New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 02:18 PM

Urdu Section ( 12 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Muslim Nations Should Abandon Blasphemy Laws? مسلم اقوام کو توہین مذہب کے قوانین کیوں ترک کرنا چاہیے؟

 وی۔اے۔ محمد اشرف، نیو ایج اسلام

 4 فروری 2025

 توہین مذہب کے قوانین، جن کے ذریعے مذہب کے خلاف توہین یا ہتک عزت کو جرم قرار دیا جاتا ہے، بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں رائج ہیں۔ ان قوانین کو اکثر اسلامی فقہ اور بعض احادیث کا حوالہ دیکر جائز قرار دیا جاتا ہے، لیکن ان کے نفاذ کو، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، اظہار رائے کی آزادی کو دبانے، اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے جیسے واقعات کے لیے، بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

 اس مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن، جو کہ اسلامی تعلیمات کا بنیادی ماخذ ہے، بہت سے مسلم ممالک میں نافذ توہین رسالت کے سخت اور تعزیری قوانین کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے، قرآن صبر، معافی، اور فیصلہ خدا پر چھوڑنے کی بات کرتا ہے۔ قرآن کے اقتباسات کی روشنی میں، اس مضمون کے اندر اہانت مذہب سے نمٹنے کے لیے مزید قرآنی نقطہ نظر کے حق میں، ایسے قوانین کو ترک کرنے کی بات کی گئی ہے۔

 مسلم اکثریتی ممالک میں اہانت مذہب کے قوانین

 حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، متعدد مسلم اکثریتی ممالک اپنے ہاں اہانت مذہب کے قوانین نافذ کیے ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے نفاذ اور شدت میں کافی فرق ہے۔ اہانت مذہب کے قوانین والے ممالک میں افغانستان، الجزائر، بحرین، بنگلہ دیش، برونائی، مصر، انڈونیشیا، ایران، عراق، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، ملائیشیا، مالدیپ، موریطانیہ، مراکش، نائیجیریا (شرعی قانون کے ساتھ کچھ شمالی ریاستوں میں)، عمان، پاکستان، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، شام، تیونس، ترکی اور متحدہ عرب امارات، اور یمن(حال ہی میں ترمیم شدہ) کا نام قابل ذکر ہے۔

 پاکستان میں اہانت مذہب کے کچھ سخت ترین قوانین موجود ہیں، جن میں اسلام یا پیغمبر اسلام کی توہین کرنے پر سزائے موت بھی شامل ہے۔ سعودی عرب اور ایران شرعی قانون کے تحت اہانت مذہب پر سخت سزائیں نافذ کرتے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملیشیا جیسے ممالک میں اہانت مذہب کے قوانین کو منتخب طور پر نافظ کیا جاتا ہے، اور اس کے بہانے اکثر مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کا یہ طریقہ کار ایک ایسے قانونی فریم ورک کی تشکیل کرتا ہے کہ چند چن کر لوگوں کو اس کے جال میں پھنسایا جا سکتا ہے۔ ترکی میں توہین مذہب کے قوانین کو 1924 میں تکنیکی طور پر ختم کر دیا گیا تھا، لیکن مذہبی اقدار کی توہین پر پابندیاں دیگر قانونی دفعات کے تحت وہاں بھی برقرار ہیں۔ نائیجیریا میں توہین مذہب کے قوانین بنیادی طور پر شمالی ریاستوں میں نافذ ہیں، جہاں شرعی قانون نافذ ہے۔

 ان ممالک میں توہین مذہب کے قوانین کی بنیاد اکثر فقہ اسلامی پر ہوتی ہے، اور ان کا استعمال خاص طور پر اسلام سے متعلق مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان قوانین پر اس حوالے سے بڑی تنقید کی جاتی ہے کہ ان کا استعمال آزادی اظہار کو دبانے، مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے، یا ذاتی انتقام کے لیے کیا جاتا ہے۔ مذہب کے تقدس کو برقرار رکھنے کے بجائے، ایسے قوانین اکثر دو دھاری تلوار بن جاتے ہیں، جو عدل و انصاف کے تانے بانے کو تار تار کر دیتے ہیں۔

توہین مذہب کے قوانین کی تائید میں نقل کی جانے والی احادیث:

 توہین مذہب پر سخت سزاؤں کا جواز پیش کرنے کے لیے اکثر احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ذیل میں کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

 "جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے اسے قتل کر دیا جائے۔" (بخاری، جلد 9، باب 83، حدیث 37؛ مسلم، باب 16، حدیث 4157)

 "جو شخص اللہ تعالیٰ کو گالی دے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے، یا کعبہ کو گالی دے، یا حرمت والے مہینوں کو گالی دے تو اس کی سزا قتل ہے، الا یہ کہ وہ توبہ کر لے۔" (ابو داؤد، باب 40، حدیث 4595، ابن ماجہ، باب 20، حدیث 2636)

 ایک نابینا شخص نے اپنی غلام ماں کو بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے پر قتل کر دیا۔ جب یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: کہ اگر وہ میرے پاس لائی جاتی تو میں اسے اس سے بھی زیادہ سخت سزا دیتا۔ (ابوداؤد، باب 40، حدیث 4593، ابن ماجہ، باب 20، حدیث 2634)

 اصلاح پسند علماء توہین رسالت کے قوانین کے جواز میں پیش کی جانے والی بعض احادیث کی صحت یا سند پر ہی سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام احادیث یکساں طاقت کی حامل نہیں ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ کچھ احادیث موضوع ہوں یا ان کی غلط شریح کی گئی ہو۔ وہ ان حدیثوں کے متن اور ان کی اسناد کی جانچ پرکھ کے لیے فن اسماء الرجال کا سہارا لیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وہ اس کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں، تا کہ قانونی اور مذہبی بیانیے کی تشکیل میں صرف اور صرف مستند ذرائع ہی استعمال کیے جا سکیں۔

 توہین مذہب پر قرآنی نقطہ نظر

 قرآن واضح طور پر توہین مذہب کے لیے کوئی خاص دنیاوی سزا متعین نہیں کرتا۔ اس کے بجائے، یہ صبر، معافی، اور فیصلہ خدا پر چھوڑنے کی بات کرتا ہے۔ متعدد قرآنی آیات تحمل، احترام اور حکمت کے ذریعے توہین مذہب کا جواب دینے کی ہدایت کرتی ہیں۔

 جارحانہ گفتگو کے معاملے میں، قرآن مومنوں کو صبر و تحمل سے کام لینے اور تنازعات سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کی آیت 6:68 میں بیان کیا گیا ہے، "اور اے سننے والے! جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک اور بات میں پڑیں، اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ گستاخوں کے ساتھ مشغول ہونا آگ میں ایندھن ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس کے بجائے، ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور طوفان کو گزر جانے دینا چاہیے۔

 قرآن فیصلہ خدا پر چھوڑنے کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ قرآن کی آیت 42:40 میں کہا گیا ہے، "اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، بیشک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔" یہ آیت مومنوں کو یہ تعلیم کرتی ہے کہ بدلے کا معاملہ خدا پر چھوڑ کر اپنے رستے چل دینا چاہیے۔

 مزید برآں، قرآن دوسروں کے مذہب کی توہین سے بھی منع کرتا ہے، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان تمام مسائل کا حل باہمی احترام میں ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن 6:108 میں کہا گیا ہے، "اور انہیں گالی نہ دو وہ جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں۔" یہ آیت دوسروں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، اگر چہ ان کا مذہب الگ ہو۔

 قرآن توہین مذہب کی سنگینی کو تو اجاگر کرتا ہے، لیکن یہ انسانی انتقام کے بجائے، معاملہ عذاب الہی پر چھوڑ دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید کی آیت 62-9:61 میں کہا گیا ہے، "اور ان میں کوئی وہ ہیں کہ ان غیب کی خبریں دینے والے کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں۔ اور جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔" یہ آیت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ حتمی انصاف کا معاملہ خدا کے سپرد ہے، انسانوں کے نہیں۔

آخر میں، قرآن اس بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ کس طرح دوسروں کے ساتھ احترام اور دانشمندانہ انداز میں گفتگو کی جائے۔ قرآن کریم کی آیت 16:125 میں ارشاد ہے کہ ’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔‘‘ یہ آیت سفارتی نقطہ نظر کی وکالت کرتی ہے، اور یہ ثابت کرتی ہے کہ نرمی میں زیادہ کامیابی و کامرانی ہے، بمقابلہ سختی اور ترشی کے۔ ان قرآنی اصولوں کو اپنا کر مسلمان احترام، رواداری اور حکمت کے کلچر کو فروغ دے سکتے ہیں۔

 اسلام میں اظہار رائے کی ذمہ دارانہ آزادی

 قرآن اظہار رائے کی ذمہ دارانہ آزادی کی اہمیت پر زور دیتا ہے، اس کے لیے اصول و آداب کا ایک خاکہ پیش کرتا ہے۔ قرآن مسلمانوں کو "بہترین طریقے سے" (29:46) اور "انتہائی شائستہ طور پر" (16:125) پر بحث کرتے ہوئے باعزت مکالمے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن بے بنیاد قیاس آرائیوں، دوسروں کو برا بھلا کہنے، یا بغیر تصدیق کے افواہیں پھیلانے سے خبردار کرتا ہے (49:12)۔ قرآن دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کے لیے معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے، اس کی تصدیق کرنے کو بھی ضروری قرار دیتا ہے (49:6)۔

 قرآن نے غور و فکر اور شواہد پر مبنی آراء کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے جن کا اظہار شائستگی سے کیا گیا ہو، اور انہیں ایک پھل دار درخت سے تشبیہ دیا ہے (25-14:24)۔ اس کے برعکس، قرآن گالی گلوچ کی مذمت کرتا ہے، بشمول بہتان توہین اور تذلیل کے، اور مومنین کو خبردار کرتا ہے کہ وہ دوسروں کو گالی نہ دیں یا جارحانہ زبان استعمال نہ کریں (6:108، 49:11)۔ بالآخر، قرآن آزادی اظہار، ذمہ دارانہ ابلاغ اور دوسروں کے ساتھ احترام کو فروغ دینے کے لیے، قانونی اور اخلاقی دونوں حدود قائم کرتا ہے۔

 تاہم، اظہار رائے کے لیے قرآن کی اخلاقی ہدایات بنیادی طور پر مومنین کے لیے ہیں، جبکہ قرآن غیر مومنوں سے بھی یہی توقعات رکھتا ہے۔ اس سے توہین مذہب کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں، جو کہ ایک ایسا تصور ہے جو تاریخی طور پر ارتداد، کفر، اور خدا کے انکار اور اسلامی روایت میں وحی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

 جیسا کہ محمد ہاشم کمالی کی کتاب ’’اسلام میں اظہار رائے کی آزادی‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے، ان مسائل پر فقہی بحثیں پیچیدہ اور اکثر مبہم ہیں (کمالی، صفحہ 218-21)۔ تاریخی طور پر، عوامی رائے کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا تھا: قابل تعریف، قابلِ الزام، یا مشکوک۔ قابل تعریف آراء نے قرآن اور پیغمبر محمد کی تعریف کی، جب کہ قابل مذمت رائے کو گستاخانہ، فتنہ انگیز یا کفریہ سمجھا جاتا تھا۔

 کچھ مسلمان اسلام کو ایک جبری نظام مانتے ہیں، جو جبر و اکراہ کے ساتھ تقویٰ کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، ارتداد یا توہین مذہب کا خاتمہ کرتا ہے۔ تاہم، یہ نقطہ نظر جدید لبرل معیارات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ درحقیقت، قرآن توہین مذہب کے لیے ایک زیادہ محتاط ردعمل پیش کرتا ہے، اور دوسروں کے لیے ذمہ دارانہ انداز میں اظہار رائے کی آزادی اور احترام کو ترجیح دیتا ہے۔

 اس کے برعکس، کچھ اسلامی ممالک توہین مذہب کے لیے موت سمیت سخت سزائیں دیتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر انسانی حقوق کے جدید معیارات اور قرآن میں بیان کردہ ذمہ دارانہ آزادئ اظہار رائے کے اصولوں سے متصادم ہے۔

 جیسا کہ کمالی لکھتے ہیں، اسلامی قانون میں توہین مذہب کی سزا کی بنیاد چند احادیث پر ہے جن کی تشریحات کی جا سکتی ہیں (کمالی، صفحہ 249)۔ ان بیانیوں کو ان کے تاریخی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے، نہ کہ انہیں جدید قوانین اور سزاؤں کی بنیاد بنا دیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ اظہار رائے کی ذمہ دارانہ آزادی اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے، جس میں احترام، شائستگی اور سوچ سمجھ کر بات چیت پر زور دیا گیا ہے۔ کچھ اسلامی ممالک توہین مذہب کے لیے سخت سزاؤں کا نفاذ جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ قرآن ایک زیادہ محتاط نظریہ پیش کرتا ہے، جس میں ذمہ دارانہ اظہار رائے کی آزادی اور دوسروں کے لیے احترام کو ترجیح دیا گیا ہے۔

 جیسا کہ معروف برطانوی اسکالر، مصنف اور ثقافتی نقاد ضیاء الدین سردار نے لکھا ہے، توہین مذہب کے قوانین اور اسلام کے بارے میں ہونے والی بحث کو، ان کی بصیرت افروز سطور میں مختصراً پیش کیا گیا ہے، جو اس اہم مسئلے کی پیچیدگیوں اور باریکیوں پر روشنی ڈالتی ہے:

   "کلاسیکی فقہی رائے قرآن کی روح اور اس کی تعلیمات کے خلاف ہے، جیسا کہ اکثر نظر آتا ہے۔ مجھے توہین مذہب کا پورا نظریہ ہی غیر اسلامی معلوم ہوتا ہے۔ یا تو آپ ایمان لانے اور نہ لانے کے لیے آزاد ہیں، یا آپ آزاد نہیں ہیں۔ اگر مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے، تو تمام طرح کی آراء کا اظہار جذباتی طور پر کیا جا سکتا ہے، ان میں وہ رائے بھی شامل ہے جو مذہبی لوگوں کی دل آزاری کا باعث ہو۔ مومنین، خدا اور اس کے رسول کے لئے احترام کا مظاہرہ کریں گے اور احترام والی زبان استعمال کریں گے، کیونکہ وہ مومن ہیں۔ غیر مومنین، دونوں (اللہ و رسول) کے لیے توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ہمیں زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہئے، اگر غیر مومنین اس زبان کا سہارا لیں، جسے اہل ایمان مقدس مذہبی تصورات کے خلاف غیر مہذب زبان سمجھتے ہیں۔ قرآن اس کی توقع کرتا ہے۔ اور دنیا در حقیقت اسی طرح برتاؤ کرتی ہے۔" خدا، جو 'خود مختار'، اور عظمت و جلال و بزرگی والا ہے، اگر اس پر چند طعنے مارے جائیں تو شاید ہی اسے اس سے کوئی پریشانی لاحق ہوگی۔ وہ یقینی طور پر اپنے آپ کی دیکھ بھال کر سکتا ہے: ’’اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے نکلتے ہیں وہ جلد اپنا کیا پائیں گے‘‘ (7:180)۔ دوسرے لفظوں میں، خدا کو برا بھلا کہنے والوں کے لئے سزا یا جزا کا اختیار صرف خدا کے پاس ہے۔ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور ہمیں ایسے معاملات سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے، تو آپ کی نبوت کے دور میں، خاص طور پر مکہ میں ان کے دور میں، روزمرہ کے طعنوں کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی آپ کو مسلسل دشنام طرازیوں کا نشانہ بنایا گیا اور آپ کی توہین و تذلیل کی گئی۔ آپ نے مذاق اڑانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے خلاف بدزبانی کرنے والوں کو سزا نہیں دی، تو ہم ان کی طرف سے ایسا کرنے والے کون ہیں؟ بلاشبہ ہم اہل ایمان کو ناراض ہونے کا حق ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ایسا کرنا قرآن کے صریح احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ نمونہ عمل کے خلاف عمل کرنا ہے۔ توہین مذہب، غیر منصفانہ تنقید یا سنگین اختلافات کے معاملات میں، قرآن مومنین سے اخلاقی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی توقع رکھتا ہے، اور غیر ضروری طور پر حد سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ جب اختلافات واقعی ناقابل مصالحت ہو جاتے ہیں، تو قرآن مومنوں کو جینے اور جینے دو کی پالیسی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے: تم فرماؤ اے کافرو، نہ میں پوجتا ہوں جو تم پوجتے ہو، اور نہ تم پوجتے ہو جو میں پوجتا ہوں، اور نہ میں پوجوں گا جو تم نے پوجا، اور نہ تم پوجو گے جو میں پوجتا ہوں، تمہیں تمہارا دین اور مجھے میرا دین۔‘‘ قرآن (6-109:1)" (سردار، صفحہ 339-340)۔

