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..