New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 02:11 PM

Urdu Section ( 4 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Muslim Representatives with a Dead Conscience قوم مسلم کے یہ مردہ ضمیر نمائندے

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

4 دسمبر 2023

غزہ میں گزشتہ 56 دنوں سے اسرائیلی فوج کی مسلسل بمباری میں عام شہریوں کی ہلاکت اور عالم عرب اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی اور مردہ ضمیری کو دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اب بھی دیکھ رہی ہے۔ جنگ بندی کے بعد کے مرحلے میں اسرائیلی فوج نے پہلے سے زیادہ شدید بمباری کی ہے اور خدا جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سعودی عرب ، قطر، ترکی، مصر ، عراق ، ایران اور اردن فلسطینیوں کا قتل عام دیکھ رہے ہیں لیکن نہ ان میں اسرائیل کے خلاف فوج کشی کی طاقت ہے اور نہ معاشی پابندی لگانے کی اور نہ سفارتی طور پر جنگ بند کرانے کی ۔یہ لوگ صرف کچھ ٹرک امدادی سامان رفح بارڈر تک بھیج رہے ہیں جو اسرائیل کی اجازت کےبغیر غزہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ سعودی عرب نے غزہ کے لئے کچھ عطیات اکٹھا کئے ہیں جب کہ ابھی غزہ والوں کی جان بچانے اور جنگ رکوانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔عرب اور اسلامی ممالک کی اس بے حسی اور مردہ ضمیری پر پورے مسلم طبقے میں شدیدغم و غصہ اور مایوسی ہے۔خاص طور پراس جنگ کے دوران سعودی عرب کے کردار پر مسلمانوں کو بہت مایوسی ہے۔ اس کا احساس ان عرب ممالک کو ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے مسلمانوں میں اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش شروع کردی ہے اور اس عمل میں مسلمانوں کے کچھ نمک خوار ان کے دفاع میں میدان میں آگئے ہیں۔

سنیچر 2 دسمبر کے اخبار مشرق میں کسی صحافی اور ندوہ کے فاضل محمد شاہنواز بے باک ندوی کا مضمون سعودی عرب کی حمایت  میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں وہ فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی حملوں پر سعودی عرب کی مبینہ فکرمندی اور فلسطینیوں کے لئے سعودی عرب کی خدمات کو پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"اس وقت فلسطینی مسلمانوں کے لئے اگر کوئی ملک صحیح معنوں میں مسیحائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے تو وہ ملک بلاد حرم بلاد توحید مملکت سعودی عربیہ ہے۔ان کی مسیحائی کے سامنے دنیا کا کوئی ملک سبقت حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ گر چار روز کے لئے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طئے پایا تو ان میں سعودی عرب کی بہت بڑی پیش رفت ہے۔ان کی مسلسل کوششوں اور پیہم جدوجہد سے تمام مسلم ممالک کے سربراہان ایک جگہ جمع ہوکر جنگ بندی کا قرار داد پاس کیا۔"۔۔

آگے موصوف لکھتے ہیں۔۔

۔"مملکت سعودی عرب کی جانب سے صرف زبانی طور پر فلسطینیوں کی حمایت کا دعوی نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زمینی سطح پرتعاون کا دست دراز کرتے ہوئے شاہ سلمان ریلیف سینٹر غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے لئے سمندری اور فضائی راستے سے امداد کی فراہمی کا,سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔۔"۔۔

اسی طرح مضمون میں سعودی عرب کی طرف سے زبانی جمع خرچ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس کو فلسطینیوں کے لئے بہت بڑی خدمت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

یہ مضمون سعودی عرب کی حکومت کو خوش کرنے کے لئے اور کچھ ذاتی فائدے حاصل کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔اسی لئے مضمون نگار کا فون نمبر بھی آخر میں دیا گیا ہے تاکہ حکومت کے نمائندے اگر ان سے رابطہ قا ئم کرنا چاہیں تو انہیں پریشانی نہ ہو۔

مضمون نگار کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی حالات سے واقفنیت نہیں رکھتا یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہے۔اسے یہ نہیں معلوم کہ جنگ بندی قطر اور مصر کے تعاون سے ہوئی تھی۔ سعودی عرب کو فلسطینیوں سے اتنی ہمدردی ہے کہ سعودی عرب میں فلسطینیوں کے حق میں دعا کرنے اور فلسطین کے حق میں بات کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے کیونکہ اسے اسرائیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ سعودی عرب اپنے اوپر سے اسرائیل کی طرف جاتے ہوئے میزائیل کو اسرائیل پہنچنے سے پہلے ہی گرادیتا ہے تاکہ اسرائیل کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور آقا ناراض نہ ہو جائیں ۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کو فلسطینیوں سے اتنی محبت اور ہمدردی ہے کہ جب فلسطینیوں پر اسرائیل بمباری کررہا تھا اس وقت محمد بن سلمان اور اس کے وزراء ریاض میں رقص و نغمہ کی محفل سجارہے تھے۔ آج غزہ میں جو جنگ ہورہی ہے وہ سعودی عرب کی وجہ سے ہی ہورہی ہے۔اگر جنگ نہ شروع ہوئی ہوتی تو اب تک سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیتا اور بہت ممکن ہے کہ جنگ بند ہونے کے بعد سعودی عرب اسرائیل سے دوستی کرلے کیونکہ اسرائیل نے عرب ممالک کو کھلے طور پر دھمکی دے دی ہے کہ اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو صرف اپنی حکومت پر دھیان دو۔ ہم سے مت الجھو ۔ یہ جنگ سعودی عرب کی وجہ سے ہی شروع ہوئی ہے۔ اس وقت غزہ کے لوگوں کی پہلی ضرورت جنگ بندی ہے جس کے لئے سعودی عرب کو اسرائیل کے خلاف پاندیاں لگانی چاہئے تھیں اور اس کے خلاف فوجی کارروائی کرنی چاہئے تھی جو اس نے نہیں کی۔ایسا نہیں ہے کہ سعودی عرب جنگ میں یقین نہیں رکھتا۔ وہ یمن کے ساتھ گزشتہ سات برسوں سے جنگ میں ہے۔ یمن سے جان بچا کر بھاگنے والے سینکڑوں تارکین وطن کو سعودی عرب کی فورس پر گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ یہ خدمات واقعی ناقابل فراموش ہیں۔

دراصل آج قوم مسلم میں مردہ ضمیر لوگوں اور ایمان کا سودا کرنے والوں کا ایک بڑا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے حق کو باطل اور باطل کو حق کہنے سے نہیں جھجھکتا۔ ان لوگوں کو فلسطینیوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے دس سال قبل داعش کو خلافت اسلامی کا علم بردار بنا کر پیش کیا تھا۔ آج وہ لوگ داعش کے ساتھ خود بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت ہندوستان کے علماء اور اسلامی تنظیمیں سعودی عرب پر اسرائیل کے خلاف سخت قدم اٹھانے کے لئے دباؤ ڈالتیں۔لیکن اس کے برعکس ملک میں سعودی عرب کی امیج کو بہتر بنانے کی ایک۔مہم شروع کردی گئی ہے۔ اس طرح کے مضامین ابھی اخبارات میں اورشائع ہونگے ۔اردو کے اخبارات اس طرح کے مضامین شائع کرنے سے گریز کریں ۔

------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-representatives-dead-conscience/d/131250

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..