ڈاکٹر غلام زرقانی
17 فروری،2024
زمانہ طالب علمی میں
لیبیا کے شہر طرابلس میں ایک عبارت جابجا لکھی دیکھی تھی کہ ’اللجان فی کل مکان‘
یعنی ہر معاملے کے حل کے لئے کمیٹیاں ناگزیر ہیں۔ بہر کیف یہ بات وہاں کے لئے کس
حد تک درست تھی یہ توتاریخ ہی بتائے گی۔تاہم امریکہ میں یہ بات یقینی طور پر کہی
جاسکتی ہے کہ ہر معاملے کے حل کے لئے انتخابات ناگزیر ہیں۔ دوعشرے سے زیادہ قیام
کے باوجود میں حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ سرکاری معاملات کے حوالے سے کن امور
کے لئے انتخابات ہوتے ہیں اور کس قدر ہوتے ہیں؟ بس اس قدر سمجھئے کہ ہر دوسالوں کے
بعد چوراہے قدم آدم بینر، فلکس او رپوسٹروں سے بھرے دکھائی دیتے ہیں۔ قومی اسکول
کی انتظامیہ،عدالت کے جج، پولیس کے مختلف عناصب، شہری انتظامیہ کی کاؤنسل، ضلعی
دفاتر کے لیے کمشنر محکمہ ٹیکس کے لئے ذمہ دار، صوبائی حکومت، مرکزی حکومت، صدر
مملکت او رنہ جانے کتنے او ر معاملات ایسے ہیں جن کے ذمہ داروں کے لیے یہاں
انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔
امریکی آئین کے مطابق جو
بھی امریکی شہری ہے وہ ملک کے منصب صدارت کے علاوہ، ہر طرح کے انتخابات کے لیے
نمائندہ بننے کامجاز ہے۔ صدارتی انتخابات میں کھڑے ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ
امریکی سرزمین پر پیدا بھی ہوا ہو۔ اس لیے وہ لوگ جو دنیا کے دوسرے ممالک میں پیدا
ہو نے کے بعد امریکہ کی شہریت حاصل کرتے ہیں، وہ منصب صدارت کے لیے امیدوار نہیں
ہوسکتے۔ بہر کیف، آٹھ دس سالوں پہلے تک تو باہر سے آنے والے مسلمان انتخابات کے
لیے امیدوار بننے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس حوالے سے
اگر میں شہر ہیوسٹن کی بات کروں، تویقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ یہاں سب سے پہلے
جس شخصیت نے ہمت کی اور کامیاب ہوئے، وہ ایم جے خان ہیں۔ وہ شہری کاؤنسل کے لیے ایک
علاقے سے کھڑے ہوئے اورپہلی بار میں ہی کامیاب ہوگئے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہم
کچھ اس طرح اظہار مسرت کررہے تھے کہ جیسے ہم نے بہت بڑا معرکہ سرکرلیاہو۔ایم جے
خان ازراہ محبت مجھے بھی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت نامہ
بھیجا تھا اور اصرار بھی کیا تھا، لیکن ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے میری شرکت نہ
ہوسکی۔ ایم جے خان دوسالہ مدت کی تکمیل کے بعد دوبارہ اسی حلقے سے کھڑے ہوئے اور
دوبارہ کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہ تیسری بار کھڑے نہیں ہوسکے۔ اس کے
بعددھیرے دھیرے مسلمانوں کی امریکی سیاست میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی اور اب
الحمداللہ کئی نام اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس وقت جو شہر میں انتخابات ہورہے ہیں،
ان میں علی شیخانی پرسنکٹ تین سے کاؤنسٹبل،حماد نہاد فورٹ ہینڈ کاؤنٹی شیرف، پرویز
اگوان کانگریس ریپرزنٹیٹیو ڈسٹرکٹ سیون، شاہ حلیم فورٹ ہینڈ کاؤنٹی چیئرمین،عقیل
ورک فورٹ کاؤنٹی کاؤنسٹبل،نبیل شائق فورٹ ہینڈ پرسٹنک تین سے کاؤنٹی کاؤنسٹبل،
مائک خان کمشنر پرسنکٹ تین اور ابراہیم جاوید کمشنر پرسنکٹ تین کے لئے میدان میں
کھڑے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ امریکہ
کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے یہ امراض خوش آئند ہے کہ اب سیاست میں
مسلمانوں کی دلچسپی کسی طور شجر ممنوعہ نہ رہی اور گاہے بگاہے یہ رجحانات نئی نسل
میں بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ ابراہیم جاوید، نبیل شائق،پرویز
