New Age Islam
Thu Jun 19 2025, 06:47 PM

Urdu Section ( 9 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim's Grief and Their Altered Psyche کرب مسلم اور تبدیل شدہ نفسیات

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

6 ستمبر 2024

مسلمانان ہند کےتناظر میں آج کی تحریر کے کچھ نکات پہلے ذہن میں واضح رہیں تاکہ آپ فکری تلاطم میں مبتلا نہ ہوں۔ ہم اس وطن عزیز کی وہ تنہا وحدت ہیں جس کی انفرادیت خوشگواریوں اور بدگمانیوں کا مجموعہ ہے۔ عرب مسلمان تاجر کی حیثیت سے یہاں آتے تھے جن کے لیے اس دھرم کے ماننے والوں نے اللہ کے رسول ؐکی زندگی میں پہلی مسجد گجرات میں بنائی۔ جس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا جو بعد میں حسب حال تبدیل ہوا، جس کے آثار آج بھی نمایاں ہیں۔ اس کے بعد کیرالہ اور تامل ناڈو کے ساحلی علاقوں میں دو اور مساجد تعمیر کروائیں۔ ہندو-مسلم، اسلام اور سناتن دھرم کےرشتے اس پس منظر میں شروع ہوتے ہیں۔

اس کےبعد تاریخ کا سلسلہ مسلم حملہ آوروں کی آمد، ملک پر قبضہ اوراس پر مبنی حق حکمرانی سے جا کر جڑتا ہے۔ عرب، ترک، مغل، ایرانی، افغانی یہ وہ پانچ مسلم نسلیں ہیں جنھوں نے وطن عزیز پر مختلف ادوار میں کم یا زیادہ مدت کے لیے حکو متیں کیں۔ البتہ تین سو برس سے زائد مغلیہ دورزیادہ تذکرے اور تجزیے میں رہتا ہے اس دور میں اقتدار اعلیٰ مغلوں کے پاس، دفاع راجپوتوں اور انتظامیہ کائست برادی کے پاس، بنک کاری، مالیات، تجارت، صنعت، بازار پر اجارہ داری ہمیشہ اکثریتی طبقے کےپاس ہی رہی۔ حکمران فاتح ہو کریہاں آئے، مبلغ دین اور اقامت دین کے تصور کے ساتھ ہر گز نہیں آئے۔ اس حوالے سےکوئی غلط فہمی نہ رہے۔

اسی کے ساتھ اولیا اللہ کا بھی ایک متوازی سلسلہ ہمارے یہاں قائم ہوتا چلا گیاجس نے پوری ہندوستانی آبادی کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ سناتن دھرم کےماننے والوں نے ہر مذہب کو یہاں پھلنے پھولنے کی زمین دی۔ یہ دریا دلی یقیناً قابل تعریف ہے۔ مسلمانان ہند نے ہمیشہ اپنی ساخت اور شناخت کو مسلم حکمرانوں کی نسل و تاریخ سے جوڑ کر رکھا اور آج بھی ایسا ہی ہے جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا ۹۰؍ فیصد مسلمان تبدیلیٔ مذہب کے نتیجےمیں اپنا اصل ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہواہے۔

آٹھ سوسالہ مسلم اقتدارمیں شیر میسور اور شیر بنگال اگر کامیاب ہوتے تو اقتدار مسلمانوں کے پاس ہی رہتا۔ اس کےباوجود اکثریت مسلمانوں  کے شانہ بہ شانہ لڑی۔ ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی آخری مغل بادشاہ کی قیادت میں اس ملک کی اکثریت یہ جانتے ہوئے لڑتی ہے کہ کامیابی کے نتیجے میں مغلیہ مسلم اقتدار کی بحالی ہے، ہندو اکثریت کو اقتدار ملنے والا نہیں۔ اسی پس منظر میں جہاد کے فتوے تھے، علماء کی قربانیاں تھیں، جس کی اصل خلافت تحریک کی شکل میں ۱۹۲۰ء میں واضح ہوگئی۔

