New Age Islam
Sat May 17 2025, 05:07 AM

Urdu Section ( 29 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Dilemma in Independent India - Concluding Part آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا بحران

نریش چندر سکسینا، نیو ایج اسلام

(آخری حصہ)

 آر ایس ایس کے ایک لیڈر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جب ہم لوگوں سے ووٹ مانگنے گاؤں اور دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ اپنے ساتھ ایک ویڈیو لے کر جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا، ''موہن بھاگوت کا؟'' انہوں نے کہا، ''نہیں، اویسی کا، جس میں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں کبھی بھی بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ نہیں لگاؤں گا چاہے میرے گلے پر چھری ہی کیوں نہ چل جائے۔'' اس آر ایس ایس لیڈر نے مزید کہا، 'یہ دیکھ کر ہندو پھر اپنی معاشی پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اور ہمارے لیے ووٹ ڈالنے بوتھ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

 مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کے مطالبات کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس سے ہندوؤں کے ذہن میں مخاصمت اور شکوک و شبہات کا جنم ہوتا ہے۔ یہ اقلیت ہر وقت خود کو بطور اقلیت کے پیش کر کے اپنی پوزیشن کو کمزور کرتی ہے۔ ان کا سماجی انصاف پر حد سے زیادہ زور دینا اکثریتی برادری کے اندر منافرت کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔

 -------

 مسلم سیاسی لیڈر، یا بی جے پی کی 'بی ٹیم'؟

 پچھلے 100 سال سے زیادہ عرصے سے، مسلم سیاسی رہنما سیاسی اقتدار میں مسلمانوں کے لیے متناسب حصے داری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، آئین ہند میں مذہب کی بنیاد پر پالیسی سازی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سچر کمیٹی نے بھی اقلیتوں کے لیے باضابطہ ریزرویشن کی سفارش نہیں کی۔ مسلم قیادت اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ مسلمانوں کی معاشی فلاح بہبود کا دارومدار سیاسی اقتدار میں ان کی متناسب حصے داری کے حصول پر ہے۔ بدقسمتی سے، مسلم آبادی کی جغرافیائی کیفیت اس لائق نہیں ہے کہ کوئی سیاسی دباؤ پیدا کیا جا سکے۔ ایک معروضی تجزیہ شاید یہ اجاگر کر سکے کہ مسلمانوں کے مسائل (تشدد کے علاوہ) مسلمانوں میں اضطراب کا اتنا بڑا سبب نہیں ہیں جتنا کہ اس اضطراب کا نتیجہ اس کا سبب ہے، جو ان جیسے لوگوں کے شرائط پر سیاسی شراکت داری نہ ہونے کا نتیجہ ہے (سکسینا، 1977۔ )۔

 آج کے ایک مارڈن معاشرے میں، پارسی اور مارواڑی جیسے طبقے اپنی سماجی اور معاشی طاقت، اپنی عددی قوت یا سیاسی اثر و رسوخ سے بالکل آزاد ہو کر بھی قائم کر سکتے ہیں۔ مسلم قیادت ہندوستانی سماجی و سیاسی منظر نامے کو ایک (zero-sum game زیرو سم گیم) کے طور پر دیکھتی ہے جس میں مسلمانوں کو فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب اکثریتی برادری کو نقصان ہو۔ مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کے مطالبات کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس سے ہندوؤں کے ذہن میں مخاصمت اور شکوک و شبہات کا جنم ہوتا ہے۔ یہ اقلیت ہر وقت خود کو بطور اقلیت کے پیش کر کے اپنی پوزیشن کو کمزور کرتی ہے۔ ان کا سماجی انصاف پر حد سے زیادہ زور دینا اکثریتی برادری کے اندر منافرت کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔

 وادی کشمیر اور لکشدیپ کو چھوڑ کر، 1971 میں ہندوستان میں صرف دو اضلاع تھے جن میں مسلم اکثریت میں تھے، کیرالہ میں ملاپورم اور مغربی بنگال میں مرشد آباد۔ اگرچہ ان اضلاع کی تقسیم، بنگلہ دیش سے نقل مکانی اور مسلمانوں میں شرح افزائش کی وجہ سے اب یہ تعداد بڑھ کر 11 فیصد ہو گئی ہے، لیکن باقی 600 اور طاق اضلاع میں لوک سبھا کے لیے ایک مسلم امیدوار کو بھی ہندو ووٹ حاصل کرنے پڑتے ہیں، لہذا، انہیں 'فرقہ پرست' نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ اگرچہ 1967 سے 1980 کے دوران مسلمان، خاص طور پر شمال میں، اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی تحلیل پر بہت زیادہ غمزدہ تھے، لیکن یوپی اور بہار کے کسی بھی مسلم ایم پی نے اس مسئلے کو اس خوف کی بنیاد پر اٹھانے کی ہمت نہیں کی کہ کہیں ہمارے حلقہ کے ہندو ہماری حمایت کرنا چھوڑ نہ دیں۔

 یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ رام پور، حیدرآباد اور کشن گنج کے مسلم اکثریتی حلقوں سے اعظم خان، اسدالدین اویسی اور سید شہاب الدین جیسے ممبران پارلیمنٹ کو منتخب کیا گیا، جو مسلم عوام میں اپنی زبردست مقبولیت کے لیے جانے جاتے ہیں، جبکہ اکثریتی طبقہ ان سے اتنی ہی نفرت بھی کرتا ہے۔ ان میں سے سید شہاب الدین کو آزاد ہندوستان میں شناخت کی سیاست کا علمبردار قرار دیا جا سکتا ہے (احمد، 2020)۔ انہوں نے حکومت اور قانون ساز اداروں دونوں میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا (احمد، 2009)۔ وہ آزادی کے بعد سب سے قدآور مسلم لیڈر تھے اور شاہ بانو اور سلمان رشدی کے خلاف ان کی جارحانہ مہمات نے پہلے راجیو گاندھی کو ان کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا، لیکن پھر انہوں نے ہندوؤں کا دل جیتنے کے لیے مجبوراً بابری مسجد-رام جنم بھومی کا دروازہ کھولا۔ جس سے بی جے پی کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔

آر ایس ایس کے ایک لیڈر نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جب ہم لوگوں سے ووٹ مانگنے گاؤں اور دیہاتوں کو رخ کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ اپنے ساتھ ایک ویڈیو لے کر جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا، ''موہن بھاگوت کا؟'' انہوں نے کہا، ''نہیں، اویسی کا، جس میں وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں کبھی بھی بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ نہیں لگاؤں گا چاہے میرے گلے پر چھری ہی کیوں نہ چل جائے۔'' اس آر ایس ایس لیڈر نے مزید کہا، 'یہ دیکھ کر ہندو پھر اپنی معاشی پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اور ہمارے لیے ووٹ ڈالنے بوتھ کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

 مسلم سیاست دان اپنے ووٹروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر اقلیتیں سیاسی سودے بازی کے لیے اپنی ووٹنگ طاقت کا استعمال کرنا جان لیں تو وہ کنگ میکر بن سکتی ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کے لیے، اے آئی ایم آئی ایم جیسی سیاسی پارٹی ان کی امنگوں کی امین ہیں، حالانکہ ان کی زندگی مسلمانوں میں شکایت کے احساس کو فروغ دینے سے ہے اور یہ ہمیشہ عداوت اور نفرت کو زندہ رکھتی ہیں۔ فسادات اور رہائش اور نجی ملازمتوں میں امتیازی سلوک کے لحاظ سے اس کے بہت زیادہ سماجی اور معاشی مضمرات ہیں۔ فرقہ وارانہ یکجہتی اور فرقہ وارانہ تشدد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یہاں نسان سید کے تبصرے (2020) قابل ذکر ہیں، 'آزادی کے بعد سے، فرقہ پرست مسلم قیادت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تباہ کن رہی ہے۔ مسلمانوں کی یہ مشکل اتنی ہی جہل پسند مسلم قیادت کی پیداوار ہے جتنی فرقہ وارانہ سیاست اور ہندوتوا طاقتوں کی تعصب کی۔ اگر ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو سیاسی طور پر مذہبی خطوط پر منظم کرتے ہیں تو اس سے اکثریتی طبقے کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔'

 یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ مسٹر بہوگنا، جنہیں مسلمانوں کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا، 1974 میں مجھ سے دو بہ دو بات چیت میں (میں اس وقت علی گڑھ کا ڈی ایم تھا) کہا، 'ہندوستان کا مسلمان ایک دیڑھ ٹانگ کا آدمی ہے، یہ کبھی سیدھا نہیں چل سکتا۔

 استعماریت کے دور میں ہندوستانی مسلمانوں نے جذباتی طور پر دو تحریکوں کی حمایت کی، خلافت اور تقسیم۔ پہلے تحریک کا مقصد عرب قوم پرستی پر ترک سامراج کی حمایت کرنا اور اپنے ملک کے اندر برطانوی سامراجیت سے لڑنا تھا۔ اور مؤخر الذکر کے نتیجے میں وہ متناسب نمائندگی جیسے تمام تحفظات سے محروم ہو گئے جو انہیں غیر منقسم ہندوستان میں حاصل ہوتے۔ شاہ بانو کے معاملے میں بھی مسلمانوں کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا، اور ان پر اس کے منفی اثرات پر پہلے ہی بات کی جا چکی ہے۔

 اگرچہ سی اے اے کے معاملے میں شاہین باغ کی تحریک، جس سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی بات سچ ثابت ہوتی ہے، پورے مسلم سماج کے گہرے اور بجا اضطراب کی عکاسی کرتی ہے اور اسے غیر مسلم دانشوروں کے ایک بڑے طبقے کی حمایت بھی حاصل تھی، لیکن اس کا استحصال بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کیا اور ہو سکتا ہے کہ انتخابی طور پر اس سے انہیں فائدہ بھی ہوا ہو۔

 مسلم مذہبی قیادت

 آزادی کے بعد، مذہبی رہنماؤں اور اسلام پسند تنظیموں کا ہندوستانی مسلمانوں پر ایک گہرا اثر رہا ہے۔ مسلم علمائے کرام نے ’’مذہبی تفریق‘‘ کی سیاست کی، جو محض علامت پرستی سے بھری ہوئی ہے۔ وہ مسلمانوں کے سماجی و مذہبی مفادات کی آبیاری کے لیے زیادہ فکر مند رہے، بجائے اس کے کہ ان کی معاشی ترقی کی راہ نکالی جاتی (جافریلوٹ اور گائر، 2012)۔ شاہ بانو کے ایک سادہ مسئلے کو مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ ان کے لیے ضروری ہے کہ اگر مسلم عوام کو مستقل طور پر چوٹ کا احساس دلایا جاتا رہے تو یہ قوم ان کی قیادت کو برقرار رکھے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کے صدر مولانا عبدالحسن ندوی نے شریعت کے تحفظ کو 'ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ' قرار دیا۔ علی (2019) کے مطابق، مسلم علمائے کرام مسلمانوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں نہ صرف مسلسل ناکام ثابت ہوئے بلکہ وہ ان حقوق کو سلب کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔ مذہبیت کا فروغ مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، کیونکہ مذہبی قیادت کو اس بات کی کوئی سمجھ نہیں تھی کہ کیسے مسلمانوں کو خوشحالی اور ترقی کے راستے پر لگایا جائے۔ 'علماء نے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا جس سے پورے مسلم معاشرے کو نقصان اٹھانا پڑا' (رحمن 2020)۔ صوفی اسلام سے سلفی یا وہابی اسلام کی طرف بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا مائل ہونا بھی انہیں شک کے دائرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔

ایم آر اے بیگ، جو انڈین فارن سروس میں تھے (1974) مسلمانوں کے اندر جمود و تعطل کی بنیاد راسخ العقیدگی کو قرار دیتے ہیں، جو مسلمانوں پر مذہب کی مضبوط گرفت کی وجہ سے برقرار ہے۔ ان کے مطابق، 'ہم بطور ایک معاشرے کے، ایک مکمل طور پر منجمد مذہبی نظام کے اندر، ذہنی اور اخلاقی طور پر مقید ہیں' (صفحہ 101)۔ اسلام نظریات اور اداروں کے تنقیدی جانچ پرکھ کے بجائے اتھارٹی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے بیگ کا کامل یقین ہے کہ جب تک مسلمان معاشرے کے اندر سماجی اصلاح کی داغ بیل نہیں ڈالتے، مسلمان فرقہ واریت اور سماجی انحطاط، معاشی جمود اور تعلیمی پسماندگی سے نجات نہیں پا سکتے۔ وہ اس بات کو لیکر پرامید ہیں کہ 'اسلام کی نہ صرف اصلاح کی جانی چاہیے بلکہ اس کی اصلاح کی بھی جا سکتی ہے' (p. vii

 حامد دلوائی جیسے مصلحین جن کے پاس 'اپنی قوم کو قرون وسطی کی ذہنیت سے آزاد کر کے جدید دنیا کے ساتھ مکمل آہنگ کرنے کی صلاحیت تھی' (گوہا 2018) بدقسمتی سے مسلم عوام نے قبول نہیں کیا۔ اصغر علی انجینئر اور جے ایس بندوک والا کو، جنہوں نے قوم مسلم کی داخلی اصلاحات کی تجویز پیش کی تھی، قوم نے نکال باہر کر دیا۔ میکسم روڈنسن (1974) اپنی کتاب 'Islam and Capitalism اسلام اور سرمایہ داری' میں لکھتے ہیں کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے نظریے کے طور پر اسلام ناقابل عمل ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی مسلم معاشرہ ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے ایک گہری تبدیلی سے گزرنا ہوگا اور اسلام کی فرسودہ تشریحات کی جگہ مذہبی اور انسانیت پسندانہ اقدار کو اختیار کرنا ہوگا، جس سے معیشت اور معاشرہ دونوں کو فائدہ ہوگا۔

 [1]خلافت کے رہنما محمد علی السیطال کا ایک بیان، 'مسٹر گاندھی کا کردار کتنا ہی خالص کیوں نہ ہو، وہ مجھے مذہب کے اعتبار سے کسی بھی مسلمان سے کمتر معلوم ہوتے ہیں، چاہے وہ بد کردار ہی کیوں نہ ہو'۔ بعد میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی آپ کی مراد یہی تھی، تو انہوں نے کہا 'ہاں، میرے مذہب اور عقیدے کے مطابق، میں ایک زانی اور بدکردار مسلمان کو مسٹر گاندھی سے بہتر سمجھتا ہوں۔' (امبیڈکر1941)

 [1] صوفی اسلام ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا اثاثہ رہا ہے، جسے اب وہ بھولتے جا رہے ہیں۔ ایک بااثر دیوبندی عالم اور جمعیت علمائے ہند کے رہنما ارشد مدنی نے تصوف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'تصوف ہمارے دین خا حصہ نہیں ہے۔ اس کی قرآن و حدیث میں کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ تو تصوف اپنے آپ میں ہے کیا؟ تصوف ان لوگوں کے لیے ہے جو قرآن و حدیث نہیں جانتے۔' https://indiahome/indianews/article-3501764/Jamiat-chief-Madani-claims-Sufism-brands-World-Sufi-Forum-NDA-bid-divide-Muslims.html

 ان منفی فیصلوں کو اسلام کے متعدد دیگر باشعور علماء نے چیلنج کیا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایک عام سی بات ہے کہ اسی طرح کے سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والے مسلمان بچے غیر مسلموں کے مقابلے میں اسکولوں اور کالجوں میں انتہائی خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں دیگر برادریوں سے زیادہ پچھڑے ہیں، لیکن یہ محض اتفاق کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جیسے کہ ملیشیا، لبنان، نائجیریا اور مصر۔

 جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کی حالت ابتر ہے۔ اس سلسلے میں تھائی لینڈ، سنگاپور، ماریشس، فلپن، روس اور سری لنکا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں مسلمانوں نے جدید پیشوں میں بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں بھی یہ یاد رہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں تقریباً 700 سال تک مسلم ہی برسراقتدار تھے۔ 1820 سے 1880 کے تقریباً 60 سالوں کے علاوہ برطانوی پالیسی بھی انہیں کے حق میں رہی تھی۔

آئین ہند میں انفرادی مساوات کی ضمانت دی گئی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ اتنی صدیوں تک تخت حکومت پر براجمان رہنے، پھر انگریزوں کی نوازشات اور اب حکومت ہند کی جانب سے مساوی مواقع کی فراہمی کے باوجود، مسلمان آج غیر مسلموں سے بہت پیچھے ہیں؟ صرف اشرافیہ کا پاکستان ہجرت کر جانا ہی اس بات کی بنیاد نہیں بن سکتا کہ اعلیٰ تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی کم ہے، کیونکہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے جہاں سے بہت کم مسلمانوں نے ہجرت کی ہے، اور جہاں وہ باقیوں سے کم غریب ہیں۔

 اب کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

 خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو انفرادی طور پر تحفظ اور بھید بھاؤ سے آزاد ماحول فراہم کرنا بنیادی طور ہر انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر عام لوگ 'شرما ٹیلروں' کو ترجیح دیں، اور 'حبیب ٹیلروں' کو نظر انداز کر دیں تو اب حکومت کر ہی کیا سکتی ہے؟ زیادہ تر مسلمان خود کا اپنا کوئی نہ کوئی روزگار کیے ہوئے ہیں، اور ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے تعصب کی وجہ سے ان کی روزی روٹی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیڈروں کو بھی پورے اطمینان و سکون کے ساتھ اس بات کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ ہندو ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں اور آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا کیوں اتنی آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔

 جب تک ہندوؤں کے ذہن و دماغ میں تعصب زندہ رہے گا، کوئی 'سیکولر' حکومت بھی ایسی پالیسی شروع کرنے سے گریز کرے گی جس سے مسلمانوں کو فائدہ حاصل ہو۔ 2013 میں نیشنل ایڈوائزری کونسل (این اے سی) جس کی بناء کانگریس حکومت نے ڈالی تھی، اس نے ایک نئے فرقہ وارانہ تشدد بل کی سفارش کی، جس میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کی صورت میں مذہبی اقلیتوں کو یکساں تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ 2013 میں ایک ٹی وی بحث کے دوران جب میں نے اس بل کا بھرپور دفاع کیا، تو بی جے پی کے راجیو پرتاپ روڈی نے اس کی مخالفت کی۔ بحث کے بعد، چائے پیتے ہوئے، مسٹر روڈی نے مجھ سے درخواست کی، 'سکسینا صاحب، اگر آپ یہ بل پاس کراتے ہیں تو ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ ہم ہندوؤں کا ووٹ حاصل کر لیں گے اور صرف اسیق مدے پر ہی الیکشن جیت جائیں گے۔ کانگریس حکومت نے ہندوؤں کے ردعمل کے خوف سے این اے سی کی سفارش کو مسترد کر دیا۔

 سوڈان کے علاوہ، بنگلہ دیش نے، جو کہ اگرچہ ہندوستان سے غریب تر ملک ہے، سماجی اشاریوں پر کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جس کی وجہ بنیادی طور پر، اس کی متحرک سول سوسائٹی اور بیرونی عطیہ دہندگان کا ترقیاتی پروگراموں کی قریب سے نگرانی کرنا ہے۔

 ملیشیا کے معاشرے کے ایک مطالعہ میں، پارکنسن (1967) نے کہا ہے کہ ملیشیا کی پسماندگی کی وجہ تبدیلی ست اس کا گریزاں ہونا اور زندگی کے بارے میں ان کا جبریہ نقطہ نظر ہے۔

 ملازمتوں میں متناسب ریزرویشن کے باوجود، نوآبادیاتی دور میں بھی یوپی میں مسلم اشرافیہ نے اعلیٰ تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں ظاہر کی، جس کی بہترین وضاحت اکبر الہ آبادی کے اس مزاحیہ مصرعے سے ہوتی ہے، 'کہا مجنوں سے لیلیٰ کی...'۔

 محفوظ اقلیت (شیڈول کاسٹ کے مشابہ) تسلیم کیے جانے کی مسلمانوں کی خواہش انہیں کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ اس طرز عمل نے مسلمانوں کو اکثریتی طبقے سے مزید دور کر دیا ہے اور ایک ایسی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لا کھڑا کر دیا جو نظریاتی طور پر اور انتخابی مفادات کے پیش نظر مسلمانوں کے سخت خلاف ہے۔ ایک لبرل جمہوریت میں اشتعال انگیز سیاست کا راستہ اس وقت تک مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ ہندوؤں کے ذہن و دماغ پر منافرت اور دشمنی کا جذبہ حاوی ہے۔ ہندو انتہا پسندی نے انتقامی جذبے کے ساتھ اپنا سر ابھارا ہے۔ بی جے پی کے عروج نے انتخابات میں مسلمانوں کی اہمیت ختم کر دیا ہے (علی، 2019)۔ ایودھیا فیصلے کے بعد سیدہ حمید نے اعتراف کیا (2020)، 'میں اپنے ہم مذہبوں سے عاجزی کے ساتھ کہتی ہوں کہ ہمارے پاس کوئی طاقت، کوئی ایجنسی اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے'۔

دیگر آزادی خیال لوگوں کی طرح، میں نے بھی شاہین باغ کے احتجاج کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جو خواتین کی قیادت میں ایک غیر متشدد، تخلیقی اور متاثر کن تحریک کے طور پر سامنے ائی۔ اس تحریک کا ایک سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ ملک بھر کی خواتین ہندوستان کے نظریہ کی حفاظت اور حکومت کو جوابدہ بنانے کے لیے اکٹھا ہوئیں (نگم، 2020)۔ تاہم، اس بات کا امکان نہیں تھا کہ بی جے پی حکومت شہریت سے متعلق ان سخت ترین قانون کو واپس لے لیتی۔ بلکہ اس بات کا امکان زیادہ تھا کہ بی جے پی اس موقع کا استعمال مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دینے کے لیے کرتی۔ اس حد تک، اس تحریک سے طویل مدتی فوائد پر بحث کی جا سکتی ہے۔

 ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا سب کا حق ہونا چاہیے۔ احتجاجی تحریکیں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ پسماندہ طبقے کو بااختیار بھی بناتی ہیں۔ لیکن یہ معاشرے میں تفرقہ اور عناد کو بھی جنم دیتی ہیں اور ایک قسم کا ہم بمقابلہ تم کا احساس بھی پیدا کرتی ہیں۔ کچھ پسماندہ طبقے جیسے دلت (اور خواتین بھی) پولرائزیشن کی قیمت کو آسانی سے نظر انداز کر سکتے ہیں، کیونکہ احتجاج کے فوائد اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں نے اشتعال انگیز سیاست سے ہندوستان میں کافی فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ مسلمانوں کی صورت حال دو طرح سے مختلف ہے۔ اول، دلت قانون ساز اداروں اور انتظامیہ میں متناسب نمائندگی کے لحاظ سے آئینی تحفظات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جسے مسلمانوں نے تقسیم کی حمایت کرنے کی پاداش میں 1947 میں ہی کھو دیا تھا۔ کوٹے پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ناراضگی کے باوجود، کوئی بھی سیاسی پارٹی تحفظات کو کم کرنے کا اشارہ دینے کی بھی جرأت نہیں کر سکتی۔ دوم، کوئی بھی سیاسی پارٹی، یہاں تک کہ بی جے پی بھی انتخابی سیاست میں دلتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی، لیکن دوسری طرف پولرائزیشن اور مسلمانوں کو جارحانہ اندازد میں دیکھتی ہے۔ چونکہ بی جے پی کا انحصار مسلم میں نشانہ بنانے کو بی جے پی اپنے انتخابی مفا ووٹوں پر نہیں ہے، اس لیے وہ نہ صرف ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتی ہے بلکہ اس قسم کی تحریکوں سے فائدہ اٹھاتی ہے اور ہندو ووٹ اکٹھا کرتی ہی۔ اسی کو میں مسلمانوں کا مخمصہ کہتا ہوں، کیونکہ ناانصافی کے خلاف ان کا غصہ انہی قوتوں کو مضبوط کرتا ہے جو ان پر ظلم کرتی ہیں۔ ہمارے سابق نائب صدر حامد انصاری نے بجا طور پر کہا تھا، 'امتیازی سلوک کے خلاف کوئی بھی تحریک ان جذبات کو مزید ابھار سکتی ہے جو امتیازی سلوک کو فروغ دیتے ہیں اور یہ مسلمانوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے' (نورانی، 2004)۔

 ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر فرد کی متعدد شناختیں ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کو بلاشبہ کاریگروں خی حیثیت سے، بے روزگاری یا غریبی کے خلاف ضرور احتجاج کرنا چاہیے، لیکن مذہب کا سہارا لیے بغیر۔ لیکن حال تو یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے اب اپنی مذہبی شناخت کا زور و شور کے ساتھ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک طرف خواتین حجاب پہن کر اپنے مذہبی جذبے کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو دوسری طرف مردوں نے داڑھی بڑھانا اور ٹوپیاں پہننا شروع کر دیا ہے (سلیم، 2017)۔ جبکہ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کے مطالبات غیر فرقہ وارانہ ہوں۔ یوپی میں زیادہ تر بنکر مسلمان ہیں۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں، سوت کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا، جس سے ان کی روزی روٹی بری طرح متاثر ہوئی۔ لیکن Radiance & Daawat جیسے نام نہاد مسلم جرائد میں، اس مسئلے پر ایک بھی مضمون دیکھنے کو نہیں ملا۔ بلکہ جرائد و رسائل اے ایم یو کے اقلیتی کردار، پرسنل لاء، مقننہ میں ناقص نمائندگی وغیرہ جیسے معاملات میں الجھے رہے۔19ویں اور 20ویں صدی کے دوران معاشی ترقی کے فروغ کے نام پر ملوں اور مشینوں کے ذریعے اعلی پیمانے پر پیداوار کو فروغ دیا گیا جس سے ایک بڑی تعداد میں مسلم کاریگر بے روزگار ہو گئے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ اس وقت کی مسلم قیادت نے کاریگروں کی حالت زار پر آواز نہیں اٹھائی تھی۔

بلکہ اس کے بجائے حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان ہندو ناموں کو اپنائیں، جو کہ مسلم فلمی ستاروں (دلیپ کمار، مدھوبالا) نے 1950 کی دہائی میں اپنی قبولیت میں اضافہ کرنےکے لیے اپنایا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ تھائی لینڈ اور چین میں مسلمانوں کا سرکاری نام مقامی ہونا ضروری ہے، ان کا نام اسلامی نہیں ہو سکتا۔

کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیب اور رہنما اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور نچلی ذات کے مسلمانوں کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں؟

 اگر بات معاشی مسائل پر کی جائے، مثلا مسلم بستیوں میں صفائی کے فقدان کا مسئلہ، تو بی جے پی حکومت کا بھی اس پر مثبت ردعمل ہوگا۔ زبان، علاقے یا ذات کی بنیاد پر ہونے والی تفریق کے مقابلے میں آج ہندوستان میں مذہبی تفریق کو بہت کم قانونی حیثیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر، پیشہ ورانہ تربیتی اسکولوں کے معیار میں بہتری سے یقیناً مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا، جو زیادہ تر آزاد پیشے سے منسلک ہیں، لیکن مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے اس طرح کے مطالبات شاید ہی اٹھائے جاتے ہوں۔

مسلمانوں کے حق میں مطلوبہ تعمیری اقدام عدل و انصاف کے نقطہ نظر سے اٹھایا جا سکتا ہے لیکن بدلے ہوئے حالات میں اب یہ ممکن نہیں رہا۔ ہمیں ضروری اور قابل عمل کے درمیان فرق کرنا سیکھنا چاہیے، کہ کیا کرنا ضروری ہے بمقابلہ کیا کرنا ممکن ہے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں فی الحال ہندوستان کی حالت ایک ہندو راشٹر کی سی ہو چکی ہے۔ مسلمان اور ان سے ہمدردی رکھنے والے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اب مسلمانوں کو طالبانی کہلائے جانے سے روکا جائے۔ جب اتنی بڑی بڑی مصیبتیں ٹوٹ رہی ہوں تو مسلمانوں کی ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ اپنا فائدہ کس طرح بڑھایا جائے، بلکہ ان کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اپنے نقصانات کو کیسے کم کیا جائے۔ جب مظاہروں سے منفی نتائج برآمد ہونے لگیں، تو مسلمانوں کو اس بات ہر غور کرنا چاہیے کہ ہم اکثریتی طبقے کی منافرت اور عداوت کو مدعو کیے بغیر اپنی بہتری کے لیے خود اپنے دم پر کیا کر سکتے ہیں، اور کس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور اپنے خلاف ہندوؤں کے تعصب کو کم کیا جائے۔ حکومت پر مکمل انحصار کا رویہ اختیار کرنے کی کوئی بھی کوشش، یا سماجی انصاف کے لیے تحریک چلانے، یا باقی پورے ملک کے لوگوں سے اپنے مفادات کو زیادہ الگ ثابت کرنے کی کوشش دشمنی اور منافرت کو دعوت دیتی ہے، جس سے حکومتی اقدامات بھی کمزور پڑ جاتے ہیں، خواہ حکمران جماعت سیکولر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ جماعتیں بھی مسلمانوں کا مسیحا بن کر اپنی مقبولیت کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیں گی۔

 مسلمانوں کے سامنے آج چار قسم کی سنگین مجبوریاں ہیں - ہندوؤں کا تعصب، بی جے پی کا اقتدار میں ہونا، جغرافیائی تقسیم، اور آئین ہند جو مذہب کو طبقاتی حقوق کی بنیاد تسلیم نہیں کرتا۔ ہندوستانی عدالتیں بھی آج کل غیر منصفانہ قوانین کو کالعدم قرار دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر سی اے اے اور حال ہی میں بی جے پی کی حکومت والی متعدد ریاستوں کی طرف سے منظور کردہ تبدیلی مذہب مخالف قوانین۔ ایسا لگتا ہے کہ ان ریاستوں نے آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈوں کو بے گناہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور مارنے پیٹنے کے لیے پولیس کے سے غیر رسمی اختیارات دی ہوئی ہیں۔

 ان سب کی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے کوئی چارہ نہیں بچتا سوائے اس کے کہ وہ اپنے اندر نظر ڈالیں اور صلاحیت کی بنیاد پر کامیابی اور سرخروئی حاصل کریں۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے بجائے جو کہ اب بے اثر ہو چکا ہے، مسلمانوں کو اپنے اندر تلاشی لینی چاہیے اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے وسائل اور اپنی توانائیوں کو یکجا کر کے اپنی سماجی و اقتصادی حیثیت کو کس طرح بہتر کر سکتے ہیں، اور یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس سے اکثریتی طبقے کے اندر دشمنی کے بجائے مسلمانوں کے لیے عزت پیدا ہوگی۔ اس کے لیے ایک نئی قسم کی قیادت کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو خود مختار بنا کر مسلمانوں میں ایک نئی سماجی تحریک کی بنیاد ڈالے۔ ہندوؤں کے درمیان ایسی بہت سی تحریکیں چل رہی ہیں - بنگال میں بھرمو سماج، شمال میں آریہ سماج، اور جنوب میں جسٹس موومنٹ اور ایس این ڈی پی، اور اب وقت آ گیا ہے کہ پسماندہ مسلمان بھی اسی طرح کی پہل کریں۔

 ایک جامع اور کثیر ثقافتی ہندوستان کی تعمیر کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندو مسلم اتحاد یقیناً ضروری ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اس لیے مسلم رہنماؤں کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے کس انداز میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہندو والدین اپنے بچوں کو عیسائی کانونٹ اسکولوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں، مگر مدرسہ کیوں نہیں؟ انگلش میڈیم مدارس کیوں نہیں فروغ دیے جاتے - ہر اقلیتی ضلع میں کم از کم ایک ایسا مدرسہ ہو اور ان مدرسوں کا دروازہ دوسروں کے لیے بھی کھولا جائے؟ اگر مسلمانوں کے ادارے - جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ شامل ہیں - عالمی معیار کے ہو جائیں، تو یقیناً مسلمانوں کی شبیہہ بہتر ہوگی۔ مسلمانوں کو ایک اور سرسید کی ضرورت ہے، نہ صرف اعلی پیشوں میں مسلمانوں کی شراکت داری کو بڑھانے کے لیے بلکہ ان کی شبیہ کو بھی بہتر بنانے کے لیے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب آئندہ 20 سالوں میں ملک کے بہترین ڈاکٹر، اساتذہ اور سافٹ ویئر کے ماہرین مسلمانوں میں سے ہوں۔ کیوں ان کی صلاحیتوں کو صرف موسیقی اور فلموں تک ہی محدود رکھا جائے؟

 بندوک والا لکھتے ہیں، 'ابھی مسلمانوں کو جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے معیاری تعلیم، کاروبار اور صنفی احترام پر مکمل توجہ دی جائے۔ https://www.justicenews.co.in/indian-muslims-have-become-orphans-what-do-we-now-bandukwala/

 مسلمان ایسے مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کے چکر میں پڑ کر خود اپنی قبر کھود رہے ہیں جو انہیں طبقاتی مراعات دلوانے کا خواب دکھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان کے ایسے دعوے اب تک ایک سراب ہی ثابت ہوئے ہیں، جن سے ہندوؤں میں عداوت اور دشمنی مزید بڑھی ہے، جس سے مسلمانوں کی روز مرہ کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے سب سے قد آور مسلم لیڈر سید شہاب الدین نے حکومت ہند کے متعصبانہ رویے کے خلاف مؤثر انداز میں آواز اٹھائی، لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنی توانائیاں منظم انداز میں مسلم معاشرے کی داخلی اصلاحات میں صرف نہیں کیں۔ ان کا یہ رویہ سرسید کی سوچ سے بہت الگ تھا کیونکہ سرسید نے ہمیشہ داخلی اصلاحات اور جدید تعلیم پر زور دیا اور سیاست ان کی ثانوی ترجیحات میں تھی، لیکن شہاب الدین صاحب سیاست کو لیکر اتنے پرجوش تھے گویا کہ ان کا واحد مقصد ہندوستانی سماج کو پولرائز کرنا تھا اور یہی ہندوستان میں ان کی سیاسی سرگرمی کا سب سے منفی پہلو بھی تھا'، پی محمد (2013)۔

تقریباً 20 سال پہلے نسیم زیدی (2001) بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے:

 'سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی کم نمائندگی پر حقائق/اعداد و شمار کی محض تکرار، یا اسے مسلمانوں کے لیے بطور ایک طبقے کے ریزرویشن کوٹہ کے مطالبے کی بنیاد بنانا، ایک فضول کوشش معلوم ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ اس سے مسئلہ حل نہ ہو جیسا کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہوتا آیا ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لیے مسلمانوں کو ایک ایسی عوامی تحریک کی ضرورت ہے جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہو۔ تحریک کا آغاز بنیادی تعلیم سے ہونا چاہیے۔

 کیا مسلمانوں میں ایسی تحریک کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں؟ کاش کہ ایسا ہوتا۔

 یاد رہے کہ علامہ اقبال نے جواب شکوہ میں لکھا تھا ’’خدا نے مسلمانوں پر ظلم نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔

حوالہ جات

 Ahmed, H. (2009). Muslims as a political community. In India Seminar 602 India’s Religious Minorities: A Symposium on Exclusion, Identity, and Citizenship.

Ahmed, H. (2020). Politics of Constitutionalism: Muslims as a Minority. Minorities and Populism–Critical Perspectives from South Asia and Europe, 10, 95.

Aiyar, S. (2016). Twenty-Five Years of Indian Economic Reform: A Story of Private-Sector Success, Government Failure, and Institutional Weakness. Cato Institute Policy Analysis, (803).

Alam, T., & Kumar, S. (2019). Social and economic status of backward Muslims in Uttar Pradesh: need for an inclusive policy? Social Change, 49(1), 78-96.

Ali, Asim (2019). Not just Hindutva, India’s useless ulema leadership has silenced Muslims today, The Print, 18 November, at https://theprint.in/opinion/not-just-hindutva-indias-useless-ulema-leadership-has-silenced-muslims/321974

Allport, Gordon (1954). The Nature of Prejudice. Cambr., Mass.

Ambedkar, BR (1941). Thoughts on Pakistan, Thacker and Company Ltd

Bader, Zubair Ahmad (2019). Muslims, Affirmative Action and Secularism, Attempting a Possible Reconciliation, Economic & Political Weekly, October 19, vol LIV no 42

Baig, M.R.A. (1974). The Muslim Dilemma in India, Vikas, Delhi

Banerjee, Ruben (2020). Indian Muslims: Us, Them And A Common Ground, at https://magazine.outlookindia.com/story/indian-muslims-us-them-and-a-common-ground/302734https://magazine.outlookindia.com/story/indian-muslims-us-them-and-a- common-ground/302734

Dayal, Rajeshwar (1999). A Life of Our Times, New Delhi, pp.93-94

Dhavan, R. (1994). The Ayodhya Judgment: Encoding Secularism in the Law. Economic and Political Weekly, 3034-3040.

Godbole Madhav (2019). ‘The Babri Masjid-Ram Mandir Dilemma: An Acid Test for India’s Constitution.’ Konark

Guha, Ramachandra (2018). Liberals, sadly, Indian Express, March 24

Guha, Ramachandra (2020). The Delhi Police Degrades Democracy, at https:// ramachandra-guha-2259035

Hameed, Syeda (2020). The Ayodhya verdict: Is this justice? I ask myselfhttps://www.hindustantimes.com/analysis/the-ayodhya-verdict-is-this-justice-i-ask-myself/story-krRBa0Sn6kJxTZdFFF5XEP.html, at https:// ask-myself/story-krRBa0Sn6kJxTZdFFF5XEP.html)

Hasan, Zoya M. (1980). Communal and Revivalist Trends in Congress. Social Scientist, 52- 66.

Hasan, Zoya (1989). Minority Identity, Muslim Women Bill Campaign and the Political Process, Economic and Political Weekly, 7 Jan

Hasan, Zoya (2014). Politics without the minorities, Hindu, September 5

JaffrelotJarelot Christophe, and Kalaiyarasan AKalaiyarasan A: (2019) Indian Express, November 1, https://indianexpress.com/article/opinion/columns/muslim-community-youth-india-marginalisation-6096881

Jangid, Khinvraj (2019). Modi's Malignant anti-Muslim Vision for India is Becoming Reality, at https://anti-muslim-vision-for-india-is-becoming-reality-1.8287113

Madani, Maulana Asad, (1987). What Prominent Muslims Say: It is No Crime for Muslim Women to Raise Voice against Oppression, in The Shahbano Controversy, ed. Ali Ashgar Engineer (Hyderabad: Orient Longman,), 209

Mander, H., Bhattacharya, A., Mishra, V., Singla, A., & Siddiqi, U. J. (2019). Unequal Life Chances: Equity and the Demographic Transition in India. Sage Publications Pvt. Limited.

Mohammed U., 'Educational Problems of the Muslim Minority in Kerala,' in Ashgar Ali Engineer, Kerala Muslims: A Historical Perspective New Delhi: Ajanta , 1995

Naim, C. M. (1995). Urdu Education in India: Some Observations. minds.wisconsin.edu

Nigam, S. (2020). Many Dimensions of Shaheen Bagh Movement in India. at SSRN 3543398. https://ssrn.com/abstract=3543398https://ssrn.com/abstract=3543398or  ssrn.3543398http://dx.doi.org/10.2139/ssrn.3543398

Noorani, A.G. (2004). The Constitution of India and Muslim Politics. Studies of Islam, 1(1), 1-8.

Noorani,  A.G. (2004). Muslims of  India : Past and present', on the occasion of the 12th Asghar Ali Engineer Memorial Day at the Constitution Club in Delhi on 23 November

Panagariya, A., & More, V. (2014). Poverty by social, religious and economic groups in India and its largest states. Indian Growth and Development Review.

Parkinson, B. K. (1967). Non-economic factors in the economic retardation of the rural Malays. Modern Asian Studies, 1(1), 31-46.

Patel, Vallabhbhai, (1989). For a United India: Speeches of Sardar Patel, 1947-1950, Delhi: Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting, Govt. of India

Rai, Vibhuti N. 2016: Hashimpura 22 May, Penguin

Rauf, Taha Abdul (2011). Violence Inflicted on Muslims: Direct, Cultural and Structural, Economic & Political Weekly June 4,

Razzack Azra (2019). Schooling and the Intra-world of Muslim Community, Economic & Political Weekly, January 26.

Robinson Rowena (2007). Indian Muslims: The Varied Dimensions of Marginality, Economic and Political Weekly, March 10

Rodinson, Maxime (1974). Islam and Capitalism, Allen Lane, Penguin, London

Salim, S. (2017). Integration of Muslims into the Larger Social System in Kerala. Academia, March.

Saxena, N. C. (1977). Indian Muslims- A crisis in identity. Administrator. 22

Saxena, N. C. (1984). The nature and origin of communal riots in India in Ashgar Ali Engineer, ed., Communal Riots in Post-Independence India Sangam Books, pp. 51–67

Saxena, N. C. (1989). 'Public Employment and Educational Backwardness Among the Muslims in India' in Moin Shakir (ed.), Religion, State and Politics in India, pp. 155-99. Delhi: Ajanta Publications.

Saxena, N. C. (2002). Servile service, Communalism Combat, September, Anniversary Issue (9th), Year 9 No. 80

Saxena, N. C. (2019). What Ails the IAS and Why It Fails to Deliver: An Insider’s View. Sage Publications India

Sherwani, A.R. (1983) Muslim India, May: 204

Singh, Jagpal (2016). Communal Violence in Muzaarnagar, Agrarian Transformation and Politics, Economic & Political Weekly, July 30, vol I no 31

Syed, Nissam (2020). Indian Muslims Cannot Defeat Jinnah, Savarkar By Organising Themselves On Religious Lines, Outlook, 2 April

Teltumbde, A. (2018). The New Normal in Modi’s 'New India'’. Economic and Political Weekly, 53(31), 10-11.

Wilkinson Steven I. (2004). Votes & Violence: Electoral Competition and Ethnic Riots in India, Cambridge University Press

Zaidi Naseem A. (2014). Muslims in the Civil Services, Economic and Political Weekly, Vol. 49, Issue No. 3, 18 Jan

Zaidi Naseem A. (2001). Muslims in Public Service: Case Study of AMU Alumni. Economic and Political Weekly, September 22

English Article: Muslim Dilemma in Independent India - Part One

English Article: Muslim Dilemma in Independent India - Concluding Part

Urdu Article: Muslim Dilemma in Independent India - Part One آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا بحران

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-dilemma-independent-india-concluding-part/d/131212

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..