New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:51 AM

Urdu Section ( 6 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Countries Should Repeal Black Anti-Blasphemy Laws مسلم ممالک کو اہانت کے خلاف کالے قوانین کو منسوخ کرنا چاہیے: پیغمبر اسلام کی شان میں مبالغہ آرائی انتہا پسندانہ عقائد اور تشدد کو جنم دیتی ہے

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 4 جولائی 2022

 --------------------------

 اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور ایسے دیگر ممالک جہاں اب بھی اہانت کے خلاف قوانین ہیں، وہ ایسے کالے قوانین پر نظر ثانی کریں اور انہیں منسوخ کریں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات سے واضح ہے کہ کس طرح مکہ مکرمہ میں تقریباً ہر روز پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی توہین، تذلیل اور ایذا رسانی کی جاتی رہی جب انہوں نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھے ایک رسول بنا کر مبعوث کیا ہے اور میرا کام خدا کے پیغامات کو انسانیت تک پہنچانا ہے۔ لیکن ہمیں کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کسی بھی قسم کے پرتشدد ردعمل کا اظہار کیا یا ہم مسلمانوں کو اب ان کی توہین کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے۔ کچھ بظاہر من گھڑت احادیث (نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کے مبینہ اقوال) میں توہین رسالت اور اس کی سزا کی بات کی گئی ہے۔ لیکن یہ خدا کا کام ہے کہ وہ قیامت کے دن گستاخوں کو سزا دے۔ قرآن میں کہیں بھی مسلمانوں کو توہین رسالت پر کسی کو دنیا میں ہی سزا دینے کا کام نہیں سونپا گیا ہے۔

 --------------------------------

 توہین رسالت کا مسئلہ ایسا ہے جس پر مسلمانوں کی رائے منقسم ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ، زیادہ تر لبرل مسلمان جو جدید اسکولوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ ہیں، توہین مذہب کے حوالے سے اعتدال پسند طرز عمل رکھتے ہیں۔ وہ فلمی اداکار نصیر الدین شاہ کی طرح توہین رسالت پر تنقید اور مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے لیے قانونی چارہ جوئی کی راہ کھلی رکھتے ہیں۔ وہ ملزم کا سر کاٹنے کی حد تک نہیں جاتے۔ یہاں تک کہ بعض اسلامی علماء اور مفسرین بھی توہین رسالت کے لیے موت کی سزا کی حمایت نہیں کرتے۔

لیکن دوسری طرف، اسلامی اسکالرز کا ایک طبقہ، زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک میں یہ مانتا ہے کہ توہین کرنے والا زندہ رہنے کا مستحق نہیں ہے کیونکہ پیغمبر کی توہین ناقابل معافی ہے۔ لہٰذا اگر ملک کی عدالت ملزم کو بری کر دیتی ہے تو کوئی بھی مسلمان ججوں کی شریعت سے عدم وابستگی کی تلافی کے لیے اسے سزائے موت دے سکتا ہے۔

 ایسا ہی بنیادی طور پر پاکستان میں ہوتا ہے جہاں توہین مذہب کے ملزمان کو شرعی عدالت سے بری ہونے کے بعد ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے۔

 پاکستان کی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو عدالتوں نے اگر چہ توہین مذہب کے الزامات سے بری کر دیا تھا لیکن انہیں اپنا وطن پاکستان چھوڑ کر کینیڈا میں آباد ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ کچھ اور بھی ہیں جو اتنے خوش قسمت نہیں تھے جنہیں یا تو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا یا انہی لنچ کر دیا گیا۔

 حال ہی میں پاکستان کے اندر کچھ مسلمانوں نے سری لنکا کے ایک شخص کو قتل کیا اور پھر اسے نذر آتش کر دیذ۔ وہ پاکستان کی ایک فیکٹری میں منیجر تھا۔ اس کی غلطی یہ تھی کہ وہ فیکٹری کی دیواروں پر لگائے گئے قرآنی آیات اور احادیث اور اسلامی نعروں پر مشتمل اسٹیکروں اور پوسٹروں پر معترض تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ فیکٹری کی دیواروں پر مذہبی اسٹیکر نہ چسپاں کیے جائیں۔ اس لیے ایک دن اس نے دیواروں سے اسٹیکروں اور پوسٹروں کو نوچ ڈالے۔ اس کا مقصد نبی یا قرآن کی توہین کرنا نہیں تھا۔ اس نے محض اپنی ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا یہ فعل پاکستان میں اہانت ہے۔ مشتعل کارکنوں نے پیٹ پیٹ کر اسے مار ڈالا اور اس کی لاش کو آگ کے حوالے کر دیا۔

 لیکن اہانت پر سزائے موت کا اطلاق صرف غیر مسلموں پر نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مسلمانوں کو بھی گستاخ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اہانت کی تعریف میں وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کی توہین کرتے ہیں۔ کسی مسلمان کی طرف سے کوئی بھی ایسا غیر ارادی بیان یا لفظ یا عمل جسے توہین رسالت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اسے جیل یا بے قابو ہجوم کے ہاتھوں موت تک پہنچا سکتا ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان میں مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ایک ذہنی طور پر کمزور مسلمان شخص کو قتل کر دیا تھا۔ توہین مذہب کے معاملے کو مذاق میں بدلنے کا ایک دلچسپ واقعہ پاکستان کے ایک تھانے میں پیش آیا۔ ایک مسلمان شخص کسی شکایت کے سلسلے میں تھانے گیا۔ ایس ایچ او نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی اور گالی گلوچ کی۔ اس شخص نے ایس ایچ او کے خلاف شکایت درج کروائی جس میں الزام لگایا گیا کہ اس نے نبی کے خلاف توہین کا ارتکاب کیا کیونکہ اس کا نام مصطفیٰ تھا، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔

توہین مذہب کا ایک اور واقعہ ایک اسماعیلی شیعہ ڈاکٹر اور ایک سنی مسلم ایم آر (میڈیکل رپریزینٹیٹو) کے مابین پیش ایا۔ ایم آر ڈاکٹر کے کلینک پر گئے اور ان سے بات کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے دیر تک انتظار کروایا۔ غضبناک ہو کر ایم آر ڈاکٹر کے چیمبر میں داخل ہوئے اور اپنا وزیٹنگ کارڈ ان کی میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ میں مزید انتظار نہیں کر سکتا اور جب بھی فارغ ہوں ڈاکٹر مجھے بلا سکتے ہیں۔ ایم آر کے رویے سے ناراض ہو کر ڈاکٹر نے ان وزیٹنگ کارڈ فرش پر پھینک دیا۔ ایم آر نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اٹھایا اور توہین رسالت کے قانون کے تحت پولیس میں شکایت درج کرائی۔ وجہ یہ تھی کہ وزیٹنگ کارڈ پر ان کے نام کا سابقہ محمد لکھا ہوا تھا۔

 گزشتہ سال، پاکستان میں پنجاب حکومت نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت تحریری یا تقریری طور پر نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام لینے سے قبل خاتم النبیین (آخری نبی) کہنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ لہذا جو بھی اس لفظ کا ذکر کرنا بھول جائے اس کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔

 ایک اور واقعہ یو ہے کہ ایک اسلامی تنظیم کے کارکنوں نے دوسرے فرقے کے ایک عالم کے گھر کی دیواروں پر ایک مذہبی پروگرام میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم  کا پوسٹر چسپاں کر دیا۔ اس عالم نے پوسٹر پھاڑ دیا کیونکہ اس نے اسے دوسرے فرقے کی شرارت سمجھا۔ اسلامی تنظیم نے ان کے خلاف پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کرایا۔ اس عالم اور اس کے بیٹے کو جیل بھیج دیا گیا۔

 توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کے اسی طرح کے عجیب و غریب واقعات پاکستان میں حد سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے معروف اسلامی اسکالر مفتی طارق مسعود کا کہنا ہے کہ تحفظ ناموس رسول کے نام پر مبالغہ آمیز جذباتیت کی وجہ سے آج مفتیوں اور عالموں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے۔ جن عالموں نے اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر گزاری انہیں گستاخ رسول قرار دیا گیا۔ زبان کا پھسلنا توہین کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں یا تو بم سے اڑایا لنچ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جذباتیت کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

گستاخی کرنے والے کا گلا کاٹنے کا ایک نیا رجحان شروع ہوا ہے اور یہ روایت داعش کے اختیار کردہ قتل کے طریق کار سے جڑی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران، داعش نے اپنے دشمنوں کے گلے چاقو اور خنجر سے کاٹے۔ ایک نعرہ، 'گستاخ رسول کی ایک ہی سزا، سر تن سے جدا، سر تن سے جدا' پاکستان میں بہت مقبول ہو چکا ہے۔ (یہ نعرہ اب ہمارے ملک میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔) حال ہی میں پاکستان میں ایک ہی مدرسے کی دو معلمہ نے ایک معلمہ کی گردن کو بے دردی کے ساتھ چاقو سے کاٹ دیا تھا۔ مقتول اور قاتل دونوں ہی مسلمان تھے لیکن مقتول کا صرف کچھ مذہبی مسائل پر اختلاف رائے یا آزاد خیال تھا۔ اتنی سی بات پر اس معلمہ کو گستاخ سمجھا گیا اور بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

 اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور ایسے دیگر ممالک جہاں اب بھی اہانت کے خلاف قوانین ہیں، وہ ایسے کالے قوانین پر نظر ثانی کریں اور انہیں منسوخ کریں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات سے واضح ہے کہ کس طرح مکہ مکرمہ میں تقریباً ہر روز پیغمبر کی توہین، تذلیل اور ایذا رسانی کی جاتی رہی جب انہوں نے اعلان کیا کہ خدا نے مجھے ایک رسول بنا کر مبعوث کیا ہے اور میرا کام خدا کے پیغامات کو انسانیت تک پہنچانا ہے۔ لیکن ہمیں کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کسی بھی قسم کے پرتشدد ردعمل کا اظہار کیا یا ہم مسلمانوں کو اب ان کی توہین کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے۔ کچھ بظاہر من گھڑت احادیث (نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کے مبینہ اقوال) میں توہین رسالت اور اس کی سزا کی بات کی گئی ہے۔ لیکن یہ خدا کا کام ہے کہ وہ قیامت کے دن گستاخوں کو سزا دے۔ قرآن میں کہیں بھی مسلمانوں کو توہین رسالت پر کسی کو دنیا میں ہی سزا دینے کا کام نہیں سونپا گیا ہے۔

English Article: Muslim Countries Should Repeal Black Anti-Blasphemy Laws: Exaggeration In Exalting The Status Of Prophet Mohammad Leads To Extremist Beliefs And Violence

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-countries-repeal-blasphemy-laws-prophet-extremist/d/127414

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..