جب یہ طے ہوگیا کہ اب اقتدار ہندو اکثریت کو منتقل ہوگا اور مسلمان بحیثیت اقلیت اکثریت کےہر اعتبار سے مغلوب ہو جائیں گے۔ تب فارغ البال، اقتدار کے مزےلوٹنے والے، انگلستان میں پڑھے ہوئے، انگریزوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے، اعزازات، خلعتیں، زمینداری، جاگیرداری حاصل کرنے والے اور پوری قوم کا سودا کرنے والے تقسیم وطن کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اس کے بر خلاف طبقہ بجائے اس کے کہ معاملہ فہمی کو اختیارکرکے تحفظات کے متبادل پر کام کرتا، بنا شرط اپنے کو ایک ایسی ٹوکری میں ڈالتا ہے جس کا خمیازہ آج اس پورے خطے کا مسلمان بھگت رہا ہے۔ ایک طرف قیام پاکستان کے حامی ہیں تو دوسری طرف علماء اور آزاد ہیں، جو ایک طرف تقسیم ہند کو بچانے پر لگے ہیں مگر مسلمان ہند کی اقتدار میں حصے داری کو یقینی بنانے کے حوالے سےکوئی متبادل ہی نہیں رکھتے؟ بنا شرائط حمایت کیسی، سیاسی بصیرت معاذ اللہ!

تمام قربانیاں قیام پاکستان اور تقسیم وطن کی نظر ہوگئیں۔ ہم بتاتے رہے کہ محض ۱۴؍ فیصد نے ۸۶؍ فیصد کا فیصلہ کردیا۔ یہ حقیقت تو تاریخ کے اور ق میں گم ہوگئی مگر آئندہ کی اکثریتی نسل کی نفسیات میں جوگیا اور رہ گیا وہ یہ ہے کہ مسلمانان ہندنے اپنا وطن الگ لےلیا۔ یہ اب بھی حصےداری اور برابری کی بات کرتے ہیں۔ آج کا ہندوستان اس نفسیات پر مشتمل ہے!

 یہ نظریہ چل تو ۱۹۲۵ء سے رہا تھا، مگر ۱۹۴۷ء میں تقسیم وطن اور ۱۹۴۹ء میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر اس کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ۱۹۸۶ء میں اس کاتالہ کھلا، ستمبر ۱۹۹۰ء میں رتھ یاترا سے یہ قومی تحریک بنی، نومبر میں کارسیوکوں پر گولی چلنے نے آگ میں تیل کا کام کیا، ۱۹۹۱ء میں ایودھیا کو چھوڑکر عبادتگاہوں کےتحفظ کاقانون بنا، دسمبر ۱۹۹۲ء میں مسجد شہید ہوئی اور ہندوتو کا پرچم عملاًبلندہوگیا، مسلمان دیکھتا رہا۔ اس دن وہ نفسیات جیت گئی جس کا میں نے اوپر اشارہ کیا پھر اس کے بعد جو ہوا وہ سب سامنے ہے۔

ایوانوں میں نمائشی نمائندگی مگر ترجمانی اور قانون سازی میں بے اثر، ۱۹۹۱ء کاقانون عبادتگاہوں کے تحفظ میں مکمل ناکام، بے لگام لنچنگ، دوسرے درجے کی شہریت کا مسلمانوںکو احساس، احساس تنہائی، مسائل میں روز افزوں اضافہ اور حل دور دور تک امکان سے خالی! ۱۸؍فیصد آبادی، حکومت، حکمرانی و وزارت میں حصہ داری ندارد، عملاًکسی بھی معاملے میں اپنا دباؤ قائم کرنے میں ناکام۔ خلیج کی ربڑ اب اتنی کھنچ گئی ہے کہ جیسے ٹوٹنے کو تیار ہو۔

تقریریں، کھوکھلے نعرے، جذباتی مضامین و اداریے، بے وزن دھمکیاں، مگر ما سوا سبکیوں کے کہیں کچھ ہو تو بتائیے؟ اس کیفیت تک حالات پہنچنے کے بارے میں کئی مرتبہ میں لکھ چکا۔ لوگ کہتے ہیں خواجہ صاحب کو سارے کیڑے اپنی ہی قوم میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بات جس کی طرف میں آپ کی فکر کو لانا چاہتا ہوں اس میں مجھے اور آپ کو اپنے اندر جھانکےبنا راستہ نہ ملےگا اور نہ بنےگا! ہر گزرتے دن کے ساتھ زمین پیروں کے نیچے سے کھسک رہی ہے۔ پوری صورتحال کااجمالی اور حقیقی احاطہ کیے بغیر کوئی راہ نہیں سوجھےگی۔ مکالمے کے سوا دوسرا راستہ نہیں۔

ایک بار پھر کہتا ہوں کہ آج کا ہندوستان اب بھارت ہے۔ ۱۹۹۸ء میں ایک مضمون ’’سیکولرزم کے بدلتے مفہوم‘‘ لکھا تھا- میرا موقف تھا کہ جب تک اقتدار اس نعرے اور نظریے سے مل رہا ہے آپ کو سیکولرزم دکھائی دے رہا ہے جس دن زمین بدلے گی اور دیوار پر کچھ دیگر لکھاہوگا بڑے بڑے ادھر سے ادھر دکھائی دیں گے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ بڑے پکے اور پختہ سیکولر کانگریسی تھے۔

اس ملک کی اکثریت اب ایک مخصوص رنگ میں رنگ چکی وہ تاریخ اور سیاست کو مسلم دور اقتدار کے کمزور پہلوؤں، تقسیم ہند اور ”کٹر پنتھی اسلام‘‘ کے تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ مسلم دنیا میں تشدد، جنگ و جدل، خود کش حملے، دہشت گردی، جاری آپسی جنگیں، دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامو فوبیا، ہر مخالفت کو مخاصمت میں تبدیل کرتے ہوئے، کسی بھی معاملے میں لچک سے عاری معاشرہ، مذہبی جنون سے آراستہ ایک بھیڑ، ترقی کے عمل میں سب سےپیچھے، صرف گاہک اور خریدار، صدیوں سے سائنسی تحقیق میں زیرو کردار، ہر شعبۂ زندگی میں دوسروں پر انحصار گویا اثاثہ کم اور بوجھ زیادہ! یہ ہماری فی الوقت امیج ہے۔ صحیح یا غلط!

یہ ساری صورتحال کو ہم سازش، اسلام و مسلم دشمنی اور ہر پسپائی کے لیے کسی دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراکر کب تک حقیقت سےفرار پاتے رہیں گے۔ جب تک محروم و محکوم بن کر رحم کی تلاش میں اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔ حالات بدسےبد تر ہوتے جائیںگے۔ اب حقائق کو درست کرنا پڑے گا۔

 کرب کا محسوس کرنا زندہ قوم ہونے کی علامت ہے۔ مگر اس عمل کا یہیں ٹھہرجانا وہ خود ساختہ ظلم اور خود کشی کے مترادف ہے جس کا انجام وہ ہے جس کی گواہ آج کی صورتحال ہے۔ مخالف اور دشمن سے نہ ڈرا جاتا ہے، نہ کسی بیجا خوف میں مبتلا ہوا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس اپنے اندر خود اعتمادی اور خوداری پیدا کرنی پڑتی ہے، ٹکے ٹکے بکنا بند کرنا پڑتا ہے، آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے لیے مطالعہ و تحقیق پر مبنی تیاری کرنی پڑتی ہے، مخالف سے رابطہ کرنا پڑتا ہےایسا اندھیرے میں نہیں بلکہ کھلے میں بہ اعلان اور بہ بانگ دہل کیا جاتا ہے۔

آخر میں من حیث القوم جن کے لیے دشمنی مول لیتے رہے ہو ان میں سے کسی کو لنچنگ، ڈاڑھی نوچنے، بلڈوزنگ، برجستہ زیادتی، فساداور لوٹ مار کے وقت کبھی اپنے کو بچاتے، آس پاس یا احتجاج کرتے دیکھا یا صرف استعمال ہی ہو رہے ہو؟ سیاست اقتدار اور مفاد کا کھیل ہے! ہم وہ ’’صاحب دانش قوم‘‘ ہیں جو پٹتے پٹتے نہیں تھک رہی مگر آزادانہ فکر، سوچ، نظریے اور پہل کے لیے آمادہ نہیں۔ پھر گلہ شکوہ کس سے؟

6 ستمبر 2024 ،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-grief-altered-psyche/d/133153

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..