اگوان او رعلی شیخانی چالیس کے قریب ہوں گے، لیکن آگے بڑھ کر قوم کے لیے کچھ کرنے
کاعزم رکھتے ہیں۔ متذکرہ مناصب کے لیے ہونے والے انتخابات ایسے علاقوں میں ہورہے
ہیں،جہاں برصغیر پاک وہند سے آئے ہوئے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اور رہائش پذیر
ہے، اس لیے بجا طور پر امید قوی ہے کہ یہاں سے انشاء اللہ ہمارے نمائندے ہی کامیاب
ہوں گے۔
یہاں ایک تکلیف وہ تذُکرہ
بھی کسی حد تک ضروری ہے کہ جہاں کہیں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں چونکہ کسی
قدر ہی سہی، اکثریتی ووٹ کے بغیر انتخابات میں کامیاب ہونابہت مشکل ہوتاہے، اس لیے
دیکھا یہ گیاہے کہ انتخابی تحریک کے دوران ہمارے نمائندے غیروں سے بھی راہ ورسم
نبھانے کی کوشش کرتے ہیں، جسے درست سمجھناچاہئے۔ تاہم انتخابی تحریک کے دوران
غیروں کی عبادت گاہوں میں جاکر وہاں کے رسوم وآداب میں شرکت قابل مذمت ہے۔مصطفی
جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت واضح الفاظ میں فرمایا کہ جو شخص کسی غیر سے
مشابہت اختیار کرتاہے، اسے اسی مذہب سے شمار کیا جائے گا۔ متذکرہ صراحت میں مشابہت
سے مراد مذہبی شعار ہیں۔ یعنی جو آداب ورسوم غیروں کے مذہبی شعار سمجھے جاتے ہیں،
ان سے مسلمانوں کو دور رہنا نہایت ہی ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ دنیا میں عارضی طاقت
وقوت کے حصول کی جدوجہد میں اگر اُخروی حیات لافانی ہی داؤ پر لگ جائے، تو یہ
نہایت ہی خسارے کاسودا ہے۔ہمیں ہر لمحہ اپنے عقیدے کی حفاظت کرنی چاہئے، خواہ کتنا
ہی دنیاوی نقصان کیوں نہ ہوں۔ اس لیے جو بھی نمائندے کھڑے ہورہے ہیں، وہ غیروں سے
قربت میں حددرجہ احتیاط رکھیں او ررسمی ملاقات کے دوران ان سے جو بھی وعدہ کریں،وہ
انسانی خدمات کے پس منظر تک ہی محدود ہے۔ اس وقت امریکی آئین کے مطابق سیاسی
معاملات میں داخلے کا دروازہ پوری طرہ کھلا ہوا ہے،اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم اس
حوالے سے بھی مؤثر کردار ادا کریں۔ اس لیے کہ اگر میدان کے کنارے کھڑے ہوکر صرف
نظارہ کرتے رہے، تو کنارے لگا بھی دیے جائیں، لیکن اگر میدان میں اترکر کھیلنے کی
کوشش کی،تو ہمیں میدان سے کوئی باہر نہیں کرسکتا۔ ویسے تویہ تقریباً محال ہے کہ
امریکہ میں باہر سے آکر شہریت حاصل کرنے والوں کے کسی بھی انتخابات میں کھڑے ہونے
پر پابندی عائد کی جائے،لیکن یہ حقیقت ہمیشہ ذہین نشین رہے کہ جس آئین کی ہم دہائی
دے رہے ہیں، اس میں ترمیم وتنسیخ کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ لہٰذا جس طرح ایک آئین
برسوں پہلے نافذ کیا گیاہے، کوئی ضروری نہیں کہ حرف بہ حرف وہ بہت دنوں تک جوں کا
توں رہے۔ جمہوری نظام کے تحت کسی وقت بھی زمام اقتدار کسی سر پھرے کے ہاتھوں میں
جاسکتاہے اور اگر ماحول سازی منفی ہوگئی،تو کیا عجب کہ وہ ضابطے سامنے آئیں، جن کا
تصور تک ہم نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر آئین ساز کاؤنسل میں کچھ نمائندے اپنے بھی رہے،تو
بہت ممکن ہے کہ کسی حد تک مزاحمت ہو، جس کے نتیجے میں کچھ عافیت رہے۔ اس لیے نہ
صرف امریکہ، بلکہ دنیا کے جس خطے میں بھی قابل قدر تعداد میں مسلمان آباد ہوں او
روہاں انہیں انتخابات میں کھڑے ہونے کی اجازت حاصل ہو، انہیں چاہئے کہ وہ اس جانب
بھی توجہ دیں،تاکہ آنے والے ایام میں آئین کے مطابق ہمیں جو آزادی دی گئی ہے، وہ
کسی طور متاثر نہ ہونے پائے اور نئی نسل اپنے ایمان و عقیدے کے تحفظ کے ساتھ
دنیاوی ترقی کے زینے طے کرتی رہے۔
17 فروری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism