تفہیم الرحمان
12نومبر،2024
آج کے جدیددور میں جہاں مختلف پیشے اور تعلیمی مواقع موجود ہیں، زیادہ تر متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی طرف مائل کرتے ہیں تاکہ وہ جلد ی سے مالی استحکام حاصل کرسکیں اور سماجی رتبے میں اضافے کا سبب بن سکیں۔ یقینا یہ پیشے اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان میں انسانیت کی خدمت کے بہت سے پہلو موجود ہیں، تاہم اس کے نتیجے میں کمیونٹی کے بہترین ذہن اور صلاحتیں اعلیٰ تعلیم یا تحقیق کے شعبوں میں اپنی موجودگی درج نہیں کراپاتے۔یہی وجہ ہے کہ تحقیق اور بنیادی علوم کے شعبوں میں مسلمانوں کی نمایاں کمی دیکھی جاتی ہے۔مسلم نوجوانوں کو خالص سائنسی تحقیق، بالخصوص کمیسٹری جیسے اہم میدان میں قدم بڑھانا چاہئے کہ وہ اپنی کمیونٹی اور دنیا بھر کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
کمیسٹری ایک بنیادی سائنس ہے جو نہ صرف زندہ اور غیر زندہ مادے کی فطرت اور ساخت کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ اس کے اندر رونما ہونے والے رد عمل اور ان سے پیدا ہونے والی توانائی کا تجزیہ بھی کرتی ہے۔کمیسٹری کاعلم نہ صرف ہماری روز مرہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتاہے بلکہ معاشرتی، تعلیمی او ر سائنسی ترقی کے لئے بھی ناگریز ہے۔ دنیا بھر میں صحت عامہ، زراعت، صنعت، ماحولیات، توانائی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کمیسٹری کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مسلم نوجوانو ں کو تحقیق کے ذریعے اس علم میں مہارت حاصل کرکے نئی ایجادات اور دریافتوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔
کمیسٹری کا تاریخی پس منظر بے حد دلچسپ ہے۔ اسلامی تاریخ میں علم کیمیا کو ایک منفرد مقام حاصل رہا ہے۔قدیم مصری اور یونانی تہذیبوں میں ایک ابتدائی شکل میں موجود کیمیا کو مسلم سائنسدانوں نے جدید کیمسٹری میں تبدیل کیا۔ اس ابتدائی علم کو ’الکیمیا‘ کہا جاتا تھا اور اسے مسلمانوں نے علمی بنیادوں پر منظم کیا۔ اسلامی سائنسدانوں جیسے جابر بن حیان اور الرازی نے کیمیا کے علم کو ایک سائنسی دائرے میں داخل کیا اور ان اصولوں کو وضع کیا جو آج کی جدید کمیسٹری کی بنیاد ہیں۔ جابر بن حیان کو ’بابائے کمیسٹری‘ کہا جاتا ہے، اور ان کی تحقیق نے اس میدان میں انقلاب برپا کیا۔الرازی نے مرکبات اور کیمیائی تجزیہ میں تحقیق کو ایک نئے معیار پر پہنچا یا۔ ان مسلم سائنسدانوں کی کاوشوں نے اس علم کو نیا وقار دیا اور آنے والی نسلوں کے لئے تحقیق کے راستے ہموار کئے۔کمیسٹری میں مسلمانوں کی کم نمائندگی کا ایک مظہر یہ ہے کہ آج تک صرف ایک مسلمان سائنسدان کو نوبل انعام ملا ہے۔
ڈاکٹر احمد زویل، جو کہ مصر سے تعلق رکھتے تھے، نے 1999 میں کمیسٹری کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کیا۔ انہیں ’فیم ٹو کمیسٹری‘ کے میدان میں ان کے کام پر انعام دیا گیا، جس میں انہوں نے کیمیائی رد عمل کی سرعت کو ناپنے کا طریقہ دریافت کیا۔ ڈاکٹر زویل کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ کیمیائی رد عمل سیکنڈ کے اربوں حصے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہ ایک انقلابی دریافت تھی جس نے کیمسٹری میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور سائنسدانوں کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھول دیے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلمان نوجوان اگر تحقیق کے میدان میں دلچسپی لیں تو وہ عالمی سطح پر اپنی سناخت بنا سکتے ہیں اوراہم دریافتیں کرسکتے ہیں۔تاہم، مسلم نوجوانوں کی تحقیق کے میدان میں عدم شمولیت کاایک بڑا سبب مالی مسائل بھی ہیں۔
زیادہ تر نوجوان جو تحقیق کے لئے پیش قدمی کرناچاہتے ہیں، اپنے والدین پرمالی بوجھ ڈالتے ہیں، جوکہ نہ تو ان کے لئے موزوں ہے اور نہ ہی ان کے والدین کے لئے۔اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے مسلم کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ تحقیق کے طلبا کے لئے وظائف او رمالی امداد کے منصوبے فراہم کرے۔اس سے نہ صرف طلبا کو مالی خود مختاری حاصل ہوگی بلکہ وہ اپنی توجہ تحقیق اور تعلیم پر مرکوز رکھ سکیں گے۔ اس طرح کے مالی تعاون سے مسلم نوجوان نہ صرف تحقیق میں آگے بڑھ سکیں گے بلکہ اپنی کمیونٹی او رملک کے لئے بامعنی کردار ادا کرسکیں گے۔ تحقیق ایک ایسا شعبہ ہے جس میں فوری مالی فوائد ی شہرت حاصل نہیں ہوتی، لیکن جب ایک سائنسداں کسی نئے نظریے یا ایجاد کو دنیا کے سامنے لاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ پوری انسانیت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کیمیا جیسے اہم میدان میں کئی ایسے مسائل کے حل پیش کرسکتی ہے جن کا دنیا کو سامنا ہے، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، توانائی کی کمی، ماحولیاتی آلودگی اور نئی بیماریوں کا علاج۔ یہ مسائل نہ صرف سائنسدانوں بلکہ ہر فرد کے لئے اہمیت رکھتے ہیں اور طریقے تلاش کریں تو اس سے نہ صرف ان کے ملک کو فائدہ ہوگا بلکہ ان کی کمیونٹی کے لئے بھی فخر کا باعث ہوگا۔
اسی طرح دو ا سازی کے میدان میں تحقیق سے نئی دوا ئیں تیار کی جاسکتی ہیں جو مختلف بیماریوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوں۔مسلم نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ صرف روایتی شعبوں میں ہی محدود نہ رہیں بلکہ تحقیق اور سائنس کے میدان میں بھی قدم بڑھائیں۔خاص طور پر کیمسٹری میں جہاں بے پناہ مواقع اور چیلنجز موجود ہیں۔ کمیسٹری کی تحقیق بظاہر مشکل اور صبر طلب ہے، لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ دیر پا اور مثبت ہوتاہے۔ جب ایک سائنسدان کسی نئے مسئلے کا حل دریافت کرتاہے یا کسی ایجاد ات کو دنیا کے سامنے پیش کرتاہے تو اس سے نہ صرف اس کی ذاتی کامیابی ہوتی ہے بلکہ پوری کمیونٹی کو فخر محسوس ہوتاہے۔آخر میں، ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو یاد رکھنا چاہئے: ’حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں بھی ملے اسے حاصل کرو‘۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ ہم علم اور حکمت کے میدان میں اپنی گمشدہ میراث کو حاصل کریں، چاہے وہ علم ہمیں کہیں سے بھی ملے۔
تحقیق اور سائنس میں قدم رکھنا، اور علم کو اپنی کمیونٹی اور انسانیت کے فائدے کے لئے استعمال کرنا دراصل اسی پیغام کا عملی نمونہ ہے۔آج کی دنیا میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کیمسٹری جیسے اہم میدان میں اپنی موجودگی کو مضبوط کریں اور دنیا کے مسائل کے حل میں اپناحصہ ڈالیں۔ اس سے نہ صرف ان کی کمیونٹی بلکہ پوری انسانیت کو فائدہ ہوگا اور مسلمانوں کو علمی وفکری وراثت کو نئی زندگی ملے گی۔
12 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-contribution-field-f-research/d/133707
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism