ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
25 اگست،2023
سامنے نہ سیاست ہے، نہ
انتخاب و انتخابی سیاست، نہ کوئی مخصوص سیاسی نظریہ، نہ شخصیت اور نہ ہی کسی کی
خوشامد۔ کسی کے لئے زمین ہموار کرنابھی
میرا مقصدنہیں ہے۔ صرف اور صرف معاشرہ اور معاشرت میں آئی موجودہ آلودگی،
اخلاقی پستی اور اس سے عوام سے خواص تک سب کی اجیرن زندگی کے رخ و سمت میں مثبت و
تعمیری تبدیلی لانے کے سوا فی الوقت میرا کچھ مقصود نہیں! کچھ مفروضوں کے حوالے سے
بھی اپنے ذہن و نفسیات کو صاف رکھ کر اور سمجھ کر آگے بڑھیں تو اور بھی اچھا
ہوگا۔ مفروضوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: سیاست ہی سب کچھ نہیں! ہمارے مسائل محض سیاسی
ہیں ایسا بھی نہیں! ہر مسئلے کا حل سیاست اور سیاستدانوں کے پاس ہی ہے ایسا بھی
نہیں! ہم کسی کے ساتھ دوستی یا دشمنی کی دوڑ میں آخری جیت حاصل کرنے کے لئے لگے
ہوئے ہیں ایسا بھی نہیں ہے! ہمیں اس ملک
کو فتح کرکے یہاں خلافت قائم کرنابھی نہیں تو وہ تو ۵۷؍
مسلم ممالک نہ اکیلے اور نہ ہی مل کر کر پارہے ایسا بھی کچھ نہیں! ایسا ہے بھی نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے!
قیادت کے موضوع پر آنے
سے پہلے کچھ بنیادی سوالات اور نکات کو سمجھ لیا جائے ۔آئین سب کےلئے ایک ہے، سب
ایک ہی قومی وحدت سے تعلق رکھتے ہیں، ریاست کا کوئی مرکزی مذہب نہیں، حقوق، فرائض
و ذمہ داریاں سب کی یکساں ہیں، سیاسی،
سماجی و اقتصادی مساوات کا آئین ضامن ہے، مستحکم آئینی سرکاری و غیر سرکاری
ادارے حصول انصاف و دادرسی کے لئے موجود ہیں، انتظامیہ و عدلیہ کا کردار و مزاج
عموما” سیکولر ہے، انسانی حقوق کا ادارہ
مرکز سے ریاستوں حتیٰ کہ مرکز کے براہ راست اقتدار والےعلاقوں تک اپنی رسائی و
گرفت رکھتا ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت
ہمارا وطن عزیز ہندوستان ہے، ہر سطح و ہر
مرتبے تک پہنچنے کا ہر شہری کو بلا لحاظ
مذہب و ملت، علاقہ و زبان، رنگ و نسل و ذات پات آئینی حق حاصل ہے!
پھر بات کہاں پھنس رہی ہے؟
اس تمام تر صورتحال کا
جواب کسی دیگر کے پاس نہیں، آخر میں میرے اور آپ کے پاس ہی ملے گا۔ بیانات، شعلہ
بیانی، الزام تراشی، محض تنقید، تنقیص، مطالبات اور صرف مطالبات، فرضی جلسے و
جلوس، پریس کانفرنسیں و اجتماع، عارضی یا
وقتی مباحثے اور مکالمے حالات کو تبدیل نہیں کر سکتے۔دھمکیاں و کھلے چیلنجز تالیاں
پٹوا سکتے ہیں، سوشل میڈیا پر ایک مخصوص تعداد کو آپ کا گرویدہ بھی بنا سکتے ہیں
مگر زمین پر موجود مسائل کو حل نہیں کر سکتے ۔ عدالتوں کے فیصلے زمین پر کتنے اتر پا رہے ہیں میں ایک معزز اور قانون کے
پابند شہری ہونے کی حیثیت سے اس پر کوئی بیان بازی نہیں کرنا چاہتا!
