New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 04:21 PM

Urdu Section ( 17 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Music-before-Mosque Has Become the Most Convenient Tool to Incite Communal Violence مسجد کے سامنے موسیقی فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے کا سب سے آسان ذریعہ

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 12 اگست 2023

 یہ روایت سلیم، تمل ناڈو میں 1882 میں شروع ہوئی تھی۔

 اہم نکات:

1.      1920 سے ہی، فسادات بنیادی طور پر ہندو تہواروں میں مسجد کے سامنے موسیقی کی وجہ سے ہوتے تھے۔

2.      1926 اور 1927 میں، مسجد کے سامنے موسیقی نے ناگپور اور دیگر مقامات پر فسادات برپا کیے تھے۔

3.      بال گنگادھر تلک نے گنیش چترتھی کو ایک عوامی تقریب میں تبدیل کیا۔

4.      ہیگیوار نے مسجد کے سامنے موسیقی کے رواج کو فروغ دیا۔

5.      80 اور 90 کی دہائی میں، مساجد کے سامنے موسیقی اور مذہبی جلوس بھاگلپور اور سہارنپور میں فسادات کا باعث بنے۔

 -----

Rampaging groups set ablaze numerous vehicles amidst riots in Nuh.

----------

 نیلانجن مکوپادھیائے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات بلند آواز میں موسیقی کے ساتھ ایک مسجد کے پاس سے گزرنے والے مذہبی جلوسوں کا نتیجہ تھے۔ اس طرح کے سب سے پہلے فسادات تمل ناڈو کے سیلم میں ہوئے تھے۔ اس ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں گلیوں میں بچوں کی لاشیں دیکھی گئیں۔ قوم پرست ہندو رہنما بالگنگادھر تلک نے ہندو تہوار گنیش چترتھی کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے کے رواج کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے گنیش چترتھی کو ایک عوامی تقریب میں تبدیل کر دیا اور یہ جلد ہی ایک اتسوو بن گیا، جو کہ ایک غیر معمولی عوامی تقریب ہے۔ 1893 میں بمبئی میں ہندو مسلم فسادات کے بعد تلک زیادہ جارحانہ انداز میں مسلم مخالف ہو گئے اور انہوں نے تہواروں کے دوران ہندو مسلم رواداری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ فسادات سے پہلے، ہندو اپنے اپنے تعزیوں کے ساتھ محرم میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے تھے۔ 1984 میں تلک نے ہندوؤں کی طرف سے محرم کے بائیکاٹ کی دعوت دی اور ہندوؤں کو محرم کی طرح گنیشوتسو منانے کی ترغیب دی۔

 آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے ہندوستان میں مساجد کے سامنے موسیقی کا رواج اتنا رائج تھا کہ اس سے تحریک پا کر امریکہ کے ایک ریسرچ اسکالر جولین لنچ نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی ہی کر ڈالا۔

 وہ لکھتے ہیں کہ آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار نے گنیش وسرجن کے دوران مساجد کے سامنے موسیقی نہ بجانے کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس عمل کو فروغ دیا۔ اس طرح مذہبی جلوسوں میں موسیقی ہندوؤں کی طاقت کا مظاہرہ تھی۔ یہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا باعث بنا۔

 اس لیے فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور طاقت دکھانے کے اس ہتھیار کا استعمال ہندوتوا بریگیڈ نے پچھلے کچھ سالوں میں زیادہ پرجوش انداز میں کیا ہے۔ شوبھا یاترا کے تازہ ترین رجحان کو، جو مذہبی تقریبات نہیں ہیں، کو فروغ دیا گیا ہے تاکہ مساجد کے سامنے، خاص طور پر نماز کے دوران، موسیقی بجا کر مزید فرقہ وارانہ تصادم کا سبب پیدا کیا جا سکے۔ گزشتہ سال اور اس سال ممبئی، مدھیہ پردیش کے کھرگون، دہلی کے جہانگیر پوری اور مغربی بنگال کے ہاوڑہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔ نوح میں ہونے والا تشدد اس عمل کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کی موجودہ مثال ہے۔

 ہر سال ساون (برسات کے موسم) میں نکالی جانے والی کانوڑ یاترا اس طرح کے فسادات کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ کانوڑ یاترا کا اہتمام ہندوؤں کا ایک طبقہ دہائیوں سے پورے جوش و خروش سے کرتا رہا ہے جب کہ ماضی میں یہ کوئی بڑا معاملہ نہیں تھا۔ لیکن مذہبی جذبے میں اضافے کے ساتھ، ہر مذہبی عمل مذہبی طاقت کو ظاہر کرنے کا موقع بن گیا ہے۔ یہ جذبہ اب تک میوات کے نوح جیسے پرامن خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب پھیلانے کے لیے اس قسم کی یاتراؤں کے شرکاء کے پاس ہتھیار اور آتشیں اسلحے موجود ہوتے ہیں۔ پھر مسلمانوں پر پتھراؤ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ پتھر بازی فسادات کو ہوا دیتی ہے۔ مسلمانوں کو فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ وہ گرفتار ہوتے ہیں۔ فی الحال، مسلم ملزمان کے گھروں کو بھی منہدم کر دیا گیا ہے جبکہ اصل قاتل فرار ہیں۔

 اس لیے ماخد سے گزرے وقت مذہبی جلوسوں میں موسیقی بجانے کا یہ رواج ہندوستان میں فسادات کا باعث بنا ہے۔ ہندو تہواروں کے دوران مسجدوں کے سامنے موسیقی بجانے کے رواج کو روکنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اسے فروغ دیا جا رہا ہے۔ آج کل، ان نئے راستوں سے جلوس نکالے جاتے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے۔

 صدیوں سے ہندوستان کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہوار ایک ساتھ مناتے آئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے عمل سے گریز کیا ہے۔ لیکن اب، مذہبی جذبات کا یہ احترام مذہبی گروہوں اور تلک اور ہیڈگیوار جیسے لیڈروں کے سیاسی رجحانات کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے، جیسا کہ نیلنجن مکوپادھیائے بیان کرتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ایک تجرباتی نمونہ کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ہندو تہوار پر ایک مذہبی جلوس ایک مسلم علاقے سے نکالا جاتا ہے۔ مذہبی جلوس کے ارکان کے پاس ہتھیار اور آتشیں اسلحے ہوتے ہیں۔ مسلم علاقے سے گزرتے ہوئے یہ لوگ اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں۔مسلمان پتھراؤ کر کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ فسادات شروع ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے علاقے تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پولیس کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔ مسلمان گرفتار ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ جلوس میں شامل لوگ باہر کے ہیں اس لیے ان کی شناخت نہیں ہوتی اور وہ آزاد گھومتے پھرتے ہیں۔ اس لیے مساجد کے سامنے موسیقی کا بڑھتا ہوا رجحان ملک کے مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔

 ------

 بھارت میں مذہبی تشدد بھڑکانے کے لیے 150 سال پرانی چال کس طرح اب بھی استعمال کی جا رہی ہے

  نیلانجن مکوپادھیائے 

 06 اگست 2023

 ہریانہ کے نوح ضلع میں سوموار کو وشو ہندو پریشد-بجرنگ دل کے جلوس کے ذریعہ شروع ہونے والے تشدد پر سوشل میڈیا پوسٹوں کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں صرف ایک سوال پیدا ہوا: یہ لوگ مزید کتنی دہائیوں تک یہی حربے استعمال کریں گے - موسیقی بجانا - مساجد کے سامنے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں؟

 اس حربے کی طویل تاریخ کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوا۔ تقریباً 150 سال ہو چکے ہیں جب مساجد کے سامنے موسیقی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا سبب بنی ہے۔

 محققین نے ثابت کیا ہے کہ موسیقی استعماری دور میں، خاص طور پر 1860 کی دہائی میں وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اگرچہ آج کے اعداد و شمار کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم تھی، لیکن 19ویں صدی کی آخری دہائیوں کے اخبارات کے قارئین 'مساجد کے سامنے موسیقی سے فسادات' کے رجحان سے واقف تھے۔

 موسیقار، موسقی ساز، نسلی موسیقی کے ماہر، محقق، اور موسیقی کے استاد – جولین لنچ نے لکھا کہ اس قسم کے فسادات "ایک ایسے میوزیکل جلوس کی دانستہ نمائش کا نتیجہ ہوتے ہیں، جو عام طور پر ہندو تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کی عبادت گاہ کے سامنے لایا جاتا ہے جو اکثر فسادات اور تشدد کا باعث بنتے ہیں۔"

 2020 میں یونیورسٹی آف وسکونسن-میڈیسن میں ایتھنوموسیولوجی پر خصوصی توجہ کے ساتھ شعبہ بشریات سے پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کرنے کے بعد وہ اس مسئلے کو بخوبی جانتے ہوں گے۔ انہوں نے اس موضوع پر تحقیق کرنے میں ایک دہائی سے زیادہ وقت گزارا۔

 نوح میں تشدد پر سوشل میڈیا پوسٹوں نے یہ صاف کیا کہ اشتعال انگیزی کی کارروائیوں کو یہ کہتے ہوئے جائز قرار دیا گیا ہے کہ ہندو مذہب تقریباً ہر موقع پر موسیقی بجانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

 ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعہ کی اس وجہ پر غور کرتے ہوئے، مہاتما گاندھی نے کہا تھا: "ایک بھی ہندو مذہبی تقریب موسیقی کے بغیر ادا نہیں کی جا سکتی۔"

 عصر حاضر کے تناظر میں، نہ تو وی ایچ پی-بجرنگ دل کی طرف سے ساون سوموار (ہندو مہینے ساون کا سوموار) کے موقع پر شوبھا یاترا نکالنے پر اصرار اور نہ ہی اپریل کے شروع میں رام نومی کا جلوس کسی بھی لحاظ سے مذہبی تقریبات تھیں – جس کی وجہ سے رمضان میں سات ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد ہوئے تھے۔

 اس کے بجائے، ایسے مواقع پر موسیقی کا استعمال ہندو طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسے لنچ نے، ہندوؤں کا "غلبہ اور طاقت" ظاہر کرنے کا حربہ قرار دیا ہے۔

 جب یہ جلوس مسلمانوں کے علاقوں سے گزرتے ہیں، تو ان کا مقصد اکثریتی طبقے کی بالادستی کا پیغام مسلمانوں کو دینا ہوتا ہے، جس کی تفصیل ناظمہ پروین نے اپنی تحقیقی کتاب ، Contested Homelands: Politics of Space and Identity میں بیان کی ہے۔

 ہندوؤں کی طرف سے جلوسوں میں بجائی جانے والی موسیقی، جیسا کہ نوح میں دیکھنے کو ملا، بھکتی کا نشان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اس کا مقصد ہندو طاقت کو اپنی مرضی سے، مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل کرنا اور مساجد کے باہر موسیقی بجانا صرف انہیں ذلیل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی پوری جانکاری کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اسلام موسیقی کو اخلاقی طور پر نامناسب سمجھتا ہے اور اسے ممنوع قرار دیتا ہے۔

اس کا مقصد انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کو اشتعال دلانا تھا۔ اور اب بھی وہی ہے۔

 اپنے مقالے اور اس سے پہلے کے ایک مختصر مقالے میں، لنچ نے دی پاینیر کے ایک گمنام نامہ نگار کی طرف سے تامل ناڈو میں سیلم سے 1882 کی ایک رپورٹ کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ اس رپورٹر نے شہر کا دورہ اس وقت کیا جب جلوس میں شامل لوگوں نے مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے موسیقی بجانا شروع کیا اور ہر طرف فسادات پھوٹ پڑے۔

 اخباری مضمون میں شیر خوار بچوں، مردوں اور عورتوں کی لاشوں کا تذکرہ کیا گیا تھا - سب مسلمانوں کے تھے جو وہاں بکھرے ہوئے تھے۔ ان کے گھر اور مسجد جل رہے تھے یا "زمین بوس ہو رہے تھے... ہر طرف لاشیں پڑی تھیں"۔ نامعلوم رپورٹر نے بھی کہا کہ "مردہ خنزیروں کو مسلمان بچوں کی لاشوں کے ساتھ پھینکا گیا"۔

 فسادات کے یہ واقعات 1890 کی دہائی میں ابھرتی ہوئی ہندو قوم پرست ٹول کٹ کا حصہ بن گئے کیونکہ بال گنگادھر تلک نے شعوری طور پر گنیش چترتھی کو جو کہ "دیوتا گنیش کے اعزاز میں منایا جانے والا ایک بھکتی تہوار تھا... مضبوط سیاسی عزائم کے ساتھ عوامی تماشے میں تبدیل کیا۔" یہ 1894 میں ہوا، 1893 کے بمبئی فسادات کے ایک سال بعد۔

 ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یہ فسادات اسی سال اگست میں اس وقت شروع ہوئے جب "ہندو موسیقی" اس وقت بجائی گئی جب مسلمان جمعہ کی دوپہر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ لنچ نے لکھا کہ اس حادثے کے بعد "مراٹھی زبان کے اخبار کیسری میں، خاص طور پر اس کے بانی، برہمن لیڈر بال گنگا دھر تلک نے پرجوش اداریہ لکھا لکھنا شروع کیا۔"

دو مہینوں سے بھی کم عرصے میں، تلک اور بمبئی پریزیڈنسی کے دیگر برہمن لیڈروں نے گنیش چترتھی کی "عظیم ترین احیاء" کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

 1894 میں، جب یہ تہوار پہلی بار منصوبہ بندی کے مطابق منایا گیا، تو یہ مؤثر طریقے سے ایک معمولی نجی تقریب اور مقامی اجتماعی وسرجن کی جگہ ایک عوامی اور عظیم الشان 'تقریب' میں تبدیل ہو گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تقریبات اور بھی زیادہ شاندار ہوتی گئیں کیونکہ اس میں نئی نئی باتیں شامل کی جاتی گئیں۔

 1893 تک ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تہوار مناتے تھے۔ ہندو محرم کے تہواروں میں شامل ہوتے اور مقامی جماعتوں کو رقم فراہم کرنے کے علاوہ بطور موسیقار کے اپنی خدمات بھی فراہم کرتے جس کے لیے انہیں رقم ادا کی جاتی۔ تلک نے ہندوؤں سے محرم کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

 لنچ نے لکھا: "عوامی تقریب کی صورت میں گنیش چترتھی کے مسلم مخالف جذبے کو 1894 میں تلک کی دعوت میں زیادہ توانائی ملی جس میں انہوں نے ہندوؤں کو محرم کی تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کی دعوت دی۔"

 انہوں نے 1895 کی ایک حکومتی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ "مسلمانوں کے تابوت سے زیادہ ہندو تھے، اور آخری دن (وسرجن کے دن) جلوس میں زیادہ تر لوگ ہندو تھے"۔

 تلک کا غصہ اس لیے تھا کہ مسلمان اپنی "دیرینہ دوستی" کو بھول چکے تھے اور "ہندو مذہبی عزاداروں کو ہراساں کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کر دی تھی۔"

 استعماری حکومت کو وہ موقع مل گیا جس کی اسے لوگوں کو تقسیم کرنے اور اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے تلاش تھی۔ پبلک اینڈ جوڈیشل ڈیپارٹمنٹ نے محسوس کیا کہ 1894 کا گنپتی تہوار "محرم کے جوابی دھماکے" کا کام کرے گا۔

 لنچ کی رائے تھی کہ "محرم کے متبادل کے طور پر تلک کے گنیش اتسو جو پیش کرنے کا ایک اہم پہلو اس تہوار کے اہم عناصر کی منصوبہ بندی تھی، تاکہ محرم کی براہ راست نقل کی جا سکے۔" اس میں موسیقی اور رقص کو بھی شامل کیا گیا۔

 حربے کامیاب ہوئے اور گنیش چترتھی کی طرح بنگال میں درگا پوجا کو بھی جو کہ بنیادی طور پر ایک گھریلو تہوار تھا اسے عوامی مقامات پر ایک عوامی پوجا میں تبدیل کر دیا گیا۔

 ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ایک بار بار واقع ہونے والا رجحان بن گیا اور یہ فسادات ناگپور میں بھی نظر آنے لگے، جو کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا گڑھ تھا۔

 1923 میں، اس کے بانی، کیشو بلیرام ہیڈگیوار نے تہوار کے اختتام پر گنیش وسرجن جلوس کے دوران مساجد کے سامنے موسیقی نہ بجانے کے 1914 کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔

 اس کے لیے موسیقی بجانے کا حق کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ ’ہندو طاقت‘ کا اظہار تھا۔ جب مقامی انتظامیہ نے موسیقی بجانے پر پابندی لگا دی، ہیڈگیوار نے مقامی ہندو لیڈروں کو اس سال گنیش کی مورتیوں کا وسرجن ملتوی کرنے پر آمادہ کیا۔

 انتظامیہ کی جانب سے مساجد کے سامنے موسیقی بجانے کے فیصلے اور کوشش کو روکا گیا جس پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ آر ایس ایس کی تاریخ میں، اس مزاحمت کو ڈنڈی ستیہ گرہ کہا جاتا ہے، جو جس سے مراد کوئی گروہ یا ڈنڈی ہے، جو گیت گا رہا ہے – بظاہر وہ گیت بھکتی کی ہوتی ہے لیکن مقصد تصادم پیدا کرنا ہوتا ہے۔

 رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ بی ایس مونجے ستیہ گرہ کے مرکزی منصوبہ ساز تھے اور ہیڈگیوار اس کے "سپاہی"۔ نصف دہائی سے زیادہ بعد، مونجے نے اٹلی کا دورہ کیا، بینیٹو مسولینی سے ملاقات کی اور متعدد فاشسٹ تربیتی مراکز کا دورہ کیا۔ واپسی پر اس نے اٹلی میں دیکھے کئی مراکز کی نقل تیار کرنے کی بات کی۔

 یہ فرقہ وارانہ جھڑپیں ناگپور میں جاری رہیں اور ستمبر 1925 میں ہیڈگیوار نے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔ کئی اعتبارات سے، 'مساجد کے سامنے موسیقی' ان بنیادی وجوہات میں سے ایک تھی جو بالآخر آر ایس ایس کی تشکیل کا باعث بنی۔

 وقت گزرنے کے ساتھ، مساجد کے سامنے موسیقی کی شکل بدل گئی، جیسا کہ 1989 میں بھاگلپور میں، اس سال کی شیلا یاترا کے دوران ایک مسجد کے سامنے نعرے لگائے گئے جب خصوصی طور پر مقدس اینٹوں کو ایودھیا پہنچایا گیا۔

 اس کی وجہ سے ایک بدترین فرقہ وارانہ فسادات نے تقریباً پورے ضلع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسی مثالوں کئی دفتر تیار جا سکتے ہیں جب سنگھ پریوار کی تنظیموں نے انہی حربوں سے فرقہ وارانہ تشدد کیںاگ بھڑکائی ہیں۔

 اور اب، جیسا کہ نوح کے واقعات سے ظاہر ہے، تقریباً 150 سال پرانی چال اب بھی استعمال ہو رہی ہے۔

 ----

 ماخذ: How a 150-Year-Old Ploy to Incite Religious Violence Is Still Used in India

--------------

English Article: Music-before-Mosque Has Become the Most Convenient Tool to Incite Communal Violence

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/music-mosque-tool-incite-communal-violence/d/130464

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..