New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 03:20 PM

Urdu Section ( 16 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Women’s Right To Unilateral Divorce Given In Quran Restored By Kerala High Court After Five Decades قرآن کا عطا کردہ مسلم خواتین کے یکطرفہ طلاق کے حق کو کیرالہ ہائی کورٹ نے پانچ دہائیوں کے بعد بحال کیا

ارمان نیازی، نیو ایج اسلام

15 اپریل 2021

کیرالہ ہائی کورٹ نے تقریباً پانچ دہائیوں کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے، عدالتی کارروائی کا سہارا لیے بغیر یکطرفہ طلاق کے مسلم خواتین کے حق کو بحال کر دیا ہے۔ کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامی شریعت صنفی مساوات کی اجازت دیتی ہے اور مردوں کی طرح عورتوں کو بھی ماورائے عدالت طلاق کی اجازت دیتی ہے۔

اہم نکات:

مردوں کے طلاق کا حق ہو یا خواتین کے خلع کا–  قرآن پاک مساوات کا حامی ہے۔ قرآن نے عورتوں کے طلاق کے حق کو تسلیم کیا ہے۔

اسلام عورتوں کو عدالتی مداخلت کا سہارا لیے بغیر پر ناقابل برداشت ازدواجی تعلقات ختم کرنے کے لیے یکطرفہ طور پر کئی آلات فراہم کرتا ہے:

ا) اگر شوہر اپنے معاہدے کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو طلاق تفویض شادی کو ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔

ب) خلع عورت کو یکطرفہ طور پر اپنے شوہر کو اس کا مہر واپس کرکے طلاق دینے کا حق عطا کرتا ہے۔

ج) مبارات باہمی رضامندی سے نکاح کو ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

د) فسخ قاضی کی مداخلت سے تحلیل نکاح کی اجازت دیتا ہے۔

ھ) لعان، اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے اوراس پر کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بیوی طلاق لینے کا حق رکھتی ہے۔

و) خیار البلوغ، اگر کسی نابالغ بچی کا نکاح کروا دیا جائے تو وہ بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کر سکتی ہے۔

 ------

یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ قرآن پاک مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں طور پر طلاق کے حق کو تسلیم کرتا ہے، کیرالہ ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا کہ مسلم خواتین کی حالت زار، خاص طور پر ریاست کیرالہ میں، اس وقت سامنے آئی جب سنگل بنچ نے ' کے سی معین  بمقابلہ نفیسہ اور دیگر' کیس میں 1972 کے ایک فیصلے میں مسلم خواتین کی ڈلیوزن آف مسلم میرجز ایکٹ 1939 کی روشنی میں ماورائے عدالت طلاق دینے کے حق کی نفی کر دی۔ اس وقت کی سنگل بینچ نے کہا تھا کہ کسی بھی حالت میں بیوی کے کہنے پر نکاح تحلیل نہیں کیا جا سکتا ہے، سوائے ایکٹ کی دفعات کے مطابق۔ کل (14 اپریل، 2021) کو دیے گئے اپنے فیصلے میں، جسٹس اے محمد مشتاق اور سی ایس دیاس کے ڈویژن بنچ نے فسخ نکاح  کی چار بڑی صورتوں کا تجزیہ کیا جنہیں اسلامی قانون کے تحت تسلیم کیا گیا ہے اور جنہیں شریعت ایکٹ کے تحت بیوی کے کہنے پر تحفظ حاصل ہے۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 'مسلم خواتین کو ماورائے عدالت طلاق لینے کا حق ہے، کیرالہ ہائی کورٹ نے 1972 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس اے محمد مشتاق اور سی ایس دیاس پر مشتمل بنچ نے پایا ہے کہ شریعت ایکٹ کے تحت مسلم بیویاں اپنی مرضی کے مطابق اپنی شادیاں ختم کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ بنچ نے کہا کہ چار مختلف طریقے ہیں جن کے ذریعے بیوی کے مطالبے پر شادی کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، عدالت نے یہ بات نوٹ کی کہ قرآن پاک، جس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ، عورتوں کے یکطرفہ طور پر عدالتی کارروائی کے بغیر طلاق دینے کے حق کو مردوں کی طرح یکساں طور  پر تسلیم کرتا ہے۔

ہم میں سے کچھ مسلمان قرآن میں مذکور صنفی مساوات کے حق کو تسلیم نہیں کرتے اور غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں کہ اسلام دو جنسوں کے حقوق میں فرق کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری رحلت کے فوراً بعد عرب کے رسوم و رواج اور پدرسرانہ  نظام نے دنیا کے ان دیگر حصوں میں جہاں اسلام پھیلا، خود کو قرآن کے احکام اور صنفی مساوات اور انصاف کی واضح رہنمائی قرار دیا۔ آج بھی سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامی عدالتیں مردوں اور عورتوں کے حقوق میں فرق کرتی ہیں، خاص طور پر یکطرفہ طلاق کے معاملے میں اور نو یا دس سال کی کم عمر بچیوں کے ساتھ انتہائی مکروہ سلوک کرتی ہیں اور انہیں ان کے بوڑھے شوہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔

جہاں تک میاں بیوی یا بالعموم مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا تعلق ہے تو اسلام میں ان میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے۔ ان دونوں کو اپنے اپنے اعمال پر یکساں اجر اور یکساں سزا کا وعدہ کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے:

اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق ۔ (2:226)

مرد اور عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اسلام ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کرتا اور قرآن پاک ہمیشہ انسان، یا بنی نوع انسان کا ذکر کرتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی مشہور آیت نمبر 30 میں اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ وہ زمین پر اپنا نمائندہ بھیج رہا ہے۔ اللہ نے جب زمین پر اپنے نمائندے بھیجنے کی بات کی تو اس نے مرد یا عورت میں فرق نہیں کیا۔ یہ وہ قدر ہے جو اللہ نے تمام انسانوں کو عطا کی ہے۔

قرآن پاک کہتا ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِيفَةً

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں (سورۃ البقرہ 2:30) – کنز الایمان

کیا اس میں کوئی شک ہو سکتا ہے کہ انسان کا مطلب مرد اور عورت دونوں ہیں؟ ایک صنف کی دوسری صنف پر فضیلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا ہے۔ اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں، ایک صنف کی دوسری صنف پر برتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس زمین پر مرد اور عورت کی ذمہ داریاں مختلف ضرور ہیں، لیکن ان کے حقوق مساوی ہیں۔

اسلامی تاریخ ایسے حقیقی واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں خواتین کو ایک کاروباری ، سیاستدان اور جنگجوؤں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو میدان جنگ میں مردوں کے ساتھ مل کر لڑتی تھیں۔ اسلام نے خواتین کو یکطرفہ طور پر اپنے شریک حیات کو طلاق دینے یا طلاق  لینے کے مساوی حقوق دیئے ہیں۔

مسلم بیویاں طلاق کے لیے درج ذیل طریقوں کا سہارا لے سکتی ہیں:

طلاق تفویض

طلاق کے اس نظام کے تحت شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حق دیتا ہے۔

مبارات

باہمی رضامندی سے طلاق مغلظہ

فسخ

طلاق کے اس نظام میں بیوی قاضی کی عدالت میں طلاق کی درخواست پیش کر  سکتی ہے اور اپنا نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔

لعان

اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے اوراس پر کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بیوی طلاق لینے کا حق رکھتی ہے۔

خیار البلوغ

اگر کسی نابالغ بچی کا نکاح کروا دیا جائے تو وہ بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کر سکتی ہے۔

طلاق کے مذکورہ بالا تمام طریقے خواتین کے لیے ہیں کہ وہ جب چاہے نکاح ختم کر دیں۔

خلع، طلاق دینے کا عورت کا ناقابل انکار حق

IMAGE: Kindly note that this image has been posted for representational purposes only. Photograph: PTI Photo.

--------

جیسا کہ ایک شوہر کو نکاح ختم کرنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح ایک بیوی کو بھی طلاق کے اسلامی طریقے کے تحت طلاق لینے کا حق ہے، جسے 'خلع' کہتے ہیں۔ ’خلع‘ کے تحت طلاق لینے کے لیے بیوی کو اپنے شوہر کی طرف سے ہراساں کیے جانے یا ناروا سلوک کا کوئی ثبوت پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بیوی صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ طلاق لینے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے شوہر کا چہرہ پسند نہیں ہے۔

خلع اسلامی طلاق کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کا اختیار بیوی کو دیا گیا ہے۔ بیوی اپنے شوہر سے ملنے والے تمام تحائف اور مہر واپس کر کے شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔ قاضی کی عدالت میں اس کا تصفیہ ہو سکتا ہے۔ اسلامی روایتی فقہ کے مطابق، خلع عورت کو طلاق کا عمل شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ خلع کا تذکرہ قرآن میں سورہ البقرہ 2:229 اور سورہ نساء 4:127 میں آیا ہے۔

طلاق خلع کے سلسلے میں ابن عباس کی ایک مشہور روایت ہے:

ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ثابت پر اس کے کردار یا اس کے مذہب میں خرابی کا الزام نہیں لگاتی، لیکن میں مسلمان ہونے کے ناطے غیر اسلامی طرز عمل کو ناپسند کرتی ہوں۔ (اگر میں اس کے ساتھ رہوں)۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم وہ باغ واپس دو گی جو تمہارے شوہر نے تمہیں دیا ہے؟ کہنے لگی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت سے فرمایا کہ اے ثابت! اپنا باغ قبول کر لو اور اسے ایک بار طلاق دے دو۔ (بخاری #63، حدیث #197)

اسلام میں عورت کا مکمل حق ہے۔ ان کو سمجھنا ہوگا اور معاشرے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ان کا صحیح استعمال کرنا ہوگا۔ مسلم خواتین کو بااختیار بنانا پورے معاشرے کو بااختیار بنانا ہے۔ وہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک حصہ اور شراکت دار ہیں۔ انہیں اسلامی معاشرے کے اعتماد سے لطف اندوز ہونا چاہئے جیسا کہ وہ اسلام کے اعتماد سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو معاشرے کے ہر ادارے میں انہیں  ان کا حق دینا چاہیے۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام ہر ممکن طریقے سے بنی نوع انسان کے درمیان مساوات کی بات کرتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

------

ارمان نیازی NewAgeIslam.com کے کالم نگار ہیں۔

-----------

English Article: Muslim Women’s Right To Unilateral Divorce Given In Quran Restored By Kerala High Court After Five Decades

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-womens-right-unilateral-divorce/d/126379

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..