ایک رائے یہ بھی ہے کہ
بچوں کو پڑھائو، تعلیم سے آراستہ کرو، اپنے تعلیمی ادارے بنائو، ہسپتال بنائو،
یونیورسٹیاں، انجینئر نگ و میڈیکل کالج بنائو انشاء اللہ سب مسئلے حل ہو جائیں
گے،تعلیم سے کس کو اختلاف ہوگا ؟ مگر سوال اٹھتا ہے کہ کیا معاملات و مصالحت میں
تعلیم کی کمی یا زیادتی معنی رکھتی ہے؟ جواب نفی میں ہے ۔یہ معاملہ تعداد یا فیصد
کا نہیں نیت، نفسیات و ترجیحات کا ہے۔ وہ
ملک جس میں متعدد مسلمان صدر و نائب صدر
جمہوریہ بنے، چیف جسٹس و سپریم کورٹ کے جج بنے،
فضائیہ کے چیف، نائب چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے تک پہونچے، بری افواج میں
چھ لیفٹیننٹ جنرل اور بحریہ و فضائیہ کی اعلیٰ ترین حیثیت کو پہنچے ہوں، یو پی ایس
سی کےچیئرمین رہے ہوں، سفارتکاری کے میدان میں امریکہ، سوویت یونین، برطانیہ جیسے
بڑے ممالک کے سفیر رہے ہوں، کیبنٹ سکریٹری کے عہدے تک پہنچے ہوں ‘آئی بی کے چیف
تک بنے ہوں وہاں تعلیم کا رونا اور اسکو مسائل و معاملات کے حل میں رکاوٹ ماننا
کہاں کی دلیل و منطق ہے؟
دینی امور میں عالمی
حیثیت کی شخصیات ہر دور میں اور تمام مسالک میں ہمارے بیچ میں رہی ہیں، اچھے اور
قابل وکلاء کی بھی کبھی کمی نہیں رہی اور اب تو ماشاءاللہ بڑے اچھے نوجوان وکلاء
سامنے آ رہے ہیں، سائنسی و تحقیقی میدان میں بھی الحمد للہ لوگ اپنا لوہا
منوا رہے ہیں ۔اس سب کے ہوتے ہوئے حالات
کی سنگینی کے لئے یہ دلیل کہ تعلیم کی کمی بنیادی مسئلہ و رکاوٹ بن رہی ہے حالات
میں بہتری لانے کے لئے غلط قرار پاتی ہے۔
اس ملک کی ۶؍
ریاستوں کے وزیر اعلی مسلمان رہے ہیں، متعدد ریاستوں کے گورنر، کابینہ کے وزراء،
اراکین پارلیمنٹ بھی رہے ہیں، قومی و ریاستی علاقائی سیاسی جماعتوں کی اعلی ترین
ذمہ دار رہے! مسئلہ کہیں اور ہے؟
اب لیتے ہیں قیادت کے
مسئلہ کو! اکابرین کو مواقع کی کبھی کمی نہیں رہی۔ ملی ادارے، تنظیمیں، تحریکیں و
مقتدر شخصیات کا بھی کوئی کبھی قحط نہیں رہا۔ سابقہ ہفتے کے مضمون میں میری کوشش
رہی کہ قیادت کیسی ہو اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوا
ہوگا کہ پہلے تو اس موضوع کو صرف سیاست سے جوڑ کر رکھا گیا ہے جو میری ناقص رائے
میں غلط ہے۔ قیادت اداروں میں پروان چڑھتی ہے۔ شخصیت پرستی نے اس کو چڑھنے ہی نہیں
دیا، پارلیمنٹ میں سے کسی ایک ایوان کی رکنیت یا اس کے بعد وزارت مل جائے، ریلوے
کا پاس، پیٹرول پمپ، گیس کی ایجنسی، کسی
سرکاری کارپوریشن کی چیئرمینی یا بینک کی
ڈائریکٹر شپ یا کچھ دیگر ذاتی فائدے ۔فکر اس سے آگے گئی ہی نہیں۔ ہمیشہ فکری طور
پر کہیں نہ کہیں غلام ہی رہے،کبھی دوسروں کے اور کبھی اپنی خواہشات کے! آزاد حیثیت کبھی کسی بھی میدان میں ہم کھڑی کر
ہی نہیں پائے! جمہوریت اور جمہوری اقدار نے ہمارے معاشرے اور ہمارے اداروں میں جگہ
پائی ہی نہیں حکومتوں سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا مطالبہ کرتے رہے
