پال کریگ رابرٹس
مئی 2010
جب تک مسلمان اپنے فاتحین سے زیادہ خود آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے تب تک ان کی حیثت ایک شکست خوردہ قوم کی ہی رہے گی۔
مسلمانوں کی تعداد تو زیادہ ہے لیکن وہ بے یار و مددگار ہیں۔ خاص طور پر شیعہ اور سنی کے درمیان مسلمانوں کی تقسیم نے ایک صدی سے مشرق وسطی کے مسلمانوں کو مغربی تسلط کے تحت کر دیا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کھیل بھی نہیں سکتے۔ ایران میں اپریل میں منعقد ہونے والے اسلامی یکجہتی کے نام پر کھیلے جانے والے علاقائی اولمپکس کو منسوخ کر دیا گیا اس لیے کہ ایرانیوں اور عربوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ ایران کو جزیرہ عرب سے جدا کرنے والے سمندر کو خلیج فارس کا نام دیا جائے یا خلیج عرب کا نام دیا جائے۔
مسلمانوں کے درمیان نا اتفاقی کی ہی وجہ سے ہی اسرائیل کا فلسطینیوں کو نکالنا، امریکہ کا عراق پر حملہ کرنا ہے، اور امریکہ کا کٹھ پتلیوں کے ذریعے اکثر خطے پر حکومت کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک وفادار خدمت کے بدلے میں صدر حسنی مبارک کو واشنگٹن سے 1.5 ارب ڈالر حاصل ہوتے تھے جس سے انہوں نے مصر میں حزب مخالف کو خریدا۔ حزب مخالف نے فلسطینیوں کی حمایت کرنے کے بجائے دولت لیا۔ لہذا، مصر غزہ کی ناکہ بندی میں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔
ایک اور عنصر امریکی ڈالر کے لئے کچھ مسلمانوں کا اپنے ہی لوگوں کے ساتھ دغا کرنا بھی ہے۔ اس سلسلے میں میری بات چھوڑیں۔ میں اس سلسلے میں جمہوریت کے فروغ کے لیے نیشنل اینڈوومنٹ فار دیموکریسی (NED)سے گرانٹ حاصل کرنے والی 1995 میں قائم شدہ ایک نجی غیر منافع بخش تنظیم [فاؤنڈیشن فار ڈیموکریسی (Foundation for Democracy)] جسے بین الاقوامی سطح پر سب سے پہلے ایران میں حقوق انسانی کا معیار تسلیم کیا گیا تھا کے سربراہ کینتھ تیمیرمین کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔
لیکن اب ہمیں معلوم ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ امریکی کٹھ پتلی تیار کرنے کے لیے مالی تعاون فراہم کرتا ہے۔ ایک انتخابی کا احتجاج کرنے کےلیے تہران میں اچانک "سبز انقلاب" کے ظہور سے قبل کینتھ تیمیرمین نے لکھا کہ نیشنل اینڈوومنٹ فار ڈیموکریسی (NED) گزشتہ ایک دہائی کے دوران یوکرائن اور سربیا جیسی جگہوں پر 'سبز' انقلابات کو فروغ دینے کے لیے جدید مواصلات اور تنظیمی تکنیک میں سیاسی کارکنوں کی تربیت پر لاکھوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی کچھ رقم موسوی نواز تنظیموں کو بھی حاصل ہوئی جن کے روابط ایران سے باہر ان غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ہیں جنہیں نیشنل اینڈوومنٹ فار ڈیموکریسی فنڈ فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا، کینتھ تیمیرمین کے مطابق موسوی کے ان دعووں کی بنیاد کو امریکہ نے فنڈ فراہم کیا تھا کہ احمدی نژاد نے گزشتہ ایرانی انتخابات کو اچک لیا ہے۔
صدر جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں یہ بات عام ہو چکی تھی کہ امریکی دولت کا استعمال اپنے ملک کے خلاف کام کرنے کے لیے ایرانیوں کو خریداری میں کیا جا رہا ہے۔ امریکی بالادستی ایران کے ساتھ اور جنگ کے ایک ہمدرد اخبار واشنگٹن پوسٹ نے 2007 میں ایک رپورٹ شائع کی کہ بش حکومت نے ایسی سرگرمیوں نے 400 ملین ڈالر خرچ کرنے کی اجازت دی تھی جس میں "ملک کے حکمران مذہبی رہنماوں کی مخالفت کرنے والے باغی گروپوں کی حمایت" بھی شامل ہے۔
اس سے امریکی حکومت کے سر "ریاست کی امداد یافتہ دہشت گردی" کا الزام آتا ہے۔ اس کی تصدیق کے لئے لیے میں یہ عرض کر دوں کہ ایران میں دہشت گرد سرگرمیوں کو انجام دینے والے ایک کارندے نے واشنگٹن میں اپنے دہشت گردی کے حامیوں کی مذمت کی۔ دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار اور بلوچ کے علیحدگی پسند گروپ کے رہنما عبد الملک ریگی کو حال ہی میں ایرانیوں نے گرفتار کیا تھا۔ ریگی نے یہ تسلیم کیا ہے واشنگٹن میں امریکیوں نے انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک بغاوت چھیڑنے کے لئے لا محدود فوجی امداد اور فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ممکنہ طور پر اسے اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ یہ امریکی طریقہ ہے۔ ایران میں سزائے موت پر خود ریگی کے چھوٹے بھائی نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایران کے اندر علیحدگی پسند جماعتوں کو براہ راست مالی امداد فراہم کیا اور یہاں تک کہ مخصوص دہشت گردانہ حملوں کا حکم بھی دیا ہے۔
7 اکتوبر، 2001 کو افغانستان پر امریکی فوجی حملے "آپریشن اینڈیورنگ فریڈم" کے بعد سےامریکہ اور اس کے نیٹو کٹھ پتلی افغان خواتین، بچوں، اور گاؤں کے بزرگوں کو قتل کر کر رہے ہیں۔ امریکہ کے کٹھ پتلی افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو خریدا گیا اور اس کے لیے انہیں امریکی ڈالر ادا کیا جاتا ہے۔
واشنگٹن سے کرزئی کو جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ اس کا استعمال ان بدعنوانیوں کو مالی معاونت فراہم کرنے میں کرتے ہیں جس سے ان کو مدد ملتی ہے۔ کرزئی کی بدعنوانی اور افغان عوام کے خلاف ان کی بغاوت اس بات پر طالبانیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنی جد و جہد جاری رکھیں اور ایک ایسی حکومت تیار کریں جو واشنگٹن، ڈی سی کے بجائے افغانستان کی خدمت کرے۔
اگر افغانستان کو واشنگٹن کے ہاتھوں فروخت کرنے والی کٹھ پتلی کرزئی نہیں ہوتے تو امریکہ کو پہلے ہی ملک سے نکال دیا گیا ہوتا۔ کرزئی امریکیوں کے لئے لڑنے کے لئے افغانیوں کو امریکی ڈالر سے نواز رہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں میں پرچم لہرانے والے حقوق نسواں کے حامی، لبرل اور سادہ ذہن لوگ یہ کہیں گے کہ یہاں جو یہ لکھا ہوا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی افغان خواتین کے حقوق کو بحال کرنے، افغانی عورتوں کی شرح پیدائش کو کنٹرول کرنے اور افغانستان میں آزادی، جمہوریت اور ترقی کو بحال کرنے کے لیے ہے، بالکل لایعنی ہے، بلکہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی ملک کے ہر گاؤں، شہر اور گھر کو زمین بوس کرنے کےلیے ہے۔ ہم، "ناگزیر لوگ" وہاں صرف بھلائی ہی کرنے کے لیے ہیں اس لیے کہ ہمیں ان کی پرواہ ہے، جبکہ وہاں امریکیوں کی موجودگی سے امریکہ کی ‘‘منشاء’’ کا پتہ چلتا ہے۔ تاہم، وائٹ ہاؤس اور کانگریس نجی انشورنس کمپنیوں کو رقم دینے کے لئے طبی امداد سے 500 ارب امریکی ڈالر کاٹنے کے لئے امریکی عوام کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ بے روزگاری بھتّہ سے لاکھوں سے امریکی محروم ہونے والے ہیں، جن کی ملازمت امیر کو مزید امیر بنانے کی نذر ہوچکی ہیں، جمعہ کے دن 26 فروری امریکی سینیٹ بے روزگاری بھتّہ کو بڑھانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
"مالی طور پر ذمہ دار" بننگ جارحیت پسند جنگوں کے لئے (بلینک چیکblank checks) کی حمایت کرتے ہیں اور بیشتر امریکیوں کی ریٹائرمنٹ کا منصوبہ بنانے کے لیے بینکوں کو رقم ادا کرتے ہیں۔ بننگ ان غیر منظم اور نمائندگی سے محروم لوگوں کو بل بھیجتے ہیں جن کی ملازمتیں کارپوریٹ، اور جن کی ریٹائرمنٹ وال اسٹریٹ انویسٹ منٹ بینکوں کی لامتناہی حرص و ہوس کی نذر ہو چکی ہیں۔
بیوقوف لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ امریکی حکومت جسے اپنے شہریوں کی قسمت سے بالکل ہی کوئی تعلق نہیں ہے، اسے افغانستان کی اتنی فکر ہے کہ وہ اس ملک میں "ترقی" اور "خواتین کے حقوق" کو بحال کرنے کے لیے اپنا خون بھی بہائے گی اور اپنے خزانے کا دروازہ بھی کھولے گی۔ جبکہ یہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو زمین بوس کر دیتی ہے؟
واشنگٹن کی ایماء پر پاکستان کی حکومت اپنے ہی شہریوں کے ساتھ برسرپیکار ہے، جس نے بہت سے لوگوں کا قتل کیا ہے اور دوسروں کو اپنے گھروں اور زمینوں سے بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اپنے شہریوں کے خلاف پاکستانی حکومت کی جنگ کی وجہ سے فوجی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کا بجٹ بگڑ چکا ہے۔ امریکی نائب وزیر خزانہ نیل وولن نے پاکستانی حکومت کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف جنگ کی قیمت ادا کرنے کے لئے ٹیکس میں اضافہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
حکمران آصف علی زرداری اپنے امریکی آقا کے احکامات کی تعمیل کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ زرداری نے پاکستان میں تقریبا تمام اشیاء اور اکثر خدمات پر ایک وسیع پیمانے پر ٹیکس کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح، پاکستانی خود کے خلاف جنگ کی مالی اعانت کرنے پر مجبور ہیں۔
عراق میں "آسان جنگ" 6 ہفتے کے وعدہ کے خلاف آج 7 سالوں سے جاری ہے، اور تقریبا ہر روز معذور و مقتول عراقی لوگوں کے ساتھ تشدد کا سلسلہ بدستور اب بھی جاری ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی عراق میں اب بھی موجود ہیں اس لیے کہ عراقی جتنی نفرت امریکی حملہ آور سے نہیں کرتے خود آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ "عراق جنگ" میں عراقی سنیوں اور عراقی شیعوں کے درمیان ایک بڑے پیمانے پر تشدد کا ارتکاب کیا گیا تھا اس لیے کہ انہوں نے ایک دوسرے کے پڑوسیوں کو ختم کر دیا تھا۔
اکثریتی شیعہ نے عراق پر امریکی حملے کو ان اقلیتی سنیوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کا ایک موقع تصور کیا جو صدام حسین دور حکومت میں کرنے والے تھے۔ لہذا، شیعہ کبھی بھی امریکی جارحیت پسندوں کے ساتھ مصروف نہیں ہوئے۔ (کل آبادی کے 20 فیصد) اقلیتی سنیوں نے شیعہ اکثریت کے خلاف جنگ کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اپنے فارغ وقت میں صرف چند ہزار سنی ہی سپرپاور امریکہ کا کوئی سنگین نقصان کرنے کے قابل تھے۔
آخر میں عرب دنیا میں مال و دولت کی طاقت کا احساس کرتے ہوئے، امریکہ نے تقریبا 80 ہزار سنیو کو امریکی فوج میں بھرتی کر لیا اور امریکیوں کو ہلاک کرنے سے انہیں روکنے کےلیے رقم ادا کیا۔ اس طرح امریکہ نے عراق میں اپنی جنگ جیتی ہے۔ عراقیوں نے امریکی ڈالر کے لئے اپنی آزادی کو فروخت کر دیا۔
اس بات کے پیش نظر کہ چند ہزار سنی بغداد یا عراق کے اکثر حصے پر قابض سپر پاور امریکہ کو روکنے کے قابل ہیں، اگر شیعوں نے حملہ آوروں کے خلاف سنیوں کے ساتھ اتحاد کر لیا ہوتا تو امریکہ شکست خوردہ ہو کر عراق سے نکل چکا ہوتا۔ یہ نتیجہ ممکن نہیں تھا اس لیےکہ شیعوں نے ان سنیوں کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے صدام حسین کے دور میں ان پر حکمرانی کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آج عراق کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں ایک ملین لوگ مارے گئے ہیں، چار ملین لوگ بے یار و مددگار ہیں، اور پیشہ ورانہ طبقہ ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ عراق، امریکی کٹھ پتلی مالکی کے تحت آج امریکہ کے تحفظ میں ہے۔
جب تک مسلمان اپنے فاتحین سے زیادہ خود آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے تب تک ان کی حیثت ایک شکست خوردہ قوم کی ہی رہے گی۔
پال کریگ رابرٹس امریکی وزارت خزانہ کے ایک سابق اسسٹنٹ سیکریٹری ہیں
بشکریہ: صوت الحق
URL for English article: https://newageislam.com/the-war-within-islam/muslim-disunity-real-cause-decline/d/106080
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-disunity-real-cause-decline/d/106106