توہین مذہب: اصلاح اور انصاف کا مطالبہ

 صبر اور عفو و درگزر پر قرآن کی تعلیم بالکل واضح ہے۔ توہین یا تضحیک کی صورت میں، مومنین کو تحمل سے جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے، جہاں تک ممکن ہو تنازعات سے گریز کیا جائے۔ جیسا کہ قرآن سکھاتا ہے، انصاف کو رحمت و مودت کے چاندی کے تھال میں پیش کیا جانا چاہیے، نہ کہ سزا کی لوہے کی مٹھی میں۔

 قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن توہین مذہب کے لیے مخصوص دنیاوی سزاؤں کا تعین نہیں کرتا۔ اس کے بجائے، یہ آخرت کی زندگی میں اس پر عذاب الہی کی بات کرتا ہے، قرآن انسانوں کو، معافی اور ہمدردی پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ نظریہ توہین مذہب کے قوانین کے نام پر دی جانے والی سخت سزاؤں کے بالکل برعکس ہے۔

 ان قوانین کے استعمال سے اکثر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، اختلاف رائے کو خاموش کیا جاتا ہے اور تعمیر و ترقی کا راستہ بند کیا جاتا ہے۔ اختلاف رائے کو خاموش کرنا ہوا کو بند کرنے کے مترادف ہے – یہ ایک بے سود کوشش ہے جو بالآخر معاشرے کے تانے بانے کو کمزور کرتی ہے۔

 مزید برآں، توہین مذہب کے قوانین کا اکثر غلط استعمال کیا جاتا ہے، اس کے ذریعے انصاف کو برقرار رکھنے کے بجائے ذاتی رنجشیں نکالی جاتی ہیں۔ جس قانون میں اس طرح سے جوڑ توڑ کیا جا سکتا ہے وہ کوئی قانون نہیں ہے۔

 خلاصہ یہ کہ قرآن باہمی احترام اور رواداری کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں کے مذاہب کی توہین کرنے سے منع کرتا ہے (قرآن 6:108)، اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ احترام ایک پل ہے جو دونوں طرف سے بنایا گیا ہے۔ اس اخلاقی اصول کو اپنا کر، ہم ایک مزید ہم آہنگ اور جامع معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں، جہاں اظہار رائے کی آزادی کو اہمیت دی جائے اور انسانی حقوق کا تحفظ ہو۔

 مسلم دنیا میں مذہب اور آزادی کی صلح

 توہین مذہب کے حوالے سے قرآن صبر، عفو، اور عاجزی کا درس دیتا ہے۔ فیصلہ خدا پر چھوڑ کر مسلمان، رواداری باہمی احترام اور ہمدردی کے کلچر کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف قرآنی روح کے مطابق ہے بلکہ انسانی حقوق اور وقار کا بھی تحفظ کرتا ہے۔

 جیسا کہ مسلم ممالک توہین مذہب کے قوانین کی پیچیدگیوں سے جوجھ رہے ہیں، ان کے پاس اپنی اصلاح کا ایک موقع ہے۔ رحم، درگزر اور بقائے باہمی کی قرآنی اقدار کو اپنا کر، وہ ایک مزید انصاف پسند اور ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک کہاوت ہے، سچا دین چراغ کی طرح ہوتا ہے — وہ راستے کو روشن کرتا ہے، نہ اپنے راستے کی ہر چیز کو ختم کرتا ہے۔ رواداری اور افہام و تفہیم کے راستے کا انتخاب کر کے، مسلمان سب کے لیے ایک روشن مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

 حوالہ جات:

 Kamali, Mohammad Hashim, Freedom of Expression in Islam, Kuala Lumpur: Berita Publishing, 1994

Sardar, Ziauddin, Reading the Quran: The Contemporary Relevance of the Sacred Text of Islam, New York, Oxford University Press, 2011

---

English Article: Why Muslim Nations Must Abandon Apostasy Laws?

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-nations-apostasy-laws/d/134592

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..