اور خود اسکے بر خلاف عمل انا و شخصیت
پرستی کا کرتے رہے۔ عقیدت کو اتنا بڑھا دیا کہ عقل و منطق کی
زمین ہی ختم ہو جائے، سوال کی اجازت ہی نہ دی جس نے کیا اسے گمراہ قرار دے دیا
۔مسائل کا انبار کھڑا ہوتا گیا اور کسی مسئلے کا آج تک نہ حل نکال سکے اور نہ پیش
کر سکے۔ اخلاقیات کو اتنا تنگ و دقیانوسی بنا لیا کہ لکیر کے فقیر بن کر رہ گئے۔
چیلنجز کیا ہیں؟ ہندو مسلم منافرت اب عام ہو گئی، علاقے و بستیاں بٹ گئیں، آپسی
بھروسہ و اعتماد کہیں گم ہو گیا، ظاہری رواداری بھی آخری سانس لے رہی ہے،
نفسیاتی، سماجی و سیاسی تنگی اور دشمنی اس حد تک آگئی ہے کہ ۲۵ کروڑ کی کثیر آبادی کا
ووٹ بھی کسی کو نہیں چاہئے اور کوئی کہتا ہے کہ جائیگا کہاں؟ آخر اس ربڑ کو کتنا کھنچنا ہے ،دنیا میں کیا
توڑنے کا ہی فیصلہ کر لیا ہے؟ ایک غلط فہمی اور دور کر دوں کہ آپ ایک امت ہیں ۵۷ مسلم ریاستیں ہیں وہاں
سے کوئی آپکے لئے آئے گا ہر گز نہیں اور نہ اس طرف آپکی فکر ہی جانی چاہئے۔ سو
ویت یونین میں ۲۵
فیصد مسلم آبادی تھی ۱۹۱۷
سے ۱۹۹۱
میں اسکے ٹوٹنے تک مسلمانان روس کسی جبر، ظلم و بربریت کے شکار نہ تھے تمام مسلم
ممالک کے اس کے ساتھ بہترین تعلقات تھے، آج چین میں مظالم کی کیا کیفیت ہے مگر
مسلم ممالک کے اس سے تعلقات میں یہ ظلم
کہیں معنی نہیں! فلسطین اور بوسنیا کے ساتھ امریکہ و یورپ کا کیا سلوک رہا تمام
مسلم ممالک کے تعلقات کب اور کس سے خراب رہے؟ آج فلسطینی تنہا پڑ گئے ہیں۔ عرب
ممالک کی سیاست، سفارتکاری و معاشی ترجیحات میں کہاں انکے مسائل و معاملات حا ئل
ہیں؟ کہیں نہیں! ایسا ممکن ہی نہیں! آپ
ہیں کہ انکے ہر مسئلے پر دست و گریباں!
غور کرنا ہوگا، حقیقت و حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرنا سیکھنا ہوگا!حکمت عملی بہت
سادہ اور آسان ہے جو پہاڑ جیسے اختلافات کھڑے ہوگئے ہیں انکے حل تلاش کیجئے، دوسرے باہمی رشتوں کو بحال کرنے کے لئے ان
حلقوں
تک رسائی و رفاقت کو فروغ دیجئے جہاں سے منافرت جنم لے
رہی ہے۔ ہر معاملے میں ہندوستانی کی طرح آگے آئیے مسلم کی طرح نہیں، جو ساتھ ہیں
انکو گرویدہ بنائیے جو روٹھے ہوئے ہیں انکو منائیے، جنھوں نے مخاصمت اور دشمنی کو
اپنا شعار بنا لیا ہے ان سے اپنی گلی کوچے سے لیکر قومی سطح تک تعلق پیدا کیجئے۔،
قومی امور و معاملات میں پیش پیش رہئے، اجتماعی فلاحی کردار سے اپنی انفرادیت پیدا کیجئے۔ کوئی دشمن نہیں! اگر کوئی ہو گیا ہے تو اسکو واپس لانا میرا اور
آپکا ذمہ ہے۔ ہم ہندوستانی ہیں، یہ ملک ہے تو ہم ہیں اس مزاج کو اپنے دل، دماغ و
اپنی نسوں میں پیوست کریں گے تو راہ و منزل دونوں ملیں گے۔ آپ کہیں گے سارے مشورے
ہم ہی کو دے دئیے کچھ ادھر بھی دے دئیے ہوتے جواب سیدھا ہے۔ پہل مفاہمت و مصالحت
کی جو حالات کا پہلا شریک و فریق ہوتا ہے اسی کو کرنی ہوتی ہے میں پریکٹیکل آدمی ہوں
کسی خوش فہمی کو نہیں پالتا۔
25گست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism