New Age Islam
Wed May 31 2023, 04:15 PM

Urdu Section ( 15 Sept 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Way of Life طرز مسلمانی


جاوید چودھری

میں کل کے اخبارات میں ایک  دلچسپ تصویر دیکھی ،تصویر میں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر تشریف رکھتے تھے ۔ ان کے ساتھ والی سیٹ پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف بیٹھے تھے اورتصویر کےنیچے کیپشن لگا تھا ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے ملتان کے رمضان کے رمضان بازار پہنچے ، اس تصویر اورکیپشن کے نیچے تین کالم خبر چھپی تھی جس میں تفصیل سے بتایا گیا تھا، کہ وزیر اعظم نے پروٹوکول کے بغیر اپنی گاڑی چلائی ،وہ ملتان کے رمضان بازاروں کے دورے پر گئے او رانہوں نے اشیا خوردنی کا معائنہ کیا اور عام لوگوں کی شکایات سنیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس تصویر ، اس کیپشن اور اس خبر سے محسوس ہوتا ہے، وزیر اعظم کا یہ اقدام غیر معمولی ہے اور انہوں نے یہ قدم اٹھاکر پوری دنیا کو حیرت کردیا جبکہ میں یہ تصویر دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ ہم لوگ احساس کمتری اور چھوٹا پن کے کس قدر مریض ہوچکے ہیں کہ ہم آج اکیسویں صدی میں بھی وزیر اعظم صاحب کے گاڑی چلانے کے واقعے کو غیر معمولی اور معجز قرار دے رہے ہیں ۔ ہم آج بھی صدر وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کاہاتھ کسی عام شہری کی طرف بڑھتا دیکھ کر تالیاں بجا تے ہیں اور کسی وی وی آئی پی کے عوام میں گھلنے ملنے کو معجز ہ سمجھتے ہیں ۔ ہم بڑے دلچسپ لو گ ہیں۔ ہم نماز پڑھتے ، رشوت نہ لینے اور روزے رکھنے والوں کو ایماندار اور دیندار سمجھتے ہیں جب کہ روزہ ، نماز اور صاف ستھری زندگی ہر مسلمان کا فرض ہوتا ہے اور جس طرح نماز روزہ ہر مسلمان کا فرض ہے بالکل اسی طرح اسٹیٹ کے چیف ایگزیکٹیوں کو بھی اپنی گاڑی خود چلانی چاہئے اور انہیں رمضان بازاروں اور پبلک مقامات کے دورے بھی کرنے چاہئیں ۔ یہ ان کے فرائض بھی ہیں اور ذمہ داری بھی ۔ یہ ذمہ داری اور یہ فرض امریکا ،کینیڈا ،پورے یورپ ،مشرق بعید اور سنٹرل ایشیا کے وزرائے اعظم اور صدور روزانہ ادا کرتے ہیں اور انہیں کوئی حیرت اور اچنبھے سےنہیں دیکھتا ۔صدر باراک حسین اوبامہ نے صدراتی حلف اٹھا نے سے ایک دن پہلے واشنگٹن کے ہوم لیس لوگوں کے ایک سینٹر میں اپنے ہاتھ سے روغن کیا تھا ،وہ سارا دن سینٹر کی دیوار رنگتے رہے تھے، وہ آج بھی اپنی بچیوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور اساتذہ کی ، کال ، پر اسکول پہنچ کر ڈانٹ بھی کھاتے ہیں ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم گورڈن براؤن اور ان کی اہلیہ اکثر زیر ٹرین سروس استعمال کرتی ہیں، برطانوی وزیر اعظم شام کے وقت اپنی گاڑی بھی چلاتے ہیں اور شاپنگ سنٹروں سے خریداری بھی کرتے ہیں ۔ میں نے پچھلے دنوں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن کے انٹرویو میں پڑھا تھا ، گورڈن براؤن کی بیگم ایک پرانی سی کار میں انہیں ملنے آئیں ، وہ اپنی گاڑی خود چلا کر آئی تھیں ۔ رکن اسمبلی نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ شام کے وقت ان کی سرکاری سہولتیں معطل ہوجاتی ہیں چنانچہ وہ اپنی ذاتی کار استعمال کرتی ہیں، اور خود چلاتی ہیں ،برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے اپنے دور کے دوران انکشاف کیا تھا کہ وہ پندرہ برس سے ایک جوتا استعمال کررہے ہیں ،انہوں نے دوبار اس جوتے کا تلوا تبدیل کرایا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ناروے کے شاہی خاندان کو اوسلو کے فٹ پاتھ پر اپنے کتوں کو نہلاتے دیکھا تھا۔ دوبئی کے امیر محمد بن ارشد بھی اکثر اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اور دوبئی کے کسی اخبار میں ان کی تصویر شائع نہیں ہوئی۔ ملائشیا کے مہاتیر محمد جب وزیر اعظم تھے تو وہ ہر اتوار کے دن سوزہ کی مہران جنتی گاڑی میں بیٹھ کر بازار سے سبزیاں ،پھل اور گوشت خریدتے تھے ،ہیلمٹ کو ہل جرمنی کے چانسلر تھے، ان کے دور میں دیوار برلن گری تھی اور مشرقی اور مغربی جرمنی کا آپس میں ملاپ ہواتھا ۔ جرمین کی تکمیل کے بعد کوہل نے ملک کا دارالحکومت بون سے برلن شفٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس شفٹنگ میں بے تحاشا سرمایہ خرچ ہوا تھا چنانچہ کوہل نے برلن میں چانسلر ہاؤس کی تعمیر رکوادی اور وہ 4برس تک دوکمرے کے فلیٹ میں رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا  جب تک برلن کے تمام سرکاری ملازم ایڈجسٹ نہیں ہوجاتے اس وقت تک میرا چانسلر ہاؤس میں منتقل ہونا زیادتی ہوگی۔ کوہل کیے ایک گرل فرینڈ بھی تھی لیکن انہوں نے کبھی اپنی گرل فرینڈ کو سرکاری رہائش گا میں نہیں ٹھہرایا ۔ ان کا کہنا تھا وہ غیر سرکاری فرد ہے لہٰذا میں اسے سرکاری سہولتیں فراہم نہیں کرسکتا ۔ ہیلمٹ کوہل کو لوگوں نے چانسلر ہاؤس کے سامنے پبلک بوتھ سے ٹیلی فون کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا ،وہ ذاتی کالز کیلئے سرکاری ٹیلیفون استعمال نہیں کرتے تھے۔فرانس کے صدر سرکوزی چھٹیوں کے دوران گاڑی ،ذاتی گھر اور ذاتی اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیل کے صدر موسی قصاب کے گھر کی بجلی کٹ گئی تھی ،کیونکہ انہوں نے وقت پر بل جمع نہیں کرایا تھا۔ میں نے ایک بار سوئٹزر لینڈ کے صدر کو شاپنگ سنٹر میں خریداروں کی قطار میں کھڑے دیکھا تھا ،اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی دو ماہ قبل میلان میں ذاتی کا ر ڈرائیور کررہے تھے او رموٹر وے پر ا ن کا چالان ہوا تھا ۔کینیڈا کے وزیر اعظم کو شام پانچ بجے کے بعد سرکاری سہولتیں نہیں دی جاتیں ، وہ صرف سرکاری ڈنرز کیلئے ڈرائیور اور سیکرٹری استعمال کرسکتے ہیں۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے رات کے وقت کارڈز ہٹا دیئے جاتے ہیں اور وہ رات آٹھ بجے کے بعد عام شہر بن جاتے ہیں اور آپ بھارت کی مثال بھی لے لیجئے ۔ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ 23جنوری کو دل کے علاج کیلئے ہسپتال گئے تھے، وہ جب ہسپتال سے واپس لوٹے تو اخبارات میں ان کی تصویر شائع ہوئی تھی ،وہ سرکاری گاڑی سے اتر رہے تھے۔ میں گاڑی دیکھ کر حیران رہ گیا، انڈین میڈ ،ایک پرانی اور چھوٹی سی کا ر تھی اور اس کا ر پر وہ جھنڈے لگے تھے ،بھارتی وزیر اعظم کی یہ کار اور جدید دنیا کے تمام کافر سربراہوں کیے ڈرائیونگ کسی ملک میں کبھی ،قابل فخر خبر، نہیں بنی جبکہ اسکے مقابلے میں اہل ایمان پرویز مشرف ہوں ، شوکت عزیز ہوں ، صدر آصف علی زرداری ہو ں یاپھر سید یوسف رضا گیلانی ہوں  یہ لوگ اگر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جائیں یہ کسی معصوم بچے کے سر پر ہاتھ پھیر دیں یا کسی عام شہری کو اپنا ہاتھ چومنے کا موقع دےدیں تو ایوان اقتدار کا پورا میڈیا منجمنٹ گروپ ایکٹو ہوجاتا ہے اور ہر طرف سے واہ واہ کی نعرے لگنے لگتے ہیں ۔

صدر (سابق ) پرویز مشرف بھی سید تھے اور یوسف رضا گیلانی بھی حضرت علیؓ کی اولاد میں سے ہیں لیکن ان دونوں نے کبھی ایک لمحے کیلئے نہیں سوچا ان کے جد امجد حضرت علی کا لائف اسٹائل کیا تھا؟کیا ان کے پاس ہزار ہزار گارڈ ز کا حفاظتی دستہ تھا اور کیا وہ عوام میں گھلنے ملنے اور رمضان بازاروں کے معائنے کی خبروں کی ذاتی تشہیر کا ذریعہ بناتے تھے۔ ان کے جدا مجد اس وقت بھی جو کی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے تھے جب مدینہ کا شہری سونے کے پانچ پانچ لاکھ سکوں کا مالک تھا اور پورے شہر میں کوئی غریب او رمسکن شخص نہیں تھا اور جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت بھی آپ کے ساتھ سیکورٹی کارڈز نہیں تھے۔افسوس آج یورپ ، امریکا ،کینیڈا اور مشرق بعید کے تمام سربراہان حضرت علی کی سنت پرعمل کررہے ہیں ۔جب کہ حضرت علی کی اولاد ایک غریب مفلوک الحال ، مقروض اور بھیک پر زندگی گزارنے والے اسلامی ملک میں چالیس چالیس گاڑیوں کے قافلے میں سفر کرتے ہیں۔ اور اگر کبھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں تو عام آدمی کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ہیں ،کسی کے سلام کا جواب دے دیتےہیں یا رمضان بازار میں اشیائے خورد نوش کی قیمت پوچھ لیتے ہیں تو یہ خبر بن جاتی ہے ،ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام سے کچھ سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی جدید دنیا کے حکمرانوں سے ۔ ہم انہیں کافر سمجھتے ہیں اور اسلام کو  چودہ سوسال پرانی بات ۔ ہمارے فکر ی تضاد کا یہ عالم ہے کہ اسلام اسلام کے نعرے لگاتے ہیں لیکن اس اسلام کوذاتی زندگی سے ہزاروں میل دور رکھتے ہیں ۔ مجھے اکثر یورپ کے ایک دانشور کا قول یاد آتا ہے ۔ اس نے کہا تھا ،یورپ میں اسلام ہے لیکن مسلمان نہیں ہیں جبکہ اسلامی دنیا میں مسلمان ہیں لیکن اسلام نہیں ، میں دوسرے 58اسلامی ممالک کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتا لیکن جہاں تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات ہے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں پاکستان میں اسلام ہے، جمہوریت ہے اور نہ ہی پاکستانیت ہے، یہ ایک ایسی غلام ریاست ہے جس میں ٹام، ڈک اور ہنری کی جگہ دیسی گوروں نے لے لی ہے اور وائسر اؤں کی جگہ وزیر اعظم اور صدر آگئے ہیں ، جس میں حکمران کلمے پڑھتے ہیں ، روز ے رکھتے ہیں اور نماز یں ادا کرتے ہیں لیکن ان کا طرز زندگی دوہزار سال پرانے بادشاہوں جیسا ہے اور جس میں حکمران عوام سے ہاتھ ملانے کو سخاوت اور رحم دلی قرار دیتے ہیں۔ہم مسلمان ہیں لیکن ہمیں کافروں کی طرز مسلمانی تک پہنچنے کیلئے کئی صدیوں درکار ہیں۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/muslim-way-life-/d/1722

Loading..

Loading..