New Age Islam
Wed Sep 11 2024, 04:20 AM

Urdu Section ( 1 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Music and Islam موسیقی پر قرآن اور حدیث کا مؤقف

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

1 فروری 2024

حال ہی میں کشمیر کے کسی مفتی نے وہاں کی ایک خواتین میوزیکل بینڈ کے خلاف فتوی جاری کیا جس کے بعد اس میوزیکل بینڈ سے وابستہ لڑکیوں کو دھمکیاں ملنے لگیں اور اسلام میں موسیقی کے جواز یا عدم جواز پر میڈیا میں بحث چھڑ گئی۔

اسلام میں موسیقی کی کیا جگہ ہے یا کتنی جگہ ہے یا پھر کوئی جگہ ہے بھی کہ نہیں اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن اور حدیث کا مؤقف جاننا ہوگا۔

علمائے اسلام کا عمومی مؤقف یہ ہے کہ اسلام میں موسیقی پوری طرح ممنوع ہے ۔ لیکن حیات نبوی میں ہمیں کئی واقعات ملتے ہیں جب کسی خاص موقع پر یا تہوار میں مسلمانوں نے وقتی تفریح کے لئے ہلکی موسیقی کا استعمال کیا۔ ایک موقع تو وہ تھا جب مدینہ میں حضور پاکﷺ کی تشریف آوری پر مدینے کی عورتوں نے دف پر گیت گاکر آپ کا استقبال کیا۔ ۔ اس کے ساتھ ہی کچھ حدیثوں میں آلات موسیقی اور گانے والی لڑکیوں سے اظہار بیزاری بھی کیا گیا یے اور آلات موسیقی کے استعمال پر عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔

قرآن میں موسیقی کے متعلق کوئی آیت نہیں ہے جبکہ قرآن میں ہر اس موضوع پر احکام موجود ہیں جو حیات نبوی ﷺ میں اہمیت کا حامل تھا۔ موسیقی پر قرآن نے خاموشی اختیار کی ہے تو اس کے پیچھے کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ بہر حال قرآن میں لہوالحدیث کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا معنی کھیل کی باتیں کیا گیا ہے۔وہ آیت مندرجہ ذیل ہے۔:

۔"اور ایک وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے (لھوالحدیث) تاکہ بچلائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹھہرائیں اسی کو ہنسی۔"(لقمان:6)

لہوالحدیث کا معنی باتوں کا کھیل بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ مترجمین نے لہوالحدیث کا ترجمہ لغو تفریح بھی کیا ہے۔ اس میں ہر وہ تفریحی مشغلہ شامل ہے جس میں وقت کا ضیاع اور مخرب اخلاق باتیں ہوں۔ اور موسیقی کسی بھی تفریح کا عمومی جز یوتی یے۔ لہذا، قرآن موسیقی کے متعلق واضح طور پر تو کچھ نہیں کہتا لیکن ایسی تفریح کو ممنوع قرار دیتا یے جس میں موسیقی کا استعمال اخلاق کو بگاڑنے والا اور دین سے بیگانہ بنانے والا ہو۔

قرآن اور حدیث کے اس مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے موسیقی پر سخت مؤقف اختیار نہیں کیا ہے بلکہ ایک معتدل راہ اختیار کی ہے۔

موسیقی پر قرآن کی خاموشی کے پیچھے مصلحت یہ ہے کہ زمانہء قدیم سے ہی دنیا کے مختلف خطوں میں موسیقی کو مختلف جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ روم، یونان، چین اور مصر میں قبل مسیح دور میں موسیقی سے جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ لہذا، عربوں نے بھی موسیقی کو طریقہء علاج کے طور پر استعمال کیا۔ عباسی خلفاء کے دور میں سرکاری اسپتالوں میں میوزک تھیراپی کا بھی محکمہ ہوتا تھا اور کئی مسلم سائنسداں میوک تھیراپی ہر کام کررہے تھے۔ مشہور مسلم سائنسداں اور حکیم ابی سینا کا خیال تھا کہ موسیقی بیماریوں کے علاج میں کارگر ہو سکتی یے۔

اسلامی صوفیوں کے کچھ سلسلے سماع میں رقص و موسیقی کو ایک حد کے اندر جائز سمجھتے ہیں۔ کئی ممتاز اور برگزیدہ صوفیہ آلات موسیقی کے استعمال سے واقف تھے۔ ڈاکٹر زین الدین کیانی نزاد اپنی کتاب " اسلام میں تصوف کا غازوارتقاء " میں لکھتے ہیں۔

"۔"شاعری ، خوشنوائی و حسن صوت اور رقص وسرود یہ تمام فنون سماع کی اصطلاح میں شامل ہیں۔اسلامی تصوف میں انہوں نے اہم کردار ادا کئے ہیں اور بہت زمانے تک صوفیہ کے منظور نظر رہے ہیں۔صوفیہ حال کی کیفیت کو پانے کے لئے اسے بہت اہم سمجھتے ہیں ۔"۔

سماع کے طرفداروں میں مولانا رومی بھی تھے۔ وہ فن موسیقی سے واقف تھے۔ان کے پیرومرشد شمس تبریزی بھی موسیقی کے دلدادہ تھے۔ بہر حال دیگر صوفیہ موسیقی کو حرام سمجھتے تھے ۔

لہذا، قرآن نے موسیقی پر خاموشی اختیار کرکےاس کے مثبت استعمال کی راہ کھلی چھوڑ دی اورلہوالحدیث کو ممنوع قرار دے کر یہ اشارہ دے دیا کہ موسیقی کا استعمال دین سے بھٹکانے اور اخلاقی برائیوں کے فروغ کے لئے ممنوع ہے۔حدیثوں میں آلات موسیقی کے استعمال پر عذاب کی وعید اسی نقطہء نظر سے کی گئی ہے۔

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/music-islam/d/131633

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..